کیا یہ عورت کا قصور ہے؟
مولانا محمد مجیب الدین قاسمی
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ نسوانیت کے بغیر انسانیت کی تکمیل ممکن ہی نہیں۔ یہ نظامِ قدرت ہے کہ مرد عورت کے بغیراو رعورت مرد کے بغیر نامکمل ہے، گویا مرد اور عورت ایک گاڑی کے دوپہیے ہیں، اس کائنات میں جنت سے بڑھ کر کوئی خوب صورت اور دل نشین مقام نہیں ہے، جب الله تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو اس مقام پر رہنے سہنے کی جگہ عطا کی تو انہوں نے بارگاہِ الہٰی میں تنہائی کی شکایت کی، جس کے بعد انہیں ایک خاتون ” اماں حوا“ کی معیت عطا کی گئی، گویا جنت جیسی پر تعیش جگہ پر بھی بغیر عورت کے انسان کا دل نہ لگا، اسی طرف علامہ اقبال نے اشارہ کیا ہے #
وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
یعنی عورت سے اس کائنات کی زینت ہے او راسی کے دم سے یہاں کے گلشن میں کشش اور رنگینی ہے، جس طرح پھولوں کے بنا چمن بے رنگ نظر آتا ہے، شمع کے بغیر محفل اور رنگوں کے بغیر تصویریں بے رونق۔
اسی طرح اگر عورت کو دنیا سے نکال دیا جائے تو انسانوں کا جینا مشکل بلکہ ناممکن ہو جائے، کیوں کہ دنیا کو عورت کی اسی طرح ضرورت ہے جس طرح زندگی کو سانسوں کی ضرورت ہے، کائنات کی رعنائی اور زیب وزینت اسی وقت قائم رہ سکتی ہے جب یہاں عورت کا وجود ہو گا، ذرا غور کریں کہ انسانی معاشرہ کو عورت کی کتنی ضرورت ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ اس کے بغیر انسانی معاشرہ ایک قدم بھی نہیں چل سکتا، انسان ایک عورت کے پیٹ میں ہی اپنی زندگی کی ابتدا وآغاز کرتا ہے، اس کی گود میں پرورش پاتا ہے، اس کے سینے سے سیراب ہوتا ہے، اسی ماں کی لوریاں اس کی تعلیم کا پہلا سبق ہوتی ہیں اور وہی اس کی پہلی استاد ہوتی ہے اور نہ جانے قدرت نے او رکتنے ہی کردار اس عورت کی ذات میں جمع کر رکھے ہیں، چناں چہ ایک عورت ماں بیوی، بہن اور بیٹی کے روپ میں اپنے اپنے گھروں میں رونق بن کر اُجالا پھیلاتی ہے، وہ کبھی ماں بن کر سارے گھر میں اپنی محبتیں بانٹتی پھرتی ہے اور پورے پورے خاندان کو چلاتی ہے اور اکیلی سب کے لیے جلتی گھلتی ہے، مگر سارے گھر کو اپنے خون جگر سے روشن کرتی ہے، بیوی بن کر شوہر کی خدمت کرتی ہے او راپنے بچوں کی حفاظت کرتے ہوئے ان کی پرورش کرتے ہوئے، پروان چڑھاتی ہے، بہن بن کر بھائیوں کے دکھ درد اور ان کے غم بانٹتی ہے، انہیں پریشانیوں کے عالم میں تسلیاں دیتی ہے، بیٹی بن کر شام کو تھکے ماندے گھر لوٹنے واے باپ کے سر پیر دباتی ہے، اس کا حال چال پوچھ کر اس کے دل پہ رکھے بوجھوں کو اُتارتی اور ہلکا کرتی ہے، اس کے ماتھے پہ آیا پسینہ پونچھ کر اس کو زندگی کے امتحان میں حوصلہ مند بناتی ہے اور ایک نیا عزم وحوصلہ دیتی ہے، خلاصہ یہ کہ انسانی معاشرے اور سماج میں عورت کا ایک خاص مقام ہے، وہ بگڑے گھروں میں امن وشانتی کی شمع روشن کرتی ہے، خاندان میں چلنے والے جھگڑوں کو اپنی عقل مندی اور حسن تدبیر سے ٹھنڈا کر دیتی ہے، جب تک عورت اپنے گھر میں رہتی ہے گھر والوں کی وفادار بن کررہتی ہے، ان کے ہر دکھ درد میں کام آتی ہے، گویا بچپن سے لے کر جوانی اورجوانی سے لے کر آخر عمر تک بے چاری امتحانات ہی دیتی رہتی ہے، شاید اس کے اسی صبر واستقامت اور قربانیوں کی وجہ سے الله تعالیٰ نے اپنی رحمت کے لیے ماں ( جو ایک عورت ہے اور اس کے کرداروں میں سے اہم ترین کردار ہے) کی محبت کو مستعار لیا ہے کہ الله ماں سے ستر گنا زیادہ محبت کرنے والا ہے۔ لیکن ان ساری تفصیلات کے باوجود ہمارے معاشرہ کی یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ عورت کی اتنی ساری خوبیوں اور کمالات کے باوجود بھی اس کے حصے میں زمانے بھر کی بدنامیاں،بلکہ بے جارویہ اور نامناسب باتیں ہی آتی ہیں، اس کی زندگی بھر کی قربانیوں کے صلہ میں اس کی ذرا سی غلطی پر اسے ذات باہر کر دیا جاتا ہے، اس کی ساری اُمنگوں پر پانی پھیر دیا جاتا ہے اور اس کے مقدر میں صرف محرومیاں ہی آتی ہیں۔
اسی لیے عورت کی محرومیاں ہمیشہ سے سنجیدہ انسانوں کا موضوع بحث رہی ہیں اور ہر مفکر وفلسفی اور مؤسس اخلاق نے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی ہے، جس کا آخری نتیجہ بس یہی نکلتا ہے کہ جاہلیت قدیمہ میں عورت اپنے حقوق کے سلسلے میں افراط کا شکار تھی کہ کوئی اسے انسان ہی نہ مانتا تھا تو کوئی اسے گناہ کی دیوی تصور کرتا تھا اور ہر قسم کے ظلم وحشت وبربریت کو اس کے لیے روارکھا جاتا او رموجودہ جاہلیت جدیدہ نے اس کے حقوق کے تئیں تفریط کا رویہ اختیار کیا ہے کہ حقوق نسواں کے نام پر اسے ایسی آزادی دے دی جو اسے بازاروں کی زینت بننے پر مجبور کرتا ہے، جہاں صبح وشام گاہک اس کی طلب میں آسودگی ہوسِ نفس کے لیے آتے ہیں اور وہ انہیں ناچ کر دکھاتی ہے، گاکر سناتی ہے یا پھر کچھ او رکرکے اپنے پیٹ کے لیے دو وقت کے ایندھن کا انتظام کرتی ہے، یورپی تہذیب کے عالی دماغوں نے بھی عورت کے مسائل کا حل تلاش کیا او رپیش بھی کیا، کم وبیش تین سوسالوں سے یورپی تہذیب نے عورت کو حقوقِ نسواں کے نام سے ایک آزادی دے رکھی ہے، تاکہ اس کے مسائل حل ہو جائیں، لیکن یہ آزادی بھی چوں کہ ”مردوں“ کی دی ہوئی ہے، اس لیے اس کی حقیقت بھی اس سے زیادہ نہیں کہ تاریخ اپنے آپ کو ایک بار پھر دہرا رہی ہے، عورت کو سر میدان لا کر اس کی ذمہ داریوں میں کمی تو نہیں کی گئی، لیکن معاش کا ایک مزید بوجھ بھی اس کے ناتواں کندھوں پر ضرور ڈال دیا گیا ہے ، پہلے وہ صرف شوہر کی دست نگر تھی، مگر اب اسے اپنے شوہر کے ساتھ ساتھ اپنے باس او راپنے رفقائے کار کا بھی دل لبھانا پڑتا ہے۔
اس نام نہاد جدید لیکن غیر فطری تہذیب نے عورت کی فطری ذمہ داریوں سے اس کو دور کرکے اسے سیاست، دفاع، معاش او رانتظامی اُمور کی طرف دھکیلنے کی بھونڈی کوشش کی ہے، جس کے نتیجے میں خاندانی نظام، اخلاقی معیارات اور عورت کا نسوانی حسن ختم ہو کر رہ گیا ہے اور بھی نہ جانے اس غیر فطری آزادی کی وجہ سے کیا کیا ہو رہا ہے۔
بس! یہ کہنا بجا ہو گا کہ لکھنؤ کے نواب ہوں یا دہلی کا دربار، کلیسا ودیر ہوں یا اسمبلی وپارلیمنٹ یا پھر دنیا بھر کے مشرق ومغرب کے مہذب وغیرہ مہذب معاشرے ہوں، عورت کی کہانی ہر جگہ یکساں رہی ہے، آج بھی دنیا کے کتنے ہی معاشرے ہیں جہاں عورت اسی افراط وتفریط کا شکار بنی ہوئی ہے، اس ترقی یافتہ دور میں بھی کچھ لوگ جو جاہلیت قدیمہ یا جدیدہ کے حامل ہیں عورت کو کسی قصور کے بغیر ستاتے اور پریشان کرتے ہیں، بلکہ یہ کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں، چناں چہ یہ سلسلہ ہمارے مسلم معاشرہ میں بھی ہے اور غیروں کے مقابلہ میں زیادہ نہ ہو تو کم بھی نہیں ہے، اس کا آغاز عام طور سے لڑکی کے سسرال سے ہوتا ہے، ذیل میں ترتیب وار اس کو ذکر کیا جاتا ہے، جو ہمارے مسلم معاشرہ کے مہذب اور غیر مہذب افراد کی صورتِ حال ہے:
سسرالی ہراساں
صنفِ نازک پر ڈھائے جانے والے مظالم میں یہ ایک بدترین صورتِ حال ہے جو اس وقت مسلم معاشرہ میں جڑ پکڑتی جارہی ہے، چناں چہ اس کا آغاز جہیز، لین دین اور جوڑے کی رقم اور شادی بیاہ میں نامکمل کیے ہوتے بے جا مطالبات کے ذریعہ ہوتا ہے، ہندومت میں عورت کو اس کے لائے ہوئے جہیز میں تو لا جاتا ہے، اگر جہیز زیادہ ہو تو عورت قیمتی سمجھی جاتی ہے، بصورت دیگر اس کی قبولیت کے امکانات کم سے کم تر ہو جاتے ہیں ، ہزارہا حیف وصدہا افسوس ہمارے مسلم معاشرہ پر کہ ہندوؤں کے ساتھ صدیوں تک رہتے ہوئے مسلمانوں کے یہاں بھی ہندوؤں کے رسوم ورواج جاری ہونے لگے او رمسلم معاشرہ میں جگہ پاتے گئے۔
چناں چہ اب مسلمانوں کے یہاں بھی جہیز ضروری، بلکہ شادیوں کا جز لازم سمجھا جانے لگا اور شادی کی بے پناہ رسومات اورکثرت سے تحائف کے لین دین نے جہاں شادی کو مشکل تر بنا دیا وہیں لڑکیوں کو بوجھ تصور کیا جانے لگا، جو یقینا ہندومت کے رسوم کا منطقی نتیجہ ہے، اب یہی جہیز کی لعنت عورت کی سیرت وصورت، تعلیم وتربیت، سلیقہ وطریقہ اور اخلاق وبردباری (جو نسوانیت کے تاریخی وحقیقی جوہر ہیں جن کا وزن عورت کی نسوانیت میں بڑھوتری کا باعث ہوتا ہے) پر بازی لے گئی اور یہ وبا اس قدر عام ہو گئی ہے کہ کچھ لوگ تو بس اسی جہیز کے لین دین او راپنے مطالبات بے جاکی تکمیل کی شرط پر ہی اپنی اولاد کی شادیاں رچاتے ہیں اور اس بات کی کھلی مثال پیش کرتے ہیں کہ ” مرد بھی بکتے ہیں۔“
اگر کوئی لڑکی غریب یا متوسط طبقہ سے تعلق رکھتی ہو، جو اپنے سسرال والوں کی بے تکی فرمائشوں کو پورا نہ کر سکی یا ان کی پسند کے مطابق سامان جہیز نہ لاسکی، یا جوڑے گھوڑے کی رقم ( جس پر یہ لڑکے والے اپنی جھوٹی شان بگھارتے ہوئے ولیمے کرتے ہیں اور نہ جانے کس منھ سے اُسے ولیمہٴ مسنونہ کا نام بھی دیتے ہیں) میں کمی کر دی ، یا فرنیچر دیگر اسباب ورسدان کی مرضی یا کوالٹی کے مطابق نہ ہو تو بس دیکھیے! دوسرے ہی دن سے اس پر طعن وتشنیع کے تیر وتلوار چلنے شروع ہو جاتے ہیں ، کھانے اور ضیافت کی کمی کا طعنہ دیا جاتا ہے، اس کے لائے ہوئے سامان کو دوسروں کے سامان سے موازنہ کرکے اس کے عیوب ونقائص گنوائے جاتے ہیں ، حتی کہ اسی لعن طعن کے ذریعہ اس کا جینا دوبھر کر دیا جاتا ہے، مزید رقم کے مطالبات کی ایسی رٹ لگائی جاتی ہے کہ اسے اپنے میکے بھیج کر اس کے لانے کا پابند بنایا جاتا ہے او رجب تک اس کا انتظام نہ ہو اس کے سسرال والے اس کو آنے تک کی اجازت نہیں دیتے۔ نتیجتاً یا تو طلاق وخلع ہو جاتا ہے یا پھر یہ اپنی غریبی وافلاس سے مجبور ہو کر وہ خود کشی کر لیتی ہے، جس پر ان ظالم سسرال والوں کو ذرا بھی افسوس نہیں ہوتا۔
ذرا سوچیے کہ اس میں بھلا اس معصوم کا کیا قصور ہے؟ اگر اس پہلو سے سسرال والوں کا ذہن اس نئی نویلی دلہن کے سلسلہ میں یہ ہوتا ہے کہ یہ ایسا کام کرے کہ بس آتے ہی پورے گھر کے انتظام وانصرام کی ذمہ دار بن جائے اور اس میں کسی قسم کی کوتاہی اور غلطی نہ ہونے پائے، آپ خود فیصلہ کریں کہ جو عورت ایک نئے او رانجان گھر میں پہلے پہل اپنی زندگی نوکی شروعات کر رہی ہو، جہاں کا ماحول، لوگ، حالات، گھر والوں اور خاندان والوں کے مزاج وذہنیت سے وہ بالکل نا آشنا، اس گھر کاباورچی خانہ اس کے لیے اجنبی، وہاں کی دال روٹی ، نمک مرچ اور تیل ہلدی، شکر کی کمی زیادتی کسی بھی چیز سے وہ نابلد تو یہ کیسے ممکن ہے کہ آتے ہی وہ سارے گھر والوں کے مزاج کے مطابق، وہاں کی ماہر باورچن بن جائے ؟ وہاں کے کام کام میں وہ ماہر اور سلیقہ مند ہو جائے؟ ظاہر ہے کہ اس کام کے لیے کم از کم اسے چھ ماہ یا مکمل ایک سال کا عرصہ لگ سکتا ہے، شاید ہم بھی ہوتے تو انہیں مراحل سے گزرتے اور تب بھی سنبھلنے کی کوئی ضمانت نہ ہوتی،مگر ساس صاحبہ، نند صاحبہ یا صاحبات، خسر اور دیوران سب، کے سب، اس پر حکومت شروع کر دیتے ہیں ، وہ ساس اور نندیں جو کل شادی سے اور بہو کے آنے سے پہلے تک گھر کے باورچی خانے کا سارا انتظام کرتی تھیں، آج بہو کے آنے کے بعد اس جگہ جانا بھی گوارہ نہیں کرتیں اوراس کی ذرا سی غلطی پر گھر میں ایک بکھیڑا کھڑا کر دیا جاتا ہے، اوروں کے سامنے اس کی کمیاں کوتاہیاں گنوائی جاتی ہیں اور نمک کی ، تیل کی زیادتی، شکر اورمرچ کے اضافہ پر ملامت کی جاتی ہے، کیا اچھا ہو کہ کچھ مہینوں گھر کے سرپرست اپنی بہو کو اپنے باورچی خانہ کے نظام ، وہاں کے پیچ وخم، نشیب وفراز سے واقف کروائیں، کچھ مدت تک اس کو سکھاتے رہیں ، کبھی کچھ اونچ نیچ ہو جائے تو صبر کرتے ہوئے حسن تدبیر سے اسے سمجھائیں، یہ تو ہو گا نہیں، صرف شکوے شکایات کی بھر مار ہو گی، دوسروں کے سامنے اس کی عیب جوئی ہو گی ، ہر آنے جانے والے مہمان کے سامنے اسے رسوا کیا جائے گا، لڑکی والوں کو بلا کر ان کی باز پرس ہو گی کہ تم نے اپنی لڑکی کو یہی سکھایا ہے؟ اسے کسی کام کا ڈھنگ ہی نہیں ہے، بڑے چھوٹوں کا پاس ولحاظ ہی نہیں ہے، وغیرہ وغیرہ ۔ نئی دلہن نے فلاں کو سلام نہیں کیا، فلاں کو جھک کر سلام نہیں کیا، فلاں کے آنے پر کھڑی نہیں ہوئی،فلاں کو پوچھا تک نہیں ، چائے یہ ہاتھ سے دی، کھانا اس طرز سے لگایا۔ نہ جانے کتنے طریقوں سے اس کی شکایات، بس ! تھوڑا سا آسان کام سسرال والے یہ کر لیتے، کہ اسے کچھ سمجھا دیا جائے، اسے یہاں کے ماحول سے واقف کروایا جائے، یہاں کے طورطریقے بتلائے جائیں، اسے کچھ سنبھلنے کا وقت دیا جائے یہ نہیں کرتے بلکہ ہر طریقہ سے اسے اور اس کے شوہرکو پریشان کرکے چھوڑتے ہیں، شادی کے وقت تو اسے اپنی بیٹی کہتے ہیں ، بہو رانی کہتے ہیں، مگر گھر لے جاکر غیروں اور نوکرانی سے بھی بدتر سلوک کرتے ہیں ، ان حالات سے گھبرا کر وہ الگ ہونے کا فیصلہ چاہتی ہے تو مدتوں اس پر بحثیں چلتی ہیں کہ ہمارے بیٹے کو ہم سے الگ کر دیا ، ہمارے گھر کو اُجاڑ دیا، معاشرہ میں ہمارے گھر کو بدنام کر دیا، وغیرہ، یہ کوئی افسانوی قصہ نہیں، کہانی گھر گھر کی، بلکہ ہر گھر کی کہانی ہے، بھلا بتلائیے کیا یہ عورت کا قصور ہے؟ اگر کوئی پیکر صبر واستقامت اس مرحلہ سے بھی گذر جائے تو تیسری آزمائش اولاد کی ولادت کے وقت سے شروع ہوتی ہے، اس مسئلے میں اتنی پیچیدگیاں ہیں کہ اس مسئلہ کا ہر زاویہ ایک قابل قبول حل کا طالب ہے، اس سلسلہ میں کچھ باتیں بطور اُصول کے سمجھ لیں، تاکہ بات صاف اور اطمینان بخش طریقہ سے سمجھ میں آسکے، چناں چہ ایک اُصولی بات تو یہ ہے کہ اولاد الله رب العزت کی نعمتوں میں سے ایک عظیم او راہم ترین نعمت ہے جس کی اہمیت کا اندازہ لگانے کے لیے یہی بات کافی ہے کہ انبیائے کرام علیہم السلام نے بھی اس نعمت کے حصول کے لیے دعائیں کی ہیں، چناں چہ سیّدنا ابراہیم وسیّدنا ذکریا علیہما السلام دونوں کا اپنی پیرانہ سالی میں ( جب کہ ظاہری اسباب وحالات سے اس کی کوئی اُمید نہ تھی) اولاد کے لیے دُعائیں کرنا قرآن میں مصرح ہے، کیوں کہ یہ انسانی فطرت ہے کہ ہر شادی شدہ جوڑا یہ چاہتا ہے کہ اس کی اولاد ہو، اس لیے کہ یہی وہ نعمت ہے جس کی انسان کو اپنے بڑھاپے میں ضرورت پڑتی ہے اوراگر اولاد دین دار ہو تو والدین کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک اور نجات کا ذریعہ بنتی ہے، اس لیے ہر شادی شدہ جوڑے کی اوّلین خواہش یہی ہوتی ہے کہ صاحب اولاد ہو جائیں، اولاد الله تعالیٰ کا انعام واحسان ہے، اس کو تقسیم کرنے کا اختیار کسی کو نہیں، سوائے الله کے وہی بہتر جانتا ہے کہ اس نعمتِ عظمیٰ کی اہلیت کس میں پائی جاتی ہے او راس انعام کا حق دار کون ہے؟ ہمارا پختہ عقیدہ ہے کہ آسمانوں اور زمین میں اسی الله کی حکم رانی ہے، ہر چیز اسی کے تصرف میں ہے، جس کو چاہے جتنا چاہے عطا کرے اور اگر کسی کو کسی نعمت سے محروم رکھنا چاہے تو کوئی اسے زبردستی دینے پر مجبور نہیں کر سکتا، اولاد کے سلسلہ میں نیز دنیا کی ہر نعمت کے سلسلہ میں الله تعالیٰ کا یہی اُصول ہے، عموماً اولاد کے سلسلے میں، لوگوں کی چار قسمیں ہیں : 1..وہ لوگ جن کی صرف بچیاں ہی ہیں، بچے کے لیے وہ ترستے رہتے ہیں اور ان کی حسرت پور ی نہیں ہوتی۔ 2..وہ لوگ جن کو صرف بچے دیے جاتے ہیں۔3.. وہ لوگ جن کو ملے جلے بچے او ربچیا ں عطا ہوئے۔ 4.. وہ لوگ جو بانجھ ہیں، یعنی جن میں اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت ہی مفقود ہے۔ ان کے ہاں نہ بچہ پیدا ہوتا ہے اور نہ بچی، کیوں کہ الله تعالیٰ علیم وقدیر ہیں، یعنی وہی بہتر جانتا ہے کہ کس کو کیا دینا ہے او رکس کو کچھ نہیں دینا ہے:﴿یَہَبُ لِمَنْ یَشَاء ُ إِنَاثاً وَیَہَبُ لِمَن یَشَاء ُ الذُّکُورَ،أَوْ یُزَوِّجُہُمْ ذُکْرَاناً وَإِنَاثاً وَیَجْعَلُ مَن یَشَاء ُ عَقِیْماً﴾․ (الشوریٰ:50-49)
اس آیت مبارکہ میں اولاد کے عطا کرنے نہ کرنے کے سلسلہ میں جو بنیادی اُصول بیان کیا گیا ہے کہ یہ سب الله تعالیٰ کا ہی اختیار ہے، کسی کا کچھ دخل ہی نہیں، اس تناظر میں ہمارے معاشرہ کا جائزہ لیں کہ کیا اس آیت کے مضمون پر ہمارا اعتقاد بالکل پختہ ہے یا نہیں؟ چناں چہ آج سسرال والوں کی سوچ اور فکر یہی ہوتی ہے کہ ہماری بہو کو سب سے پہلے ” لڑکا“ پیدا ہو اور اس کے لیے کوششیں بھی کی جاتی ہیں ، چنا ں چہ عاملوں کی چکر، تعویذ گنڈے اور خصوصی ٹریٹمنٹ وغیرہ اور اگر بہو کو صرف لڑکیاں ہی ہوں تو پھر اس کا جینا دوبھر کر دیا جاتا ہے اور یہ طعنے دیے جاتے ہیں کہ پتہ نہیں کس منحوس کو گھر لے آئے جس نے ہمارے خاندان کو ایک چشم وچراغ تک نہیں دیا؟ ایک وارث اور عود جلانے والا تک نہیں دیا، اس سے بہتر تو یہ ہوتا کہ اولاد ہی نہ ہوتی تو کچھ غم نہ ہوتا اور یہاں صرف لڑکیاں ہی لڑکیاں ہیں، انہیں کون پالے؟ او رکون ان کی شادیاں کروائے، وغیرہ، بعض نادان ایسے بھی ہیں جو عاملوں کی کہی باتوں کو ایسا یقینی سمجھتے ہیں کہ وہ جو کہہ دے وہ ضرور ہو کر رہے گا، چناں چہ اس سلسلہ میں ایک رپورٹ کے حوالہ سے عرض ہے کہ ایک ساس صرف اسی وجہ سے کہ بہو کوپہلا لڑکا پیدا ہو عامل کی دی ہوئی اگر بتی سے اپنی بہو کے پیٹ کو داغا کرتی تھی اور او رتکلیف کے اظہار پر کہتی کہ ایسا کرنے سے اثر ختم ہو جائے گا اور عامل صاحب نے بتایا کہ عمل لڑکے کی ولادت کے حوالہ سے مؤثر ہے، مگر بہ تقدیر الہٰی اس عورت کے لڑکی پیدا ہو گئی، چناں چہ اس ظالم صفت ساس اور وحشی شوہر نے مل کر اس خاتون کو لڑکی پیدا ہونے کی پاداش میں قتل کر دیا جس کے خون میں اسی کی بچی لت پت ہو گئی ۔( العیاذ بالله) (بحوالہ ، منصف ابوایمل کی رپورٹ، آینہ شہر ایڈیشن)
کیا یہ تو ہم پرستی وبد اعتمادی کی حد نہیں ہے؟ عامل کی بات پر ایک بے چاری کو تکلیف در تکلیف دینا اور تقدیر سے راضی نہ ہو کر اس نعمت کو اپنے لیے باعث عیب سمجھنا ، اولاد کے حوالے سے سسرال والوں کا لڑکی کو ہراساں کرنا ۔اس کو سمجھنے کے لیے ہم اس بحث کو اس طرز پر تقسیم کر رہے ہیں : 1..صرف لڑکیاں ہوں تو بھی قصور عورت کا۔2.. صرف لڑکے ہوں تو بھی یہی رویہ۔ 3..اولاد پیدا ہو کر مر جائے یا مردہ پیدا ہو اور اولاد زندہ نہ رہتی ہو تو بھی قصور عورت ہی کا، آپ خود فیصلہ کریں کہ بھلا اس میں عورت کا کیا قصور ہے؟
آئیے! اس بحث کو قدرے تفصیل سے قرآن وسنت کی روشنی میں سمجھتے ہوئے اپنے معاشرہ کا جائزہ لیں، جہاں تک لڑکی کی پیدائش کا معاملہ ہے، اس سلسلے میں یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ بعض لوگ نادانی، جہالت اور عیش وعشرت کی وجہ سے، مختلف خود ساختہ وہمی اسباب کی بنا پر، مختلف زمانوں میں اس صنفِ نازک کی پیدائش کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے رہے ہیں، کبھی تو فقر وفاقہ اور تنگ دستی کے خوف سے او رکبھی ذلت وعار اور شرم کی وجہ سے اس معصوم کو قتل سے لے کر زندہ درگور کرنے تک پہنچا دیا اسلام نے اس فعل کو بہت ہی سخت انداز میں حرام قرار دے کر آج سے چودہ سو سال پہلے ہی سے ”بیٹی بچاؤ تحریک“ چلا رکھی ہے، چناں چہ قرآن کریم میں اس امر پر عرب دورِ جاہلیت کے دو نقشے پیش کیے گئے ہیں، ایک جگہ فرمایا گیا: ” جب ان میں سے کسی کو بیٹی کی پیدائش کی خوش خبری سنائی جاتی تو اس کے چہرے پر افسردگی چھا جاتی اور وہ بس خون کا گھونٹ پی کر رہ جاتا تھا اور وہ لوگوں سے چھپتا پھرتا تھا، کہ اس بری خبر کے بعد کسی کو منھ کیسے دکھائے گا؟ وہ سوچتا ہے کہ اس کو ذلت کے ساتھ اپنے ساتھ رکھے یا مٹی میں دبا دے، خوب سن لو ! ان لوگوں کی تجویز بہت بری ہے۔ “ (النحل:89)
دوسری جگہ اس فعل پر اظہارِ ناراضگی کا یہ اُسلوب اختیار کیا گیا ہے، ” اس وقت کو یاد کرو جب کہ زندہ درگور کی ہوئی لڑکی سے سوال کیا جائے گا کہ کس گناہ کی پاداش میں اس کو قتل کیا گیا؟“ (التکویر:9-8)
اس آیت کے انداز میں ایسی شدید غضب ناکی پائی جارہی ہے، جس سے زیادہ سخت غضب ناکی کا تصویر نہیں کیا جاسکتا، قیامت کے دن بیٹی کو زندہ درگور کرنے والے ماں باپ الله کی نگاہ میں ایسے قابل نفرت ہوں گے کہ الله تعالیٰ ان سے بات چیت تک نہ کریں گے، حالاں کہ قیامت کے دن الله تعالیٰ ہر ایک ظالم وجابر سے خود ہی پوچھا تاچھ کریں گے، لیکن بیٹیوں کے دفن کرنے والوں سے ناراض اور شدید غصہ میں ہوں گے کہ ان سے گفت گو بھی گوارہ نہ فرمائیں گے اور نہ ان کو مخاطب کرکے یہ معلوم کیا جائے گا کہ تم نے اس معصوم بچی کو کیوں قتل کیا تھا؟ بلکہ ان منحوس اور خطرناک مجرم والدین سے نگاہ پھیر کر اسی معصوم بچی سے پوچھا جائے گا کہ تو ہی بتا کہ کس جرم اور قصور میں تو ماری گئی تھی؟ اور وہ معصوم لڑکی اپنی داستان سنائے گی کہ ظالم والدین نے اس کے ساتھ کیا کیا ظلم کیا تھا؟ نیز اس کے ساتھ کس درندگی وبربریت کا سلوک کیا تھا؟
لڑکیوں کے ساتھ مذکورہ سلوک اس عہد کا ہے جس کو دورِ جاہلیت کہا جاتا ہے ، مگر افسوس کہ آج کا دور، جو عہد جدید، علوم وفنون اور سائنس وٹیکنالوجی کا دور کہلایا جاتا ہے، اس میں بھی پھر سے وہی جاہلانہ توہمات، نامعلوم افکار وخیالات اور صنفِ نازک کی تحقیر وتذلیل کے ظالمانہ افعال پوری دنیا میں بڑے زور وشور سے نمودار ہو رہے ہیں، عورت کو دنیا میں آنے سے پہلے ہی نت نئے طریقوں سے قتل کیا جارہا ہے اور دنیا میں آنے کے بعد بھی اس کو بظاہر زندہ رکھ کر ایک بار نہیں، ہزاروں بار قتل کیا جارہا ہے ، دنیا میں آنے کے بعد عورت کو صرف جسمانی عیاشی اور لطف اندوزی کا سامان تصور کیا جارہا ہے، اس کی عصمت وعفت کو نئے نئے انداز میں تار تار کیا جارہا ہے، مادی سامان کی طرح اس کی بھی خریدوفروخت کی جارہی ہے اور یہ سب کچھ مساوات اور برابری کے نام پر اسلام دشمن طاقتوں کی زیر سرپرستی ہو رہا ہے ۔
عورت کو اس کے حقیقی مقام سے گرا کر اس کی ایسی تحقیر وتذلیل کی جارہی ہے، جس سے انسانیت کی آنکھیں شرم سار ہو جائیں، ان کو اخلاقی بگاڑ، بے راہ روی او راپنے مفادات کے حصول کے لیے بطور آلہ کے استعمال کیا جارہا ہے ، در حقیقت یہ انسانی نہیں، بلکہ شیطانی فکر وسوچ ہے کہ بیٹیوں کے مقابلے میں بیٹے زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔
جب کہ اسلام نے بیٹیوں کو زیادہ بابرکت قرار دیا ہے اور بہترین تربیت کرنے کی صورت میں حصول جنت کا آسان ذریعہ بتایا ہے، ان گنت احکام وارشادات سے بیٹیوں کی صحیح تربیت اور دینی منہج پر ان کی پرورش کے بے شما رفضائل بیان کیے گئے ہیں ، چناں چہ آقائے مدنی، نبیٴ رحمت صلی الله علیہ وسلم ( جو خود چار بیٹیوں کے باپ ہیں) نے اپنے طرزِ عمل اور قولی ارشادات کے ذریعہ اپنی اُمّت کو اس معاملہ میں ترغیباً وتشویقاً فضائل کے ذریعہ ابھارا ہے۔
ایک حدیث میں فرمایا کہ جو شخص بیٹیوں میں مبتلا ہو جائے اور پھر وہ ان پر صبر کرے تو وہ بیٹیاں اس کے لیے دوزخ کی آگ کے آگے حجاب ہوں گی۔ (ترمذی) ایک روایت میں ہے کہ میری امّت میں جس نے بھی تین بیٹیوں یا تین بہنوں کی پرورش کی او ران کے ساتھ اچھائی سے پیش آیا تو یہ اس کے لیے آتشِ دوزخ کے آگے حجاب ہوں گی ۔( بیہقی) ایک اور حدیث میں ہے کہ جس کے ہاں لڑکی پیدا ہو اور اس نے لڑکی کو زندہ در گور نہ کیا، اس کی توہین نہ کی اور اپنے لڑکوں کو اس پر ترجیح نہ دی تو الله تعالیٰ اسے ضرور جنت میں داخل کریں گے ۔ ( ابوداؤد)
لڑکی کے ساتھ احسان اور حسن سلوک عظیم صدقہ ہے۔ چناں چہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا، اے سراقہ! کیا میں تمہیں ایک عظیم صدقہ کے بارے میں نہ بتاؤں؟ بلاشبہ بیٹی کے ساتھ احسان وحسن سلوک ایسا عظیم صدقہ ہے جو تمہیں پر لوٹا دیا جائے گا، کیوں کہ تمہارے علاوہ اس کا کوئی کمانے والا نہیں ہے۔ ( احمد) (جاری)