اولاد کی تربیت
مولانا عاشق الہٰی قاسمی
اولاد الله تعالیٰ کی منجملہ نعمتوں میں ایک عظیم نعمت ہے اور دنیوی زندگی کی زیب وزینت ہے، جیسا کہ ارشاد ربانی ہے :﴿المال والبنون زینة الحیاة الدنیا﴾یہی وجہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام نے رب کائنات سے درخواست کی﴿رَبِّ ہَبْ لِیْ مِنَ الصَّالِحِیْنَ فَبَشَّرْنَاہُ بِغُلَامٍ حَلِیْمٍ﴾․ (سورة الصافات:100 و101)۔
حضرت زکریا علیہ السلام نے دعا کی﴿وَإِنِّیْ خِفْتُ الْمَوَالِیَ مِن وَرَائِیْ وَکَانَتِ امْرَأَتِیْ عَاقِراً فَہَبْ لِیْ مِن لَّدُنکَ وَلِیّاً،یَرِثُنِیْ وَیَرِثُ مِنْ آلِ یَعْقُوبَ وَاجْعَلْہُ رَبِّ رَضِیّاً، یَا زَکَرِیَّا إِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلَامٍ اسْمُہُ یَحْیَی لَمْ نَجْعَل لَّہُ مِن قَبْلُ سَمِیّاً﴾․(سورة مریم آیت:5،7)
الله تعالیٰ کے مخصوص بندوں کی پکار بھی یہی رہی ہے﴿رَبَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّیَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْیُن﴾․(سورة الفرقان، آیت:74)
بعض مضمون نگاروں نے بھی لکھا ہے کہ”اشھی ثمرات الحیاة الی الانسان: الاولاد“ انسان کے نزدیک پوری زندگی کی مرغوب اشیا میں سب سے مرغوب چیز اولاد ہے۔ اور یہی زندگی کا خوش گوار پھل ہے۔ تعمیر ارض ان ہی پر منحصر ہے اوریہی تخلیق کائنات کا منشا ہے۔ ایک مرتبہ امیر معاویہ رضی الله عنہ اپنے بیٹے یزید پر ناراض ہوئے تو احنف نے کہا: اے امیر المومنین!”اولادنا ثمار قلوبنا وعماد ظہورنا“ اولاد ہمارے دلوں کے ثمرات ہیں اور کمر کے ستون ہیں۔
امام غزالی نے فرمایا”الصبی امانة عند والدیہ وقلبہ الطاہر جو ہرة نفسیة ساذجة خالیة من کل نقش وصورة، وھو قابل لکل ما نقش علیہ…“ اولاد والدین کے نزدیک ایک امانت ہیں، جن کے قلوب سادہ لوح کی مانند ہیں، جو چیز نقش کرنا چاہیں کر لیں۔
مذکورہ بالا باتوں سے واضح ہوا کہ اولاد الله رب العزت کی ایک عظیم نعمت ہے۔ جب اولاد نعمت ہیں تو ان کی قدر کرنی چاہیے، ان کی قدر یہی ہے کہ ان کی تعلیم وتربیت میں کوئی کوتاہی نہ کریں۔
والدین کے لیے ضروری ہے کہ اپنی اولاد کو سب سے پہلے ”توحید“ کی تعلیم دیں۔ بچوں کی شروع سے ہی ایسی اسلامی تربیت کریں کہ کہ زندگی کی آخری سانس تک ” موحد“ رہیں۔ ان کا عقیدہٴ توحید زندگی کے کسی موڑ پر نہ لڑکھڑا ئے۔ بچوں کے ذہن پر ایام طفولت سے یہ نقش کر دیں کہ جس ذات کی ہم عبادت کرتے ہیں ، اس کا نام الله ہے، وہ اپنی ذات وصفات میں منفرد ہے ، اس جیسی کوئی چیز نہیں ، اس کی بادشاہت میں کوئی شریک نہیں، ساری کائنات کا نفع ونقصان، موت وحیات، بیماری وشفا، اس کے دست قدرت میں ہے۔ وہ غنی ہے، سب اس کے محتاج ہیں۔
ماں کے لیے ضروری ہے کہ جس وقت بچے بولنا سیکھیں سب سے پہلے انہیں اپنے خالق ومالک ” الله“ کا مبارک نام سکھائے، پھر کلمہ توحید”لا الہ الله“ سکھائے۔ حضرت عبدالله بن عباس کی روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”افتحوا علی صبیانکم اول کلمة بلا الہ الا الله․“ (رواہ الحاکم) اپنے بچوں کی زبان سب سے پہلے ”لا الہ الا الله“ سے کھلواؤ۔ بچہ جب تھوڑا سا سمجھنے لگے تو اس کی سمجھ کے مطابق اسے حلال وحرام کی تعلیم دیں۔
حضرت عبدالله بن عباس فرماتے ہیں:”اعملوا بطاعة الله، واتقوا معاصی الله، ومروا اولادکم بامتثال الاوامر واجتناب النواھی، فذلک وقایة لھم ولکم عن النار․“ (رواہ ابن جریر)
الله کی اطاعت کرو اور اس کی نافرمانی سے باز رہو۔ اپنی اولاد کو احکامات الہیہ کو بجالانے کی تلقین کرو اور محرمات سے متنبہ کرو، اسی میں تمہارے او رتمہاری اولاد کے لیے بچاؤ ہے، عذاب نار سے۔ جیسا کہ خود الله تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَکُمْ وَأَہْلِیْکُمْ نَارا﴾․( سورة التحریم، آیت:6)
اے ایمان والو! اپنے آپ کو او راپنے گھر والوں کو دوزخ سے بچاؤ۔
حضرات فقہاء اسی آیت سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ ہر شخص پر فرض ہے کہ اپنی بیوی اور اولاد کو فرائض شرعیہ اور حلال وحرام کے احکام کی تعلیم دے او راس پر عمل کرانے کی کوشش کرے۔ (معارف القرآن)
حضرت عبدالله بن عمر سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”مروا اولادکم بالصلاة وھم ابناء سبع سنین، واضربوھم علیھا وہم ابناء عشر، وفرقوا بینھم المضاجع․“ (ابوداؤد)
بچے جب سات سال کے ہو جائیں تو نماز کا حکم دیں اور جب دس سال کے ہو جائیں تو نماز میں کوتاہی کرنے پر ان کی پٹائی کریں۔ دس سال کی عمر میں ان کے بستر الگ کر دیں۔
عام طور پر بچے سات سال کی عمر میں سمجھ دار ہو جاتے ہیں، اس وقت ان کو خدا پرستی کے راستے پر ڈالنا چاہیے او ران کو نماز پڑھنے کی ترغیب دینی چاہیے، دس سال کی عمر میں ان کا شعور کافی پختہ ہو جاتا ہے اور بلوغ کا زمانہ قریب آجاتا ہے، اس لیے نماز کے معاملہ میں ان پر سختی کرنی چاہیے، نیزاس عمر کو پہنچ جانے پر ان کو الگ الگ لٹانا چاہیے، ایک ساتھ ایک بستر پر لٹانے میں مفاسد کا اندیشہ ہے۔
یعنی لڑکا ماں کے ساتھ اور لڑکی باپ کے ساتھ نہ لیٹے، اسی طرح دس سال کی عمر سے زیادہ کے بھائی بہن بھی ایک ساتھ نہ لیٹیں۔
اولاد کے متعلق باپ کی ذمہ داری
اولاد کی تعلیم وتربیت میں باپ کی سب سے اہم ذمہ داری ہے، اس لیے باپ ہی سے فطرةً اولاد ڈرتی ہے اور لحاظ کرتی ہے۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:” کلکم راع وکلکم مسؤول عن رعیتہ، والامیر راع، والرجل راع علی اہل بیتہ، والمراةٴ راعیة علی بیت زوجھا وولدہ․“(متفق علیہ)
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اس کی ذمے داری کے متعلق پوچھا جائے گا۔ امیر اپنی رعایا کا، مرد اپنے اہل وعیال کا ، عورت اپنے شوہر کے گھر او ربچوں کی ذمہ دار ہے۔
”عن ابی موسی الاشعری رضی الله عنہ ان رسول الله صلی الله علیہ وسلم قال: ما نحل والد ولدا عن نحل افضل عن ادب حسن․“(ترمذی) اس حدیث میں سب سے بہترین تحفہ اولاد کے لیے ادب حسن بتلایا گیا ہے۔
”عن ابن عباس عن رسول الله صلی الله علیہ وسلم: اکرموا اولادکم، واحسنوا ادبھم․“ (ابن ماجہ) اس حدیث میں اولاد کی عزت او راچھی تربیت کا حکم دیا گیا ہے۔
”عن علی قال: علموا اولادکم واھلیکم الخیر وادبوھم․“
حضرت علی رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ اپنے اہل وعیال کو بھلائی کی تعلیم دوا اور انہیں ادب سیکھاؤ۔
”عن ابن عباس عن رسول الله صلی الله علیہ وسلم: من حق الولد علی الوالد ان یحسن ادبہ، ویحسن اسمہ․“ (البیہقی)
اس حدیث میں باپ کی ذمہ داری اچھا نام او رادب حسن بتلائی گئی ہے۔
حضرت معاذ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے مجھے دس باتوں کی وصیت کی اور ارشاد فرمایا: الله کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، اگرچہ تمہیں جان سے مار ڈالا جائے او رجلا دیا جائے ، ماں باپ کی نافرمانی نہ کرو، اگرچہ وہ دونوں حکم دیں کہ اپنے بال بچوں اور مال ودولت کو چھوڑ کر الگ ہو جاؤ، فرائض نماز کو جان بوجھ کر بھی نہ چھوڑنا، کیوں کہ جس نے فرض نماز جان بوجھ کر چھوڑ دی اس سے الله کا ذمہ بری ہو گیا۔ ( یعنی الله کے امن وامان سے وہ محروم ہو گیا) شراب کبھی نہ پیو، اس لیے کہ یہ تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ الله تعالیٰ کی نافرمانی سے بچو، اس لیے کہ نافرمانی کی وجہ سے الله کا غضب نازل ہوتا ہے۔ میدان جہاد میں کفار کے مقابلے سے بھاگنے سے بچو، اگرچہ تمام لوگ شہید ہو جائیں، جب لوگ کسی وبا کی وجہ سے مر رہے ہوں او رتم اس بستی میں موجود ہو تو ٹھہرے رہو، موت کے خوف سے مت بھاگو ، اپنے بچوں پر گنجائش کے مطابق خرچ کرتے رہو، تربیت کی غرض سے اپنی لاٹھی اپنے گھر والوں سے نہ اٹھاؤ۔ الله تعالیٰ کے احکام کے بارے میں ان کو ڈراتے اور سمجھاتے رہو۔ ( رواہ احمد فی مسندہ)
یعنی اپنے اہل وعیال کو خلاف شرع باتوں پر عذاب لہی سے ڈراتے اور سمجھاتے رہو،تاکہ خواہش نفس سے مغلوب ہو کر وہ اپنی عاقبت خراب نہ کر بیٹھیں۔
اس حدیث میں بچوں پر گنجائش کے مطابق خرچ کرنے او رتعلیم وادب حسن کے لیے لاٹھیوں کا سہارا لینے کا حکم دیا گیا ہے، اس لیے اولاد کی بر وقت مناسب پٹائی بھی کرنی چاہیے، تاکہ وہ خلاف شرع عادتوں سے اجتناب کریں۔
لہٰذا جس نے اپنی اولاد کے لیے مذکورہ بالا ہدایات پر عمل کیا اور اپنی اولاد کو دینی تعلیم وتربیت سے مالا مال کیا وہ دنیا میں بھی کام یاب ہے اور آخرت میں بھی کام یاب ہے۔
دنیوی کام یابی آنکھوں کی ٹھنڈک کے ساتھ ایک نمونہ بن جائے گا او رآخرت کی کام یابی یہ ہے کہ الله تعالیٰ ان کو اعزاز واکرام سے نوازے گا۔
حضرت عبدالله بن عمر کی روایت ہے کہ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: بے شک عدل وانصاف کرنے والے حضرات الله تعالیٰ کے یہاں نور کے منبروں پر ہوں گے او رالله تعالیٰ کے دائیں طرف ہوں گے۔ اور الله تعالیٰ کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں، یہ وہ حضرات ہیں جو اپنے فیصلوں میں ، اپنے اہل وعیال کے معاملات میں او راپنے اختیارات میں عدل وانصاف سے کام لیتے ہیں ۔ (مسلم)
ابوداؤد کی روایت میں ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قرآن کریم پڑھنے والے او راس پر عمل کرنے والے کے والدین کو ایسا تاج پہنایا جائے گا جس کی روشنی اور چمک سورج کی روشنی او رچمک سے بھی زیادہ ہو گی ۔ تو خود قرآن پڑھنے والے او راس پر عمل کرنے والے کو کتنا عظیم ثواب دیا جائے گا؟
نیک صالح اولاد کے اخروی ثمرات میں سے جنت کا بلند مقام حاصل کرنا بھی ہے ۔ یہ اعزارواکرام ہی ہے ،جب والدین اپنی اولاد کے درمیان عدل وانصاف کرتے ہوں گے۔
حضرت نعمان بن بشیر سے مروی ہے کہ ان کے والد اُن کو لے کر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئے اور کہا، میں نے اس لڑکے کو اپنا ایک غلام عطا کیا ہے۔ تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم نے اپنے سارے لڑکوں کو اسی طرح دیا ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں۔ پھر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تم اپنا عطیہ لوٹا لو۔ (متفق علیہ)
حضرت انس فرماتے ہیں کہ ایک شخص رسول الله صلى الله عليه وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ اتنے میں اس کا لڑکا آیا۔ اس نے اسے پیار کیا او رپھر گود میں بیٹھایا۔ تھوڑی دیر بعد اس کی لڑکی آئی تو اس نے اسے اپنے پہلو میں بٹھا۔ یہ دیکھ کر رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا تم نے دونوں کے درمیان انصاف نہیں کیا۔ دیکھیے کس قدر انصاف کا حکم ہے۔ الله تعالیٰ ہمیں صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین۔