Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الثانی 1435ھ

ہ رسالہ

12 - 15
امام ابوحنیفہ رحمة الله علیہ حیات اور کارنامی

مولانا محمدنجیب قاسمی
	
حضرت امام ابوحنیفہ رحمة الله علیہ کے مختصر حالاتِ زندگی
آپ کا اسم گرامی نعمان اور کنیت ابوحنیفہ ہے۔ آپ کی ولادت 80 ھ میں عراق کے کوفہ شہر میں ہوئی۔ آپ فارسی النسل تھے۔آپ کے والد کا نام ثابت تھا اور آپ کے دادا نعمان بن مرزبان کابل کے اعیان واشراف میں بڑی فہم وفراست کے مالک تھے۔ آپ کے پردادا مرزبان فارس کے ایک علاقہ کے حاکم تھے۔ آپ کے والد حضرت ثابت رحمة الله علیہ بچپن میں حضرت علی رضی الله عنہ کی خدمت میں لائے گئے تو حضرت علی رضی الله عنہ نے آپ اور آپ کی اولاد کے لیے برکت کی دعا فرمائی، جو ایسی قبول ہوئی کہ امام ابوحنیفہ جیسا عظیم محدث وفقیہ اور خدا ترس انسان پیدا ہوا۔

آپ نے زندگی کے ابتدائی ایام میں ضروری علم کی تحصیل کے بعد تجارت شروع کی، لیکن آپ کی ذہانت کو دیکھتے ہوئے علم حدیث کی معروف شخصیت شیخ عامر شعبی کوفی (17ھ۔ 104ھ)، جنہیں پانچ سو سے زیادہ اصحاب رسول کی زیارت کا شرف حاصل ہے، نے آپ کو تجارت چھوڑکر مزید علمی کمال حاصل کرنے کا مشورہ دیا، چناں چہ آپ نے امام شعبی کوفی  کے مشورہ پر علم کلام، علم حدیث اور علم فقہ کی طرف توجہ فرمائی اور ایسا کمال پیدا کیا کہ علمی وعملی دنیا میں امام اعظم کہلائے۔ آپ نے کوفہ، بصرہ اور بغداد کے بے شمار شیوخ سے علمی استفادہ کرنے کے ساتھ حصول علم کے لیے مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ اور ملک شام کے متعدد اسفار کیے۔

ایک وقت ایسا آیا کہ عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور نے حضرت امام ابوحنیفہ  کو ملک کے قاضی ہونے کا مشورہ دیا لیکن آپ نے معذرت چاہی تو وہ اپنے مشورہ پر اصرار کرنے لگا، چناں چہ آپ نے صراحةً انکار کردیا اور قسم کھالی کہ وہ یہ عہدہ قبول نہیں کرسکتے، جس کی وجہ سے 146ہجری میں آپ کو قید کردیا گیا۔ امام صاحب کی علمی شہرت کی وجہ سے قید خانہ میں بھی تعلیمی سلسلہ جاری رہا اور امام محمدجیسے محدث وفقیہ نے جیل میں ہی امام ابوحنیفہ  سے تعلیم حاصل کی۔امام ابوحنیفہ کی مقبولیت سے خوف زدہ خلیفہٴ وقت نے امام صاحب  کو زہر دلوادیا۔ جب امام صاحب کو زہر کا اثر محسوس ہوا تو سجدہ کیا اور اسی حالت میں وفات پاگئے۔ تقریباً پچاس ہزار افراد نے نمازجنازہ پڑھی، بغداد کے خیزران قبرستان میں دفن کیے گئے۔ 375ھ میں اس قبرستان کے قریب ایک بڑی مسجد ”جامع الامام الاعظم“تعمیر کی گئی ،جو آج بھی موجود ہے۔ غرض 150ئھ میں صحابہ وبڑے بڑے تابعین سے روایت کرنے والا ایک عظیم محدث وفقیہ دنیا سے رخصت ہوگیا اور اس طرح صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے خوف سیقضاکا عہدہ قبول نہ کرنے والے نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کردیا، تاکہ خلیفہٴ وقت اپنی مرضی کے مطابق کوئی فیصلہ نہ کراسکے، جس کی وجہ سے مولائے حقیقی ناراض ہو۔

حضرت امام ابوحنیفہ  کے بارے میں حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی بشارت
مفسر قرآن شیخ جلال الدین سیوطی شافعی مصری (849ھ۔911ھ) نے اپنی کتاب ”تبییض الصحیفة فی مناقب الامام ابی حنیفہ “ میں بخاری ومسلم ودیگر کتب حدیث میں واردنبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے اقوال: ”اگر ایمان ثریا ستارے کے قریب بھی ہوگا تواہل فارس میں سے بعض لوگ اس کو حاصل کرلیں گے۔(بخاری) اگر ایمان ثریا ستارے کے پاس بھی ہوگا تواہل فارس میں سے ایک شخص اس میں سے اپناحصہ حاصل کرلے گا۔ (مسلم) اگر علم ثریا ستارے پر بھی ہوگا تو اہل فارس میں سے ایک شخص اس کو حاصل کرلے گا۔ (طبرانی) اگر دین ثریا ستارہ پر بھی معلق ہوگا تو اہل فارس میں سے کچھ لوگ اس کو حاصل کرلیں گے۔ (طبرانی)“ ذکر کرنے کے بعد تحریر فرمایا ہے کہ میں کہتا ہوں کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے امام ابوحنیفہ (حضرت نعمان بن ثابت) کے بارے میں ان احادیث میں بشارت دی ہے اور یہ احادیث امام صاحب کی بشارت وفضیلت کے بارے میں ایسی صریح ہیں کہ ان پر مکمل اعتماد کیا جاتا ہے۔ شیخ ابن حجر الہیثمی المکی الشافعی  (909ھ۔973ھ) نے اپنی مشہور ومعروف کتاب ”الخیرات الحسان فی مناقب الإمام ابی حنیفہ النعمان“ میں تحریر کیا ہے کہ شیخ جلال الدین سیوطی کے بعض تلامذہ نے فرمایا اور جس پر ہمارے مشائخ نے بھی اعتماد کیا ہے کہ ان احادیث کی مراد بلاشبہ امام ابوحنیفہ ہیں، اس لیے کہ اہل فارس میں ان کے معاصرین میں سے کوئی بھی علم کے اس درجہ کو نہیں پہنچا جس پر امام صاحب فائز تھے۔

ان احادیث کی مراد میں اختلاف رائے ہوسکتا ہے، مگر عصر قدیم سے عصر حاضر تک ہر زمانہ کے محدثین وفقہاء وعلماء کی ایک جماعت نے تحریر کیا ہے کہ ان احادیث سے مراد حضرت امام ابو حنیفہ ہیں۔ علمائے شوافع  نے خاص طور پر اس قول کو مدلل کیا ہے، جیساکہ شافعی مکتبہٴ فکر کے دو مشہور جید علماء ومفسرین قرآن کے اقوال ذکر کیے گئے۔

حضرت امام ابوحنیفہ  کی تابعیت
حافظ ابن حجر عسقلانی ( جو فن حدیث کے امام شمار کیے جاتے ہیں) سے جب امام ابوحنیفہ کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ امام ابوحنیفہ نے صحابہٴ کرام کی ایک جماعت کو پایا ، اس لیے کہ وہ80 ہجری میں کوفہ میں پیدا ہوئے اور وہاں صحابہٴ کرام میں سے حضرت عبداللہ بن اوفی  موجود تھے، ان کا انتقال اس کے بعد ہوا ہے۔ بصرہ میں حضرت انس بن مالک  تھے اور ان کا انتقال 90 یا 93ہجری میں ہوا ہے۔ ابن سعد  نے اپنی سند سے بیان کیا ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ کہا جائے کہ امام ابوحنیفہ نے حضرت انس بن مالک  کو دیکھا ہے اور وہ طبقہ تابعین میں سے ہیں۔ نیز حضرت انس بن مالک  کے علاوہ بھی اس شہر میں دیگر صحابہٴ کرام اس وقت حیات تھے۔

شیخ محمد بن یوسف صالحی دمشقی شافعی نے ”عقود الجمان فی مناقب الامام ابی حنیفہ النعمان “کے نویں باب میں ذکر کیا ہے کہ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ امام ابوحنیفہ اس زمانہ میں پیدا ہوئے جس میں صحابہٴ کرام کی کثرت تھی۔

اکثر محدثین (جن میں امام خطیب بغدادی، علامہ نووی، علامہ ابن حجر، علامہ ذہبی، علامہ زین العابدین سخاوی، حافظ ابونعیم اصبہانی، امام دار قطنی، حافظ ابن عبدالبر اور علامہ ابن الجوزی کے نام قابل ذکر ہیں) کا یہی فیصلہ ہے کہ امام ابوحنیفہ نے حضرت انس بن مالک  کو دیکھا ہے۔

محدثین ومحققین کی تشریح کے مطابق صحابی کے لیے حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم سے روایت کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ دیکھنا بھی کافی ہے۔ اسی طرح تابعی کا معاملہ ہے کہ تابعی کہلانے کے لیے صحابی رسول سے روایت کرنا ضروری نہیں ہے، بلکہ صحابی کو دیکھنا بھی کافی ہے۔ امام ابوحنیفہ  نے تو صحابہٴ کرام کی ایک جماعت کو دیکھنے کے علاوہ بعض صحابہٴ کرام خاص کر حضرت انس بن مالک سے احادیث روایت بھی کی ہیں۔

غرضیکہ حضرت امام ابوحنیفہ تابعی ہیں اور آپ کا زمانہ صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کا زمانہ ہے اور یہ وہ زمانہ ہے جس دور کی امانت ودیانت اور تقوی ٰ کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم (سورہٴ التوبہ آیت نمبر 100) میں فرمایا ہے۔ نیز نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق یہ بہترین زمانوں میں سے ایک ہے۔ علاوہ ازیں حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اپنی حیات میں ہی حضرت امام ابوحنیفہ کے متعلق بشارت دی تھی، جیسا کہ بیان کیا جاچکا، جس سے حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کی تابعیت اور فضیلت روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے۔

صحابہٴ کرام سے حضرت امام ابوحنیفہ  کی روایات
امام ابومعشر عبد الکریم بن عبدالصمد طبری مقری شافعی (متوفی 478ھ) نے ایک رسالہ تحریر فرمایا ہے، جس میں انہوں نے امام ابوحنیفہ کی مختلف صحابہٴ کرام سے روایات نقل کی ہے۔ حضرت انس بن مالک حضرت عبد اللہ بن جزء الزبیدی  حضرت جابر بن عبداللہ  حضرت معقل بن یسار  حضرت واثلہ بن الاسقع  حضرت عائشہ بنت عجر ۔

محدثین کی ایک جماعت نے 8 صحابہٴ کرام سے امام ابوحنیفہ کا روایت کرنا ثابت کیا ہے، البتہ بعض محدثین نے اس سے اختلاف کیا ہے، مگر امام ابوحنیفہ کے تابعی ہونے پر جمہور محدثین کا اتفاق ہے۔

فقہاء ومحدثین کی بستی۔ کوفہ
حضرت عمر فاروق کے عہد خلافت میں ملک عراق فتح ہونے کے بعد حضرت سعد بن ابی وقاص  نے آپ کی اجازت سے 17 ہجری میں کوفہ شہر بسایا، قبائل عرب میں سے فصحاء کو آباد کیا گیا۔ حضرت عمر فاروق نے حضرت عبد اللہ بن مسعود جیسے جلیل القدر صحابی کو وہاں بھیجا، تاکہ وہ قرآن وسنت کی روشنی میں لوگوں کی راہ نمائی فرمائیں۔ صحابہٴ کرام کے درمیان حضرت عبداللہ بن مسعود کی علمی حیثیت مسلّم تھی، خود صحابہٴ کرام بھی مسائل شرعیہ میں ان سے رجوع فرماتے تھے۔ ان کے متعلق حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے ارشادات کتب حدیث میں موجود ہیں: ابن ام عبد (یعنی عبداللہ بن مسعود) کے طریق کو لازم پکڑو…جو قرآن پاک کو اُس انداز میں پڑھنا چاہے جیسا نازل ہوا تھا تو اُس کو چاہیے کہ ابن ام عبد (یعنی عبداللہ بن مسعود) کی قرات کے مطابق پڑھے…حضرت عمر فاروق نے حضرت عبداللہ بن مسعود کے بارے میں فرمایا کہ وہ علم سے بھرا ہوا ایک ظرف ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود نے حضرت عمر فاروق  اور حضرت عثمان غنی کے عہد خلافت میں اہل کوفہ کو قرآن وسنت کی تعلیم دی۔ حضرت علی مرتضی کے عہد خلافت میں جب دارالخلافت کوفہ منتقل کردیا گیا تو کوفہ علم کا گہوارہ بن گیا۔ صحابہٴ کرام اور تابعین عظام کی ایک جماعت، خاص کر حضرت عبد اللہ بن مسعود اور ان کے شاگردوں نے اس بستی کو علم وعمل سے بھر دیا۔ صحابہٴ کرام کے درمیان فقیہ کی حیثیت رکھنے والے حضرت عبداللہ بن مسعود کا علمی ورثہ حضرت امام ابوحنیفہ کے مشہور استاذ حضرت حماد اور مشہور تابعین حضرت ابراہیم نخعی وحضرت علقمہ کے ذریعہ امام ابوحنیفہ تک پہنچا۔ حضرت حماد صحابی رسول حضرت انس بن مالک کے بھی سب سے قریب اور معتمد شاگرد ہیں۔ حضرت حماد  کی صحبت میں امام ابوحنیفہ18 سال رہے اورحضرت حماد  کے انتقال کے بعد کوفہ میں ان کی مسند پر امام ابوحنیفہ کو ہی بٹھایا گیا۔ غرضیکہ امام ابوحنیفہ  حضرت عبداللہ بن مسعود  کے علمی ورثہ کے وارث بنے۔ اسی وجہ سے امام ابوحنیفہ  حضرت عبداللہ بن مسعود  کی روایات اور ان کے فیصلہ کو ترجیح دیتے ہیں، مثلاً کتب احادیث میں وارد حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایات کی بنا پر امام ابوحنیفہ  نے نماز میں رکوع سے قبل وبعد رفع یدین نہ کرنے کو راجح قرار دیا۔

حضرت عمر بن عبدالعزیز کے عہدِ خلافت میں تدوینِ حدیث اورامام ابوحنیفہ
خلیفہ حضرت عمر بن عبد العزیز (61ھ۔101ھ) کے خاص اہتمام سے وقت کے دو جید محدث حضرت ابوبکر بن الحزم (متوفی 120ھ) اور محمد بن شہاب زہری (متوفی 125ھ) کی زیر نگرانی احادیث رسول کو کتابی شکل میں جمع کیا گیا۔ اب تک یہ احادیث منتشر حالتوں میں زبانوں اور سینوں میں محفوظ چلی آرہی تھیں۔ اسلامی تاریخ میں انہی دونوں محدثین کو حدیث کا مدوِّن اوَّل کہا جاتا ہے۔ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اپنی حیات طیبہ میں عمومی طور پر احادیث لکھنے سے منع فرمادیا تھا،تاکہ قرآن وحدیث ایک دوسرے سے مل نہ جائیں، البتہ بعض فقہائے صحابہ (جنہیں قرآن وحدیث کی عبارتوں کے درمیان فرق معلوم تھا) کو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں بھی احادیث لکھنے کی محدود اجازت تھی۔ خلفا راشدین کے عہد میں جب قرآن کریم تدوین کے مختلف مراحل سے گزرکر ایک کتابی شکل میں امت مسلمہ کے ہر فرد کے پاس پہنچ گیاتو ضرورت تھی کہ قرآن کریم کے سب پہلے مفسر وخاتم النبیین وسید المرسلین حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی احایث کو بھی مدون کیا جائے، چناں چہ احادیث رسول کا مکمل ذخیرہ، جو منتشر اوراق اور زبانوں پر جاری تھا، انتہائی احتیاط کے ساتھ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے عہد خلافت (99ھ۔ 101ھ)میں مرتب کیا گیا۔ احادیث نبویہ کے اس ذخیرہ کی سند میں عموماًدو راوی تھے ایک صحابی اور تابعی۔ ان احادیث کے ذخیرہ میں ضعیف یا موضوع ہونے کا احتمال بھی نہیں تھا۔ نیز یہ وہ مبارک دور تھا جس میں اسماء الرجال کے علم کا وجود بھی نہیں آیا تھا اور نہ اس کی ضرورت تھی، کیوں کہ حدیث رسول بیان کرنے والے صحابہٴ کرام اور تابعین عظام یا پھر تبع تابعین حضرات تھے اور ان کی امانت ودیانت اور تقوی ٰ کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم (سورہٴ التوبہ آیت نمبر 100) میں فرمایا ہے۔

حضرت امام ابوحنیفہ کو انہیں احادیث کا ذخیرہ ملا تھا، چناں چہ انہوں نے قرآن کریم اور احادیث کے اس ذخیرہ سے استفادہ فرماکر امت مسلمہ کو اس طرح مسائل شرعیہ سے واقف کرایا کہ1300 سال گزرجانے کے بعد بھی تقریباً 75 فی صد امت مسلمہ اس پر عمل پیرا ہے اور ایک ہزار سال سے امت مسلمہ کی اکثریت امام ابوحنیفہ کی تفسیر وتشریح اور وضاحت وبیان پر ہی عمل کرتی چلی آرہی ہے۔ امام ابوحنیفہ  کو احادیث رسول صرف دو واسطوں (صحابی اور تابعی) سے ملی ہیں، بلکہ بعض احادیث امام ابوحنیفہ نے صحابہٴ کرام سے براہ راست بھی روایت کی ہیں۔ دو واسطوں سے ملی احادیث کو احادیث ثنائی کہا جاتا ہے ،جو سند کے اعتبار سے حدیث کی اعلیٰ قسم شمار ہوتی ہے۔ بخاری ودیگر کتب حدیث میں 2 واسطوں کی کوئی بھی حدیث موجود نہیں ہے، 3 واسطوں والی، یعنی احادیث ثلاثیات بخاری میں صرف 22 ہیں، ان میں سے 20 احادیث امام بخاری نے امام ابوحنیفہ کے شاگردوں سے روایت کی ہیں۔

80ھ سے 150ھ تک اسلامی حکومت اور حضرت امام ابوحنیفہ 
امام ابوحنیفہ کی ولادت 80ہجری میں اموی خلیفہ عبدالملک بن مروان کے دور حکومت میں ہوئی، جس کا انتقال 86ہجری میں ہوا،اس کے بعد اس کا بیٹا ولید بن عبد الملک تخت نشین ہوا۔ 10 سال حکم رانی کے بعد96ھ میں اس کا بھی انتقال ہوگیا، پھر اس کا بھائی سلیمان بن عبد الملک جانشین بنا۔ 3 سال کی حکم رانی کے بعد 99ھ میں یہ بھی رخصت ہوا لیکن سلیمان بن عبدالملک نے اپنی وفات سے قبل حضرت عمر بن عبدالعزیز کو اپنا جانشین مقرر کرکے ایسا کارنامہ انجام دیا جس کو تاریخ کبھی نہیں بھلا سکتی۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز کا دور خلافت (99ھ۔101ھ) اگرچہ نہایت مختصر رہا، مگر خلافت راشدہ کا زمانہ لوگوں کو یاد آگیا، حتی کہ رعایا میں ان کا لقب خلیفہٴ خامس (پانچواں خلیفہ) قرار پایا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے دورِ خلافت میں امام ابوحنیفہ  کی عمر(19۔21) سال تھی۔حضرت عمر بن عبدالعزیز کے کارناموں میں ایک اہم کارنامہ تدوین حدیث ہے، جس کی تدوین کا مختصر بیان گزرچکا، غرضیکہ تدوین حدیث کا اہم دور امام ابوحنیفہ نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ امام ابوحنیفہ نے اسلامی دور کی دو بڑی حکومتوں (بنوامیہ اور بنو عباس) کو پایا۔ خلافت بنو امیہ کے آخری دور میں حضرت امام ابو حنیفہ کا حکم رانوں سے اختلاف ہوگیا تھا، جس کی وجہ سے آپ مکہ مکرمہ چلے گئے اور وہیں سات سال رہے۔ خلافت بنو عباس کے قیام کے بعد آپ پھر کوفہ تشریف لے آئے۔ عباسی خلیفہ ابوجعفر منصور حکومت کی مضبوطی اور پائیداری کے لیے امام ابوحنیفہ کی تایید ونصرت چاہتا تھا، جس کے لیے اس نے ملک کا خاص عہدہ پیش کیا، مگر آپ نے حکومتی معاملات میں دخل اندازی سے معذرت چاہی کیوں کہ حکم رانوں کے اغراض ومقاصد سے امام ابوحنیفہ  اچھی طرح واقف تھے۔ اسی وجہ سے 146 ہجری میں آپ کو جیل میں قید کردیا گیا، لیکن جیل میں بھی آپ کی مقبولیت میں کمی نہیں آئی اور وہاں بھی آپ نے قرآن وحدیث اور فقہ کی تعلیم جاری رکھی، چناں چہ امام محمد نے جیل میں ہی آپ سے تعلیم حاصل کی۔ حکم رانوں نے اس پر ہی بس نہیں کیا، بلکہ روزانہ 20 کوڑوں کی سزا بھی مقرر کی۔ (خطیب البغدادی ج 13ص 328)۔ 150ھ میں امام صاحب دارِ فانی سے دار بقا کی طرف کوچ کرگئے۔ امام احمد بن حنبل امام ابوحنیفہ  کے آزمائشی دور کو یاد کرکے رویا کرتے تھے اور ان کے لیے دعا رحمت کیا کرتے تھے۔ (الخیرات الحسان ج 1ص 59)

حضرت امام ابوحنیفہ  اور علمِ حدیث
امام ابو حنیفہ  سے احادیث کی روایت کتب حدیث میں کثرت سے نہ ہونے کی وجہ سے بعض لوگوں نے یہ تاثر پیش کیا ہے کہ امام ابو حنیفہ  کی علم حدیث میں مہارت کم تھی، حالاں کہ غور کریں کہ جس شخص نے صرف بیس سال کی عمر میں علم حدیث پر توجہ دی ہو، جس نے صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کابہترین زمانہ پایا ہو، جس نے صرف ایک یا دو واسطوں سے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی احادیث سنی ہوں، جس نے حضرت عبد اللہ بن مسعود جیسے جلیل القدر فقیہ صحابی کے شاگردوں سے 18سال تربیت حاصل کی ہو، جس نے حضرت عمربن عبد العزیز  کا عہد خلافت پایا ہو جو تدوین حدیث کا سنہری دور رہاہے ، جس نے کوفہ ،بصرہ،بغداد،مکہ مکرمہ،مدینہ منورہ اور ملک شام کے ایسے اساتذہ سے احادیث پڑھی ہو جو اپنے زمانے کے بڑے بڑے محدث رہے ہوں، جس نے قرآن وحدیث کی روشنی میں ہزاروں مسائل کا استنباط کیا ہو، قرآن وحدیث کی روشنی میں کیے گئے جس کے فیصلے کو ہزارسال کے عرصہ سے زیادہ امت مسلمہ نیز بڑے بڑے علماء ومحدثین ومفسرین تسلیم کرتے چلے آئے ہوں ، جس نے فقہ کی تدوین میں اہم رول ادا کیاہو، جو صحابی رسول حضرت عبد اللہ بن مسعود کا علمی وارث بناہو، جس نے حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت عبداللہ بن مسعود جیسے فقہائے صحابہ کے شاگردوں سے علمی استفادہ کیا ہو، جس کے تلامذہ بڑے بڑے محدث، فقیہ اور امام وقت بنے ہوں تو اس کے متعلق ایسا تأثر پیش کرنا صرف اور صرف بغض وعنا د اور علم کی کمی کا نتیجہ ہے۔ یہ ایسا ہی ہے کہ کوئی شخص حضرت ابوبکرصدیق ، حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان غنی  کے متعلق کہے کہ ان کو علم حدیث سے معرفت کم تھی، کیوں کہ ان سے گنتی کی چند احادیث‘ کتب احادیث میں مروی ہیں ۔ حالاں کہ ان حضرات کا کثرت روایت سے اجتناب دوسرے اسباب کی وجہ سے تھا ،جس کی تفصیلات کتب میں موجود ہیں۔ غرضیکہ اما م ابوحنیفہ فقیہ ہونے کے ساتھ ساتھ عظیم محدث بھی تھے ۔

حضرت امام ابوحنیفہ  اور حدیث کی مشہور کتابیں
احادیث کی مشہور کتابیں (بخاری، مسلم، ترمذی، ابوداوٴد، نسائی، ابن ماجہ، طبرانی، بیہقی، مسند ابن حبان، مسند احمد بن حنبل وغیرہ) امام ابوحنیفہ کی وفات کے تقریباً150سال بعد تحریر کی گئی ہیں۔ ان مذکورہ کتابوں کے مصنفین امام ابوحنیفہ  کی حیات میں موجود ہی نہیں تھے، ان میں سے اکثر امام ابوحنیفہ کے شاگردوں کے شاگرد ہیں۔ مشہور کتب حدیث کی تصنیف سے قبل ہی امام ابوحنیفہ کے مشہور شاگردوں (قاضی ابویوسف اور امام محمد) نے امام ابوحنیفہ کے حدیث اور فقہ کے دروس کو کتابی شکل میں مرتب کردیا تھا،جو آج بھی دست یاب ہیں۔ مشہور کتب حدیث میں عموماً چار یا پانچ یا چھ واسطوں سے احادیث ذکر کی گئی ہیں، جب کہ امام ابوحنیفہ کے پاس اکثر احادیث صرف دو واسطوں سے آئی تھیں، اس لحاظ سے امام ابوحنیفہ کو جو احادیث ملی ہیں وہ اصح الاسانید کے علاوہ احادیث صحیحہ ، مرفوعہ، مشہورہ اور متواترہ کا مقام رکھتی ہیں۔ غرضیکہ جن احادیث کی بنیاد پر فقہ حنفی مرتب کیا گیا وہ عموماًسند کے اعتبار سے اعلیٰ درجہ کی احادیث ہیں۔

حضرت امام ابوحنیفہ  کے اساتذہ
امام ابوحنیفہ نے تقریباً چار ہزار مشائخ سے علم حاصل کیا، خود امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ میں نے کوفہ وبصرہ کا کوئی ایسا محدث نہیں چھوڑا جس سے میں نے علمی استفادہ نہ کیا ہو، تفصیلات کے لیے سوانح امام ابوحنیفہ  کا مطالعہ کریں، امام ابوحنیفہ کے چند اہم اساتذہ حسب ذیل ہیں:

حضرت حماد بن ابی سلیمان (متوفی 120ھ): شہر کوفہ کے امام وفقیہ حضرت حماد  ، حضرت انس بن مالک  کے سب سے قریب اور معتمد شاگرد ہیں، امام ابوحنیفہ  ان کی صحبت میں 18 سال رہے۔120 ہجری میں حضرت حماد کے انتقال کے بعد امام ابوحنیفہ  ہی ان کی مسند پر فائز ہوئے۔ حضرت حماد مشہور ومعروف محدث وتابعی حضرت ابراہیم نخعی کے بھی خصوصی شاگرد ہیں۔ علاوہ ازیں حضرت حماد حضرت عبداللہ بن مسعود کے علمی وارث اور نائب بھی شمار کیے جاتے ہیں۔

امام ابوحنیفہ  کی دوسری بڑی درس گاہ شہر بصرہ تھی، جو امام المحدثین حضرت حسن بصری (متوفی 110ھ) کے علوم حدیث سے مالا مال تھی، یہاں بھی امام ابوحنیفہ نے علم حدیث کا بھرپور حصہ پایا۔

حضرت عطا بن ابی رباح (متوفی 114ھ): مکہ مکرمہ میں مقیم حضرت عطا بن ابی رباح سے بھی امام ابوحنیفہ نے بھرپور استفادہ کیا۔حضرت عطا بن ابی رباح نے بے شمار صحابہٴ کرام، خاص کر حضرت عائشہ، حضرت ابوہریرہ، حضرت ام سلمہ،حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت عبداللہ بن عمر سے استفادہ کیا تھا۔ حضرت عطا بن ابی رباح  صحابی رسول حضرت عبد اللہ بن عمر کے خصوصی شاگرد شمار کیے جاتے ہیں۔

حضرت عکرمہ بربری (متوفی 104ھ): یہ حضرت عبداللہ بن عباس کے خصوصی شاگرد ہیں۔ کم وبیش 70 مشہور تابعین ان کے شاگرد ہیں، امام ابوحنیفہ بھی ان میں شامل ہیں۔مکہ مکرمہ میں امام ابوحنیفہ نے ان سے علمی استفادہ کیا۔

مدینہ منورہ کے فقہائے سبعہ میں سے حضرت سلیمان  اور حضرت سالم بن عبداللہ بن عمر سے امام ابوحنیفہ نے احادیث کی سماعت کی ہے۔ یہ ساتوں فقہا مشہور ومعروف تابعین تھے۔ حضرت سلیمان ام الموٴمنین حضرت میمونہ کے پروردہ غلام ہیں، جب کہ حضرت سالم  حضرت عمر فاروق  کے پوتے ہیں جنہوں نے اپنے والد صحابی رسول حضرت عبد اللہ عمر سے تعلیم حاصل کی تھی۔

ملک شام میں امام اوزاعی  اور امام مکحول سے بھی امام ابوحنیفہ  نے اکتساب علم کیا ہے۔

دیگر محدثین کے طرز پر امام ابوحنیفہ  نے احادیث کی سماعت کے لیے حج کے اسفار کا بھرپور استعمال کیا، چناں چہ آپ نے تقریباً 55 حج ادا کیے۔ حج کی ادائیگی سے قبل وبعد مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں قیام فرماکر قرآن وسنت کو سمجھنے اور سمجھانے میں وافر وقت لگایا۔ بنوامیہ کے آخری عہد میں جب امام ابوحنیفہ کا حکم رانوں سے اختلاف ہوگیا تھا تو امام ابوحنیفہ نے تقریباً 7سال مکہ مکرمہ میں مقیم رہ کر تعلیم وتعلم کے سلسلہ کو جاری رکھا۔(جاری)

Flag Counter