Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الثانی 1435ھ

ہ رسالہ

8 - 15
رحمة للعالمین صلی الله علیہ وسلم کے تابندہ ماہ وسال

محمد ناصرخان بن محمد انور
طالب علم جامعہ فاروقیہ، کراچی

ولادت کے آٹھویں سال579ء
آپ صلى الله عليه وسلم کے دادا حضرت عبدالمطلب کا انتقال ہوا، اس وقت ان کی عمر ایک قول کے مطابق140 سال اور دوسرے قول کے مطابق82 سال تھی، پہلا قول راجح ہے، جب کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی عمرمبارک 8 سال 2 ماہ10 دن تھی۔ جب کہ ایک قول کے مطابق آپ صلی الله علیہ وسلم کی عمر مبارک دس 10 سال تھی۔(سیرة ابن ہشام، ج1، ص:169)

ولادت کے بارہویں سال 583ء
آپ صلى الله عليه وسلم کے چچا جناب ابوطالب شام کے تجارتی سفر پر آپ صلى الله عليه وسلم کو اپنے ہم راہ لے گئے، اسی سفر میں بحیرہ راہب سے بھی ملاقات ہوئی اور راہب نے نبوت کی پیشن گوئی کی او رجناب ابو طالب کو آپ صلى الله عليه وسلم کو واپس مکہ لے جانے کا مشورہ دیا ،اس وقت آپ صلى الله عليه وسلم کی عمر مبارک12 سال 2 ماہ تھی۔

جب کہ ابن ہشام نے آپ صلى الله عليه وسلم کی عمر مبارک 9 سال ذکر کی ہے ، بعض نے 12 سال اور اس سے کم وبیش عمر ذکر کی ہے ۔ ( سیرة ابن ہشام، ج1ص:180)

ولادت کے بیسیویں سال591ء
آپ صلى الله عليه وسلم نے حربِ فجار میں شرکت کی، مگر قتال نہیں کیا۔ یہ روایت ابن اسحاق نے بغیر سند کے بیان کی ہے ، جب کہ ابن ہشام نے واقدی سے16 سال کی عمر بیان کی ہے ، جب کہ سیرة ابن ہشام میں ابن اسحاق سے بیس (20) سال کا قول منقول ہے اور اسی طرح ابن اثیر  نے بھی (20) بیس سال ہی ذکر کیے ہیں ، جب کہ اصح السیر میں عبدالرؤف داناپوری  نے دو 2 دفعہ شرکت کا ذکرکیا ہے ، پہلی دفعہ 15 یا 16 سال کی عمر میں، جب کہ دوسری دفعہ اس سے کچھ زیادہ عمر میں، جب کہ ابن ہشام نے خود 14 یا 15 سال کی عمر ذکر کی ہے۔ ”حربِ فجار کے چار ماہ بعد آپ صلى الله عليه وسلم حلف الفضول میں شریک ہوئے ، یہ عبدالله بن جدعان کے گھر پررؤسائے قریش کا معاہدہ ہوا تھا کہ مظلوم کی مدد کریں گے اور ظالم کا ساتھ نہیں دیں گے۔“(الکامل فی التاریخ،ج1،ص:261)

ولادت کے پچیسویں سال595ء
آپ صلى الله عليه وسلم نے شام کی طرف دوسرا تجارتی سفر کیا، جس میں آپ صلى الله عليه وسلم، حضرت خدیجہ رضی الله عنہا کا تجارتی سامان لے کر شام کی طرف گئے، اس سفر میں حضرت خدیجہ رضی الله عنہا کا خاص غلام ”میسرہ“ بھی آپ صلى الله عليه وسلم کے ساتھ تھا ، جب کہ اصح السیر میں 24سال کی عمر میں دوسرا سفر شام کرنے کا ذکر ہے، اسی سفر میں نسطورا راہب سے بھی ملاقات ہوئی، تموز595ء ۔ اسی سال آپ صلى الله عليه وسلم کا حضرت خدیجہ رضی الله عنہا سے نکاح ہوا، آپ صلى الله عليه وسلم کی عمر مبارک25 سال2 ماہ10 دن تھی، ایلول595ء او رحضرت خدیجہ رضی الله عنہا کی عمر چالیس 40 سال تھی۔ (الکامل فی التاریخ، ج3، ص:24)

ولادت کے پینتیسویں سال605ء
بیت الله کی دوبارہ تعمیر ہوئی ، حجراسود کو اسی کے مقام پر رکھنے کے لیے قبائل کے درمیان فیصلہ کرنے کا اختیار آپ صلى الله عليه وسلم کو حاصل ہوا، آپ صلى الله عليه وسلم نے ایک چادر منگوا کر حجراسود اس کے درمیان رکھا او رہر قبیلہ کے سردار سے کہا کہ وہ چادر کے کناروں کو پکڑ لیں، حجراسود اٹھا کر اپنے مقام پر لایا گیا، پھر آپ صلى الله عليه وسلم نے حجرِ اسود کو خود اپنے دست مبارک سے نصب فرمایا۔ (الکامل فی التاریخ،ج2، ص:28)

الرؤیا الصادقة
نبوت کے ابتدائی مراحل کا آغاز ہوا، آپ صلى الله عليه وسلم غار حرا میں عبادت فرمانے لگے او رخلوت اختیار کر لی ، سچے خوابوں کے ذریعہ آپ صلى الله عليه وسلم کو نبوت کی بشارت ہوئی۔

قالت عائشة رضی الله عنہا : کان أول ما أبتدی بہ رسول الله صلى الله عليه وسلم من الوحی الرؤیا الصادقة․ (الکامل فی التاریخ، ج2، ص:31)

بعثت سے ہجرت تک
منصب رسالت… سیرت شامیہ کیمصنف او راسی طرح الکامل فی التاریخ کے مصنف ابن اثیر لکھتے ہیں: ”مشہور قول کے مطابق عمر مبارک کے ٹھیک چالیس (40) برس پورے ہوئے تو آپ صلی الله علیہ وسلم کومنصبِ رسالت پر فائز کیا گیا ۔“

یہی قول صحیحین میں حضرت ابن عباس اور حضرت انس رضی الله عنہم سے مروی ہے۔ سیرة ابن ہشام میں بھی ابن اسحاق  کے حوالے سے چالیس (40) سال کا قول منقول ہے ۔ جب کہ بعثت نبوی ماہ ربیع الاول میں ہوئی یا رمضان المبارک میں ؟ اس میں علماء کے دو قول ہیں راحج اور مشہور قول اول ہے ،البتہ زرقانی  نے شرح مواہب میں ان دونوں کے مابین تطبیق اس طرح سے لکھی ہے کہ ”ربیع الاول سے ” وحی منام“ ( خواب میں وحی کا آغاز ہوا، یہ سلسلہ چھ ماہ تک جاری رہا او ررمضان کی لیلة القدر میں، جب کہ آپ صلى الله عليه وسلم غارحرا میں خلوت گزیں تھے، جبریل امین عليه السلام کی آمد ہوئی اور ”وحی قرآنی“ کا سلسلہ شروع ہوا۔“

بعثت کی تاریخ میں تین قول ہیں : بارہ،دو یا آٹھ ۔بارہ کا قول زیادہ مشہور ہے اور دن پیر کا تھا۔

خلاصہ یہ ہوا کہ ابتدا رویائے صادقہ سے ہوئی اور چھ 6 ماہ تک یہ سلسلہ جاری رہا تو اس کے مطابق دو مشہور قول سامنے آئے: ابتدائے وحی منام: عمر مبارک40 سال1دن،12 ربیع الاول9 شُباط610ء پیر کا دن، آغاز نزول قرآن وبعثت ونبوت:عمر مبارک40 سال،6 ماہ،10 دن،18 رمضان المبارک(24,17 یا27 رمضان کا بھی ذکرہے ،18 آب610ء شب جمعہ۔ (الکامل فی التاریخ، ج2، ص:30)

بعثت کا پہلا610ء، دوسرا611ء اور تیسرا سال612ء
غارحرا میں حضرت جبرائیل عليه السلام سورة العلق کی ابتدائی پانچ آیات لے کر آپ صلى الله عليه وسلم کے پاس آئے، آپ صلى الله عليه وسلم گھبرائے ہوئے گھر تشریف لائے ، تو حضرت خدیجہ رضی الله عنہا نے آپ صلى الله عليه وسلم کو تسلی دی اور آپ صلى الله عليه وسلم کو لے کر اپنے چچازاد ورقہ بن نوفل کے پاس گئیں، جو کہ تورات وانجیل کو جاننے والے تھے، حضرت خدیجہ رضی الله عنہا نے انہیں آپ صلى الله عليه وسلم کا حال سنا یا تو ورقہ بن نوفل نے نبوت کی خبر دی ۔ (سیرت ابن ہشام، تاریخ اسلام، ج1 ص:237)

اسی سال سب سے پہلے ام المومنین حضرت خدیجہ رضی الله عنہا اسلام لائیں، ابن اثیر کہتے ہیں: ”مسلمانوں کا اجماع ہے کہ ان سے پہلے اسلام کی سعادت نہ کسی مرد کو نصیب ہوئی ،نہ کسی عورت کو ۔“ (النص الکامل لکتاب إمتاع الأسماع، ص:41)

اسی سال آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی چاروں صاحب زادیوں: زینب، رقیہ، فاطمہ، ام کلثوم رضی الله عنہن اپنی والدہ ماجدہ حضرت خدیجہ رضی الله عنہا کے ساتھ دولت ایمان سے بہرہ یاب ہوئیں۔

بعثت ہی کے دن ( یعنی پیر کی ) شام کو حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہا نے اسلام قبول کیا اور ان کے بعد حضرت علی رضی الله عنہ نے اسلام قبول کیا، راجح قول کے مطابق ان کی عمر اس وقت دس برس تھی جب کہ سیرة ابن ہشام میں سب سے پہلے حضرت خدیجہ رضی الله عنہا کے اسلام قبول کرنے کے بعد حضرت علی الله رضی عنہ کا او ران کے بعد حضرت زید بن حارثہ رضی الله عنہ کا اور پھر ان کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ کا اسلام قبول کرنا مذکور ہے ۔

اسی سال آپ صلی الله علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام او رمحبوب حضرت زید بن حارثہ رضی الله عنہ نے اسلام کی دعوت کو قبول کیا۔

حضرت ابوبکرصدیق رضی الله عنہ کی دعوت پر پانچ جلیل القدر صحابہ رضی الله عنہم اجمعین نے اسلام قبول کیا: حضرت عثمان بن عفان، حضرت زبیر بن عوام، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت عبدالرحمن بن عوف، حضرت طلحہ بن عبیدالله رضی الله عنہم اجمعین، ان حضرات کا شمار عشرہ مبشرہ میں بھی ہوتا ہے ۔ (سیرت ابن ہشام، ج1، ص:250)

اور بھی کئی صحابہ رضی الله عنہم اجمعین اسی سال مشرف با اسلام ہوئے ، تفصیل کے لیے مطولات کی طرف رجوع کریں۔

دوسرا سال611ء
بعثت کے دوسرے سال دو وقت کی نماز فرض تھی : ضحیعصر۔ جب کہ دوسرے قول کے مطابقفجر اور عصر کی نمازفرض تھی اور شب معراج تک یہی حکم رہا۔ (سیرت ابن ہشام، ج1، ص:243)

آپ صلی الله علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ بن عبدالمطلب ( ایک قول کے مطابق) اسلام لائے۔

حضرت رقیہ رضی الله عنہا کا حضرت عثمان غنی رضی الله عنہ سے نکاح ہوا۔ (أصح السیر70)

تیسرا سال613,612ء
اسی سال حضرت اسامہ بن زید رضی الله عنہ کی ولادت ہوئی، بقول بعض 5 نبوت میں ولادت ہوئی۔

ابوموسیٰ عبدالله بن یزید الاویسی ثم الخطمی کی ولادت ہوئی ، افاضل صحابہ رضی الله عنہم میں سے تھے ، حدیبیہ میں شرکت کے وقت ان کی عمر سترہ سال تھی بعد کے تمام غزوات میں شریک رہے ۔ (عہد نبوت کے ماہ وسال، ص:4443)

بعثت کے چوتھے سال614ء قبل ہجرت9سال
﴿فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِکِیْن﴾(سورة الحجر:94)

آں حضرت صلى الله عليه وسلم کو اعلانیہ دعوت اسلام دینے کا حکم ہوا۔

اسی سال کفار مکہ کا وفد جناب ابوطالب کے پاس آیا او ربھتیجے کی حمایت سے دست بردار ہونے کا کہا ، لیکن ابو طالب نے انکار کر دیا۔

انقلابی دعوت کے اعلانیہ پروگرام کے آغاز کے وقت عمر مبارک 43 سال 6 ماہ۔614ء قبل از ہجرت 9 سال۔

اسی سال ورقہ بن نوفل رضی الله عنہ کا انتقال ہوا۔ صحیح قول کے مطابق یہ مسلمان تھے ۔

اسی سال ام المومنین حضرت عائشہ رضی الله عنہا کی ولادت ہوئی۔ (الکامل فی التاریخ، ج2، ص:40)

بعثت کے پانچویں سال
حضرت علی رضی الله عنہ کے بڑے بھائی حضرت جعفر بن ابو طالب رضی الله عنہ اسلام لائے۔

اسی سال ماہ رجب میں حبشہ کی جانب ہجرت ہوئی، 12 مرد اور 5 یا4 عورتیں شامل تھیں ، جب کہ ابن اثیر نے دس مردوں کا ذکر کیا ہے اور بعض نے 11 مرد اور 4 عورتوں کا ذکر کیا ہے ، سب سے پہلے حضرت عثمان رضی الله عنہ اپنی اہلیہ محترمہ حضرت رقیہ بنت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ ہجرت کے اردے سے نکلے، اس لیے وہ سب سے پہلے مہاجر فی سبیل الله ہیں۔

اسی سال کے آخر میں حبشہ کی طرف دوسری ہجرت ہوئی، جس میں 83 مرد، 11 قریشی خواتین اور 7 پردیسی خواتین شامل تھیں ، حضرت جعفر بن ابوطالب رضی الله عنہ اسی قافلہ میں تھے ۔ (سیرة ابن ہشام،ج1، ص:230)

اس وقت آپ صلى الله عليه وسلم کی عمر مبارک 45 سال4 ماہ تھی 616ء7 رجب۔

بعثت کے چھٹے سال 616ء
حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی الله عنہ مشرف بااسلام ہوئے۔ جب کہ دوسرا قول2 نبوت کا ہے۔

حضرت حمزہ رضی الله عنہ کے اسلام لانے کے تین دن بعد حضرت عمر بن خطاب رضی الله عنہ اسلام لائے، اس وقت وہ چھبیس سالہ جوان تھے ، آپ رضی الله عنہ سے پہلے انتالیس مرد وزن اسلامی برادری میں شامل ہو چکے تھے ، جب کہ ابن اثیر نے الکامل فی التاریخ میں لکھا ہے کہ انتالیس مرد اور تئیس عورتوں کے بعد حضرت عمر رضی الله عنہ اسلام لائے۔

اسی سال مسجد حرام میں اعلانیہ نماز ادا کی گئی ۔ (الکامل فی التاریخ،ج2،ص:57)

بعثت کے ساتویں سال
مقاطعہٴ قریش ہوا، یعنی قریس نے متفقہ طور پر معاہدہ کیا کہ آں حضرت صلى الله عليه وسلم اور دیگر تمام مسلمانوں، بنی ہاشم اور بنو عبدالمطلب ( جو آپ صلى الله عليه وسلم کی معیت میں تھے ) سے مکمل قطع تعلقی کی جائے او راس معاہدہ کی دستاویز تیار کرکے بیت الله میں لٹکا دی گئی اورمسلمانوں کو گھاٹی شعب ابی طالب میں محصور کر دیا گیا، یکممحرم کا دن تھا۔

اس وقت آپ صلی الله علیہ وسلم کی عمر مبارک چھیالیس سال نو ماہ تیرہ دن تھی۔ بمطابق616 ء ہجرت سے 6 سال قبل۔

اسی شعب میں حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہ کی ولادت بھی ہوئی، جو بنی عباس کے جداعلی ہیں۔ (رہبر ورہنما ،اصح السیر، عہد نبوت کے ماہ و سال، ص:94/78)

بعثت کے آٹھویں سال
اسی سال شق قمر کا معجزہ رونما ہوا ۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کی انگلی مبارک کے اشارے سے چاند دو ٹکڑے ہوا۔

”اخرج الشیخان، عن انس رضی الله عنہ قال: إن أھل مکة سألوا رسول الله صلی الله وسلم أن یریھم آیة، فأراھم انشقاق القمر مرتین․“ (الخصائص الکبری، ص:209، جلد نمبر1)

اسی سال اوس اور خزرج کے درمیان جنگ بعاث ہوئی، بقول بعض اس سے پہلے سال جنگ ہوئی۔ (الخصائص الکبریٰ،ج1،ص:209)

بعثت کے نویں سال 618ء
اس سال عبدالله بن ثعلبہ بن صعیرالعزری کی ولادت ہوئی جو بنی زہرہ کے حلیف تھے، بقول بعض سن7 نبوت یا ہجرت کے بعد ولادت ہوئی۔ (سیرت ابن ہشام،ص:416 تا422)

بعثت کے دسویں سال619ء
مقاطعہ (بائیکاٹ) ختم ہوا اور جو دستاویز بیت الله میں لٹکائی گئی تھی اسے دیمک نے چاٹ لیا۔

اسی سال شعب میں حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہ کی ولادت ہوئی۔(اصح السیر، ص:96)

اسی سال شعب سے آنے کے اٹھائیس دن بعد آپ صلى الله عليه وسلم کے چچا ابوطالب کا انتقا ل ہوا، اس وقت ابو طالب کی عمر اسی سال سے متجاوز تھی اور آپ صلى الله عليه وسلم کی عمر مبارک اس سال 49 سال 6 ماہ بمطابق619ء تھی۔

اسی سال ابو طالب کی وفات کے تین یا پانچ دن کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کی زوجہٴ محترمہ اُم المومنین حضرت خدیجہ رضی الله عنہا کا پینسٹھ بر س کی عمر میں انتقال ہوا، تاریخ10 رمضان۔ بقول بعض ڈیڑھ ماہ یا پچاس دن پہلے ان کی وفات ہوئی۔

آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس سال کو عام الحزن قرار دیا۔

اسی سال شوال میں حضرت خدیجہ رضی الله عنہا کی وفات کے بعد آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے حضرت سودہ بنت زمعہ رضی الله عنہا اور حضرت عائشہ رضی الله عنہا سے نکا ح کیا۔

اسی سال 27 شوال کو آں حضرت صلى الله عليه وسلم نے زید بن حارثہ رضی الله عنہ کو ساتھ لے کر طائف کا سفر کیا، اس وقت آپ صلى الله عليه وسلم کی عمر مبارک پچاس 50 سال تھی۔

اس سال جب آپ صلی الله علیہ وسلم اہل طائف کی سرد مہری اور سنگ دلی سے ملول اور غمگین واپس ہوئے تو راستہ میں حضرت جبرائیل علیہ السلام ملک الجبال کے ساتھ نازل ہوئے، ملک الجبال نے عرض کیا کہ یا رسول الله! اجازت ہو تو مکہ کے دو پہاڑوں کو ملا کر ان لوگوں کو کچل دوں؟

رحمت عالم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا، نہیں۔

مجھے توقع ہے کہ یہ نہیں تو ان کی نسل ہی سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو خدا کو ایک مانیں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔

اسی سال طائف سے واپسی پر مقام نخلہ میں ( مکہ اور طائف کے مابین ایک بستی ہے ) نصیبین ( ملک شام کا شہر) کے جنات کا ایک سات رکنی وفد آیا اور اسلام قبول کیا۔ (سیرت ابن ہشام،ص:416 تا422)

بعثت کے گیارہویں سال
اس سال بیعت عقبہ اولیٰ ہوئی اور انصار کے اسلام کا آغاز ہوا، یہ بیعت مقام جمرة عقبہ کے پاس ہوئی ، چھ یا آٹھ آدمی مشرف با اسلام ہوئے جب کہ ابن اثیر نے خزرج کے سات آدمیوں کا ذکر کیا ہے اور ابن ہشام نے بارہ آدمیوں کا ذکر کیا ہے ۔ ( الکامل فی التاریخ، ج2 ص:67)

بعثت کے بارہویں سال
اس سال 27 رجب ، ہفتہ یا پیر کی رات ، ایک قول کے مطابق رمضان میں آپ صلى الله عليه وسلم کو معراج ہوئی ۔ آپ صلى الله عليه وسلم کی عمر مبارک51 سال 9 ماہ تھی۔

اسی سال امت پر یومیہ پانچ نمازیں فرض ہوئیں۔

اس سال بیعت عقبہ ثانیہ ہوئی، 12 اشخاص نے بیعت کی، مدینہ میں اسلام کی اشاعت کو مسلمانوں کی تعلیم کے لیے آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت مصعب بن عمیر رضی الله عنہ کو روانہ فرمایا۔

آپ صلى الله عليه وسلم کی عمر مبارک 52 سال9 ماہ تھی۔ تاریخ19حزیران 622ء (الکامل فی التاریخ، ج2، ص:67)

بعثت کے تیرہویں سال
اس سال بیعت عقبہ ثالثہ ہوئی جس میں73 مردوں اور 2 عورتوں نے ذوالحجہ ایام تشریق کی درمیانی رات میں آپ صلی الله علیہ وسلم سے ملاقات اور اسلام اوربیعتکا شرف حاصل کیا۔

اس سال آپ صلى الله عليه وسلم نے مسلمانوں کو اجازت دی کہ وہ مدینہ ہجرت کر جائیں، سب سے پہلے ابو سلمہ مع اپنے بیوی بچوں کے روانہ ہوئے۔

اسی سال قریش نے دارالندوة میں آپ صلى الله عليه وسلم کو ( نعوذبالله) قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ ( الکامل فی التاریخ، ج2، ص:71) (جاری)

Flag Counter