Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الثانی 1435ھ

ہ رسالہ

4 - 15
یہودیت کی کج رَوی کے چند نمونے

استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ
	
ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہلسنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے او رحضرت کا سایہ تادیر ہم پر قائم رکھے۔ آمین۔ (ادارہ)

﴿وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِیْنَ اعْتَدَواْ مِنکُمْ فِیْ السَّبْتِ فَقُلْنَا لَہُمْ کُونُواْ قِرَدَةً خَاسِئِیْنَ، فَجَعَلْنَاہَا نَکَالاً لِّمَا بَیْْنَ یَدَیْْہَا وَمَا خَلْفَہَا وَمَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِیْن﴾․ (البقرہ، آیت:66-65)
ترجمہ:” اور تم خوب جان چکے ہو جنہوں نے کہ تم میں سے زیادتی کی تھی ،ہفتہ کے دن میں تو ہم نے کہا ان سے ہو جاؤ بندر ذلیل، پھر کیاہم نے اس واقعے کو عبرت ان لوگوں کے لیے جو وہاں تھے اور جوپیچھے آنے والے تھے اور نصیحت ڈرنے والوں کے واسطے۔

تفسیر
یہودیوں کے ساتھ الله تعالیٰ کا سولہواں معاملہ
یہودیوں کی شریعت میں ہفتے کا دن انتہائی مقدس اور خالص عبادتِ الہٰی کے لیے مخصوص تھا، اس روز تجارت وزراعت، شکار وغیرہ غرض ہر قسم کے دنیاوی امور ممنوع تھے، یہ لوگ سمندر کے کنارے آباد تھے اور مچھلیوں کا شکار کرتے تھے، ان میں کچھ لوگ عبادت الہٰی کے اس مخصوص دن بھی دنیاوی دھندوں سے باز نہ آئے او رمختلف حیلوں ، بہانوں اور چالاکیوں سے مچھلیوں کا شکار کر لیتے، مسلسل نافرمانی کی سزا یہ ملی کہ الله تعالیٰ نے ان کی صورتوں کو بندروں کی صورت میں تبدیل کر دیا، مسخ شکل کے تین دن بعد سب کے سب ہلاک ہو گئے ۔ ( تفسیر ابن کثیر ، البقرہ تحت آیہ رقم:65) الله تعالیٰ نے اس واقعہ میں اس وقت کے نافرمانوں کے لیے عبرت اور فرماں برداروں کے لیے موعظت کا بڑا سامان رکھا ہے ۔ یہ واقعہ حضرت داؤد علیہ السلام کے زمانے میں پیش آیا اور یہ یہودیوں کی تاریخ کا اس قدر مسلمہ واقعہ ہے کہ الله تعالیٰ نے اس کے بیان کرنے سے پہلے فرما دیا ﴿ولقد علمتم﴾( اور تم خوب جان چکے ہو ) رہا یہ سوال کہ آدمی کا بندر بن جانا کیسے ممکن ہے ؟ اس میں کوئی استحالہ نہیں، کیوں کہ خالق کائنات اپنی مخلوق پر ہر قسم کے تصرفات پر مکمل قدرت رکھتا ہے۔

ڈارون کے نظریہ ارتقا پر ایمان لانے والے یورپی فلاسفہ کے لیے تو اس میں کوئی تعجب ہی نہیں اگر ان کے ” نظریہ ارتقا“ کی رو سے ایک بندر ترقی کے منازل طے کرتے ہوئے انسان بن سکتا ہے تو پھر اس ارتقائی راستے سے ایک انسان کے بندر بننے میں کیا شبہ؟ یہ بھی تو ایک ارتقا ہے ارتقا ئے مستقیم نہ سہی ،بقول دریا آبادی رحمہ الله ارتقائے معکوس تو ہے۔ (تفسیر ماجدی، البقرہ، تحت آیہ رقم:65)

﴿قَالُواْ ادْعُ لَنَا رَبَّکَ یُبَیِّن لّنَا مَا ہِیَ قَالَ إِنَّہُ یَقُولُ إِنَّہَا بَقَرَةٌ لاَّ فَارِضٌ وَلاَ بِکْرٌ عَوَانٌ بَیْْنَ ذَلِکَ فَافْعَلُواْ مَا تُؤْمَرونَ ،قَالُواْ ادْعُ لَنَا رَبَّکَ یُبَیِّن لَّنَا مَا لَوْنُہَا قَالَ إِنَّہُ یَقُولُ إِنّہَا بَقَرَةٌ صَفْرَاء فَاقِعٌ لَّوْنُہَا تَسُرُّ النَّاظِرِیْنَ ، قَالُواْ ادْعُ لَنَا رَبَّکَ یُبَیِّن لَّنَا مَا ہِیَ إِنَّ البَقَرَ تَشَابَہَ عَلَیْْنَا وَإِنَّا إِن شَاء اللَّہُ لَمُہْتَدُونَ، قَالَ إِنَّہُ یَقُولُ إِنَّہَا بَقَرَةٌ لاَّ ذَلُولٌ تُثِیْرُ الأَرْضَ وَلاَ تَسْقِیْ الْحَرْثَ مُسَلَّمَةٌ لاَّ شِیَةَ فِیْہَا قَالُواْ الآنَ جِئْتَ بِالْحَقِّ فَذَبَحُوہَا وَمَا کَادُواْ یَفْعَلُونَ،وَإِذْ قَتَلْتُمْ نَفْساً فَادَّارَأْتُمْ فِیْہَا وَاللّہُ مُخْرِجٌ مَّا کُنتُمْ تَکْتُمُونَ ،فَقُلْنَا اضْرِبُوہُ بِبَعْضِہَا کَذَلِکَ یُحْیِی اللّہُ الْمَوْتَی وَیُرِیْکُمْ آیَاتِہِ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُونَ﴾․(البقرة، آیت:67۔73)
ترجمہ:”او رجب کہا موسی نے اپنی قوم سے، الله فرماتا ہے تم کو ذبح کرو ایک گائے۔ وہ بولے کیا تو ہم سے ہنسی کرتا ہے؟ کہا پناہ خدا کی کہ ہوں میں جاہلوں میں۔ بولے کہ دعا کر ہمارے واسطے اپنے رب سے کہ بتا دے ہم کو کہ وہ گائے کیسی ہے؟ کہا وہ فرماتا ہے کہ وہ گائے ہے نہ بوڑ ھی اور نہ بن بیاہی، درمیان میں ہے بڑھاپے اور جوانی کے، اب کر ڈالو جوتم کو حکم ملا۔ بولے کہ دعا کر ہمارے واسطے اپنے رب سے کہ بتا دے ہم کو کیسا ہے اس کا رنگ؟ کہا وہ فرماتا ہے کہ وہ ایک گائے ہے زرد ،خوب گہری ہے اس کی زردی، خوش آتی ہے دیکھنے والوں کو ۔بولے دعا کر ہمارے واسطے اپنے رب سے کہ بتا دے ہم کو کس قسم میں ہے وہ؟ کیوں کہ اس گائے میں شبہ پڑا ہے ہم کو اور ہم اگر الله نے چاہا تو ضرور راہ پالیں گے۔ کہا وہ فرماتا ہے وہ ایک گائے ہے، محنت کرنے والی نہیں کہ جوتتی ہو زمین کو یا پانی دیتی ہو کھیتی کو، بے عیب ہے، کوئی داغ اس میں نہیں۔ بولے اب لایا تو ٹھیک بات۔ پھر اس کو ذبح کیا اور وہ لگتے نہ تھے کہ ایسا کر لیں گے اور جب مار ڈالا تھا تم نے ایک شخص کو، پھر لگے ایک دوسرے پر دھرنے اور الله کو ظاہر کرنا تھا جو تم چھپاتے تھے ،پھر ہم نے کہا مارو اس مردہ پر، اس گائے کا ایک ٹکڑا ۔اسی طرح زندہ کرے گا الله مردوں کو اور دکھاتا ہے تم کو اپنی قدرت کے نمونے، تاکہ تم غور کرو۔“

تشریح
بنی اسرائیل میں ایک شخص نے کسی لڑکی کو اپنے رشتہ ازدواج میں لانا چاہا، لیکن لڑکی کا باپ اس پر راضی نہ ہوتا تھا ،بالآخر وہ شخص اس لڑکی کے باپ کو پر اسرار طریقے سے قتل کرکے روپوش ہو گیا۔ ( مرقاة المفاتیح، شرح مشکوٰة المصابیح)

بنی اسرائیل قاتل کے سراغ کے سلسلے میں حضرت موسی علیہ السلام کی بارگاہ رسالت میں حاضر خدمت ہوئے ،حضرت موسی علیہ السلام نے فرمایا کہ الله تعالیٰ ایک گائے ذبح کرنے کا حکم دیتے ہیں ، اس مذبوحہ گائے کے گوشت کا ٹکڑا مقتول کے جسم سے لگاؤ گے تو وہ زندہ ہو کر خود قاتل کے متعلق بتا دے گا۔ بنی اسرائیل اسے مذاق سمجھے، حالاں کہ دینی احکام بیان کرنے میں مذاق کرنا جاہلوں کا شیوہ ہے ایک نبی کا یہ کام نہیں ہو سکتا کہ وہ جاہلوں کا شیوہ اختیار کر لے ،اس لیے آپ نے فرمایا ﴿أعوذ بالله ان أکون من الجاہلین﴾۔ (پناہ خدا کی کہ ہوں میں جاہلوں میں)

اطاعت رسول کا تقاضا تو یہ تھا کہ حکم الہی سنتے ہی عمل پیرا ہو جاتے، لیکن بال کی کھال اتارنے کی عادت سے مجبور ہو کر دریافت کرنے لگے کہ اس گائے کے کیا اوصاف ہونے چاہییں؟ آپ نے وضاحت فرمائی کہ الله تعالیٰ فرماتے ہیں گائے بوڑھی ہو، نہ بالکل بچی ، بلکہ اپنی عمر کے لحاظ سے اوسط درجے کی ہو اور زیادہ پوچھ گچھ مت کرو،جس طرح تمہیں حکم دیاجارہا ہے اسی طرح کر گزرو۔

لیکن بنی اسرائیل اپنی عادت سے باز نہ آئے او رکہنے لگے آپ اپنے رب سے اس کے رنگ کے متعلق بھی درخواست کرکے پوچھ لیجیے۔ آپ نے فرمایا: الله تعالیٰ فرماتے ہیں گائے، کھلتے ہوئے شوخ زرد رنگ کی ہو،جسے دیکھنے والے فرحت محسوس کریں ۔ پھر کہنے لگے آپ اپنے رب سے درخواست کریں کہ اس کے اوصاف کے متعلق ذرا مزید وضاحت ہو جائے ،اب کی بار ہم ٹھیک طرح سے سمجھ جائیں گے۔ آپ نے فرمایا: الله تعالیٰ فرماتے ہیں نہ وہ زمینوں پر جوتی گئی، ہو نہ کنویں میں جوڑی گئی ہو ، ہر قسم کے عیب اور داغ سے پاک ہو ۔

الله تعالیٰ نے تو فقط ایک گائے، کوئی سی بھی ہو، ذبح کرنے کا حکم دیا تھا، لیکن یہودیوں نے بے موقع پوچھ گچھ کرکے کئی پابندیاں لگوادیں، چناں چہ بڑی مشکل سے اس طرح کی ایک گائے ملی اور نہ چاہتے ہوئے بھی اسے ذبح کرنا پڑا اس کے گوشت کا ٹکڑا مقتول کو لگا تو وہ زندہ ہو گیا، قاتل کانام لیا اور دوبارہ موت کی آغوش میں چلا گیا۔ الله تعالیٰ نے مردے کو زندہ فرما کر منکرین قیامت پر حجت قائم کر دی کہ قیامت کے دن بھی الله تعالیٰ اسی طرح مردوں کو زندہ فرمائیں گے۔واضح رہے کہ یہاں قاتل کی تعیین صرف مقتول کے بیان سے نہیں کی گئی، بلکہ حضرت موسی عليه السلام کو وحی الہی کی روشنی میں قاتل کا علم پہلے سے ہوچکا تھا ۔ باقی رہا یہ سوال کہ الله تعالیٰ مردے کو اپنی قدرت کاملہ سے زندہ فرماسکتے تھے تو پھر گائے کو ذبح کرکے اس کا گوشت مقتول کو لگانے کی کیا ضرورت تھی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ الله تعالیٰ کا کوئی بھی فعل ضرورت اورمجبوری کی وجہ سے نہیں ہوتا، بلکہ مصلحت اور حکمت کے ماتحت ہوتا ہے، الله تعالیٰ کی حکمتوں سے واقف ہونا یا ان کا احاطہ کرن انسان کے بس کی بات نہیں اس لیے یہاں خاموش رہنا ہی بہتر ہے۔

﴿ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُکُم مِّن بَعْدِ ذَلِکَ فَہِیَ کَالْحِجَارَةِ أَوْ أَشَدُّ قَسْوَةً وَإِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا یَتَفَجَّرُ مِنْہُ الأَنْہَارُ وَإِنَّ مِنْہَا لَمَا یَشَّقَّقُ فَیَخْرُجُ مِنْہُ الْمَاء وَإِنَّ مِنْہَا لَمَا یَہْبِطُ مِنْ خَشْیَةِ اللّہِ وَمَا اللّہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُون﴾․ (البقرة، آیت:74)
ترجمہ:” پھر تمہارے دل سخت ہو گئے اس سب کے بعد، سووہ ہو گئے جیسے پتھر یا ان سے بھی سخت اور پتھروں میں تو ایسے بھی ہیں جن سے جاری ہوتی ہیں نہریں اور ان میں ایسے بھی ہیں جو پھٹ جاتے ہیں اورنکلتا ہے ان سے پانی اور ان میں ایسے بھی ہیں جو گر پڑتے ہیں الله کے ڈر سے اور الله بے خبر نہیں تمہارے کاموں سے۔“

تفسیر
بنی اسرائیل کی قساوت کا ذکر ہے کہ اس قدر عظیم واقعے کے بعد بھی عظمت الہٰی کے نقش ان کے دلوں میں نہ اُتر سکے ۔ ان کے دل پتھروں سے بھی زیادہ سخت ہوچکے ہیں، کیوں کہ پتھروں میں بھی اثر پذیری کی صلاحیت ہوتی ہے، بعض پتھروں کے اندر پانی کے سوتے بہتے رہتے ہیں، جومل کر نہروں کی صورت اختیار کر لیتے ہیں اور بعض پتھر پھٹتے ہیں تو ان سے پانی نکل آتا ہے اور بعض پتھر الله تعالیٰ کے خوف سے لڑھک کر نیچے آجاتے ہیں ۔ لیکن ان کے دلوں میں اثر پذیری کی اتنی صلاحیت بھی نہیں ہے۔

واضح رہے کہ خوف کا تعلق عقل سے نہیں بلکہ حس سے ہے، یہی وجہ ہے کہ عقل سے محروم جانور میں خوف کا مکمل شعور ہوتا ہے، جمادات کے متعلق اتنی بات تو یقینی ہے کہ ان میں عقل نہیں ہوتی، لیکن جس بھی نہ ہو ؟ اس پر کوئی دلیل نہیں، کیوں کہ حس موقوف ہے حیات پر اور کوئی بعید نہیں کہ جمادات میں بھی حیات لطیفہ کا مادہ موجود ہو او رہم اس کا ادارک نہ کرسکتے ہوں، جیسے کہ ”دماغی جوہر“ کی حس پر بہت سے عقلا کو ادراک نہیں، اس لیے وہ اس کے قائل نہیں اورجن عقلاکو اس کا ادراک ہوا ہے وہ اس کے پوری طرح قائل ہیں۔ قرآن کریم کی آیات طبعی دلائل سے زیادہ قوی ہیں، لہٰذا خوف خدا کی وجہ سے پتھر کے لڑھکنے میں کوئی عقلی شبہ وارد نہیں ہوتا ، البتہ ہر پتھر کے لڑھکنے کی علت خوف خدا نہیں ، بلکہ اس کے دوسرے کئی اسباب ہو سکتے ہیں ، کیوں کہ الله تعالیٰ نے فرمایا ان میں سے بعض پتھر ایسے ہوتے ہیں ۔﴿وإن منھا لما یھبط من خشیة الله﴾․

﴿أَفَتَطْمَعُونَ أَن یُؤْمِنُواْ لَکُمْ وَقَدْ کَانَ فَرِیْقٌ مِّنْہُمْ یَسْمَعُونَ کَلاَمَ اللّہِ ثُمَّ یُحَرِّفُونَہُ مِن بَعْدِ مَا عَقَلُوہُ وَہُمْ یَعْلَمُونَ ﴾․(البقرة، آیت:75)
ترجمہ:” اب کیا تم اے مسلمانو! توقع رکھتے ہو کہ وہ مانیں تمہاری بات اور ان میں ایک فرقہ تھا کہ سنتا تھا الله کا کلام، پھر بدل ڈالتے تھے اس کو، جان بوجھ کر اور وہ جانتے تھے۔“

تفسیر
بنی اسرائیل کے گذشتہ واقعات کے تذکرے سے مسلمانوں کو یہودیوں کے ایمان لانے کی توقع ہو چلی تھی تو الله تعالیٰ نے ان کے فاسد مزاج سے آگاہ فرمایا کہ ایسے لوگوں سے کیا توقع باندھنا، جن کے بعض لوگ دنیا پرستی کے اس قدر مریض ہو چکے تھے کہ الله تعالیٰ کے احکامات کو بھی کسی خاطر میں نہ لاتے؟! جب دیکھتے کہ الله تعالیٰ کے کسی حکم سے ان کے مالی مفادات اور نفسانی خواہشات پر زد پڑ رہی ہے تو فوراً کلام الہی میں ردّ وبدل اور تحریف وتاویل کرکے اپنی خواہشات کے مطابق بنا لیتے ، لطف یہ کہ اپنی خباثت سے پوری طرح واقف ہوتے ۔

آسمانی کتابوں کے ساتھ جن کا طرز عمل ایسا ہو ان کے بارے میں یہ کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ پنے دنیاوی منصب کا لبادہ اتار کر اور مالی مفادات کو ٹھکرا کر ایمان ویقین کو گلے لگالیں گے۔

﴿وَإِذَا لَقُواْ الَّذِیْنَ آمَنُواْ قَالُواْ آمَنَّا وَإِذَا خَلاَ بَعْضُہُمْ إِلَیَ بَعْضٍ قَالُواْ أَتُحَدِّثُونَہُم بِمَا فَتَحَ اللّہُ عَلَیْْکُمْ لِیُحَآجُّوکُم بِہِ عِندَ رَبِّکُمْ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ ، أَوَلاَ یَعْلَمُونَ أَنَّ اللّہَ یَعْلَمُ مَا یُسِرُّونَ وَمَا یُعْلِنُونَ،وَمِنْہُمْ أُمِّیُّونَ لاَ یَعْلَمُونَ الْکِتَابَ إِلاَّ أَمَانِیَّ وَإِنْ ہُمْ إِلاَّ یَظُنُّونَ،فَوَیْْلٌ لِّلَّذِیْنَ یَکْتُبُونَ الْکِتَابَ بِأَیْْدِیْہِمْ ثُمَّ یَقُولُونَ ہَذَا مِنْ عِندِ اللّہِ لِیَشْتَرُواْ بِہِ ثَمَناً قَلِیْلاً فَوَیْْلٌ لَّہُم مِّمَّا کَتَبَتْ أَیْْدِیْہِمْ وَوَیْْلٌ لَّہُمْ مِّمَّا یَکْسِبُونَ﴾․ (البقرة، آیت:79-77)
ترجمہ:” او رجب ملتے ہیں مسلمانوں سے کہتے ہیں ہم مسلمان ہوئے او رجب تنہا ہوتے ہیں ایک دوسرے کے پاس تو کہتے ہیں تم کیوں کہہ دیتے ہوں ان سے جو ظاہر کیا الله نے تم پر، تاکہ جھٹلائیں تم کو اس سے تمہارے رب کے آگے۔ کیا تم نہیں سمجھتے؟ کیا اتنا بھی نہیں جانتے کہ الله کو معلوم ہے جو کچھ چھپاتے ہیں او رجو کچھ ظاہر کرتے ہیں اور بعض ان میں بے پڑھے ہیں کہ خبر نہیں رکھتے کتاب کی ،سوائے جھوٹی آرزؤوں کے اور ان کے پاس کچھ نہیں مگر خیالات ،سو خرابی ہے ان کو جو لکھتے ہیں کتاب اپنے ہاتھ سے ، پھر کہہ دیتے ہیں یہ خدا کی طرف سے ہے، تاکہ لیویں اس پر تھوڑا سال مال، سو خرابی ہے ان کو اپنے ہاتھوں کے لکھے سے او رخرابی ہے ان کو اپنی اس کمائی سے۔“

تفسیر
یہودیوں سے ایمان کی توقع نہ رکھنے کی بنیادی وجہ
منافقین جب مسلمانوں سے ملتے جلتے تو اپنا ایمان جتلانے کے لیے بعض اوقات سچی بات بھی زبان سے نکال دیتے، مثلاً آپ صلى الله عليه وسلم کی بشارت تورات میں دی گئی ہے او رتورات میں آپ صلى الله عليه وسلم کی فلاں فلاں صفات مذکور ہیں۔ دوسرے یہودی اس بات پر جھنجھلاتے کہ مسلمانوں کی مجلس میں جاکر تورات کے سر بستہ راز کیوں افشا ء کرتے ہو ؟ اگر مسلمان پروردگار کے سامنے تمہاری ہی باتوں سے تم پر الزام قائم کریں کہ یہ حضور صلى الله عليه وسلم کو سچا جان کر بھی ایمان نہ لائے تھے تو پھر کیا جواب دو گے ؟

یہودیوں کی حماقت دیکھیے! انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ الله تعالیٰ ہمارے احوال سے پوری طرح واقف ہے، وہ ہماری منافقت سے پردہ اٹھاسکتا ہے اور تورات میں آپ صلى الله عليه وسلم کے متعلق مذکورہ صفات وبشارت کی اطلاع مسلمانوں کو دے سکتا ہے، لیکن اس کے باوجود بھی ہٹ دھرمی سے باز نہیں آتے، یہ حال تو ان کے علما کا تھا اور یہودی عوام جہالت میں سرگرداں اور جھوٹی آرزؤوں کی آس میں رہ رہی تھی، یہودی علما نے انہیں حقائق سے دور رکھ کر تو ہم پرستی میں مبتلا کر رکھا تھا: ﴿فویل الذین یکتبون الکتب بأیدھم﴾․

یہودی علما کی دین فروشی کا یہ عالم تھا کہ جان بوجھ کر لوگوں کو غلط سلط مسائل بتاتے ، عوام کو من پسند فتوے مل جاتے ، ان کو نذرانے وصول ہو جاتے اور علمی دھاک بھی بیٹھ جاتی تو ایسے دنیاپرست علما اور توہم پرست لوگوں سے ایمان کی کیا توقع رکھنا؟

﴿وَقَالُواْ لَن تَمَسَّنَا النَّارُ إِلاَّ أَیَّاماً مَّعْدُودَةً قُلْ أَتَّخَذْتُمْ عِندَ اللّہِ عَہْداً فَلَن یُخْلِفَ اللّہُ عَہْدَہُ أَمْ تَقُولُونَ عَلَی اللّہِ مَا لاَ تَعْلَمُون﴾․ (البقرة، آیت:80)
ترجمہ:” او رکہتے ہیں ہم کو ہر گز آگ نہ لگے گی، مگر چند روز گنے چنے۔ کہہ دو کیا تم لے چکے ہو الله کے یہاں سے قرار اب ہر گز خلاف نہ کرے گا الله اپنے قرار کے؟ یا جوڑتے ہو الله پر جو تم نہیں جانتے؟“

تفسیر
یہودیوں کی جھوٹی آرزوئیں
یہودیوں کی جھوٹی آرزؤوں کی ایک مثال ان کے اس دعوی میں دیکھی جاسکتی ہے کہ د”وزخ کی آگ چند دن سے زیادہ ہمیں نہیں چھوئے گی۔“

اس میں تو کوئی شک نہیں کہ مومن گناہ گار ہونے کی صورت میں دوزخ کا عذاب پانے کے بعد ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جنت میں ہی رہے گا۔ یہودیوں کو اپنے جنتی اور مومن ہونے کا تصور دین موسوی کو ابدی اور ناقابل منسوخ سمجھنے کی وجہ سے ہوا۔ اس لیے وہ سمجھتے ہیں کہ حضرت عیسی عليه السلام اورحضور اکرم کی نبوت کے انکار سے ہمارے ایمان پر کوئی فرق نہیں پڑا،پس اگر کسی گناہ کی وجہ سے دوزخ میں چلے بھی گئے تو پھر نکال لیے جائیں گے۔ حالاں کہ یہودیوں کے اس دعویٰ کی بنیادہی غلط ہے کہ حضرت موسی عليه السلام کا دین ناقابل منسوخ ہے۔ حضرت عیسی عليه السلام  اور آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی نبوت کاانکار کرنے کی وجہ سے یہ کافر ہو چکے ہیں اور کافروں کو چند دنوں کے عذاب کے بعد نجات مل جانا کسی آسمانی کتاب سے منقول نہیں ،جسے الله تعالیٰ نے عہد سے تعبیر فرمایا ہے ﴿قل اتخذتم عندالله عہداً﴾․

﴿بَلَی مَن کَسَبَ سَیِّئَةً وَأَحَاطَتْ بِہِ خَطِیْئَتُہُ فَأُوْلَئِکَ أَصْحَابُ النَّارِ ہُمْ فِیْہَا خَالِدُون،وَالَّذِیْنَ آمَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ أُولَئِکَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ ہُمْ فِیْہَا خَالِدُون﴾․(البقرة، آیت:82-81)
ترجمہ:” کیوں نہیں جس نے کمایا گناہ او رگھیر لیا اس کو اس کے گناہ نے سو وہی ہیں دوزخ کے رہنے والے ،وہ اسی میں ہمیشہ رہیں گے اور جو ایمان لائے اور عمل کیے نیک، وہی ہیں جنت کے رہنے والے، وہ اسی میں ہمیشہ رہیں گے۔“

جنتی اور جہنمی کا اصل الأصول
الله تعالیٰ نجات کا اصل الاصول بیان فرمار ہے ہیں کہ جس شخص کو اس کے گناہوں نے پوری طرح گھیر رکھا ہو گا وہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہے گا۔ اتنے بڑے اور سخت گناہ کفر اور شرک کے علاوہ کوئی اور نہیں ہو سکتے، کفر کے ہوتے ہوئے نیک اعمال بھی قبولیت کا درجہ نہیں پاسکتے، اس لیے کفر کو ﴿وأحاطت بہ خطیئتہ﴾ ( اور گھیر لیا اس کو اس کے گناہ نے) سے تعبیر فرمایا ہے ۔ (عن ابن عباس رضی الله عنہما (ابلی من کسب سیئتہ) ای عمل بمثل اعمالکم، وکفر بمثل ماکفرتم بہ، حتی یحیط بہ کفرہ، فمالہ من حسنة․ تفسیر ابن کثیر، البقرة تحت آیة رقم:81)

اس کے بالمقابل مسلمانوں میں سب سے بڑی نیکی ان کا ایمان ہے، جو تمام اعمال صالحہ کی جڑ اور بنیاد ہے، نماز، روزہ، حج، زکوٰة، جہاد وغیرہ کی نیکیوں سے وہ بنیاد مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی جاتی ہے، ایمان کے ہوتے ہوئے وہ ﴿واحاطت بہ خطیئتہ﴾ (اور گھیر لیا اس کو اس کے گناہ نے) کے دائرے میں کبھی نہیں بھٹکتے، اس لیے وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جنت میں رہیں گے، اگر وہ گناہ گار بھی ہوں تو مغفرت کے مستحق ہوں گے ۔ ( کیا گناہ کبیرہ کا مرتکب مومن ہمیشہ جہنم میں رہے گا؟ اس کی تفصیل دیکھیے سورة النساء، تحت آیہ رقم:93) اس سے یہودیوں کے اس دعوی کی تردید ہو گئی کہ ”عذاب کے چند دنوں بعد ہم جنت ہی میں رہیں گے۔“ کیوں کہ حضرت عیسیں او رحضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی نبوت کا انکار کرنے کی وجہ سے یہ پوری طرح کفر کی دلدل میں گر کر ایمان کی دولت بھی گنوا بیٹھے ہیں۔

﴿وَإِذْ أَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْ إِسْرَائِیْلَ لاَ تَعْبُدُونَ إِلاَّ اللّہَ وَبِالْوَالِدَیْْنِ إِحْسَاناً وَذِیْ الْقُرْبَی وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِیْنِ وَقُولُواْ لِلنَّاسِ حُسْناً وَأَقِیْمُواْ الصَّلاَةَ وَآتُواْ الزَّکَاةَ ثُمَّ تَوَلَّیْْتُمْ إِلاَّ قَلِیْلاً مِّنکُمْ وَأَنتُم مِّعْرِضُون﴾ ․(البقرة، آیت:83)
ترجمہ:” او رجب ہم نے لیا قرار بنی اسرائیل سے کہ عبادت نہ کرنا مگر الله کی اور ماں باپ سے سلوک نیک کرنا اورکنبہ والوں سے اور یتیموں او رمحتاجوں سے او رکہیو سب لوگوں سے نیک بات اور قائم رکھیو نماز اور دیتے رہو زکوٰة ،پھر تم پھر گئے، مگر تھوڑے سے تم میں اور تم ہی ہو پھرنے والے۔“

ربط
گزشتہ آیت میں بنی اسرائیل کے اس غلط عقیدے کی تردید کی گئی ” ہمارے علاوہ کوئی جنت میں نہیں جاسکتا“ کیوں کہ یہ خالص الله تعالیٰ پر بہتان تھا، الله تعالیٰ نے ان سے اس طرح کا کوئی معاہدہ نہیں فرمایا اور جو عہد الله تعالیٰ نے حقیقتاً لیے تھے ان پر عمل پیرا ہونے کی کوشش نہیں کی ،اس آیت میں انہیں معاہدوں کا تذکرہ ہے ۔

تفسیر
الله تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے تورات میں یہ عہد لیا تھا کہ میرے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا، ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا، قرابت داروں کے ساتھ اچھا سلوک رکھنا، یتیموں اور مسکینوں کی ضروریات کاخیال رکھنا ( یتیم اسے کہتے ہیں جس کے سر پر والدکا سایہ نہ ہو ، مسکین اسے کہتے ہیں جس کی آمدنی اس کی ضروریات سے تھوڑی ہو۔)( والیتمیٰ: وھم الصغار الذین لا کاسب لھم من الأباء․ والمسکین: الذین لا یجدون ماینفقون علی انفسھم واھلیھم، تفسیر ابن کثیر، البقرة، تحت آیة رقم:83)

اور لوگوں سے خوش اخلاقی سے بھلائی کی بات کرنا، نماز وزکوٰة کی ادائیگی کا اہتمام کرنا۔ بنی سرائیل الله تعالیٰ کے ساتھکیے گئے ان معاہدوں سے پھر گئے، بہت کم لوگ تھے جو ان معاہدوں پر عمل پیرا رہے، حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی نبوت پر بھی تورات کے حکم سے بہت کم لوگ ایمان لائے۔

﴿وَإِذْ أَخَذْنَا مِیْثَاقَکُمْ لاَ تَسْفِکُونَ دِمَاء کُمْ وَلاَ تُخْرِجُونَ أَنفُسَکُم مِّن دِیَارِکُمْ ثُمَّ أَقْرَرْتُمْ وَأَنتُمْ تَشْہَدُونَ،ثُمَّ أَنتُمْ ہَؤُلاء تَقْتُلُونَ أَنفُسَکُمْ وَتُخْرِجُونَ فَرِیْقاً مِّنکُم مِّن دِیَارِہِمْ تَظَاہَرُونَ عَلَیْْہِم بِالإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَإِن یَأتُوکُمْ أُسَارَی تُفَادُوہُمْ وَہُوَ مُحَرَّمٌ عَلَیْْکُمْ إِخْرَاجُہُمْ أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْکِتَابِ وَتَکْفُرُونَ بِبَعْضٍ فَمَا جَزَاء مَن یَفْعَلُ ذَلِکَ مِنکُمْ إِلاَّ خِزْیٌ فِیْ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَیَوْمَ الْقِیَامَةِ یُرَدُّونَ إِلَی أَشَدِّ الْعَذَابِ وَمَا اللّہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ،أُولَئِکَ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُاْ الْحَیَاةَ الدُّنْیَا بِالآَخِرَةِ فَلاَ یُخَفَّفُ عَنْہُمُ الْعَذَابُ وَلاَ ہُمْ یُنصَرُون﴾․ (البقرة، آیت:86-84)
ترجمہ:” او رجب لیا ہم نے وعدہ تمہارا کہ نہ کرو گے خون آپس میں اور نہ نکال دو گے اپنوں کو اپنے وطن سے، پھر تم نے اقرارکر لیا اور تم مانتے ہو۔ پھر تم وہ لوگ ہو کہ ویسے ہی خون کرتے ہو آپس میں اور نکال دیتے ہو اپنے ایک فرقہ کو ان کے وطن سے، چڑھائی کرتے ہو ان پر گناہ اور ظلم سے اور اگر وہی آویں تمہارے پاس کسی کے قیدی ہو کر تو ان کا بدلہ دے کر چھڑاتے ہو، حالاں کہ حرام ہے تم پر ان کا نکال دینا بھی۔ تو کیا مانتے ہو بعض کتاب کو اور نہیں مانتے بعض کو؟ سو کوئی سزا نہیں اس کی جو تم میں یہ کام کرتا ہے مگر رسوائی دنیا کی زندگی میں اور قیامت کے دن پہنچائے جاویں سخت سے سخت عذاب میں اور الله بے خبر نہیں تمہارے کاموں سے، یہ وہی ہیں جنہوں نے مول لی دنیا کی زندگی آخرت کے بدلے ،سو نہ ہلکا ہو گا ان پر عذاب اور نہ ان کو مدد پہنچے گی۔“

تفسیر
یہاں ایک اور عہد کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے جو بنی اسرائیل سے لیا گیا تھا۔ یہ عہد اس بات پر تھا کہ یہ ایک دوسرے کا ناحق خون نہیں بہائیں گے اور نہ ہی اپنے بھائیوں میں سے کسی کو جلاو طن کرنے کی کوشش کریں گے ۔ یہودیوں نے خدا کے اس عہد کو بھی نہایت بے دردی سے پامال کر دیا، جس کی تفصیل یہ ہے کہ مدینہ منورہ میں مشرکین کے دو قبیلے اوس وخزرج آباد تھے، ان میں باہمی دشمنی تھی، جوکبھی کبھی قتل وقتال کی صورت بھی اختیار کر جاتی ۔ یہودیوں کے بھی دو قبیلے تھے بنو قریظہ اور بنو نضیر، باہمی عداوت نے انہیں بھی ایک دوسرے سے دور کر دیا تھا۔ چناں چہ بنو قریظہ مشرکین کے ایک قبیلے اوس اور بنو نضیر مشرکین کے دوسرے قبیلے خزرج کے حلیف بن گئے، جب کبھی اوس وخزرج میں قتال کا معرکہ گرم ہوتا تو یہودیوں کے دونوں قبیلے حلیف ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہو جاتے اور اپنے ہی بھائیوں کی گردنیں اڑاتے، جلا وطن کرنے کی کوشش کرتے ، اگر جنگ میں دونوں طرف سے کوئی یہودی قیدی ہو جاتا تو فوراً فدیہ دے کر چھڑا لیتے اور کہتے کہ یہ حکم تورات کا ہے، یعنی قتل ناحق اور جلاوطنی کے سلسلے میں تو تورات بھول جاتے، لیکن فدیہ لیتے دیتے وقت انہیں خدا کی کتاب یاد آجاتی، خدا کے احکام کو انہوں نے اپنے جذبات اور خواہشات کے تابع کر رکھا تھا، جس پہ دل چاہا عمل کر لیا، جوناگوار گزرا اسے چھوڑ دیا۔ اسی پر تنبیہ کرتے ہوئے الله تعالیٰ نے فرمایا ﴿افتؤمنون ببعض الکتب وتکفرون ببعض﴾( تو کیا مانتے ہو بعض کتاب کو اور نہیں مانتے بعض کو؟) جو لوگ خدا کی کتاب کے ساتھ ایسا سلوک رکھتے ہوں وہ دنیا میں بھی ذلت ورسوائی اٹھاتے ہیں اور آخرت میں بھی شدید عذاب سے دو چار ہوں گے چناں چہ یہی حال یہودیوں کا ہوا، بنو قریظہ کو مسلمانوں سے کیے گئے عہد توڑنے کی وجہ سے قتل کر دیا گیا او رکچھ کو غلام بنا لیا گیا، بنو نضیر کو شام کی طرف جلا وطن کر دیا گیا۔ بنو قریظہ کا واقعہ سورة احزاب اور بنو نضیر کا واقعہ سورة حشر میں مذکور ہے۔ کافروں سے ساز باز کرکے مسلمانوں کو شہید اور گرفتار کرانے والوں کے لیے یہ آیات درس عبرت ہیں۔

﴿وَلَقَدْ آتَیْْنَا مُوسَی الْکِتَابَ وَقَفَّیْْنَا مِن بَعْدِہِ بِالرُّسُلِ وَآتَیْْنَا عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنَاتِ وَأَیَّدْنَاہُ بِرُوحِ الْقُدُسِ أَفَکُلَّمَا جَاء کُمْ رَسُولٌ بِمَا لاَ تَہْوَی أَنفُسُکُمُ اسْتَکْبَرْتُمْ فَفَرِیْقاً کَذَّبْتُمْ وَفَرِیْقاً تَقْتُلُونَ، وَقَالُواْ قُلُوبُنَا غُلْفٌ بَل لَّعَنَہُمُ اللَّہ بِکُفْرِہِمْ فَقَلِیْلاً مَّا یُؤْمِنُون﴾․ (البقرة، آیت:88-87)
ترجمہ:” اور بے شک دی ہم نے موسی کو کتاب اور پے درپے بھیجے اس کے پیچھے رسول اور دیے ہم نے عیسی مریم کے بیٹے کو معجزے صریح اور قوت دی اس کو روح پاک سے، پھر بھلا کیا جب تمہارے پاس لایا کوئی رسول وہ حکم جو نہ بھایا تمہارے جی کو تو تم تکبر کرنے لگے ؟پھر ایک جماعت کو جھٹلا یا او ر ایک جماعت کو تم نے قتل کر دیا او رکہتے ہیں ہمارے دلوں پر غلاف ہے، بلکہ لعنت کی ہے الله نے ان کے کفر کے سبب ،سو بہت کم ایمان لاتے ہیں۔

ربط
ان آیات میں ان انتظامات کی طرف اشارہ ہے جو بنی اسرائیل سے کیے گئے معاہدے کی یاددہانی کے لیے خدا کی طرف سے ہوتے رہے۔

تفسیر
موسی عليه السلام کو کتاب دینے کے بعد اس کے احکام کی یاد دہانی کے لیے بنی ا سرائیل میں برابر رسول مبعوث ہوتے رہے، ان میں آخری رسول حضرت عیسی عليه السلام تھے جو” آیات بینات“ واضح نشانیاں لے کر ان کے پاس آئے ”آیات بینات“ سے روشن معجزات مراد ہیں، مثلاً مادر زاد اندھے کر بینا کر دینا، کوڑھیوں کو شفا بخشنا، مُردوں کو زندہ کر دینا، یہ معجزات اس قدر واضح تھے کہ دیکھنے والوں کے لیے یہ گنجائش ہی نہ تھی کہ وہ اسے کرشمہ قدرت کے علاوہ کسی اور چیز سے تعبیر کرتے لیکن یہودیوں کا متعصبانہ رویہ ان حقائق کو قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھا۔

﴿وأیدناہ بروح القدوس﴾ روح القدس سے مراد جبرائیل عليه السلام ہیں، الله تعالیٰ نے جبرائیل عليه السلام کے ذریعے حضرت عیسی عليه السلام کی مدد فرمائی، مثلاً حضرت جبرائیل عليه السلام کی پھونک سے حضرت مریم علیہا السلام میں حمل عیسوی قرارپایا، بوقت پیدائش شیطانی لمس سے ان کی حفاظت فرمائی، یہودیوں کی ایذا رسانی سے بچانے کے لیے آپ کے ساتھ ساتھ رہے ، بالآخر آپ عليه السلام کو آسمان پر لے گئے۔

﴿وقالوا قلوبنا غلف…﴾ یہودی بڑے فخر سے کہتے ہمارے دل تو غلاف میں لپٹے ہوئے ہیں یعنی ہم اپنے دین پر بہت پختہ ہیں کسی کا اثر قبول نہیں کرتے، نہ ہمارے عقائد میں کسی قسم کا بگاڑ پیدا کیا جاسکتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ الله تعالیٰ نے انہیں مسلسل نافرمانی کی وجہ سے اپنی رحمت سے دور کر دیا ہے ، اب ایمان کا نور ان کے دلوں کے ظلمت کدوں میں روشن نہیں ہو سکتا۔ ﴿فقلیلاً ما یومنون﴾ (سو بہت کم ایمان لاتے ہیں۔) یہاں ایمان سے ایمان لغوی یعنی یقین مراد ہے ، بعض چیزوں کے متعلق یقین رکھنے سے کوئی مؤمن نہیں ہوتا۔(جاری)

Flag Counter