Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الثانی 1435ھ

ہ رسالہ

9 - 15
ایک مشہور بے سند روایت ایک بَدّو کے آپ صلى الله عليه وسلم سے چوبیس سوالات


مفتی طارق امیر خان
متخصص فی علوم الحدیث، جامعہ فاروقیہ کراچی

ابو العباس جعفر بن محمدبن المعتزبن محمد بن المستغفرالنسفی المستغفری،خطیب نَسَف:
علامہ سَمْعانی  موصوف کے بارے میں الأنساب (الأنساب: باب المیم والسین، 5/170، رقم:9851، ت:محمد عبد القادر عطا، دار الکتب العلمیةبیروت،الطبعة الأولی 1419ھ․) میں لکھتے ہیں:

”ابو العباس نَسَف کے خطیب تھے،آپ فقیہ، فاضل،بہت زیادہ احادیث بیان کرنے والے اور صدوق تھے،فہم اور معرفة واتقان کا مرجع تھے،بہت سے علوم کے جامع اور اچھی تصنیف وتالیف سے آراستہ تھے۔

آپ خراسان تشریف لے گئے، اس کے بعد مَرْوَ اور سَرَخْسَ میں ایک عرصہ قیام پذیر رہے،جہاں ابو علی زاہر بن احمد سَرَخْسِی سے خوب احادیث حاصل کیں اور موصوف سَرَخْس سے آگے نہیں گئے…ابو العباس المستغفِری کے زمانے میں علاقہ ما وَرَاء النہر میں، تصنیف وتالیف اور فہمِ حدیث میں آپ کا کوئی ثانی نہیں تھا،آپ کی پیدائش 350ھ اور وفات اواخر جمادی الأولی 432ھ میں ہوئی ہے اور میں (علامہ سَمْعانی )نے نَسَف میں وادی کے کنارے ان کی قبر دیکھی ہے“۔

ابو حامد المصری:
اس روایت کے مطابق موصوف حافظ ابو العباس المستغفری  کے شیخ ہیں،لیکن تلاش بسیار کے باوجود موصوف کے حالات کتب رجال وغیرہ میں معلوم نہیں ہوسکے۔

سند کی تحقیق
سند کا یہ اجمالی خاکہ ملحوظ رہے، تاکہ آئندہ کی تفصیل آسانی سے سمجھ میں آسکے:
امام سُیوطِی (المولود849 ھ -المتوفی 911ھ…)شمس الدین ابن القماح(المولود656ھ - المتوفی 741ھ…)ابوالعباس المستغفری (المولود بعد 350ھ-المتوفی 432ھ)․ابوحامد المصری (ابو العباس المستغفری  کے شیخ…)حضرت خالد بن الولید (المتوفی21ھ)

امام سُیوطِی اور شمس الدین ابن القماح کے مابین سند
اب ہم سند کا جائزہ لیتے ہیں، امام سُیوطِی کی تاریخ پیدائش (849ھ) ہے اور آپ یہ روایت شمس الدین ابن القماح کے”مجموعے “ سے نقل کررہے ہیں، جن کی تاریخ وفات (741ھ) ہے،ظاہر ہے کہ علامہ سُیوطِی  کی شمس الدین ابن القماح سے حدیث کی سماعت نہیں ہے، صرف ”مجمو عہ “ سے بلاسماعت، حدیث ذکر کی ہے،بالفاظِ دیگر امام سُیوطِی اور شمس الدین ابن القماح کے درمیان اتصال نہیں ہے،یہ بھی واضح رہے کہ اگرچہ کسی کتا ب کی شہرت کے بعد، صاحب کتاب تک بعد والوں کی سندکا متصل ہونا ضروری نہیں رہتا،لیکن مذکورہ سند میں جس ”مجموعہ“ کا ذکر ہے،وہ شہرت کے اس مرتبے سے یکسر خالی ہے؛اس لیے یہاں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ صاحب کتاب تک سند کی ضرورت نہیں ہے۔

شمس الدین ابن القماح اور ابو العباس المستغفری کے مابین سند
شمس الدین ابن القماح، جن کی تاریخ پیدائش (656ھ) ہے، وہ ابوالعباس المستغفری  سے ”عنعنہ“(یعنی صیغہٴ عن کے ساتھ روایت نقل کی ہے،سماعتِ حدیث کی وضاحت نہیں کی ہے) کے ساتھ روایت نقل کررہے ہیں، ابوالعباس المستغفری  کی وفات (432ھ) ہے، ثابت ہوا کہ شمس الدین ابن القماح اور ابوالعباس المستغفری کے مابین دو صدی سے زائد تک سند منقطع ہے۔سند میں مذکور ابوالعباس المستغفری  (المولود بعد 350ھ) کے شیخ ابوحامد المصری  کا ترجمہ کتبِ رجال میں نہیں ملتا۔

ابو حامد مصری اور حضرت خالد  بن ولیدکے مابین سند
مذکورہ سند میں اگرچہ یہ لکھا گیا ہے کہ ابوحامد المصری نے اپنے شیخ سے حضرت خالد بن ولید(المتوفی21ھ) تک کی سندکے ساتھ یہ روایت بیان کی،لیکن سند کے راویوں کو عملاً ذکر نہیں کیا گیااور ظاہر ہے کہ صرف سند کا تذکرہ ہی ثبوت حدیث کے لیے کافی نہیں ہے،بلکہ حدیث کا ثبوت یاعدم ثبوت سند کے راویوں پر موقوف ہوتا ہے،جس سے یہ روایت ابو حامد مصری سے خالد بن ولید تک خالی ہے۔

سند کا خلاصہ
خلاصہٴ سند یہ رہا کہ شمس الدین ابن القماح (المولود 656 ھ المتوفی 741ھ) اور خالد بن الولید (المتوفی 21ھ ) تک صرف دو راویوں کا نام صراحتاً ذکر کیا گیا ہے، ایک ابوالعباس المستغفری (المولود بعد350ھ - المتوفی 432ھ)، دوسرے ابوحامد المصری، جن کا ترجمہ بھی کتب رجال میں نہیں ملتا، ان کے علاوہ سند میں کسی کا نام مذکور نہیں ہے اور احادیث میں صحت وسقم کا معیار، سند کے راوی ہوتے ہیں، جن کے بارے میں ائمہ جرح وتعدیل کے اَقوال اور فنی تفصیلات کو سامنے رکھ کر، ردّ وقبول کا مرحلہ طے کیا جاتا ہے،اس لیے اس حدیث کے ثبوت کے لیے مذکورہ سند بالکل کافی نہیں ہے۔

ایک اہم نکتے کی وضاحت
زیرِ بحث قصے میں ہے کہ ابو العباس المستغفری  نے ابو حامد المصری سے یہ حدیث مصر میں حاصل کی ہے،حالاں کہ علامہ سَمْعانی  کا قول ماقبل میں گذر چکا ہے کہ ابو العباس المستغفری  نَسَف کے خطیب تھے،اس کے بعد مَرو اور سَرَخْس تک تشریف لائے ہیں، لیکن سَرَخْس سے آگے آپ نہیں گئے، بہرحال علامہ سَمْعانی  کی مذکورہ تصریح، اس روایت کے بالکل متضاد ہے، جس سے اس روایت کا ساقط الاعتبار ہونا اور بھی موٴکد ہو جاتا ہے۔

روایت کا فنی مقام اور حکم
آپ تفصیل سے جان چکے ہیں کہ زیر بحث روایت کی سند ہی ثابت نہیں ہے؛کیوں کہ پوری سند میں صرف دو راویوں کا نام مذکورہے، جن میں ایک کا ذکر ہی کتب رجال وغیرہ میں نہیں ملتا، جب کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی طرف صرف ایسا کلام ہی منسوب ہوسکتا ہے، جو پایہٴ ثبوت تک پہنچ چکا ہو، بصورت دیگر روایت قابل التفات وبیان نہیں رہتی،چناں چہ شیخ عبدالفَتَّاح ابوغُدّہ ”المَصْنُوع في معرفة الحدیث الموضوع للعلامة علي القاري“( المصنوع: شذرات في بیان بعض الإصطلاحات، ص: 18،ت:الشیخ عبد الفَتَّاح أبو غُدَّة،ایچ ایم سعید کمپنی کراچی․) کے مقدمہ میں لکھتے ہیں:

”…اور جب حدیث کی سند ہی نہ ہو، تو وہ بے قیمت، غیر قابل التفات ہے؛کیوں کہ ہماری جانب ہمارے آقا رسول اللہ صلّی الله علیہ وسلّم کے کلام کو نقل کرنے میں اعتماد صرف اسی سند پر ہو سکتا ہے، جو صحیح سند سے ثابت ہو، یا جو اس کے قائم مقام ہواور جو حدیث ایسی نہ ہو تو وہ بے قیمت ہے“۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ روایت کسی” معتبر سند “سے ثابت نہیں ہے؛اس لیے اسے آپ صلّی الله علیہ وسلّم کی طرف منسوب کرکے بیان کرنا درست نہیں ہے۔

زیرِ بحث روایت کا ایک غلط انتساب اور اس کا سبب
واضح رہے کہ زیرِ بحث روایت بعض کتابوں میں ”مسند أحمد“ کی طرف منسوب کرکے لکھی گئی ہے، لیکن یہ نسبت بالکل غلط ہے؛کیوں کہ مسند احمد میں مسند خالد بن الولید(مسند أحمد: مسند خالد بن الولید: 5/746، رقم: 16935-16948، عالم الکتب بیروت، الطبعة الأولی 1419ھ․) کے تحت کل 14 روایتیں ہیں، (16935سے 16948تک)جن میں اس روایت کا کوئی ذکر نہیں، صرف یہی نہیں، بلکہ مسانید، سنن، معاجم، غرضیکہ ہماری جستجو کے مطابق متونِ حدیث اور اجزائے حدیثیہ میں کہیں بھی یہ روایت مسنداً موجود نہیں ہے، صرف امام سُیوطِی کے حوالہ سے اس روایت کا ذکر ملتا ہے، جس کی تفصیل گزر چکی ہے۔

ہمارے ایک محترم ساتھی مولانا اسد اللہ صاحب نے اس غلط انتساب کا سبب یہ بیان کیا ہے کہ ”کنزالعمال“،”منتخب مسند أحمد“ کے بعض نسخوں میں اس کے حاشیہ پرچھپی ہے،چناں چہ ”کنز العُمَّال“کی ایسی کئی اَحادیث ہیں،جو ”مسند أحمد“ کی جانب منسوب ہوتی رہی ہیں،ممکن ہے کہ ”کنزالعُمَّال“کی زیرِ بحث روایت بھی اسی وجہ سے ”مسند أحمد“کی جانب منسوب ہوئی ہواور بظاہر یہی وجہ ہے، بعض کتابوں میں اس حدیث کے حوالے میں(کنزالعُمَّال،مسند أحمد)یعنی دونوں حوالوں کو ایک ساتھ لکھا گیا ہے، واللہ اعلم!

Flag Counter