داڑھی سنت ہے یا واجب؟
مفتی محمد راشد ڈسکوی
رفیق شعبہ تصنیف وتالیف واستاذجامعہ فاروقیہ کراچی
فقہائے شافعیہ رحمہم اللہ کے نزدیک داڑھی کی مقدار اور حکم
شوافع کی مشہور کتاب ”فتح المعین“ میں ہے:
”ویحرم حلق لحیة“․( فتح المعین للدمیاطي، مع إعانة الطالبین، کتاب الحج، فصل في محرمات الإحرام، فرع ذکروا ھنا في اللحیة ونحوھا خصالا مکروھة: 2/340، دار الفکر)
ترجمہ: اور داڑھی کو مونڈنا حرام ہے۔
”تحفة المحتاج“کی شرح”حاشیة الشروانی “میں ہے:
قولہ:(أو یحرم کان خلاف المعتمد إلخ) قال في شرح العباب: فائدة، قال الشیخان: یکرہ حلق اللحیة، واعترضہ ابن الرفعة فيحاشیة الکافیة بأن الشافعي رضي اللہ تعالیٰ عنہ نص في الأم علی التحریم، قال الزرکشي: وکذا الحلیمي في شعب الإیمان، وأستاذہ القفال الشاشي في محاسن الشریعة، وقال الأذرعي: الصواب تحریم حلقھا جملة بغیر علة بھا، کما یفعلہ القندریة․ (حاشیة الشرواني علی تحفة المحتاج، کتاب الأضحیة، فصل في العقیقة:9/376، مطبعہ مصطفی محمد، مصر)
ابن رفعہ کافیہ کے حاشیہ میں فرماتے ہیں کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب الأم میں وضاحت کے ساتھ داڑھی مونڈنے کی حرمت کو بتایا ہے، امام زرکشی اور حلیمی نے شعب الایمان میں اور ان کے استاذ قفال شاشی نے ”محاسن شریعہ“ میں اسی طرح فرمایا ہے۔ اور امام اذرعی نے فرمایا ہے کہ درست بات یہی ہے کہ داڑھی مونڈنا سب کے لیے حرام ہے۔
امام غزالی رحمہ اللہ اپنی شہرہ آفاق کتاب ”احیاء علوم الدین“ میں لکھتے ہیں:
” وقد اختلفوا في ما طال منھا: فقیل: إن قبض الرجل علی لحیتہ، وأخذ ما فضل عن القبضة، فلا بأس، فقد فعلہ ابن عمر وجماعة من التابعین، واستحسنہ الشعبي وابن سیرین، وکرھہ الحسن وقتادة، وقالا: ترکھا عافیة أحب، لقولہ صلی الله علیہ وسلم : ”أعفوا اللحیٰ“ والأمر في ھٰذا قریب إن لم ینتہ إلیٰ تقصیص اللحیة وتدویرھا من الجوانب، فإن الطول المفرط قد یشوہ الخلقة، ویطلق ألسنة المغتابین بالنبذ إلیہ، فلابأس بالاحتراز عنہ علیٰ ھٰذہ النیة۔(إحیاء علوم الدین، کتاب أسرار الطھارة، فصل وفي اللحیة عشر خصال مکروھة وبعضھا أشد:2/452، دار الشعب)
امام غزالی رحمہ اللہ نے احیاء علوم ِ دین میں لکھاہے کہ جب داڑھی لمبی ہو جائے، تواس (کے درپے ہوئے بغیر چھوڑے رکھنے اور اس کی مخصوص حد کے بعد کاٹنے ) میں علماء کا اختلاف ہے، اس بارے میں (یہ بھی ) کہا گیاہے کہ اگر کوئی شخص اپنی داڑھی کو اپنے ہاتھ میں پکڑے اور مٹھی سے باہر رہ جانے والے بالوں کو کاٹ دے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما اور تابعین کی ایک (بڑی) جماعت نے اس طرح کیا ہے، حضرت شعبی اور ابن سیرین رحمہما اللہ نے اس (بات) کو پسند کیا ہے۔اور حضرت حسن اور حضرت قتادہ رحمہما اللہ نے اس کو ناپسند کیا ہے۔جب کہ ان دونوں حضرات سے بھی ایک مٹھی سے زائد کاٹنے کے اقوال منقول ہیں، اس لیے ان دونوں حضرات کی طرف یہ نسبت درست نہیں ہے۔
فقہائے احناف کے نزدیک داڑھی کی مقدار اور حکم
”یحرم علی الرجل قطع لحیتہ“․ (الدر المختار، کتاب الحظر والإباحة)
مرد کے لیے داڑھی کاٹنا حرام ہے۔
اس کی شرح میں خاتمة المحققین علامہ شامی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
”وإعفاء اللحیة أي: الوارد في الصحیحین ترکُھا حتیٰ تکثُر، والسنَّةُ قدرُ القبضة، فما زاد قطعہ“․ (رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الحج، باب الجنایات في الحج: 2/550)
اور داڑھی کو بڑھانے کا جو حکم صحیح البخاری اور صحیح مسلم میں آیا ہے، اس سے مراد داڑھی کو اتنا چھوڑ دینا ہے کہ وہ بڑی ہو جائے اور سنت ایک مٹھی کی مقدار ہے، پس (داڑھی کے)جو (بال) ایک مٹھی سے بڑھ جائیں، انہیں کاٹ دو۔
اور ”قبضہ“ سے مراد ”ایک مٹھی کی مقدار“ ہے اور مٹھی سے مراد ہاتھ کے انگوٹھے کے بغیر چاروں انگلیوں کی مقدار ہے، ملاحظہ ہو:
”فإذا ضم أصابعہ، وجعل إبھامہ علی السبابة، وأدخل رؤوس الأصابع، کما یعقد حسابہ علی ثلاثة وأربعین فھو: القبضة․ فإذا ضم أطراف الأصابع فھي: القبصة․ (فقہ اللغة، الباب التاسع عشر في الحرکات والأشکال والھیئات وضروب من الضرب والرمي، فصل في تفصیل حرکات الید وأشکال وضعہا وتقلیبھا: 1/304، مطبعة المدني، قاھرة)
داڑھی منڈوانے کی حرمت کا قرآن پاک سے ثبوت
حدیث نبوی صلی الله علیہ وسلم درحقیقت قرآنِ پاک کی ہی تفسیر ہے، جب نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے داڑھی منڈوانے کی حرمت ثابت ہو گئی تو یقینا آپ علیہ السلام کے ارشادات قرآن ِ پاک کے حکم کے مخالف نہیں ہو سکتے، لیکن منکرین ِ حدیث اس جگہ یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ہمیں داڑھی منڈانے کی ممانعت قرآن سے دکھاوٴ۔اس سوال کا جواب حضرت مولانا مفتی رشید احمد لدھیانوی صاحب رحمہ اللہ اورحکیم الامت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی صاحب رحمہ اللہ نے بہت خوب دیا ہے، ذیل میں دونوں حضرات کا جواب نقل کیا جاتا ہے:
حضرت مولانا مفتی رشید احمد لدھیانوی صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
” قراآن میں کہاں لکھا ہے کہ صرف قرآن کوہی ماننا ضروری ہے، حدیث کو ماننا ضروری نہیں۔ قرآن تو صاف کہہ رہا ہے: ﴿وما اٰ تٰکم الرسول فخذوہ وما نھٰکم عنہ، فانتھوا﴾․ (: 59) ترجمہ: ”اور رسول تم کو جو کچھ دے دیا کریں ، وہ لے لیا کرو اور جس چیز سے تم کو روک دیں، تم رُک جایا کرو“۔
حقیقت یہ ہے کہ قرآن میں احکام کی تفصیل مذکور نہیں، صرف قواعد وکلیات ہیں، تفصیلی احکام کتبِ حدیث وفقہ میں ہیں، صرف قرآن کا نعرہ لگانے والے نماز کی ایک رکعت بھی قرآن سے ثابت نہیں کر سکتے، اسی طرح زکاة ، روزہ، حج کے بنیادی احکام بھی قرآن میں کہیں مذکور نہیں، لہٰذاان لوگوں کو چاہیے کہ صرف داڑھی کا نہیں، پورے دین کا انکار کر دیں۔ تو یہ کہنا کہ فلاں حکم قرآن سے دکھاوٴ، ایک گم راہ کن فریب کے سوا کچھ نہیں“۔ (اسلام میں داڑھی کی اہمیت، ص: 48، کتاب گھر، کراچی)
حکیم الامت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
” دلائل شرعیہ چار ہیں: کتاب اللہ، حدیثِ رسول، اجماع، قیاس۔ جو امر ان دلائل چارگانہ میں سے کسی ایک سے بھی ثابت ہو، وہ دین میں معتبر ہو گا، ورنہ رد ہے، پس یہ بھی غلطی ہو گی کہ ان چاروں سے تجاوز کیا جائے۔
آج کل ایک غلطی یہ بھی ہو رہی ہے کہ لوگ چاہتے ہیں کہ ہر مسئلے کو قرآن شریف سے ثابت کریں، حالاں کہ دلائل شریعت کے چار ہیں، ان میں سے ایک سے بھی مسئلہ ثابت ہو جائے گا، چناں چہ داڑھی رکھنے کی نسبت بعض کہتے ہیں کہ قرآن شریف سے دلیل لاوٴکہ داڑھی رکھنا فرض ہے۔ اور یہ دلائل کا مطالبہ کرنے والے ایسے حضرات ہیں کہ جن کو خود تحقیق واستدلال ہی سے اصلاً مَس نہیں، ان کو تو چاہیے تھا کہ محض تقلید کرتے علماء کی، قاعدہٴ عقلی ہے کہ جس فن کا جو جاننے والا ہوتا ہے، وہی اس میں دخل دے سکتا ہے اور نہ جاننے والا اگر دخل دے تو اس کو سب ہنستے ہیں، یہ قاعدہ ہر جگہ تو جاری کرتے ہیں، لیکن دین کے اندر ہر شخص مجتہد ہونے کا مدعی ہے اورہر کَس وناکَس اس میں دخل دینے کے لیے تیار ہے، فنِ زراعت کو مثلاً: میں نہیں جانتا۔ تو اگر میں گیہوں بونے کا طریقہ بیان کروں تو جاننے والے کہیں گے کہ تم کیا جانو؟اور تمام عقلاء کے نزدیک جواب کافی سمجھا جائے گا، مگر حیرت ہے کہ دین کے بارے میں اگر علماء بعینہ یہی جواب دیتے ہیں تو ناکافی شمار ہوتا ہے۔
ایک مثال یاد رکھو! فن کے جاننے والے کے سامنے تمہارے مطالبہٴ دلائل کی ایسی مثال ہے کہ ایک شخص کے پاس گھڑی ہے اور وہ بڑی معتبر ہے، تار گھر سے ملی ہوئی ہے اور ایک شخص آفتاب کی طرف رُخ کیے ہوئے کھڑا ہے۔ گھڑی والا کہتا ہے کہ گھڑی کے اعتبار سے آفتاب چھپ گیا ہے اور اس میں ہر گز غلطی کا احتمال نہیں ، دوسرا شخص آفتاب کو دیکھنے والا کہتا ہے کہ آفتاب میرے سامنے ہے، چھپا نہیں اور گھڑی والا اس سے دلیل طلب کرتا ہے اور وہ ہنستا ہے کہ وہ تو کھلی بات ہے، آفتاب نظر کے سامنے ہے، تم اس کی طرف منھ کر کے دیکھو، آفتاب موجود ہے، دلیل کی حاجت نہیں ہے۔
پس جن لوگوں نے دین کے باب میں اپنی عمریں کھپا دی ہیں، ان کا قول معتبر ہو گا، یا ایک لڑکے کا جو آج ہی بالغ ہوا ہے؟ لیکن دین کا بالغ نہیں ہے، مولانا فرماتے ہیں:
خلق اطفال اند زجر مست خدا
نیست بالغ جز رہیدہ از ہوا
بہر حال حساً بالغ ہو یا نہ ہو، روحاً بالغ نہیں ہے، بلکہ حساً بھی ہم کو تو ایسے لوگ بالغ نہیں معلوم ہوتے، اس لیے کہ ظاہر ی علامت بلوغ کی داڑھی تھی اور وہی صفا چٹ ہے، معلوم بھی نہیں ہوتی کہ نکلتی ہے یا نہیں؟
بہر حال ایسے لوگ جن کی یہ حالت ہے کہ علوم ِ دین کی ہوا تک نہیں لگی، وہ دلائل کا مطالبہ کرتے ہیں کہ قرآن شریف سے دلیل لاوٴ۔ میں کہتا ہوں کہ اس سوال کے اندر ایک دعویٰ مضمر ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ اس کے مدعی ہیں کہ شریعت میں قرآن شریف کے سوا کوئی دلیل نہیں ہے، ہم اس دعویٰ پر اول ان سے مطالبہ کرتے ہیں، ہم کو یہ سمجھا دو کہ شریعت میں قرآن شریف ہی دلیل ہے اور کوئی دلیل نہیں ، خود قرآن شریف سے ثابت ہے کہ علاوہ قرآن شریف کے اور بھی دلائل ہیں، (اللہ تعالیٰ) فرماتے ہیں: ﴿وما اٰ تٰکم الرسول فخذوہ وما نھٰکم عنہ، فانتھوا﴾․ (:59) ترجمہ: ”اور رسول تم کو جو کچھ دے دیا کریں ، وہ لے لیا کرو اور جس چیز سے تم کو روک دیں، تم رُک جایا کرو“۔
اس سے صاف معلوم ہوا کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد اگرچہ وہ قرآن نہ ہو، مثل قرآن شریف کے حجت ہے اور کیوں نہ ہو: ﴿وما ینطق عن الھویٰ﴾ آپ کی شان ہے…إلخ“۔ (اشرف الجواب، چودہواں اعتراض: ہر بات کی دلیل قرآن شریف سے طلب کرنا غلطی ہے، ص:341، مکتبہ عمر فاروق ، کراچی)
تاہم نفس داڑھی کا ثبوت، اس کا وجوب اور اس کی مقدار بھی قرآن پاک سے دلالة النص اور اقتضاء النص کے ساتھ ثابت ہے، ملاحظہ ہو:
﴿وإذ ابتلیٰ إبراھیم ربہ بکلمات فأتمھن﴾․ (البقرة:124)
ترجمہ: ”اور جس وقت امتحان لیا حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ان کے پروردگارنے چند باتوں میں اور وہ ان کو پورے طور پر بجا لائے“۔
مفسرین کرام نے اس آیتِ مبارکہ کی بہت سی تفسیریں نقل کی ہیں، ان میں سے ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ ان کلمات سے مراد وہ دس چیزیں ہیں، جنہیں حدیث مبارکہ میں ”فطرت “سے تعبیر کیا گیا ہے۔چناں چہ!
صاحب روح المعانی علامہ آلوسی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
”والکلمات جمع کلمة…والمعنی شدة الاتصال، واختلف فیھا، فقال طاوٴس عن ابن عباس رضی اللہ عنہما: إنھا العشرة التي من الفطرة، المضمضة، والاستنشاق، وقص الشارب، واعفاء اللحیة، والفرق، ونتف الإبط، وتقلیم الأظفار، وحلق العانة، والاستطابة، والختان“․ (روح المعاني،سورة البقرة، رقم الآیة:124، قصة ابتلاء اللہ إبراھیم بکلمات وبیانھا مفصلة:1/373، دار إحیاء التراث العربي، بیروت)
صاحب البحر المحیط علامہ ابو حیان الاندلسی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
” وللمفسرین فیھا أقوال: الأول: رویٰ طاوٴس، عن ابن عباس: إنھا العشرة التي من الفطرة، المضمضة، والاستنشاق، وقص الشارب، واعفاء اللحیة، والفرق، ونتف الإبط، وتقلیم الأظفار، وحلق العانة، والاستطابة، والختان“․وھٰذا قول قتادة․ (تفسیر البحر المحیط، سورة البقرة، رقم الآیة:124:1/ 546، دار الکتب العلمیة)
امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
(قلت): وقریب من ھٰذا ما ثبت في صحیح مسلم عن عائشة رضي اللہ عنہا قالت: قال رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم: ”عشر من الفطرة: قص الشارب، وإعفاء اللحیة، والسواک، واستنشاق الماء، وقص الأظفار، وغسل البراجم، ونتف الإبط، وحلق العانة، وانتقاص الماء“․(تفسیر القرآن العظیم لابن کثیر، سورة البقرة، رقم الآیة: 124،2/49، موٴسسة قرطبة)
داڑھی منڈوانا تغییر لخلق اللہ ہے
اس آیتِ مبارکہ سے داڑھی کا ثبوت اور اسے مطلقاً بڑھاتے رہنے کا ثبوت ہوتا ہے، اس کے علاوہ داڑھی منڈوانے کی حرمت کا ثبوت بھی قرآن پاک سے ملتا ہے،وہ اس طرح کہ داڑھی منڈوانے کو تغییر لخلق اللہ میں داخل کیا گیا ہے اور تغییر لخلق اللہ حرام اور شیطانی فعل ہے، لہٰذا داڑھی منڈانا بھی حرام ہوا اور اس کا ثبوت قرآن مجید میں موجود ہے، ملاحظہ ہو: ﴿وَلَأُضِلَّنَّہُمْ وَلَأُمَنِّیَنَّہُمْ وَلاٰمُرَنَّہُمْ فَلَیُبَتِّکُنَّ اٰذَانَ الأَنْعَامِ وَلاٰمُرَنَّہُمْ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللّہِ وَمَنْ یَتَّخِذِ الشَّیْْطَانَ وَلِیّاً مِّنْ دُونِ اللّٰہِ فَقَدْ خَسِرَخُسْرَاناً مُّبِیْناً﴾(النساء:119)
اورمیں ان کو گم راہ کروں گا اور میں ان کو ہوسیں (آرزوئیں) دلاوٴں گا اور میں ان کو تعلیم دوں گا جس سے چوپاوٴں کے کانوں کو تراشا کریں گے۔ اور میں ان کو تعلیم دوں گا جس سے یہ اللہ کی بنائی ہوئی صورت کو بگاڑا کریں گے۔ اور جوشخص اللہ کو چھوڑ کر شیطان کو اپنا رفیق بنائے گا، وہ صریح نقصان میں واقع ہو گا۔
اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں مفسرینِ کرام نے ﴿وَلاٰمُرَنَّہُمْ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللّہِ﴾کے تحت داڑھی منڈانے کو شمار کیا ہے، ذیل میں چند تفاسیر سے حوالے نقل کیے جاتے ہیں:
بیان القرآن میں ہے:
حکیم الامت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں:
”وقولہ تعالیٰ﴿وَلاٰمُرَنَّہُمْ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللّہِ﴾اس میں داڑھی منڈانا بھی داخل ہے، پس یہ دال ہے اس پر کہ جس طریق میں داڑھی منڈانا شعار ہو ، وہ طریق شیطانی ہے، اگرچہ جہلاء نے اس کا نام قلندریہ رکھا ہے“ ۔ (بیان القرآن، سورة النساء، رقم الآیة:119: 1/410، مکتبہ رحمانیہ ، لاہور)
معارف القرآن میں ہے:
حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب دیوبندی رحمہ الله اس آیت ﴿وَلاٰمُرَنَّہُمْ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللّہِ﴾ کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
”اور میں ان کو (اور بھی) تعلیم دوں گا، جس سے وہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی صورت کو بگاڑا کریں گے (اور یہ اعمالِ فسقیہ میں سے ہے، جیسے داڑھی منڈانا، بدن گدوانا وغیرہ) “۔ (معارف القرآن، سورة النساء، رقم الآیة: 119: 2/549، مکتبہ معارف القرآن، کراچی)
معارف القرآن للکاندہلوی میں ہے:
حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی صاحب رحمہ اللہ اس آیت ﴿وَلاٰمُرَنَّہُمْ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللّہِ﴾کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
”اور میں ان کو یہ حکم ضرور دوں گا، جس سے وہ اللہ کی بنائی ہوئی صورت کو بگاڑیں گے، جیسے:داڑھی منڈانا، بتوں کے نام کی چوٹی سر پر رکھنا، اور عورتوں کا اپنی کھال کوگدوانااور اپنے بالوں میں دوسرے بال وصل (لگوانا) کرانا“۔ (معارف القرآن للکاندہلوی، سورة النساء، رقم الآیة:119، 2/313، مکتبہ المعارف، شہداد پور، سندھ)
تفسیرِ ماجدی میں ہے:
حضرت مولانا عبد الماجد دریا بادی رحمہ اللہ مذکورہ آیت ﴿وَلاٰمُرَنَّہُمْ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللّہِ﴾کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
”تغییر خلق اللہ کی دو بڑی قسمیں ہو سکتی ہیں: ایک خلق ِ تکوینی میں تغییر، دوسرے خلقِ تشریعی میں تغییر، قدیم مفسرین نے تغییر خلقِ تکوینی کی مثال میں داڑھی منڈانے اور جسم گدوانے کو پیش کیاہے“۔ (تفسیر ماجدی، سورة النساء، رقم الآیة: 119، ص:250، 251،پاک کمپنی، لاہور)
تفسیر حقانی میں ہے:
﴿وَلاٰمُرَنَّہُمْ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللّہ﴾کی تفسیر میں حضرت مولانا عبد الحق حقانی دہلوی صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”انسان میں تغیر یہ ہے کہ جینے کی امید سے اس کے کان یاناک چھیدے تھے اور عورتیں تزئین کے لیے بالوں میں چٹلا لگاتی تھیں۔ دانتوں کو ریت کر باریک ومہین کرتی تھیں۔ مرد کو خصی کرتے تھے۔ خواجہ سرا بناتے تھے۔ اس میں داڑھی منڈانا بھی آگیا“۔(تفسیر فتح المنان المشہور بہ تفسیر حقانی، سورة النساء، رقم الآیة:3/284، الفیصل ناشران وتاجران ِ کتب، لاہور)
تفسیر عثمانی میں ہے:
﴿وَلاٰمُرَنَّہُمْ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللّہِ﴾کی تفسیر میں حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
” داڑھی منڈوانا بھی اسی تغییر میں داخل ہے اور اللہ کے جتنے احکام ہیں، کسی میں تغیر کرنا بہت سخت بات ہے، جو چیز اس نے حلال کر دی ، اس کو حرام کرنا یا حرام کو حلال کرنا اسلام سے نکال دیتا ہے، تو جو کوئی ان باتوں میں مبتلا ہو۔ اس کو یقین کر لینا چاہیے کہ میں شیطان کے مقررہ حصہ میں داخل ہوں، جس کا ذکر گذرا“۔ (تفسیر عثمانی، سورة النساء، رقم الآیة:119: ۱/455، دارالاشاعت، کراچی)
معالم العرفان فی دروس القرآن میں ہے:
﴿وَلاٰمُرَنَّہُمْ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللّہِ﴾کی تفسیر میں حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
” امام رازی رحمہ اللہ داڑھی منڈانے کو بھی اسی مد میں شمار کرتے ہیں، عورت کا سر کے بال منڈانا اور مرد کا داڑھی کے بال منڈانا ایک ہی قبیل سے ہیں، حضور صلی الله علیہ وسلم کا فرمان کہ یہود وہنود اور مجوس کے ساتھ مشابہت نہ رکھو۔داڑھی بڑھاوٴ اور مونچھیں کٹواوٴ۔ مگر شیطان نے الٹا سبق سکھلایا ہے۔ اب داڑھی منڈائی جاتی ہے اور مونچھیں بڑھائی جاتی ہیں“۔ (معالم العرفان فی دروس القرآن، سورة النساء،رقم الآیة:119، 5/543، مکتبہ دروس القرآن، گوجرانوالہ)
مذکورہ آیتِ کریمہ میں داڑھی منڈانے کی حرمت اقتضاء النص سے سمجھ آ رہی ہے، اس کے علاوہ بڑی داڑھی کا ثبوت بھی قرآن سے ملتا ہے، وہ اس طرح کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہِ طور سے واپس تشریف لائے اور قوم کو بچھڑے کی پوجا کرتے دیکھا تو غیرت ِ ایمانی کی وجہ سے سخت طیش میں آ گئے اور حضرت ہارون علیہ السلام سے مخاطب ہوئے تو حضرت ہارون علیہ السلام نے اس وقت کہا تھا: ﴿قال یَبْنَوٴُمَّ لا تأخُذ بلحیتي ولا برأسي﴾․ (طٰہ: 94)ترجمہ: ”اے میرے ماں جائے بھائی! تو مجھے میری داڑھی اور سر کے بالوں سے مت پکڑ“۔اس واقعے میں دیکھیں کہ حضرت ہارون علیہ السلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو داڑھی پکڑنے سے روکا۔ لہٰذا اس سے نتیجہ یہ نکلے گا کہ داڑھی اتنی بڑی تو ضرورہو گی جو ہاتھ کی گرفت میں آ سکے اور مقدار ایک مشت تو ہو سکتی ہے، کم نہیں۔
اور پھر قرآن کا فیصلہ ہے کہ :
نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی طرف جس کام کا حکم کیا جائے اس کی تعمیل کیا کرواور جس کام سے یہ رسول صلی الله علیہ وسلم منع کر دیں اس سے رُک جایا کرو، جیسا کہ اوپر گذر چکا ہے، ﴿وما اٰ تٰکم الرسول فخذوہ وما نھٰکم عنہ، فانتھوا﴾․ (الحشر: 59) ترجمہ: ”اور رسول تم کو جو کچھ دے دیا کریں ، وہ لے لیا کرو اور جس چیز سے تم کو روک دیں، تم رُک جایا کرو“۔اور اس تحریر میں تفصیل سے گذر چکا ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا داڑھی منڈوانے سے منع فرمانا بہت واضح طریقے سے سامنے آ چکا ہے، تو قرآن پاک کے حکم پر عمل کرتے ہوئے آپ علیہ السلام کے ارشادات پر عمل کیا جائے، یہ عمل قرآن کے حکم پر ہی عمل کہلائے گا۔
داڑھی منڈانے کی حرمت ایک اور جہت سے
بہت سی روایات میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے داڑھی منڈوانے سے منع فرمایا اور علت غیر مسلمین کی مشابہت بتلائی، ملاحظہ ہو:
داڑھی منڈوانے میں مشرکین کی مشابہت ہے
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے روایت کیاہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : مشرکین کی مخالفت کرو اور داڑھیاں بڑھاوٴ اور مونچھیں پست (کم) کرو۔
عن ابن عمر رضي اللہ عنھما عن النبي صلی الله علیہ وسلم قال: خالفوا المشرکین، وفروا اللحیٰ، وأحفوا الشوارب، وکان ابن عمر إذا حج أو اعتمر قبض علی لحیتہ، فما فضل أخذہ․ (صحیح البخاري، کتاب اللباس، باب تقلیم الأظفار، رقم الحدیث:5892 ، 7/160، دار طوق النجاة)
داڑھی منڈوانے میں مجوسیوں کی مشابہت ہے
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے سامنے مجوسیوں کا ذکر کیاگیا، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:وہ اپنی مونچھوں کو بڑھاتے ہیں اور اپنی داڑھیوں کو مونڈتے ہیں، تو تم ان کی مخالفت کرو، پس حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما اپنی مونچھوں کو اس طرح کاٹ دیا کرتے تھے ، جس طرح بکری یا اونٹ کے بال کاٹ دیے جاتے ہیں۔
عن ابن عمر قال: ذکر لرسول اللہ صلی الله علیہ وسلم المجوس، فقال: ”إنھم یُوفون سِبالَھم، ویَحلِقون لِحاھم، فخالفوھم“․ فکان ابن عمر یَجُزُّ سِبالَہ کما تُجَزُّ الشاةُ أو البعیرُ․ (صحیح ابن حبان بترتیب ابن بلبان؟؟؟، کتاب الزینة والتطیب، ذکر العلة التي من أجلھا أمر بھٰذا الأمر، رقم الحدیث: 5476، 12/289، موٴسسة الرسالة)
زمانہ نبوی میں داڑھیاں بڑھانے کے حکم کی وجہ
اس بار ے میں حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی لکھتے ہیں:
لحیہ اور مقدارِ لحیہ کے مسئلے پر غور کرتے وقت یہ بات سامنے آتی ہے کہ جس وقت نبی صلی الله علیہ وسلم نے اعفائے لحیہ کا حکم دیا، اس وقت آپ خود داڑھی رکھتے تھے، بلکہ عرب کے قریبی ممالک میں بھی داڑھی مونڈنے کا رواج نہ تھا، تمام کے تمام لوگ اس کو مرد وعورت کے چہروں کے درمیان ما بہ الامتیازسمجھتے تھے اور مردانگی ومردانہ حسن کی علامت قرار دیتے تھے، طبعی طور پر کسی کے چہرے پر داڑھی نہ نکلنے یا بالقصد اسے مونڈ دینے کو عیب سمجھا جاتا تھا۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسے ماحول میں داڑھی بڑھانے کا حکم کیوں دیا گیااور اس کا منشا کیا ہے؟
اس سوال کا جواب ایک حدیث دیتی ہے، جو لحیہ اور مقدارِ لحیہ دونوں ہی کی شرعی حیثیت جاننے کے لیے ایک بنیادی اور اہم حدیث ہے:
عن أبي ھریرة رضي اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم: ”جُزُّوا الشوارب، وأَرخُوْا اللحیٰ، خالفوا المجوس“․ (صحیح مسلم، کتاب الطھارة، باب خصال الفطرة، رقم الحدیث:603)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:مونچھیں کاٹو اور داڑھیاں لمبی کرو (اور اس طرح) مجوس کی مخالفت کرو۔
یہی حدیث حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ان الفاظ میں مروی ہے:
عن ابن عمر رضي اللہ عنہما عن النبي صلی الله علیہ وسلم قال: ”خالفوا المشرکین، وفروا اللحیٰ، واحفوا الشوارب“․ (صحیح البخاري، کتاب اللباس: باب تقلیم الأطفار رقم الحدیث:5892)
ترجمہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:مشرکین کی مخالفت کرو، داڑھیاں خوب بڑھاوٴ اور مونچھوں کے بال کاٹ کر کم کرو“۔
اس حدیث میں مشرکین کا لفظ مجوس ہی کے لیے استعمال کیا گیا ہے، علامہ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:”خالفواالمشرکین أرادبھم المجوس، یدل علیہ روایة مسلم :” خالفوا المجوس“․
ترجمہ:… مشرکین سے مراد مجوس ہیں، اس بات پر مسلم کی روایت”خالفوا المجوس“ دلیل ہے۔
اس حدیث سے وہ وجہ معلوم ہو گئی جس کی بناپر اعفائے لحیہ کا حکم دیا گیا، عرب کے پڑوسی ممالک میں سب سے پہلے فارس کے مجوسیوں نے اس مردانہ حسن… داڑھی … پر حملہ کیا، چوں کہ اس وقت تک داڑھی مونڈنے کو عیب شمار کیا جاتا تھا، اس لیے مجوسیوں نے اپنے اندر یکایک داڑھیاں مونڈنے کی ہمت نہ پائی اور ابتداء ً وہ اپنی داڑھیاں چھوٹی کرنے اور رفتہ رفتہ ان میں کچھ لوگ اپنی داڑھیاں مونڈنے بھی لگے، ،عین ممکن ہے کہ مجوسیوں سے متاثر ہو کر جزیرة العرب کے کچھ مشرکین بھی داڑھیاں چھوٹی کرانے یامونڈنے لگے ہوں، اگرچہ اس وقت مسلمان داڑھی رکھ رہے تھے، لیکن ان پر اس کی دینی وشرعی حیثیت واضح نہ تھی، خطرہ تھا کہ کہیں آگے چل کر ان میں کچھ لوگ مجوسی تہذیب سے متاثر نہ ہو جائیں، چناں چہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنے حکم سے اس کی شرعی حیثیت واضح فرما دی اور مسلمانوں کو حکم دیا کہ اس معاملے میں مجوس کی مخالفت کرنا تم پر لازم ہے، داڑھی کا معاملہ محض رواج اور عادت سے تعلق نہیں رکھتا، بلکہ یہ اسلامی معاشرے کا شعار اور اسلامی تہذیب کا ایک نشان ہے۔
یہ بات تمام محدثین لکھتے ہیں کہ اس وقت مجوسی عام طور پر داڑھیاں مونڈتے نہ تھے، بلکہ چھوٹی کراتے تھے، ابو شامہ کے وقت میں جب کچھ لوگوں نے داڑھیاں مونڈی توانہوں نے بڑے رنج وغم کے ساتھ کہا:
” اب کچھ لوگ ایسے پیدا ہو رہے ہیں، جو اپنی داڑھیاں منڈوا دیتے ہیں، یہ فعل اس سے بھی زیادہ شدید ہے، جومجوسیوں کے بارے میں منقول ہے، کیوں کہ وہ اپنی داڑھیاں چھوٹی کرواتے تھے“۔ (فتح الباری، ج:10، ص:351) (جاری)