Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الثانی 1435ھ

ہ رسالہ

2 - 15
الرّزاق جل جلالہ

ڈاکٹر محمد اشرف کھوکھر
	
اگرچہ زمانہ تخلیق کو ناپنے کا کوئی آلہ موجود نہیں ہے، تاہم سائنس دانوں کی قیاس آرائی کے مطابق انسان کو اپنی موجودہ شکل وصورت میں اس کرہٴ ارض پر وجود میں آئے تقریباً دس ہزار سال گزرے ہیں ، وہ شروع دن سے خوراک، مکان اورتلاش رزق میں صحرانوردی کی زندگی بسر کرتا رہا اورجب بھی حصولِ ر زق کی راہ میں کوئی رکاوٹ حائل ہوئی اس نے انسانی خون بہانے سے دریغ نہیں کیا۔

اس صورت حال کا ذکر قرآنمجید میں الله رب العزت اور فرشتوں کے مابین مکالمے کے انداز میں موجود ہے ۔ تخلیق انسان کے بارے میں فرشتوں نے دریافت کیا تھا کہ:

اے رب العالمین! کیا تو ایک ایسی ہستی کو پیدا کرنا چاہتا ہے جو کرہ ارض پر ہر روز ایک نیا ہنگامہ کھڑا کرے گی اور خون بہانے سے باز نہیں آئے گی؟ (سورہٴ بقرہ)

یہاں ہمارا مقصود تخلیق انسان کی تشریح نہیں ہے ،بلکہ ”الرزاق جل جلالہ“ رزق اور حصول رزق کی تگ ودو، جستجو، کوشش، جہد مسلسل کے بارے میں اپنی کم علمی کے اعتراف کے ساتھ تحریر کرنا ہے۔

الله رب العزت نے بے شمار مخلوقات کو پیدا فرمایا او رانسان کو اشرف المخلوقات پیدا فرمایا ،انسان کو کرہٴ ارض پر بھیجنے سے پہلے ”الرزاق جل جلالہ“ نے فراہمی رزق کا انتظام فرما دیا، مختلف انواع واقسام کے رزق، اناج، غلے، پھل اور میوہ جات سب کے سب نہ صرف انسان کے لیے، بلکہ بے شمار دیگر مخلوقات کے لیے ان کی فطرت کے مطابق رزق کی فراہمی کے اسباب کے بہترین انتظامات فرمائے ہیں۔ بچہ ابھی شکم مادر میں نہیں آیا ہوتا کہ الرزاق جل جلالہ، غذا، خوراک اور رزق کا انتظام پہلے سے کرچکا ہوتا ہے ۔ بحکم خالق جب بچہ کی پیدائش ہو جاتی ہے تومادر مہربان کے سینے میں اس کی فطری ضرورت کے مطابق دودھ کی نہریں ننھے منے بچے کو بہترین رزق فراہم کرتی ہیں ،جب ذرا بڑا ہوتا ہے ماں باپ کی شفقتوں، محبتوں اور مروتوں کے ذریعے سے الرزاق جل جلالہ غذا اور خوراک اور رزق کا بہترین انتظام فرما دیتا ہے ۔ ہرن کے بچے کو دیکھیے! پیدائش سے تھوڑے سے وقفے کے بعد اپنی ماں کے تھنوں سے دودھ پینا شروع کر دیتا ہے۔ الله رب العزت نے اسے کیسی من موہنی جبلی خصوصیات سے نوازا ہے ؟اسی طرح دیگر حیوانات کا معاملہ ہے۔

الرزاق جل جلالہ ہی اپنی مخلوقات کی رزق کا ذمہ دار او راپنے فضل واحسان کے طور پر اپنے بندوں تک رزق پہنچانے کے اسباب پیدا کرنے والا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے﴿ان الله ھو الرزاق ذوالقوة المتین﴾․ (الذاریات:57)
ترجمہ :” الله تعالیٰ تو خود ہی سب کو روزی پہنچانے والا ہے اور قوت والا ،مضبوط ہے ۔“

ندی، نالوں، دریاؤں او رسمندروں کی سطح آب سے آفتاب کی تمازت سے بخارات کا اُٹھنا، ہوا کے دوش پر سوار ہو کر بادلوں کی شکل اختیار کرنا ، بحکم خدا متوازن فطرت بارش کے ذریعہ زمین پر رحمت خدا وندی کا برسنا اورپھر زمین کے خزانوں کا اگلنا، ایک بیج سے کونپل، کونپل سے پودا اور پودے سے پھول او رپھل یہ سب کا سب الرزاق جل جلالہ کے فراہمی رزق کے اسباب ہی تو ہیں۔ ” بے شک الله بہترین رزق دینے والا ہے۔“

جو جان دار جہاں ہے، جس فطری ماحول میں ہے، الرزاق جل جلالہ نے فراہمی رزق کے اسباب بھی ویسے ہی پیدا کر دیے ہیں ، مچھلی کو اپنے فطری ماحول پانی میں رزق مہیا کرنے کے اسباب پیدا فرما دیے ہیں ، اس طرح زیر زمین رہنے والے کیڑے کو زمین کی تہوں سے رزق فراہم ہوتا ہے اور اگر ایک کیڑا پہاڑ کی چوٹی میں برف کے اندر موجود ہوتا ہے تو ”الرزاق جل جلالہ“ اس کو وہاں رزق فراہم کرتا ہے ۔ سبحا ن الله وبحمدہ، سبحان الله العظیم․

الله رب العزت نے حصول رزق کی جبلی خصوصیات تمام جان داروں میں ودیعت کی ہیں، کھانا، پینا، فطری امور میں خالق فطرت نے انسان کو آزاد نہیں چھوڑا ہے ۔ فرمایا ﴿ فطرة الله التی فطر الناس علیھا لا تبدیل لخلق الله﴾․ زندگی کو آسان بنانے کے لیے جن امور پر زندگی موقوف ہے ان کی ہدایت اور راہ نمائی بذریعہ آسمانی ہدایت فرمائی گئی ہے ۔ انسانی حیات کی تعمیر وترقی کے لیے اسلام نے حدود وقیود، کمیت وکیفیت اور حلال وحرام کی تمیز بتائی ہے اور قرآن وسنت کی تعلیمات نے حصول رزق کے جائز طریقوں سے منع نہیں فرمایا،بلکہ ناجائز طریقوں سے حاصل کیے گئے رزق کے استعمال سے نہ صرف منع فرمایا، بلکہ سخت وعیدیں بھی سنائی گئی ہیں، کمیونزم، سوشلزم اوردیگر مذاہب میں حلال وحرام کی بے اعتدالیوں کی وجہ سے اخلاقی دیوالیہ پن واقع ہوا ہے۔

رزق حلال وحرام کی اقسام
1..حرام لذاتہ. 2.. حرام لغیرہ
مثلاً بکری حلال ہے، لیکن اگر کوئی چوری کرکے ذبح کرے اور خود کھائے یا دوسروں کو کھلائے تو وہ حرام ہو گی ،اگرچہ بکری بذات خود حلال ہے۔ لیکن جس ذریعے سے استعمال کی گئی وہ حرام ہے۔ اگر کوئی شخص انتہائی محنت اور مشقت سے کمائی ہوئی رقم سے اشیائے خورد ونوش حاصل کرتا ہے تو اس کے اعمال واخلاق پر مثبت اثر پڑتا ہے۔ رسول خداحضرت محمد صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ”الکاسب حبیب الله “محنت کار الله کا دوست ہوتا ہے ۔“ اگر کوئی ناجائز ذرائع سے مثلاً چوری، ڈاکہ، دھوکہ اورفراڈ کے ذریعے سے کمائی ہوئی دھن دولت سے رزق حا صل کرتا ہے تو یہ سب حرام ہے او را س کے اعتقادات ، اعمال واخلاق،نماز روزہ، حج اور دیگر عبادات پر برا اثر پڑے گا۔ یہ تمام عبادتیں الله رب العزت کے ہاں ناقابل قبول ہوں گی۔ الله رب العزت کی حلال کی ہوئی چیزیں غیر الله کے نام پر ذبح کرکے کھانا بھی حرام کے زمرے میں آتا ہے ۔ شرع متین نے جن چیزوں کو حرام قراردیا ہے تو ان کے حرام کیے جانے کے مختلف اسباب ہو سکتے ہیں۔ مثلاً نجاست کا استعمال ، ایذا رسانی، درندگی۔ مردار کھانے کی وجہ سے جو جانوروں میں گندی اور قبیح عادات واطوار پیدا ہوتے ہیں تو انہیں انسان کے لیے کھانا حرام قرار دیا گیا ہے ،تاکہ انسان کے اخلاق حسنہ متاثر نہ ہوں۔

اسلام چوں کہ مکمل ضابطہ حیات ہے، اس لیے مادہ او رمعدہ پرستی سے منع کرتا ہے ، رزق حلال ،تواضع وانکساری او رمسنون طریقوں سے کھانا پینا باعث اجروثواب ہے۔ اسلام نے رزق حلال کھانے پینے کی ابتدا وانتہا میں الله کے نام کے ساتھ آغاز وانتہا میں مسنون دعائیں سکھلا دی ہیں۔

انسانی صحت او رتن درستی کے لیے اعتدال کو مستحسن کہا گیا ہے رسولِ خدا صلى الله عليه وسلم نے فرمایا”خیر الامور اوسطھا“ ہر کام میں میانہ روی مستحسن ہے۔

انسانی صحت اور تن درستی کے لیے اسلام نے رزق حلال کھانے میں حد اعتدال کو ملحوظ رکھنا سکھایا ہے، مثلاً روزہ میں مسلمان الله کی حلال کی ہوئی اشیاء اور رزق کے کھانے پینے سے صرف اور صرف الله کی خوشنودی اور رضاجوئی کے لیے رک جاتا ہے۔

دنیا میں تمام بگاڑ کا سبب حصول رزق میں انسانی حرص کا حد سے تجاوز کرنا قرار دیا جائے تو بے جانہ ہو گا۔ جو لوگ جائز او رناجائز کو ملحوظ رکھے بغیر اپنی تمام صلاحیتوں کو حصول رزق ،زن،زر، زمین کے زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے میں شب وروز مصروف وبے چین ہیں او رجو لوگ حصو لِ رزق حلال میں محنت ومشقت سے کام لیتے ہیں ۔ الله اور اس کے پیارے رسول صلى الله عليه وسلم کی اطاعت وفرماں برداری کرتے ہیں ، ان کے لیے دنیا میں امن وسکون اور صلى الله عليه وسلمخر ت میں اجر ہو گا۔
            بقول مولانا الطاف حسین حالی #
        مشقت کی ذلت جنہوں نے اٹھائی
        جہاں میں ملی ان کو صلى الله عليه وسلمخر بڑائی
        نہال اس گلستان میں جتنے بڑھے ہیں
        ہمیشہ وہ نیچے سے اوپر چڑھے ہیں

کسی بھی فرد ، قوم او رملک کی ترقی وخوش حالی، اقتصادی صلى الله عليه وسلمسودگی کی مرہوں منت ہوتی ہے ،لیکن جہاں ملکی اقتدار پر متمکن اصحاب اقتدار عوام الناس میں مواقع کی فراہمی میں بندر بانٹ کا معاملہ کریں وہاں تعمیر وترقی اور صلاح وفلاح کیسے ممکن ہو ؟ جس پاک سر زمین میں خوانین، جاگیرداروں، وڈیروں اور پدرم سلطان بود کے نعرہ لگانے والوں کی کثرت ہو ،جہاں غریب طبقہ کے محنت کش افراد قوم مذکورہ بالا کے غلام ہوں ۔ جہاں سود، رشوت کا راج ہو ، جہاں مزدور کو مزدوری نہ ملے اور ملے توپوری نہ ملے ۔ حصول رزق حلال کی تگ دو، کوشش او رجہد مسلسل کو سبوتاژ کر دیا جائے، وہ قوم وملت بھلا کیسے ترقی کی اوج ثریا تک پہنچ سکتی ہے ؟

الله رب العزت الرزاق جل جلالہ ہے اور رزق کی فراہمی کا نہ صرف وعدہ کیا ہے،بلکہ فرش خاکی کو رزق حلال سے مزین کر رکھا ہے۔ رہی حصول رزق میں توکل کی بات تو… صرف ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ جانا تو کل نہیں کہلاتا، بلکہ تو کل علی الله کا مطلب یہ ہے کہ #
        توکل کا یہ مطلب ہے کہ خنجر تیز رکھ اپنا
        اور انجام اس کی تیزی کا مقدر کے حوالے کر

اسلام میں حصولِ رزق حلال کو عین عبادت کہا گیا ہے ۔ رسول صلى الله عليه وسلم نے فرمایا ”محنت کا ر الله کا دوست ہوتا ہے“ اور آجر کو اجرت جلد دینے کی تاکید فرمائی ۔مفہوم حدیث ہے” مزدور کی اجرت ادا کر دو اس سے پہلے کہ اس کی پیشانی کا پسینہ خشک ہو۔“

رشوت اور حرام کی مذمت
رشوت ایک ایسا معاوضہ ہے جو کسی بھی عہدہ، منصب، سہولت یا مراعت کے حصول کے لیے صاحبِ اقتدار کو رقم بطور تحفہ یا کسی بھی صورت میں دیا جائے ،جس سے کسی دوسرے فرد یا معاشرہ کا حق غصب ہو ۔ اسلام نے رشوت اور حرام خوری کی شدید مذمت کی ہے ۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ( مفہوم) ”رشوت دینے او رلینے والا دونوں دوزخی ہیں۔“

ملاوٹ
کسی بھی خالص چیز میں کسی ناقص چیز کی ملاوٹ سے سختی سے منع فرمایا ہے ، مثلاً دودھ میں پانی یا پوڈر کی ملاوٹ ، گندم، اناج میں کسی دوسری سستی چیز کی ملاوٹ ، آٹا، دالیں اور دیگر اشیائے خورد ونوش میں ملاوٹ وغیرہ مضرت رساں ہے او رانسانی جانوں سے کھیلنے کے مترادف ہے۔

ذخیرہ اندوزی
اشیائے خورد ونوش کی ذخیرہ اندوزی اور کمیابی اور مصنوعی قلت پیدا کرنے کی غرض سے اس کی فروخت کو روکے رکھنا اور پھر زیادہ نرخ پر بیچنے کو ممنوع قرار دیا ہے، حصول رزق حلال کے لیے جو اصول وضوابط رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے دیے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کسی ایسے کام کی اجرت طلب کرنا ناجائز ہے جوبجائے خود حرام ہے ، مثلاً بت بنانا، شراب بنانا یا کسی حرام چیز کی فروخت پر کسی قیمت کا مطالبہ نہیں ہو سکتا ،اسی طرح سود کا مطالبہ درست نہیں ہو سکتا جوا، قمار بازی اور سٹہ کو حرام قرار دیا گیا ہے ۔

رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ،جس کا مفہوم ہے ” خرید وفروخت کے وقت تم زیادہ قسمیں کھانے سے بچو (مسلم ابوقتادہ)
        متانت جاتی رہتی ہے دیانت جاتی رہتی ہے
        بظاہر فائدہ ہو بھی شرافت جاتی رہتی ہے
        کہا آقا صلى الله عليه وسلم نے جب تم مال کو بیچو، خرید و تم
        زیادہ کھاؤ مت قسمیں کہ برکت جاتی رہتی ہے
                                (اعجاز رحمانی)
دوسری جگہ ارشاد فرمایا:” وہ شخص تنگ دلی سے پاک ہو گیا جس نے زکوٰة دی ، مہمان نوازی کی او رمصیبت میں صدقہ دیا۔“ ( جوامع الکلم)

ہمارے معاشرے میں ، رشوت ، ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی، شراب نوشی ، جوا اور راہ زنی جیسے جرائم بکثرت پائے جاتے ہیں ، جومعاشی اورمعاشرتی اور اقتصادی ترقی میں بہت بڑی رکاوٹ کا باعث ہیں، ان جرائم کے سدِ باب کے لیے آخر موثر اور ٹھوس اقدامات کیوں نہیں کیے جاتے ؟

انتہائی صدمے کی بات ہے کہ ہمارے معاشر ے میں غریب اور مزدور طبقہ کا بری طرح استیصال کیا جاتا ہے ،مثلاً رہائش او رمکانات کی تعمیر کے شعبہ میں کام کرنے والے مزدور اور محنت کشوں کے حقوق غصب کیے جاتے ہیں ،جو اپنے اہل وعیال، ماں باپ اور اپنے آبائی قصبات سے ہزاروں کلو میٹر دور حصول رزق حلال کے لیے محنت ومشقت کرتے ہیں اور مزدوروں کا حق ان تک ایجنٹس حضرات پہنچنے نہیں دیتے یا فلاحی کمیٹیوں کے نام پر چندہ بٹورنے والے حضرات مزدوروں سے کسی طرح چھین لیتے ہیں ۔ ایک ایسا شخص جو دن رات، گرمی ، سردی، دکھ تکلیف ،مصائب وآلام برداشت کرتے ہوئے دِن بھر مزدوری کرتا ہے او راپنے اہل وعیال پر صرف کرنے کے لیے جمع کرتا ہے او رجب جمع کی ہوئی رقم گھر یا بینک سے وصول کرتا ہے تو چند ڈاکو اس سے رقم چھین لیتے ہیں اور کسی کے سامنے اظہار صدمہ کرنے سے جان سے مار ڈالنے کی دھمکیاں بھی دیتے ہیں اور وہ محنت کش نیم پاگل ہو جاتا ہے ۔ کتنی بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ رزق حلال کمانے والے کے ساتھ اس طرح کا ظلم وزیادتی ہو اور ہمارے حکم ران سب اچھا ہے کہ گن گاتے ہیں ۔ آخر اس ظلم وزیادتی کا ذمہ دار کون ہے، کوئی ایک فرد ، معاشرہ یا اصحاب اقتدار؟ ان میں سے کوئی بھی ذمہ دار ہو، بہرحال اس حقیقت سے کوئی انکارنہیں کر سکتا کہ محنت کشوں ، مزدوروں اور رزق حلال کمانے والوں کے ساتھ بہت بڑا ظلم ہے ،دینی، اخلاقی ، معاشی ، معاشرتی اور اقتصادی لحاظ سے نسل نو کی تعمیر وترقی میں رزق حلال کو بنیادی حیثیت حاصل ہے ۔ حرام رزق کے استعما ل سے دریغ نہ کرنے والے والدین کی اولاد کے رگ وریشہ میں حرام سرایت کر جاتا ہے تو وہ اولاد بھلا کیسے دینی ، ملکی ، اخلاقی، معاشی ، معاشرتی لحاظ سے تعمیر وترقی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے سکتی ہے ؟

روح کی بالیدگی رزق حلال کی مرہوں منت ہے ، رزق حلال کے استعمال ہی سے اخلاق حسنہ پروان چڑھتے ہیں۔ ہاں !الله رب العزت نے انسانی جسم وجان کی بالیدگی اور نشو ونما کے لیے بے شمار رزق حلال پیدا فرمایا ہے ،وہاں روح کی بالیدگی کا بھی انتظام فرمایا ہے، روح کی ترقی پر انسانیت کی تعمیر وترقی کا دارو مدار ہے ، اس لیے ”الرزاق جل جلالہ“ آسمانی تعلیمات کو ماضی میں وقتاً فوقتاً پہنچاتا رہا ہے ۔ انبیا علیہم السلام کے ذریعے روشن تعلیمات نازل ہوتی رہیں یہاں تک کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر انبیا ورسل کا سلسلہ ختم فرمایا اور دین اسلام مکمل ہو گیا۔ اب ساری انسانیت کی تعمیر وترقی، کام یابی اور کامرانی آپ صلی الله علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین پر عمل پیرا ہونے میں مضمر ہے، حصول رزق حلال کے بارے میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:

اے لوگو! جو چیزیں جنت سے قریب اور دوزخ سے دور کرنے والی ہیں وہ تمہیں بتاچکا ہوں او ران چیزوں کی بھی نشان دہی کر چکا ہوں جو جنت سے دور اور دوزخ سے قریب کرنے والی ہیں ، جبرائیل علیہ السلام نے مجھے خبردی ہے کہ کوئی انسان اس وقت تک نہیں مرے گا جب تک وہ اپنے حصے کا مقررہ رزق نہ کھالے تو اے لوگو! الله سے ڈرو اور تلاش رزق میں غلط ذرائع استعمال نہ کرو۔

ایسا نہ ہو کہ رزق کی تاخیر سے تم گناہ میں مبتلا ہو جاؤ ۔یا درکھو! خدا کے ہاں کی چیزیں اس کی اطاعت اور فرماں برداری ہی سے حاصل ہوتی ہیں۔
                بقول علامہ اقبال مرحوم #
        پرواز ہے دونوں کی ایک فضا میں
        کرگس کا جہاں اور ہے شاہین کا جہاں اور

کرگسہمیشہ مراد کھانے کی عادی ہے ، یہ مرے ہوئے مردار جانور کی بدبو بیسیوں کلو میٹر دور سے سونگھ کر رزق حرام کھانے کے لیے ،گروہ در گروہ، پہنچ جاتی ہے لیکن الله رب العزت نے شاہین کی فطرت میں یہ رکھا ہے کہ وہ شکار زندہ کے بغیر کھاتاہی نہیں ہے۔

جو افراد ِمعاشرہ رزق حرام کھانے کے کسی طرح عادی ہیں یا عادی کر دیے گئے ہیں وہ الله رب العزت کی بارگاہ میں پورے خلوص نیت کے ساتھ توبہ واستغفار کریں۔

الرزاق جل جلالہ ہمیں ، ہماری اولاد، عزیز واقارب او رہماری نسلوں کو رزق حلال واسع عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین !

Flag Counter