Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق شوال المکرم 1435ھ

ہ رسالہ

3 - 16
عید کی خوشی کس کیلیے؟

مولاناشمس الحق ندوی
	
ابھی کل کی تو بات ہے جب رمضان المبارک کا چاند نکلا تھا اور رحمت، مغفرت، اور جہنم کی آگ سے خلاصی کی گھٹا چھائی تھی اور اعلان عام تھا کہ جس کو جو کچھ مانگنا ہے مانگے، مگر اس طرح کہ اس ماہِ مبارک میں طلوع صبح صادق سے غروب آفتاب تک کھائے پئے نہیں، میری رضا کی خاطر کھانا پینا چھوڑ دے، غیبت، بد کلامی اور لغو باتوں سے بھی پرہیز کرے، جو لوگ باہمت تھے، آقا کے انعام اور داد ودہش کے جویا اور اس کی پکڑ سے خائف تھے، انہوں نے ہمت کی اور گرمی وتپش کی پرواہ کیے بغیر آقا کا حکم بجالانے کے لیے مستعد وکمر بستہ ہوگئے، جو کم ہمت تھے یا شامت اعمال نے انہیں اس قابل نہ رکھا تھا وہ گرمی ولوکا بہانہ کرکے محروم رہے، الله رب العزت نے روزہ دار کے لیے ایسے انعام کااعلان کیا تھا جو کسی اور عمل پر نہیں مل سکتا، خواہ کتنا ہی عظیم الشان ہو ا،اعلان تھا: ” الصوم لی، وأنا أجزی بہ“ ․(روزہ میرے لیے ہے اور اس کاا جر خود میں ہوں) حوریں نہیں، جنت کے قصرومحل نہیں اور ایسی نعمت نہیں جسے مادی عقل سمجھ سکے، بلکہ میں خود اس کا اجر ہوں۔

یہ کون کس سے کہہ رہا ہے؟ آفتاب ذرّہ سے نہیں ، مخدوم خادم سے نہیں ، شاہ گدا سے نہیں ، بلکہ خالق مخلوق سے، معبودعبد سے، خدا بندے سے، کیا زمینوں اور آسمانوں کی ساری نعمتیں ، ساری برکتیں، ساری بادشاہتیں مل کر بھی اس ایک کے سامنے پیش کی جاسکتی ہیں ؟ کیسی محرومی، کیسی درد ناک نادانی ہے کہ اتنے ارزاں سودے کو بھی اپنی غفلت وبے پروائی کی نذر کر دیا جائے؟! مبارک ہیں وہ لوگ جنہیں اس ماہ مبارک کے اس اعلیٰ ترین انعام کے حصول کی خاطر اس ماہ مبارک کے آداب بجالانے کی توفیق ملی، نہ سہی بدرجہ کمال، کمزور وناتواں بندے نے اپنے بس بھر کیا!

اعلان تھا کہ روز ہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں ، ایک افطار کے وقت اور ایک جب مولائے کریم کی ملاقات کا شرف حاصل ہو گا، یہ عید، یہ خوشی وہی افطار کی خوشی ہے، اسی لیے یہ عید عید الفطر کہلاتی ہے، بندوں کو خوشی ہے کہ رب کریم نے ان کے روزے پورے فرما دیے، انہیں توفیق دی کہ انہوں نے اس ماہ مبارک کی برکتوں سے فیض اٹھایا، ہمت نہ ہار بیٹھے، اسی کے شکرانہ میں وہ دو گانہ عید ادا کررہے ہیں، نہا دھوکر اپنے کپڑوں میں سب سے اچھا جوڑا زیب تن کرکے خوش بو لگا کر”الله أکبر، الله أکبر، لا الہ الا الله والله أکبر، الله أکبر، ولله الحمد“ اپنے رب کی بڑائی بیان کرتے، جو ق در جوق عید گاہ کورواں ہیں اور فرشتے دورویہ کھڑے اس پرکشش منظرکا تماشہ دیکھ رہے ہیں ، لوگ جب کسی وزیر وسربراہ کے استقبال کا منظر دیکھتے ہیں تو کیسا منھ میں پانی بھر آتا ہے اور رشک آتا ہے ؟ کیا فرشتوں کے اس استقبال واکرام سے بڑھ کر بھی کوئی اعزاز ہو سکتا ہے؟ مگر کتنا نادان ہے انسان کہ وہ دنیائے دنی کے چکر میں پڑ کر دنیاوی اعزاز پر تو للچاتا ہے ، رشک وحسد کرتا ہے مگر اس اعزاز واکرام کو بھول جاتا ہے، جو آقا کی طرف سے ہوتا ہے ۔

عام معمول وعادت ہے کہ جب کسی شخص کو کوئی بڑی خوشی حاصل ہوتی ہے تو وہ اس خوشی میں کچھ خیرات کرتا ہے ، دوست واحباب کو بھی کھلاتا پلاتا ہے، دعوتیں کرتا ہے، روزوں کے مکمل ہو جانے کی خوشی ایسی ہی عظیم الشان ہے کہ اس کے شکرانہ میں محتاجوں وضرورت مندوں پر خرچ کیا جائے اور کھلایا جائے، اسی لیے صدقہٴ فطر واجب کر دیا گیا کہ مبادا کوئی بندہ بے خیالی وغفلت میں اس عظیم الشان خوشی کے بعد کچھ خرچ کرنے سے محروم نہ رہے، کھانا اور کھلانا ایسا ضروری قرار پایا کہ عید کے دن روزہ جیسا عظیم الشان عمل بھی حرام قرار پایا، کوئی حد ہے اپنے بندوں کے ساتھ ، خاک کے ان پتلوں کے ساتھ، آقا ومالک دوجہاں کے لطف وکرم کی!

وہ اپنے مومن بندوں کو کس کس طرح سے نوازتا ہے؟ ان بندوں کو جو اپنے کو اقراری مجرم ثابت کرتے ہیں، روزہ رکھتے ہیں اور اس پر نازاں نہیں ہوتے، بلکہ عید گاہ جاکر اپنے مالک کے حضور سر جھکاتے او رکہتے ہیں آقا! ہم روزہ ویسا تو رکھ نہ سکے جیسا رکھنا چاہیے تھا، تراویح ویسی تو نہ ادا کر سکے جیسی ادا کرنی چاہیے تھی، رمضان المبارک کی راتوں کے وہ آداب تو نہ بجالا سکے جو بجالانا چاہیے تھا، مگر ہم اعتراف قصور کے ساتھ آپ کے جو دو کرم کے امیدوار ہیں، آپ سخی وداتا ہیں، ہم محتاج وگدا، لائے کچھ نہیں ہیں، مگر ملنے کی بہت آس لگا کر آئے ہیں اور آپ وہ ہیں کہ اپنے در کے بھکاریوں کو محروم نہیں واپس کرتے ہیں، یہ عید اسی لیے عید ہے کہ آپ اپنے دربار کے سوالیوں سے کہتے ہیں جاؤ! ہم نے قبول کر لیا، ہزار عیب او رکمی کے باوجود قبول کر لیا، تم بخشے بخشائے اپنے گھروں کو واپس جاؤ، پھر خطا کرو گے پھر معاف کروں گا، مگر دیکھو! خطا ونافرمانی اپنی عادت نہ بنانا، میری رحمت تمہیں میری پکڑ سے غافل نہ کر دے، بھول چوک ہو توہم معاف کریں گے، دیدہ دلیری دکھاؤ گے تو میری پکڑ بھی سخت ہے۔

خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہوں نے روزہ رکھا اور اس کے فضائل سے حتی المقدور فائدہ اٹھایا اور آج عید کے دن افطارکی پہلی خوشی حاصل ہو رہی ہے۔

مالک کی بارگاہ بڑی ہے، اس کے خزانہٴ عامرہ کا یہ عالم ہے کہ ساری مخلوق کی مانگ اس کی آرزو وتمنا کے مطابق پوری کر دے تو اس کے خزانہ میں اتنی بھی کمی نہیں آسکتی جتنا سمندر میں سوئی ڈالنے سے سوئی میں پانی لگ جاتا ہے ۔

Flag Counter