Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الثانی 1435ھ

ہ رسالہ

7 - 15
قناعت کے راہ نما اصول

مفتی ثناء الله ڈیروی
استاد ورفیق شعبہ تصنیف وتالیف، جامعہ فاروقیہ کراچی

ایک باپ نے تنگی معاش کی وجہ سے خود کشی کر لی۔ تعلیم یافتہ شخص نے بیروز گاری سے تنگ آکر خود سوزی کر لی۔ یہ ہمارے معاشرے کا وہ چہرہ ہے جسے آئے دن الفاظ کے لبادے میں اخبارات کی زینت بنے شہ سرخیوں کی صورت میں پڑھتے ہیں ۔

آخر کیا وجہ ہے ، کہ انسان اتنا انتہائی قدم اٹھانے پر مجبو رہو جاتا ہے؟ آخر کیا وجہ ہے کہ انسان آج اتنی بے چینی وپریشانی میں ہے ؟ اس کی اگر ہم وجہ جاننے کی کوشش کریں تو ایک بڑی وجہ عدم قناعت ہے۔

قناعت کا مطلب یہ نہیں کہ انسان ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھ جائے،بلکہ قناعت کا مطلب یہ ہے کہ الله تعالیٰ انسان کو اس کی کوشش اور دنیاوی حلال اسباب اختیار کرنے کے بعد جوکچھ دے، اس پر راضی رہے اور الله تعالیٰ کا شکر ادا کرے ۔

الله تعالیٰ نے اس دنیا میں کسی کو مال دار بنایا ہے اور کسی کو غریب چناں چہ قرآن کریم کی آیت ہے: ﴿إِنَّ رَبَّکَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن یَشَاء ُ وَیَقْدِر﴾․ (سورہ بنی اسرائیل:30)
تیرا رب کھول دیتا ہے روزی، جس کے واسطے چاہے اور تنگ بھی وہی کرتا ہے ۔

دوسری آیت ہے:﴿ نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْْنَہُم مَّعِیْشَتَہُمْ فِیْ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا﴾․ (سورہ زخرف:32)
ہم نے بانٹ دی ہے اس میں ان کی روزی ، ان کی دنیا کی زندگی میں۔

لہٰذا ہمیں الله تعالیٰ کی تقسیم پر راضی رہنا چاہیے اور ہم جس حالت میں بھی ہوں ، الله تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔

آپ صلى الله عليه وسلم کا ارشاد ہے : ”إن الله تبارک وتعالیٰ یبتلی عبدہ بما أعطاہ، فمن رضی بما قسم الله عزوجل لہ بارک الله لہ فیہ، ووسعہ، ومن لم یرض لم یبارک لہ․(الفتح الربانی لترتیب مسند الامام احمد بن حنبل، کتاب الفقر والغنی، باب الترغیب فی الفقر مع الصلاح،116/19، دارالحدیث)

الله تعالیٰ اپنے بندے کو مال دے کر آزماتے ہیں ، پس جو الله تعالیٰ کی تقسیم پر راضی رہے ، تو الله تعالیٰ اس کے لیے اس مال میں برکت اور کشادگی عطا فرماتے ہیں اور جو الله تعالیٰ کی تقسیم پر راضی نہ ہو ، الله تعالیٰ اس کے مال میں برکت نہیں دیتے۔

اپنے اندر قناعت کی صفت کیسے پیدا کی جائے؟
قناعت کی صفت اپنے اندر پیدا کرنے کے لیے اگر ہماری نظر چند باتوں کی طرف ہو ، تو ان شاء الله یہ باتیں ہمارے دلوں میں قناعت کی صفت پیدا کرنے میں بہت معین ومدد گار ہوں گی۔

پہلی بات
سب سے پہلی بات یہ ملحوظ رہے، کہ الله تعالیٰ کی حکمت اسی میں ہے کہ میرے پاس مال کی فراوانی نہیں، ہوسکتا ہے زیادہ مال میرے لیے آخرت میں تنزل کا سبب بن جائے۔

چناں چہ آپ صلى الله عليه وسلم کا ارشاد ہے:”ما الفقر أخشی علیکم، ولکن أخشی علیکم أن تبسط علیکم الدنیا کما بسطت علی من کان قبلکم، فتنافسوھا کما تنافسوھا، فتھلککم کما أھلکتھم․“ (الجامع الصحیح للبخاری، کتاب الرقاق، باب ما یحذر من زھرة الدنیا والتنافس فیھا ، رقم الحدیث:6425)

الله کی قسم! میں تمہارے فقر سے نہیں ڈرتا ہوں ، لیکن میں ڈرتا ہوں اس بات سے کہ دنیا تم پر کشادہ کر دی جائے، جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر دنیا کشادہ کر دی گئی تھی، تو تم بھی رغبت کرنے لگو، جیسے وہ رغبت کرنے لگے اور تمہیں اسی طرح ہلاک نہ کر دے، جس طرح انہیں ہلاک کیا۔

بڑے مال دار الله کے راستے میں نہ خرچ کرنے والے آخرت میں نادار ہوں گے
اسی طرح حضرت ابو ذر رضی الله عنہ آپ صلى الله عليه وسلم کی روایت بیان کرتے ہیں کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:”إن المکثرین ھم المقلون یوم القیامة، إلا من أعطاہ الله خیرا، فنفق فیہ یمینہ وشمالہ وبین یدیہ ووراء ہ، وعمل فیہ خیرا․“ (الجامع الصحیح للبخاری، کتاب الرقاق، باب المکشرون ہم المقلون، رقم الحدیث :6443)

جو لوگ دنیا میں بہت مال ودولت رکھتے ہیں ، آخرت میں وہی نادار ہوں گے ، البتہ وہ شخص جس کو الله نے دولت دی ہو ، پھر وہ داہنے اوربائیں اور سامنے اور پیچھے اس کولُٹائے (محتاجوں کو دے ) اور دولت کو نیک کام میں خرچ کرے ( وہ آخرت میں نادار نہ ہو گا)۔

دنیا کی حیثیت الله کے نزدیک مچھر کے پَر کے برابر بھی نہیں
دنیا کی حیثیت الله تعالیٰ کے نزدیک کچھ بھی نہیں، یہی وجہ ہے کہ الله ورسول کے نہ ماننے والوں کو اس دنیا میں جو کچھ مل رہا ہے ، اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ دنیا حقیر اور بے قیمت ہے ، اگر الله تعالیٰ کے نزدیک دنیا کی کچھ بھی قدر وقیمت ہوتی ، تو الله تعالیٰ ان باغیوں کو پانی کا ایک گھونٹ نہ پلاتے۔

چناں چہ آپ صلى الله عليه وسلم کا ارشاد ہے:”لو کانت الدنیا تعدل عند الله جناح بعوضة ماسقی کافرا منھا شربة ماء․“ (سنن الترمذی، کتاب الزھد، باب ماجاء فی ہوان الدنیا علی الله عزوجل، رقم الحدیث:2320)

دنیا دار کی حاجتیں کبھی ختم نہیں ہوتیں
آپ صلى الله عليه وسلم کا ارشاد ہے :” من أصبح والدنیا اکبرھمہ ألزم الله عزوجل قلبہ أربع خصال لا ینفک من أحد حتی یاتیہ الموت، ھمّ لا ینقطع أبدا وشغل لا یتفرغ ابدا، وفقرلا یبلغ غنی أبدا، وأمل لا یبلغ منتھاہ ابدا․“ (کنزالعمال، کتاب الأخلاق، رقم الحدیث: 6269،92/3، دارالکتب)

جس شخص کا حال یہ ہو کہ دنیا ہی اس کا بڑا مقصد بن جائے ، تو الله تعالیٰ اس کے دل کو چار عادتیں لازم کر دیتا ہے کہ موت تک ان سے چھٹکارا حاصل نہیں کرسکتا۔ رنج کہ اس سے کبھی جدا نہیں ہوتا۔ شغل کہ اس سے کبھی فراغت نہیں ہوتی ۔ یعنی ہر وقت مصروف رہتا ہے۔ فقر کہ کبھی مال داری کو نہیں پہنچتا ۔یعنی دنیا دار کی حاجتیں کبھی ختم نہیں ہوتیں۔ او رامید کہ کبھی اس کی انتہا کو نہیں پہنچتا۔

حبّ دنیا آخرت کے نقصان کا باعث ہے
حضرت ابو موسی اشعری رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں:”من أحب دنیاہ أضر بآخرتہ، ومن أحب أخرتہ أضرّ بدنیاہ․“ (مسند الامام احمد بن حنبل، رقم الحدیث:19934،638/6، عالم الکتب)

آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ جو اپنی دنیا سے محبت رکھتا ہے ، وہ اپنی آخرت کو نقصان پہنچاتا ہے اور جو اپنی آخرت سے محبت رکھتا ہے، وہ اپنی دنیا کو نقصان پہنچاتا ہے۔

حبّ دنیا کب نقصان دہ نہیں؟
یہاں یہ بات ملحوظ رہے کہ اگر کسی کے پاس مال ہے اور اس نے وہ مال شرعی حدود کی پاس داری کرتے ہوئے جمع کیا ہے اور اس کے حقوق اچھی طرح سے ادا کر رہا ہے ، تو یہ مال مضر نہیں، آگے چل کر اس کی مزید تفصیل آئے گی ۔

ایک شخص نے ابو حازم سے کہا کہ مجھے دنیا سے محبت ہے ، حالاں کہ میں جانتا ہوں کہ مجھے اس میں رہنا نہیں ہے ، آپ  نے فرمایا کہ جوکچھ الله تعالیٰ نے تمہیں عطا کیا ہے، اس میں یہ دیکھ لیا کرو کہ حلال ذرائع سے حاصل ہوا ہے یا نہیں ؟ پھر اس حلال مال کو جائز مواقع پر خرچ کیا کرو، تمہیں دنیا کی محبت نقصان نہیں پہنچائے گی۔ ( اتحاف السادة المتقین، کتاب ذم الدنیا561/9 دارالکتب)

کاش! دنیا میں گزارے کی روزی ملتی
آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:”ما من غنی ولا فقیر إلا ودّ یوم القیٰمة أنہ أتي من الدنیا قوتا․“ (سنن ابن ماجہ، کتاب الزھد، باب القناعة، رقم الحدیث:414)

یعنی قیامت کے دن کوئی مال دار اور فقیر ایسا نہ ہو گا ، جس کو یہ تمنا نہ ہو کہ اسے دنیا میں گزر بسر کے بقدر دیا جاتا۔

دوسری بات
دوسری بات یہ ہے کہ اگر تنگی کی زندگی ہے او رمصائب اور پریشانیوں نے ہر طرف سے گھیرا ہوا ہے تو تب بھی زندگی سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔

شریعت نے تکالیف سے گھبرا کر موت کی دعا سے بھی منع فرمایا ہے۔ حضرت قیس بن ابی حازم فرماتے ہیں کہ انہوں نے حضرت خباب رضی الله عنہ سے سنا اور حضرت خباب بن ارت رضی الله عنہ نے بیماری کی وجہ سے اسی دن اپنے پیٹ پر سات داغ لگوائے تھے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ہم لوگوں کوموت کی دعا کرنے سے منع فرمایا ہے ، اگر آپ صلى الله عليه وسلم نے منع نہ کیا ہوتا ، تو میں موت کی دعا کرتا، (تاکہ اس تکلیف سے چھوٹ جاؤں)۔ (الجامع الصحیح للبخاری، کتاب الرقاق، باب ما یحذر من زھرة الدنیا، رقم الحدیث :6430)

بلکہ ایسی صورت میں الله تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا چاہیے اور ایسی حالت کے بارے میں جو احادیث کے اندر فضائل آئے ہیں ، ان کا استحضار اور یقین ہونا چاہیے۔

چناں چہ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”طوبی لمن ھدی للاسلام، وکان عیشہ کفافا، وقنع بہ“․ ( سنن الترمذی، ابواب الزھد، باب ماجاء فی الکفاف والصبر علیہ، رقم الحدیث : 22342)

اس کے لیے خو ش خبری ہے ، جو اسلام کی ہدایت پائے او راس کی معیشت اور روزی بقدر ضرورت ہو اور وہ اس پر قانع ہو۔

اسی طرح ایک حدیث میں ہے : ”لیس لابن آدم حق فی سوی ھذہ الخصال: بیت یسکنہ، وثوب یواری عورتہ، وجلف الخبز والماء“․(سنن الترمذی، ابواب الزھد، باب ماجاء فی الزھادة فی الدنیا، رقم الحدیث:2334)

یعنی انسان کے لیے ان تین باتوں کے علاوہ میں کوئی حق نہیں ۔ ایسا گھر جس میں سکونت پذیر ہو ۔ ایسا کپڑا جس سے ستر پوشی کرے۔ اور روکھی روٹی او رپانی۔

یعنی یہ تین چیزیں انسان کی بنیادی ضرورتیں ہیں ، ان کے بغیر کام نہیں چل سکتا ، پس اگر کسی کو یہ چیزیں میسر ہیں ، تو اسے دوسری چیزوں کی حرص نہیں کرنی چاہیے ، ان پر قناعت کرنی چاہیے۔

قابل رشک مومن
آپ صلى الله عليه وسلم کا ارشاد ہے :”إن أغبط أولیائی عندی: لمومن خفیف الحاذ، ذوحظّ من الصلوٰة، أحسن عبادة ربہ، وأطاعہ فی السر وکان غامضا فی الناس ، لا یشار إلیہ بالأصابع وکان رزقہ کفافا، فصبر علی ذلک، ثم نقر بیدیہ، فقال: عجلت منیتہ، قلّت بواکیہ، قلّ تراثہ․“ (سنن الترمذی، ابواب الزھد، باب ماجاء فی الکفاف والصبر علیہ، رقم الحدیث:2340)

یعنی میرے دوستوں میں میرے نزدیک سب سے زیادہ قابل رشک وہ مومن ہے ، جو چھوٹا کنبہ رکھتا ہو ، نماز میں اس کا بڑا حصہ ہو ، وہ اپنے رب کی بہترین عبادت کرتا ہو او رخلوت میں بھی الله تعالیٰ کی عبادت کرتا ہو اور وہ لوگوں میں گم نام ہو ، اس کی طرف انگلیوں سے اشارہ نہ کیا جاتا ہو اور اس کی روزی بقدر ضرورت ہو اور وہ اس پر صابر ہو ، پھر آپ صلى الله عليه وسلم نے اپنا ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پہ مارا ( جیسے ہاتھ جھاڑتے ہیں ) پھر فرمایا: اس کی موت جلدی آگئی، اس پر رونے والیاں کم ہیں ، اس کا ترکہ بہت تھوڑا ہے۔

غریب نیک آدمی کا مقام
حضرت سہل بن سعد رضی الله عنہ فرماتے ہیں : کہ ایک شخص آپ صلى الله عليه وسلم کے سامنے سے گزرا، اس وقت آپ صلى الله عليه وسلم کے پاس حضرت ابو ذر غفاری رضی الله عنہ بیٹھے ہوئے تھے ، آپ صلى الله عليه وسلم نے ان سے فرمایا تم اس شخص کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ یہ شریف مال دار لوگوں میں سے ہے ، خدا کی قسم! یہ ایسا شخص ہے کہ اگر کسی عورت کو نکاح کا پیغام بھیجے تو اس کا پیغام منظور ہو گا، اگر کسی کی سفار ش کرے تو لوگ اس کی سفارش سنیں گے ، یہ سن کر آپ صلى الله عليه وسلم خاموش رہے ، پھر ایک او رشخص آپ صلى الله عليه وسلم کے سامنے سے گزرا، آپ نے اسی شخص (حضرت ابو ذر رضی الله عنہ ) سے پوچھا ، اس شخص کو تم کیا سمجھتے ہو ؟ انہوں نے کہا کہ یہ تو ایک مسلمان غریب آدمی ہے ، یہ بے چارہ اگر کہیں نکاح کا پیغام بھیجے تو کوئی منظور نہ کرے ، اگر کسی کی سفارش کرے تو کوئی سفارش قبول نہ کرے ، آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: الله تعالیٰ کے نزدیک یہ غریب آدمی اس مال دار آدمی جیسوں سے زمین بھر جائے تو یہ ان سے بہتر ہے۔ (الجامع الصحیح للبخاری، کتاب الرقاق، باب فضل الفقر، رقم الحدیث:6447)

آپ صلى الله عليه وسلم کا ارشاد ہے : ”اطلعت فی الجنة، فرأیت أکثر اھلھا الفقراء، واطلعت فی النار، فرأیت اکثر اھلھا النساء․“ (الجامع الصحیح للبخاری، کتاب الرقاق، باب فضل الفقر، رقم الحدیث:6449)

یعنی میں نے جنت میں جھانکا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہاں وہ لوگ زیادہ ہیں جو دنیا میں فقیر او رمحتاج تھے اور دوزخ میں بھی جھانکا، وہاں عورتیں بہت تھیں۔

اور ”مسنداحمد“ کی روایت میں ”نساء“ کے ساتھ ” اغنیاء“ کا بھی ذکرہے ، یعنی جہنم میں عورتیں اور مال دار لوگ بہت تھے۔ (الفتح الربانی لرتیب مسند الامام احمد، باب فی فضل الفقراء،121/19، دارالحدیث)

فقراء اغنیاء سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے
آپ صلى الله عليه وسلم کا ارشاد ہے : ”یدخل الفقراء الجنة قبل الأغنیاء بخمسمائة عام نصف یوم․“ ( سنن الترمذی، کتاب الزھد، باب ماجاء أن فقراء المہاجرین… ،رقم الحدیث:2353)

یعنی غریب مسلمان مال داروں سے آدھا دن پہلے جنت میں جائیں گے اور وہ آدھا دن پانچ سو سال ہیں۔

تنگ دستی کی زندگی گزارنے کا ثواب
آپ صلى الله عليه وسلم ایک دفعہ نماز پڑھا رہے تھے کہ کچھ لوگ بھوک اور کمزوری کی وجہ سے گر گئے ، یہاں تک کہ بعض اعرابی کہنے لگے کہ یہ لوگ مجنون ہیں ، جب آپ صلى الله عليه وسلم نے نماز پوری فرمائی توان کی طرف متوجہ ہوئے اوران سے فرمایا کہ اگر تم لوگوں کو وہ اجر معلوم ہو جائے ، جو الله تعالیٰ کے ہاں تم لوگوں کا ہے ، تو تم اس سے زیادہ حاجت اور بھوک کو پسند کر وگے ۔ (الفتح الربانی لترتیب مسند الامام احمد، کتاب الفقر والغنی، باب الترغیب فی الفقر مع الصلاح155/19، دارالحدیث)

ایمان کی دولت سے بڑھ کر کوئی دولت نہیں
ایک بزرگ جارہے تھے، بزرگوں کا یہی حال ہوتا ہے کہ لباس کی کچھ زیادہ خبر نہیں ہوتی ، بس جیسا مل گیا پہن لیا، کبھی شاہانہ لباس، کبھی پھٹے پرانے کپڑے، وہ بزرگ پھٹے پرانے کپڑوں میں چلے جارہے تھے ، ایک شہر سامنے آیا تو سارے شہر کے دروازے بند، اب ہزاروں گاڑیاں اندر جانے والی وہ باہر رکی ہوئی ہیں اور اندر کی اندر ، تجارت او رکاروبار بھی سب بند، انہوں نے لوگوں سے پوچھا کہ بھئی! یہ دروازے کیوں بند ہو گئے؟ لوگوں نے کہا، کہ اس شہر کا بادشاہ ہے، اس کا باز کھو گیا ہے ، باز ایک پرندہ ہوتا ہے، جس سے چڑیوں کا شکار کرتے ہیں ، تو بادشاہ نے کہا کہ چوں کہ باز کھو گیا، شہر کے دروازے بند کردو اور اسے کہیں سے پکڑ لاؤ۔

اس بزرگ نے یہ سن کر کہا کہ کیسا احمق بادشاہ ہے؟ بھئی! پرندے کو اس سے کیا مطلب کہ دروازے بند کیے ہیں ، وہ اڑکر باہر نہیں چلا جائے گا؟!

اسے دروازے کی کیا ضرورت ہے؟ ! ایسا احمق آدمی ہے! پرندے کو اگر پکڑنا تھا تو شہر پہ جال لگا دیتا کہ اوپر سے اڑکے نہ نکلے، دروازے بند کرانے کی کون سی تک ہے؟! اور اس بزرگ نے کہا، یا الله تیری عجیب قدرت ہے کہ اس کندہٴ ناتراش کو تونے بادشاہ بنا دیا ، جس کو یہ بھی تمیز نہیں ! کہ باز کو روکنے کے لیے جال ڈالنا چاہیے ، یا شہر کے دروازے بندکرانے چاہییں اور مجھ جیسے عالم فاضل کو بھیک منگا بنا رکھا ہے کہ جوتیاں چٹخاتے پھر رہا ہوں، کوئی پوچھتا نہیں، عجیب تیری قدرت ہے اور تیرانظام کہ اس احمق کو سلطنت دے دی اور مجھے جوتیاں چٹخانے کے لیے چھوڑ دیا۔

اس بزرگ کے دل میں یہ وسوسہ گزرا، حق تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوا کہ کیا تم اس کے لیے تیار ہو کہ تمہارے دل کی ، ایمان کی دولت اس بادشاہ کو دے دیں اور اس کی سلطنت تمہیں دے دیں۔

تھراگئے، عرض کیا نہیں یا الله! میں ایمان نہیں دینا چاہتا۔ فرمایا: اتنی بڑی دولت دے دی پھر بھی بے وقوف اپنے کو بھیک منگا سمجھ رہا ہے، یہ دولت ظاہری جس کے پاس ہے، وہ کل کو ختم ہوگی ، جس کے پاس ایمان ہے، یہ وہ دولت ہے جو ابد الآباد تک چلنے والی ہے، تو تجھے ابدی دولت دے دی اور اسے عارضی دولت دے دی، تو نے اس کی قدر نہ کی۔

پھر توبہ کی او رکہا کہ یا الله! مجھ سے غلطی ہو گئی ، مجھے معاف فرما، واقعی تونے مجھے دولت مند بنایا، جس کے پاس ایمان کی دولت ہے ، اس سے بڑھ کر کون دولت مند ہے، یہ دولت آگے تک جانے والی ہے ۔

مسلمانوں کو اگر مادی دولت ملے! تو شکر ادا کرنا چاہیے، کہ ایمان کی دولت الگ دی اور دنیا کی دولت بھی ۔ ( خطبات حکیم الاسلام:327,326/3)

تیسری بات
تیسری بات یہ کہ ہماری اس بات پر نظر ہو کہ آپ صلى الله عليه وسلم اور صحابہ کرام رضی الله عنہم نے کیسے زندگی گزاری؟!

آپ صلى الله عليه وسلم نے باوجود قدرت کے، یعنی الله تعالیٰ نے آپ صلى الله عليه وسلم کو دنیا کی پیش کش کی، لیکن آپ صلی الله علیہ وسلم نے دنیا کے بجائے فقر کو ترجیح دی۔

چناں چہ آپ صلى الله عليه وسلم کا ارشاد ہے:”عرض علی ربی لیجعل لی بطحاء مکة ذھبا، فقلت: لا، یارب! ولکن اشبع یوما، وأجوع یوما، فإذا جعت تضرعت إلیک، وذکرتک، وإذا شبعت، حمدتک وشکرتک․“(جامع الأصول، الکتاب الثانی فی القناعة والعفة، رقم الحدیث:137/10,7614،دارالفکر)

الله تعالیٰ نے میرے سامنے یہ بات رکھی کہ وہ میرے لیے مکہ کی وادی کے سنگریزوں کو سونے کا بنا دیں ، یعنی آپ صلى الله عليه وسلم کو اختیار دیا، کہ اگر آپ دولت مند بننا چاہیں تو مکہ کی وادی کو ہم سونے سے بھر دیں؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے عرض کیا ، میرے پروردگار! میں اپنے لیے یہ نہیں چاہتا، بلکہ میں ایک دن پیٹ بھر کر کھاؤں اور ایک دن بھوکا رہوں، جب مجھے بھوک لگے تو میں آپ کے سامنے گڑ گڑاؤں اور آپ کو یاد کروں او رجب شکم سیر ہوؤں تو آپ کا شکر بجالاؤں اور آپ کی تعریف کروں۔

آپ صلى الله عليه وسلم کی دعا
آپ صلى الله عليه وسلم دعا فرماتے تھے:”اللھم احینی مسکینا، وأمتنی مسکینا، واحشرنی في زمرة المساکین یوم القیامة․“ (سنن الترمذی، کتاب الزھد، باب ماجاء أن فقراء المہاجرین یدخلون الجنة…، رقم الحدیث:2352)

اے الله !مجھے مسکین زندہ رکھ، مسکینی کی حالت میں موت دے اور مساکین کے زمرے میں اٹھا۔

آپ صلى الله عليه وسلم او راہل بیت کی زندگی
حضرت ابوھریرہ رضی الله عنہ فرماتے ہیں:”خرج رسول الله صلی الله علیہ وسلم من الدنیا ولم یشبع من خبز الشعیر․“ (الجامع الصحیح للبخاری، کتاب الأطعمة، باب ماکان النبي وأصحابہ یاکلون، رقم الحدیث:5414)

آپ صلى الله عليه وسلم اس دنیا سے تشریف لے گئے اور جوکی روٹی بھی پیٹ بھر کر نہیں کھائی۔

اور آپ صلى الله عليه وسلم کے گھر والوں کی بھی یہی حالت تھی۔

چناں چہ حضرت عائشہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں:”ماشبع آل محمد صلی الله علیہ وسلم منذ قدم المدینة من طعام البرّ ثلاث لیال تباعاحتی قبض․“ (الجامع الصحیح للبخاری، کتاب الأطمعة، رقم الحدیث:5416)

آپ صلى الله عليه وسلم کے گھرو الوں نے جب سے آپ صلى الله عليه وسلم مدینہ تشریف لائے ، تین دن تک برابر گیہوں کی روٹی پیٹ بھرکر نہیں کھائی ، یہاں تک کہ آپ صلى الله عليه وسلم دنیا سے تشریف لے گئے۔

آپ صلى الله عليه وسلم اور اہل بیت کا فقر اختیاری تھا
یہ بات یاد رہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم کی ناداری تو اختیاری تھی ہی، جیسے ماقبل حدیث سے معلوم ہوا ، اسی طرح ازواج مطہرات کی ناداری بھی اختیاری تھی ، آپ صلى الله عليه وسلم جب باغوں او رکھیتوں کی آمدنی ہوتی تھی ، تو ہرزوجہ کو ان کا پورے سال کا نفقہ دے دیا کرتے تھے ، مگر ازواج مطہرات اس کو مسلمانوں کی ضروریات میں خرچ کر دیا کرتی تھیں اور نادار ہو جاتی تھیں۔

صحابہ کرام رضی الله عنہم کی زندگی
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ فرماتے ہیں:”رأیتنی سابع سبعة مع النبي صلی الله علیہ وسلم، ما لنا طعام إلا ورق الحبلة أو الحبلة، حتی یضع احدنا ما تضع الشاة․“(الجامع الصحیح للبخاری، کتاب الأطعمة، رقم الحدیث:5412)

یعنی میں آپ صلى الله عليه وسلم پر ایمان لانے والوں میں ساتواں آدمی تھا،ہمارا راکھانا درخت کے پتوں کے سوا کچھ بھی نہ تھا، یہاں تک کہ بکریوں کی طرح مینگنیاں کرتے تھے۔

حضرت عمر بن عبدالعزیز  کا واقعہ
مسلمہ بن عبدالملک کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ وہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کی خدمت میں اس وقت پہنچے جب وہ موت کی کش مکش میں گرفتار تھے ، انہوں نے کہا کہ امیر المومنین! آپ نے ایسا کا م کیا ہے جو آپ سے پہلے کسی نے نہیں کیا تھا،آپ نے اپنی اولاد چھوڑ ی ہے، نہ ان کے پاس درہم ہیں نہ دنانیر ۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز  کے تیرہ بچے تھے، انہوں نے فرمایا: مجھے اٹھا کر بٹھا دو ۔ لوگوں نے انہیں اٹھا کر بٹھا دیا، تو فرمایا: میں نے اولاد کے لیے کچھ نہیں چھوڑا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں نے ان کا حق دبا رکھا ہے۔ البتہ میں نے دوسروں کا حق انہیں نہیں دیا ، میری اولاد میں دو ہی طرح کے بیٹے ہو سکتے ہیں ، الله کا مطیع وفرماں بردار ، اگر ایسا ہے تو الله اس کے لیے کافی ہے۔ ﴿وھو یتولی الصالحین﴾ اور وہ والی ہے نیکو کاروں کا۔ دوسرا الله کا نافرمان، گنہگار، اگر ایسا ہے ، تو مجھے اس کی کیا پروا ہو سکتی ہے ؟! (جاری)

Flag Counter