کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟
دار الافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
مزارعت سے متعلق چند اہم مسائل
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام ان مسائل سے متعلق کہ :
ہمارے ہاں اکثرلوگ زمین داری او رکھیتی باڑی کا کام کرتے ہیں ، بعض لوگ اپنی زمینیں خود کاشت کرتے ہیں تو وہ فصل پر ہونے والا تمام خرچہ بھی خود برداشت کرتے ہیں ، جب کہ بعض زمین دار اپنی زمینیں خود کاشت نہیں کرتے بلکہ کسی او رکو مزارعت پر دے دیتے ہیں اور مزارعت کا یہ معاملہ کسی معین طریق کار اور شرائط کے مطابق نہیں ہوتا، بلکہ زمین دار اور کاشت کار کا جس بات پر اتفاق ہو گیا دونوں اسی پر چلتے ہیں ، احکامِ شریعت سے ناواقفیت اور جہالت کے عموم کی وجہ سے زمین دار اورکاشت کار کے درمیان طے ہونے والی مزارعت کی بعض صورتیں او ربعض شرائط شریعتِ مطہرہ کے بیان کردہ احکامِ مزارعت سے متصادم ہوا کرتی ہیں جب کہ یہ معاملات سالہا سال سے اسی طرح چلے آرہے ہیں۔
سال کے دوران زمینوں پر کئی قسم کی فصلیں کاشت کی جاتی ہیں ، جن میں سے ہمارے ہاں گندم، مکئی، شفتل، جو، باجرہ، کپاس، چاول، گنا، خربوز،تربوز، کھیرا، ٹماٹر،توری،بھنڈی، کریلا او رگوبھی وغیرہ کی فصل کاشت کی جاتی ہیں۔
امور مطلوبہ یہ ہیں کہ:
1...شریعتِ مطہرہ کی رو سے مزارعت کی جائز وناجائز صورتیں کون کون سی ہیں؟
2...اگر کہیں زمین دار اورکاشت کار کے درمیان مزارعت کی ناجائز صورت کے ساتھ معاملہ طے پا گیا ہو تو شرعاً ان دونوں پر کیا لازم ہے؟
3...ناجائز معاملہ اگر سالہاسال سے چلا آرہا ہو اور بالفرض مذکورہ بالاتمام فصلیں کاشت کی جاچکی ہوں، جب کہ یہ لوگ حساب کتاب بھی محفوظ نہ رکھتے ہوں اور نہ انہیں ذہنی طور پر ان کاشت شدہ فصلوں کی مقدار معلوم ہو تو پھر محصولات کا کیا حکم ہو گا؟
4...اگر مذکورہ بالا سوال میں ان دونوں پر محتاط اندازہ لگانا ضروری ہو اور وہ دونوں اس کے لیے تیار نہ ہوں ، البتہ یہ کہتے ہوں کہ آج کے بعد یہ معاملہ کالعدم ہے اور ہم شریعتِ مطہرہ کے مطابق مزارعت کا معاملہ طے کرنے کے لیے تیار ہیں، تو کیا شریعت ان کو اس بات کی گنجائش دیتی ہے؟
5...احکام ِمزارعت سے جہالت کو کس حد تک عذر شمار کیا جائے گا؟ یا شریعت اسے عذر تسلیم نہیں کرتی؟
6...جہالت اور لاپرواہی کی وجہ سے بعض لوگوں کو تو یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ مذکورہ بالا تمام فصلوں میں عشر یا نصفِ عشر واجب ہے ، جب کہ بعض معلوم ہونے کے باوجود لاپرواہی سے کام لیتے ہیں، تو مذکورہ بالا تمام فصلوں میں عشر یا نصفِ عشر واجب ہے یا نہیں؟
7...کون سی زمینوں میں عشر واجب ہے اور کون سی زمینوں میں نصفِ عشر؟ آسان انداز میں سمجھا دیں تاکہ ہمارے لیے مختلف مقامات کی زمینوں میں از خود عشر یا نصفِ عشر کا فیصلہ کرنا آسان ہو۔
8...اگر کسی شخص نے لاعلمی یا سستی اور لاپرواہی کی وجہ سے سالہاسال سے عشر یا نصفِ عشر ادا نہ کیا ہو تو اس شخص سے متعلق شریعتِ مطہرہ کیا فیصلہ کرتی ہے؟ اور اگر یہ شخص گزشتہ سالوں کا عشرنکالنے کے لیے تیار نہ ہو تو شرعاً دنیا وعقبیٰ میں اس شخص کی کیا سزا ہے ؟ کیا ہم ایسے شخص کے ساتھ تعلقات او راٹھک بیٹھک برقرار رکھیں یاختم کر دیں؟ او راگر وہ آئندہ بھی عشر نکالنے کے لیے تیار ہو جائے سالہائے گزشتہ کے لیے بھی، توسالہائے گزشتہ کا حساب کس طرح کرے؟ کیوں کہ کئی سال گزر چکے ہیں، فصلیں بھی مختلف قسم کی ہوتی ہیں او ران کا کوئی حساب کتاب بھی محفوظ نہیں ہوتا۔
9...عشر کا جائز اور سب سے زیادہ مناسب ومستحق مصرف بتا دیجیے۔
10...اور آخر میں راہ نمائی فرمائیں کہ کاشت کاری کا پیشہ اختیار کرنے کی کوئی فضیلت ہے؟ کا شت کاری اور کاروبار میں سے کس کو ترجیح دینی چاہیے؟ تلک عشرة کاملة دمتم مسرورین وزوجتم حورالعین، آمین․
جواب… سوالات کے جوابات سے قبل تمہید کے طور پر جاننا چاہیے کہ الله تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر اس زمین پر اپنی خلافت سے نوازا ہے اور اس کو ایک محدود دائرے میں آزادیٴ عمل کا اختیار دیا ہے، آزادیٴ عمل کے یہ محدود اختیارات تفویض کردہ ہیں حاصل کردہ نہیں ، انہی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے الله تعالیٰ نے اپنی کائنات میں انسان کو کچھ چیزوں پر تصرف کرنے کا اختیار دیا ہے ، یہ تمام چیزیں جن پر انسان تصرف کرتا ہے الله تعالیٰ کی بخشش اور عطا ہے، چنا ں چہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:﴿وَابْتَغِ فِیْمَا آتَاکَ اللَّہُ الدَّارَ الْآخِرَة﴾․(القصص:77)
ترجمہ:” جو کچھ الله نے تجھے دیا ہے اس کے ذریعہ آخرت کا گھر کمالو۔“
اور ارشاد ہے:﴿وَآتُوہُم مِّن مَّالِ اللَّہِ الَّذِیْ آتَاکُمْ․․․․﴾․(النور:33)
ترجمہ:”اور انہیں الله کے اس مال میں سے دو جو اس نے تم کو عطا کیا ہے ۔“
یہ مال وزر، زمین ، یہ باغ، یہ کھیت وغیرہ الله تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتیں ہیں ، اس لیے انسان پر اس کا شکر بجا لانا ضروری ہے، اسی شکر ِ نعمت کا نام زکوٰة ہے ، جو دین کا اہم رکن ہے اور مالی عبادت بھی۔
زکوٰة اسلام کے اس اقتصادی نظام کا ایک حصہ ہے کہ دولت کا بہاؤ مال داروں سے غریبوں کی طرف رہے ، دولت منجمد ہونے کے بجائے گردش میں رہے، زکوٰة اسلام کے تربیتی نظام کا ایک اہم جزو ہے تاکہ انسان کا دل حبّ ِمال کی نجاست سے پاک وصاف ہو جائے ۔
جس طرح سونے چاندی پر زکوٰة واجب ہے ا سی طرح زمین کی پیداوار پر بھی زکوٰة لازم ہے، اسی کا نام ”عشر“ ہے، قرآن مجید میں ارشاد باری ہے:﴿وَہُوَ الَّذِیْ أَنشَأَ جَنّٰتٍ مَّعْرُوشَاتٍ وَغَیْْرَ مَعْرُوشَاتٍ وَالنَّخْلَ وَالزَّرْعَ مُخْتَلِفاً أُکُلُہُ وَالزَّیْْتُونَ وَالرُّمَّانَ مُتَشَابِہاً وَغَیْْرَ مُتَشَابِہٍ کُلُواْ مِن ثَمَرِہِ إِذَا أَثْمَرَ وَآتُواْ حَقَّہُ یَوْمَ حَصَادِہِ وَلاَ تُسْرِفُواْ إِنَّہُ لاَ یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْن﴾․(الانعام:141)
ترجمہ:” وہ الله ہی ہے جس نے طرح طرح کے باغ ، انگوری باغات اور نخلستان پیدا کیے، کھیتیاں اگائیں، جن سے قسم قسم کے ماکولات حاصل ہوتے ہیں، زیتون او رانار کے درخت پیدا کیے ، جن کے پھل صورت میں مشابہ او رمزے میں مختلف ہوتے ہیں۔ کھاؤان کی پیدا وار جب کہ یہ پھلیں اور الله کا حق ادا کرو جب ان کی فصل کاٹواور حد سے نہ گزرو کہ الله حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔“
مذکورہ آیت میں ﴿وَآتُواْ حَقَّہُ یَوْمَ حَصَادِہ﴾ کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ پیداوار ( گندم، مکئی، شفتل، جو، باجرہ، کپاس، خربوز، تربوز وغیرہ) میں عشر واجب ہے اوراس کے لیے سال کا گزرنا بھی ضروری نہیں، بلکہ جس دن پیداوار حاصل کر لی جائے فوراً اسکا حق ( عشر) ادا کر دیا جائے ۔
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے :﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ أَنفِقُواْ مِن طَیِّبَاتِ مَا کَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَکُم مِّنَ الأَرْضِ وَلاَ تَیَمَّمُواْ الْخَبِیْثَ مِنْہُ تُنفِقُون﴾․(البقرة:267)
ترجمہ:” اے ایمان والو! اپنی کمائی او رہماری عطا کردہ زمین کی پیداوار سے اچھا او رپاکیزہ مال ( میری راہ میں) خرچ کرو ، اس سے خراب اور ردی مال خرچ کرنے کا ارادہ ( بھی) نہ کرو۔“
حدیث شریف میں :”عن عبدالله بن عمر۔ رضی الله عنہما۔ قال : قال النبي صلی الله علیہ وسلم : ” فیما سقت السماء والعیون أوکان عثریاً العشر، وماسقي بالنضح نصف العشر․“ (البخاری ، کتاب الزکوٰة،241،ط، دارالسلام)
ترجمہ:” حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” جو کھیت بارش کے پانی ،چشمے یا تالاب سے سیراب ہوتا ہو اس میں عشر ہے ،اور جو کھیت سیرابی کے سامان (رہٹ،اونٹ وغیرہ) سے سیراب ہوتا ہو اس میں نصفِ عشر ( بیسواں حصہ ) ہے۔“
علامہ شامی رحمہ الله فرضیتِ عشر کے بارے میں فرماتے ہیں:”ثبت ذلک بالکتاب والسنة والإجماع والمعقول“․(رد المحتار، کتاب الزکوة، باب العشر،311/3،ط: رشیدیة)
امام ابوبکر جصاص رازی رحمہ الله نے احکام القرآن میں اس بات پرامت کا اجماع نقل کیا ہے کہ آیت ”واٰتوا حقہ یوم حصادہ“ میں ”عشر“ مراد ہے ( احکام القرآن للجصاص رحمہ الله:16/3، ط: قدیمی)
مذکورہ بالا تمہید کے بعد سوالنامہ میں مذکور جزئیات کے جوابات درج ذیل ہیں:
(1)...مزارعت کی کل سات صورتیں ہیں:
1...زمین اوربیج ایک کے ہوں اور آلاتِ زراعت وعمل دوسرے کے۔
2...زمین ایک کی ہو باقی سب چیزیں دوسرے کی ۔
3...عمل ایک کا ہو باقی سب چیزیں دوسرے کی۔
مذکورہ تین صورتیں مزارعتِ صحیحہ (جائزہ) کی ہیں ، اس کے علاوہ چار صورتیں مزارعتِ فاسدہ کی ہیں جو کہ مندرجہ ذیل ہیں:
1...زمین اور آلاتِ زراعت ایک کی ہوں ، جب کہ بیج اور عمل دوسرے کا۔
2...آلاتِ زراعت اور بیج ایک کے زمین او رعمل دوسرے کا۔
3...آلاتِ زراعت ایک کے باقی سب دوسرے کا۔
4...بیج ایک کا باقی سب دوسرے کا۔
(2)... اگر کاشت کار او رزمین دار کے ،درمیان ناجائز صورت کے ساتھ معاملہ کیا گیا ہو تو ابتداء میں اس کو ختم کرنا یا فساد کا ازالہ ضروری ہو گا ، تاہم اگر اس طرح نہ کیا گیا او رمعاملہ اسی طرح جاری رکھا گیا ، تو بیج جس کی طرف سے تھا، وہ پیداوار کا مالک ہو گا، اگر بیج مالکِ زمین کی طرف سے ہو تو وہ کاشت کار کو اتنی مدت کی محنت کی اجرت ادا کرے گا، او راگر بٹائی دار ( کاشت کار، کی طرف سے ہو تو وہ مالک ِزمین کو اس مدت کا کرایہٴ زمین ادا کرے گا۔
(3)،(4)... اس صورت میں حاصل ہونے والی محصولات تو حلال ہوں گی ، تاہم آئندہ کے لیے ان دونوں پر ضروری ہے کہ صحیح اور جائز معاملہ کا اہتمام کریں ، نیز یہ بھی ضروری ہے کہ محتاط اندازے کے مطابق پیدا وار کی قیمت لگا کر عشر کی ادائیگی کا اہتمام کریں۔
(5)... واضح رہے کہ دارالاسلام میں ہوتے ہوئے زراعت کے ضروری مسائل کا علم حاصل کرنا زراعت کرنے والے مسلمانوں پر لازم ہے اورمسائلِ ضروریہ سے جہالت شرعاً عذر نہیں۔
(6)،(7)...جیسا کہ ماقبل میں ذکر کیا گیا کہ دارالاسلام میں ہوتے ہوئے جہالت شرعاً عذر نہیں، لہٰذا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ ضروری مسائل خواہ کسی بھی باب سے متعلق ہوں ، کی تعلیم حاصل کرے ورنہ خطرہ ہے کہ قیامت کے دن سخت پکڑ ہو گی ۔ باقی یہ تفصیل کہ مذکورہ فصلوں میں عشر یا نصفِ عشر ہے؟ اس کا طریقہ کیا ہے؟ تو اس کے بارے میں قاعدہ یہ ہے کہ سیراب کرنے والے پانی پر اگر محنت یا خرچہ نہیں ہوتا جیسے بارش ، قدرتی چشمہ او رمفت نہر سے ملنے والا پانی وغیرہ تو اس میں پیدا وار کا دسواں ( عشر) حصہ واجب ہے، او راگر پانی پر محنت یا خرچہ ہوتا ہے جیسے کنویں سے بذریعہ ڈول یا بذریعہ رہٹ نکالا گیا پانی ،ٹیوب ویل کا پانی اور وہ نہری پانی جس کا آبیانہ ادا کیا جائے تو اس صورت میں مذکورہ فصلوں کا نیز دیگر فصلوں کا بیسواں (نصف عشر) حصہ ادا کرنا واجب ہے۔
اگر کوئی زمین ایسی ہو کہ عشر والے اور نصف عشر والے ( یعنی دونوں قسم کے ) پانی سے سیراب ہوئی ہو تو اس میں اکثر کا اعتبار کیا جائے گا ، اگر پہلی قسم کا پانی زیادہ استعمال کیا گیا ہو تو دسواں حصہ ( عشر) او راگر دوسری قسم کا پانی زیادہ استعمال کیا گیا ہو تو بیسواں حصہ ( نصفِ عشر) ادا کرنا لازم ہو گا، اور اگر دونوں قسم کا پانی برابر استعمال کیا گیاہو تو آدھی پیداوار کا دسواں (عشر) اور آدھی پیدا وار کا بیسواں ( نصف عشر) حصہ دینا لازم ہو گا۔
(8)...واضح رہے کہ اگر کسی شخص نے لاعلمی یا سستی کی بناء پر عشر یا نصفِ عشر ادا نہ کیا ہو تو شرعاً اس پر گزشتہ سالوں کا عشر یا نصف عشر ادا کرنا لازم ہو گا، او رگزشتہ سالوں کا عشر ادا کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ محتاط اندازے کے مطابق اتنی پیدا وار کی قیمت لگا کر اس کا عشر یا نصفِ عشر ادا کر دیا جائے، البتہ یہ ضروری ہے کہ عشر یا نصفِ عشر ادا کرنے کے لیے پیدا وار کی موجودہ قیمت (یوم الأداء) کا اعتبار کیا جائے او راگر یہ شخص ( جس پر گزشتہ سالوں کا عشر واجب ہے ) مرنے لگے تو وصیت کرنا واجب ہے ۔ اگر مذکورہ شخص گزشتہ سالوں کا عشر یا نصفِ عشر ادا نہیں کرتا تو وہ سخت گہنگار ہے اور قیامت کے دن شدید پکڑ ہو گی ، چناں چہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ: ”من اٰتا الله مالا فلم یؤد زکوٰتہ مُثِّلَ لہ یوم القیامة شجاعاً أقرع لہ ذبیتبان یطوقہ یوم القیامة، ثم یأخذ بلھزمتیہ، یعني: بشدقیہ، ثم یقول: أنا مالک، أنا کنزک․“ (مشکوٰة المصابیح، کتاب الزکوٰة:155/1،ط:قدیمی)
ترجمہ:” جس کو الله تعالیٰ نے مال دیا اور اس نے زکوٰة ادا نہ کی ، تو قیامت کے دن اس کے مال کو بڑا زہریلا گنجا سانپ بناکر اس کی گردن میں لپیٹا جائے گا، پھر وہ اس کے دونوں جبڑے نوچے گا او رکہے گا ” میں ہی تیرا مال ہوں میں ہی تیرا خزانہ ہوں۔“
اس کے علاوہ متعدد احادیثِ مبارکہ میں ایسے شخص کے لیے شدید وعیدیں آئی ہیں۔
باقی ایسے شخص سے قطع تعلقی نہ کی جائے ، حکمت اور بصیرت کے ساتھ اس کو احادیث مبارکہ میں وارد شدہ وعیدیں سنا کر راہِ راست پر لانے کی کوشش کریں ، سختی سے احتراز کیا جاوے، ایسا نہ ہو کہ بغض اور عناد میں آکر زکوٰة کی فرضیت کا انکار کر بیٹھے۔
(9)... عشر کے مستحق او رمصرف وہی لوگ ہیں جو مستحق ِزکوٰة ہیں ، لہٰذا عشر ایسے لوگوں کو دینا ضروری ہے جو مستحقِّ زکوٰة ہوں او رمستحقِّ زکوٰة وہ لوگ ہیں جن کی ملکیت میں ساڑھے باون تولے چاندی یا اتنی مالیت کے بقدر نقد رقم یا اس کے علاوہ دیگرضرورت سے زائد سامان ( جس کی مالیت بقدرِ نصاب ہو ) نہ ہو ، نیز وہ شخص ہاشمی سید بھی نہ ہو، باقی موجود ہ زمانے میں سب سے زیادہ صحیح مصرف طلباء علومِ نبوت ہیں کہ اس میں صدقہ کا بھی اجر ہے اوراشاعتِ دین کا بھی ثواب ہے۔
(10)... واضح رہے کہ زراعت ( کاشتکاری کا نظام) کی فضیلت واہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ الله تعالیٰ نے قرآن مجید میں جہاں کہیں قدرت کی نشانیوں پر غور وفکر کی دعوت دی ہے اس میں اکثر وبیشتر یہی نظام (زراعت) پیش کیا ہے ، چناں چہ ارشادِ ربانی ہے:﴿أَفَرَأَیْْتُم مَّا تَحْرُثُونَ ، أَأَنتُمْ تَزْرَعُونَہُ أَمْ نَحْنُ الزَّارِعُونَ﴾․(الواقعہ:64)
ترجمہ:” اچھا تم نے اس بات پر غور کیا کہ جو تم کاشت کاری کرتے ہو ، اسے تم اگاتے ہو یاہم اگاتے ہیں۔“
اور ارشادِ باری ہے:﴿أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّہَ أَنزَلَ مِنَ السَّمَاء ِ مَاء ً فَأَخْرَجْنَا بِہِ ثَمَرَاتٍ مُّخْتَلِفاً أَلْوَانُہَا﴾․ (الفاطر:27)
ترجمہ:” کیا آپ اس کو نہیں دیکھتے کہ بلاشبہ الله ہی نے آسمان سے پانی برسایا اور پھر ہم ( الله جل وعلا شانہ) ہی نے اس پانی سے مختلف رنگتوں کے پھل نکالے۔“
اور ارشاد ہے:﴿أَوَلَمْ یَرَوْا أَنَّا نَسُوقُ الْمَاء إِلَی الْأَرْضِ الْجُرُزِ فَنُخْرِجُ بِہِ زَرْعاً تَأْکُلُ مِنْہُ أَنْعَامُہُمْ وَأَنفُسُہُمْ أَفَلَا یُبْصِرُون﴾․ (السجدة:27)
ترجمہ:” کیا نہیں دیکھا انہوں نے کہ ہم پہنچاتے ہیں پانی بنجر زمین کی طرف، پھر اس سے فصل اگاتے ہیں ، جس سے ان کے مویشی اور وہ خود کھاتے ہیں تو کیا انہیں دکھائی نہیں دیتا؟۔“
اس کے علاوہ بے شمار آیتیں ہیں جن میں زراعت(کاشت کاری کا نظام) پیش کرکے قدرت کی کارفرمائیوں اور جلوہ آرائیوں پر مضبوط ومستحکم دلیلیں قائم کی گئی ہیں اور ایک غافل انسان کو اس میں غوروفکر کرکے الله تعالیٰ کی ربوبیت اور وحدانیت کی دعوت دی گئی ہے۔
رسولِ پاک صلی الله علیہ وسلم نے بھی مختلف وقتوں میں مختلف پیرایوں میں زراعت کی طرف لوگوں کی توجہ دلائی ہے، چنا ں چہ ایک مرتبہ ارشاد فرمایا:”ماأکل منہ لہ صدقة ،وماسرق منہ لہ صدقة، وماأکل السبع فھولہ صدقة، وما أکلت الطیرفھولہ صدقة، ولا یرزؤہ أحد إلاکان لہ صدقة)․ ( الصحیح لمسلم: کتاب البیوع، باب فضل الزرع، ص:679،ط:دارالسلام)
ترجمہ:”جس قدر کھیتی سے کھایا گیا وہ صدقہ ہے ، جس قدر چوری کیا گیا وہ صدقہ ہے ، جس قدر درندوں نے کھا لیا وہ صدقہ ہے، جس قدر پرندوں نے کھا لیا وہ صدقہ ہے ، غرض جس طرح بھی کمی ہو گئی ہے وہ سب (درخت لگانے والے اور کاشت کار کے لیے) صدقہ ہو گا۔“
ایک اور موقع پر ارشا د فرمایا:”مامن مسلم یغرس غرساً أویزرع زرعاً فیأ کل منہ طیر، أو إنسان، أوبھیمة إلاکان لہ صدقة“․ (فتح الباری ،کتاب الزراعة، 3/5،ط:قدیمی)
ترجمہ:”جو مسلمان درخت لگاتا ہے یا کھیتی کرتا ہے اور اس سے چرند، پرند او رانسان اپنی غذا حاصل کرتا ہے ، تو یہ سب اس کے لیے صدقہ بن جاتا ہے ۔ ( او را س پر اجر وثواب ملتا ہے)۔
علامہ بدر الدین عینی رحمہ الله اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:”وفیہ حصول الأجر للغارس والزارع وإن لم یقصد ذلک، حتی لوغرسہ وباعہ، أوزرعہ وباعہ کان لہ بذلک صدقة؛ لتوسعہ علی الناس في أقواتھم․“( عمدة القاری ، کتاب المزارعة، باب فضل الغرس،220/12، ط: دارالکتب)
ترجمہ:” اس حدیث میں درخت لگانے والے اور کھیتی کرنے والے کے لیے اجر وثواب کا ذکرہے اگرچہ اس کی نیت اس فعل سے ثواب کی نہ ہو ، یہاں تک کہ اگر وہ درخت لگا کر یا کھیتی لگا کر بیچ دے تو یہ بھی اس کے لیے صدقہ ہو گا، کیوں کہ اس کی وجہ سے وہ خلقِ خدا کی روزی میں اضافہ کرنے کا سبب بنتا ہے ۔“
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے فرامین سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ کاشت کار کو صرف فعل زراعت کی وجہ سے ثواب ملتا ہے اس کی نیت ثواب حاصل کرنے کی ہو یا نہ ہو ، کیوں کہ زراعت کرنے سے بہر صورت خلقِ خدا کو فائدہ پہنچتا ہے خواہ کاشت کار فائدہ پہنچانا چاہے یانہ چاہے۔ اصل میں اسلام کی نظرمیں اصل نیکی یہ ہے کہ خلقِ خدا کو فائدہ پہنچے اور جس کام سے خلقِ خدا کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچے گا اس کا کرنے والا اتنا ہی انعام اور ثواب کا مستحق ہو گا، چوں کہ زراعت میں خلقِ خدا کو فائدہ پہنچانے کا عنصر غالب اور نمایاں ہے اس لیے اس کی فضیلت زیادہ ہے۔
زراعت اور کاشتکاری کی فضیلت اس سے بھی معلوم ہوتی ہے کہ داعیٴ انقلاب رسولِ اکرم صلی الله علیہ وسلم نے بنفسِ نفیس مقامِ”جرف“ میں زراعت کی ہے ، چنا ں چہ علامہ سرخسی رحمہ الله فرماتے ہیں:”وأزرع رسول الله بجُرف“․ (المبسوط للسرخسی، کتاب المزارعة 17/12، ط: الغفاریة)
اسلام کی نظر میں اصل صدقہ مخلوقِ خداوندی کو نفع پہنچانا اور رحمت کا ماحول پیدا کرنا ہے اور وسائلِ معیشت تجارت ، زراعت ، صنعت وحرفت میں ارادی وغیرارادی طور پر زراعت میں خلقِ خدا کو زیادہ فائدہ پہنچتا ہے اس لیے بعض علماء نے زراعت (کاشت کاری) کے پیشے کو افضل کہا ہے چنا ں چہ علامہ سرخسی رحمہ الله لکھتے ہیں : ”ولھذا قدم بعض مشایخنا الزراعة علی التجارة؛ لأنہا أعم نفعاً وأکثر صدقة“․ (المبسوط للسرخسی، کتاب المزراعة17/12،ط:دارالکتب)
تاہم بعض دیگر علماء کے نزدیک تجارت افضل ہے، بعض کے نزدیک صنعت وحرفت سب میں افضل ہے ، لیکن اس اختلاف کی اصل وجہ یہ ہے کہ ان میں کسی کی افضیلت نہیں ہے بلکہ حالات ومقامات کے لحاظ سے جہاں زراعت کی ضرورت زیادہ ہو تو وہاں زراعت افضل ہے او رجس مقام اورجس ماحول میں تجارت یا صنعت وحرفت کی ضرورت ہو تو وہاں کے لحاظ سے یہ چیزیں افضل ہیں۔
اصل مقصد خلقِ خدا کو فائدہ پہنچانا او رعام خوشحالی وفارغ البالی کی فضا پیدا کرنا ہے ، جہاں جس پیشہ کے اختیار کرنے سے دوسروں کے مقابلے میں یہ مقصد زیادہ حاصل ہو گا، وہاں کے لیے وہی پیشہ زیادہ افضل واعلیٰ اور موجب ِاجروثواب ہو گا۔
علامہ محمود بدرالدین عینی رحمہ الله فرماتے ہیں: ”وإذا کان کذلک، فینبغي أن یختلف الحال في ذلک باختلاف حاجة الناس ، فحیث کان الناس محتاجین إلی الأقوات أکثر کانت الزراعة أفضل؛ للتوسعة علی الناس ، وحیث کانوا محتاجین إلی التجر لانقطاع الطرق کانت التجارة أفضل، وحیث کانوا محتاحین إلی الصنائع أشد کانت الصناعة أفضل، وھذا أحسن․“ (عمدة القاری،کتاب المزراعة 219/12، ط: دارالکتب)
ترجمہ:”جب افضیلت کا مدار افادیت کی بنا پر ہے تو لوگوں کی ضرورتوں کے لحاظ سے افضیلت میں اختلاف ہو گا ، جہاں لوگوں کے لیے خام مال ( اجناس) کی زیادہ ضرورت ہو گی وہاں کے لیے زراعت افضل ہو گی، اور جہاں کسی وجہ سے تجارت کی زیادہ ضرورت ہو گی وہاں کے لیے تجارت افضل ہو گی، او رجہاں صنعت وحرفت کی زیادہ ضرورت ہوگی وہاں کے لیے صنعت وحرفت زیادہ افضل ہو گی ، مطابقت کی یہی شکل بہتر ہے ۔
معلوم ہوا کہ حالات ومقامات کے اعتبار سے جہاں جس وقت جس چیز کی ضرورت زیادہ ہو اس پیشے کا اختیار کرنا زیادہ باعثِ اجر وثواب ہو گا۔