مبصر کے قلم سے
ادارہ
تبصرہ کے لیے کتاب کے دو نسخے ارسال کرنا ضروری ہے۔ صرف ایک کتاب کی ترسیل پر ادارہ تبصرے سے قاصر ہے۔ تبصرے کے لیے کتابیں صرف مدیر الفاروق یا ناظم شعبہ الفاروق کو بھیجی جائیں (ادارہ)
پیارے نبی صلی الله علیہ وسلم کی پیاری مسکراہٹیں
تالیف: پروفیسر ڈاکٹر محمد مشتاق کلوٹا
صفحات:168 سائز:23x36=16
ناشر: زمزم پبلشرز، اردو بازار، کراچی
یہ کتاب بچوں کی لیے تالیف کی گئی ہے اور اس میں سیرت طیبہ سے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی خوش مزاجی وخوش طبعی کے مختلف واقعات کو جمع کرکے مرتب کیا گیا ہے۔ یہ کتاب صدارتی ایوارڈ یافتہ بھی ہے ۔ اس میں آسان وعام فہم اسلوب اختیار کرکے بچوں کی ذہنی واخلاقی تعلیم وتربیت کو مدنظر رکھا گیا ہے کہ بچے آپ صلی الله علیہ وسلم کی خوش طبعی کے واقعات کا مطالعہ کرکے ذہنی واخلاقی بالیدگی حاصل کرسکیں۔ امید ہے کہ یہ تربیتی کاوش بچوں کی اخلاقی وفکری تربیت میں اہم کردار ادا کرے گی۔
کتاب کا ٹائٹل دیدہ زیب ،کاغذ اعلیٰ اور طباعت واشاعت میں معیار کا خیال رکھا گیا ہے۔
ماہنامہ القاسم کا قلم وکتاب نمبر
زیر سرپرستی: مولانا عبدالقیوم حقانی مدیر مسئول: حافظ محمد قاسم
صفحات:216 سائز:23x36=16
ناشر: القاسم اکیڈمی، جامعہ ابوہریرہ، خالق آباد، ضلع نوشہرہ، صوبہ خیبر پختوانخواہ، پاکستان
”ماہنامہ القاسم“ مولانا عبدالقیوم حقانی کی زیر سرپرستی القاسم اکیڈمی، جامعہ ابوہریرہ، ضلع نوشہرہ، صوبہ خیبر پختوانخواہ سے شائع ہوتاہے۔ ”قلم وکتاب نمبر“ کے نام سے یہ اس کی سترہویں خصوصی اشاعت ہے جو رمضان، شوال، ذوالقعدہ1432ھ کے تین شماروں پر مشتمل ہے اور اس میں کسی خاص موضوع پر نہیں بلکہ مختلف موضوعات کے مضامین کو شامل اشاعت کیا گیا ہے، جس میں بعض کتابوں کے پیش لفظ، مقدمے، تبصرے، تجزیے، تعارف اور بعض علمی وفقہی او رتحقیقی تحریریں بھی شامل کی گئی ہیں، مولانا عبدالقیوم حقانی تعارف میں خود اپنے قلم سے مندرجہ ذیل سطور لکھتے ہیں:
” القاسم کی سترہویں خصوصی اشاعت”قلم وکتاب نمبر“ کا داعیہ دل میں پیدا ہوا۔ شیخ الحدیث مولانا سمیع الحق مدظلہ کی آٹھ جلدوں میں ”مکاتیب مشاہیر، گنبد خضرا کے سایہ میں اور اے زائر حرم“ احقر کی کتب ”تذکرہ وسوانح حضرت درخواستی“، ”مردِ قلندر“، ”تذکرہ وسوانح خواجہ خان محمد“ ، ”والد کا پیغام اولاد کے نام“ اور ”بنیاد کا پتھر“ مکمل ہو چکے ہیں ۔ کشکولِ معرفت پر پروفیسر سیّد شبیر حسین شاہ زاہد کا علمی ادبی تبصرہ، سراغ زندگی پر میاں محمد الیاس کی وقیع تحریر، سوانح خواجہ خان محمد اور والد کا پیغام اولاد کے نام پر مولانا محمد عبدالمعبود مدظلہ کے وقیع علمی، ادبی مقالے لفظ ”قلندر“ کے حوالے سے مولانا حافظ نثار احمد الحسینی کا جامع مقالہ اور حرفِ آخر، مولانا محمد اسلم زاہد کا قلندر نامہ، نابینا مردوں سے پردے کے شرعی حکم پر مولانا محمد اسلم زاہد کی محققانہ تحریر، پروفیسر محمد اقبال ندیم کا ادبی، شذرہ… الغرض اب کا تازہ شمارہ، انہیں اکابر ومشائخ اور علماء وفضلاء کی قلمی تحریروں، تحقیقی مضامین، تبصروں وتجزیوں او رادبی شہ پاروں سے مزّین سترہویں خصوصی اشاعت ”قلم وکتاب نمبر“ کے نام سے نذرِ قارئین ہے۔“
زیر نظر شمارے کے آخر میں جدید مطبوعات کے تعارف وتبصرے شامل کیے گئے ہیں جو مولانا عبدالقیوم حقانی کے زورِقلم کا نتیجہ ہیں، مگر خدا جانے کس سبب سے یااگر حسنِ ظن کی بنیاد پر کہا جائے، تو محض بے احتیاطی کی وجہ سے اکابر کی تحریروں اور اکابر کے تذکروں پر مشتمل کتابوں کے درمیان امریکی مصنف جان۔ ڈبلیو۔ کائزر کی کتاب” امیر عبدالقادر الجزائری“ کا تعارف اور اس پر انتہائی غیر محتاط تبصرہ بھی شامل ہے اہل علم جانتے ہیں کہ یہ کتاب اپنے مضامین ومقاصد کے اعتبار سے علمی ومذہبی حلقوں میں زیر بحث رہی ہے اور اس کے مترجم، ناشر، تقریب رونمائی اور خود صاحب سوانح کے متعلق جو مختلف باتیں منظر عام پر آئی ہیں اس سے کتاب سے متعلق شکوک وشبہات میں اضافہ ہوتا ہے، کتاب میں افسانوی طرز واسلوب اختیار کرنے کے علاوہ بھی کئی باتیں اسلامی ودینی حوالے سے قابل اعتراض ہیں اور پھر جس حلقے کی طرف سے اس کا ترجمہ، اشاعت اور اس کو پھیلانے وعام کرنے کی ذمہ داری اٹھائی گئی ہے وہ خود علمی دینی حلقوں میں مغرب نوازی میں مطعون ومشہور ہے، مغرب کی تقلید میں اسلامی حدود وتعزیرات، تحفظ ناموس رسالت بل اور جہادو مجاہدین وغیرہ موضوعات کو ہدف تنقید اور موضوع بحث بنانا ان کا محبوب مشغلہ ہی نہیں بلکہ مقصد زندگی بن کر رہ گیا ہے۔ نیز کتاب کے اندر وباہر صاحب سوانح کی تصاویر بھی چھائی گئی ہیں جس کی حرمت پر کم از کم برصغیر پاک وہند کے جلیل القدر علماء واکابر کا اتفاق چلا آرہا ہے، جب کہ یہ گروہ اس کودینی طبقے میں مسلسل رواج دینے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔
مولانا عبدالقیوم حقانی کا اپنا ایک مقام ومرتبہ ہے اور دینی حلقوں میں ان کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ، اس کے باوجود علمی حلقوں کو ان سے یہ شکوہ رہتا ہے کہ وہ بسا اوقات غیر شعوری طور پر ہوا کے رخ او رپانی کے بہاؤ کے ساتھ تائید وتصویب میں فیاضی کرتے ہوئے اس قدر آگے چلے جاتے ہیں جو دینی، مذہبی،مسلکی حوالے سے بہرحال نقصان دہ ہوتا ہے ۔ چناں چہ زیر بحث تبصرے میں بھی یہی طرز اختیار کیا گیا ہے اور زیر بحث کتاب کے واضح قابل اعتراض ہونے کے باوجود اس پر کسی نقد وتنقید کے بجائے دینی جذبہ رکھنے والے مسلمانوں کو ملامت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ:
”یہ کتاب معروضی حالات سے آنکھیں بند کرکے محض جوش سے کام لینے والے روایتی دوستوں کو شاید پسند نہ آئے مگر سعید روحوں کے لیے اس میں بڑے سبق ہیں۔“
نیز آگے لکھتے ہیں کہ:
” القاسم محسوس کرتا ہے کہ اگر کتاب کا مطالعہ اس کی روح کے مطابق کیا جائے تو ذہنوں میں انقلاب آئے گا، جو آج کے دور میں امّت مسلمہ کے لیے مفید ثابت ہو گا۔ بحیثیت مسلمان ہمیں سوچنا ہو گا کہ ہر ایک سے جنگ وجدل، مخالفت اور مخاصمت نے ہمیں کیا دیا ہے؟ کیا ہم ” مسلمان“ بن کر نہیں رہ سکتے؟“
اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ زیر بحث کتاب کے دسیوں مقامات پر فرانس کے سامنے صاحب سوانح کے ہتھیار ڈالنے کو جرأت وبہادری اور قابل ستائش کارنامہ قرار دیا گیا ہے اور یہ ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ مغربی طاقتوں کے سامنے ہتھیارڈالنا ہی عافیت وسلامتی ، جرأت وبہادری اور ستائش وآفر یں کا صحیح طریقہ ہے۔ فیا للعجب!!
اس سلسلے میں زیر نظر خصوصی اشاعت میں شامل مولانا عبدالقیوم حقانی کے شیخ ومرشد حضرت مولانا زاہد الحسینی رحمة الله علیہ کی ان مفیدنصائح کو ذکرکیا جاتا ہے جو مولانا عبدالقیوم حقانی کے نام بعض خطوط میں ذکر کی گئی ہیں اوراب ان کی کتاب ”کشکول معرفت“ کا حصہ ہیں کہ:
”بطورِ مشورہ عرض ہے کہ اپنی کسی بھی تحریر میں کوئی ایسا عنوان یا کلمہ نہ لکھیں جس سے دورِ حاضر کے ملحدوں کو کچھ راستہ مل سکے… جیسا کہ آپ کے ایک مضمون ماہنامہ”الخیر“ ملتان کے صفحہ19 پر آپ کا عنوان:”نظام بینکاری کے اوّلین موجد امام ابوحنیفہ“ ہیں مناسب نہیں، آپ اسے ”رفاہِ عامہ“ یا”خدمتِ خلق“ وغیرہما کا عنوان دے سکتے ہیں اسی طرح صفحہ15 پر عمر بن عبدالعزیز کی رحلت کو امّت کے لیے بدقسمتی قرار دینا ایک عالمِ کے قلم سے بہتر نہیں، اس لیے کہ الله تعالیٰ کے سارے کام بیدہ الخیر اور بیدک الخیر کا اثر ہیں۔
آج کل جو بعض مضامین اپنے رسالوں میں چھپ رہے ہیں۔ ان میں پرویزی الذہن اپنا کام کرتے ہیں حالاں کہ دینی مدارس اور دینی جرائد تو یہی باور کراتے ہیں کہ علم سے مراد علمِ دین اور فقہ سے مراد وہ قانونِ اسلام ہے جو وحی ربانی سے مستنبط ہے، ایسے مضامین نے تو افلاطون، بطلیموس، باقر داماد اور آج کل کے مارقین کو بھی فقیہ بنا ڈالا ہے، مجھے تو یہ پالیسی قطعاً پسند نہیں۔ طنطاوی اور نیاز فتح پوری اور برق مرحوم کے سابق خیالات کی پرزور اشاعت ہو رہی ہے، آپ اس پر توجہ دیں کہ ایسی چیزیں اشاعت پذیر نہ ہوں۔”ونعوذ بالله من شرور انفسنا“ (ہم اپنے نفسوں کے شر سے الله کی پناہ چاہتے ہیں)۔“
القاسم اکیڈمی کی اس خصوصی اشاعت کو اگر ایک ریکارڈ کی چیز بنایا جانا تھا تو اس کی طباعت کا معیار اور بہتر رکھنا چاہیے تھا کیوں کہ اس خصوصی اشاعت کی طباعت درمیانے درجے کی ہے۔