Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الثانی 1435ھ

ہ رسالہ

13 - 15
محدث و فقیہ قاسم بن محمد

مفتی ابو الخیر عارف محمود
رفیق شعبہ تصنیف وتالیف واستاذجامعہ فاروقیہ کراچی

نام ونسب
آپ مشہور محدث و فقیہ قاسم بن محمدبن ابی بکر الصدیق عبد اللہ بن عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تمیم بن مرہ قریشی تیمی مدنی ہیں ۔ (تاریخ الاسلام:3/ 327،328،رقم الترجمہ : 1432،الطبقات الکبریٰ : 5/ 187، تھذیب الکمال : 23/ 427،رقم : 4819،التاریخ الکبیر : 7/ 157 ،رقم5/ 705،سیر اعلام النبلاء :5/53، رقم :18،تھذیب التھذیب : 8/333،رقم : 601،تذکرة الحفاظ:1/96،رقم:88،حلیة الاولیاء :2/ 183 ،رقم: 176،کتاب الثقات :5/302 ،الجرح والتعدیل : 7/ 158،رقم: 675،تقریب التھذیب : 2/ 33،رقم :556،الکاشف : 2/ 130 ،رقم الترجمہ :4568)ان کی والدہ امِ ولد تھیں ،انہیں سودہ کہا جاتا تھا ۔ ( الطبقات الکبریٰ : 5/ 187 ،تھذیب الکمال : 23/ 430)

ابو محمد ان کی کنیت ہے ،ابو عبد الرحمن بھی کہا جاتا ہے ۔( تاریخ الاسلام :3/ 328 ،الطبقات : 5/ 194 ،الثقات :5/302،تھذیب الکمال : 23/ 427،تھذیب التھذیب :8/333)

ولادت باسعادت
علامہ ذھبی  نے ”سیر اعلام النبلاء “ میں قاسم بن محمد کی ولادت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں ہونا نقل کی ہے ، جب کہ ” تاریخ الاسلام “میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں پیدا ہونا لکھا ہے۔( سیر اعلام النبلاء : 5/ 54 ،تاریخ الاسلام : 3/ 328) دونوں میں تطبیق یوں ہے کہ ان کی پیدائش اختتام خلافت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور ابتدائے خلافت حضرت علی رضی اللہ عنہ میں ہوئی ۔

امام بخاری  نے فرمایا کہ ان کے والد محمد بن ابی بکر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بعدتقریباً36 ہجری میں شہیدکیے گئے تو قاسم یتیم ہوئے اورحضرت عا ئشہ رضی اللہ عنہا کی پرورش میں آئے ۔( تھذیب الکمال 23/ 430،تھذیب التھذیب : 8/ 334)

داد جا ن سے مشابہت
حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے فرمایا،میں نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اولاد میں ان جیسا سوائے قاسم کے کسی اور کو نہیں پایا۔ ( سیرأعلام النبلاء:5/55،تھذیب اکمال:23/430)

تحصیل علوم
حضرت قاسم بن محمد یتیم ہو کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی پرورش میں آئے اور ایک طویل عرصہ ان کی صحبت میں رہے،ان سے حدیث کا علم بکثرت حاصل کیا اور دینی مسائل میں تفقہ پیدا کیا ۔( سیر اعلام النبلاء :5/ 54، تذکرة الحفاظ : 1/ 97،تاریخ الاسلام :3/328)علامہ واقدی نے اپنی سند کے ساتھ حضرت قاسم  سے نقل کیا ہے ،وہ فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا خلفائے ثلاثہ حضرت ابو بکر ،حضرت عمر ،حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کے زمانہ خلافت میں فتویٰ دیا کرتی تھیں اور یہ سلسلہ ان کی وفات تک جاری رہا۔ حضرت قاسم کہتے ہیں کہ میں نے اپنی بچکانہ حرکتوں کے با وجود ان کی صحبت کو لازم پکڑا تھا اور میں علم کے سمندر حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما اور حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ کی مجلس میں بیٹھا کرتا تھا، ان کے علاوہ حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہما کی مجلس میں بکثرت بیٹھا کر تا تھااور ابنِ عمر رضی اللہ عنہما کے ہاں ورع، بکثرت علم اور جن چیزوں کا علم نہ ہوتا ان کے جواب میں توقف ہوتا تھا ۔ (تھذیب الکمال: 23/430،431،سیر اعلام النبلاء :5/55)

شیوخ حدیث
آپ رحمة اللہ علیہ نے حدیث کا علم حضرت عائشہ ، حضرت ابنِ عمر، حضرت ابنِ عباس ،اپنی دادی حضرت اسماء بنت عمیس ، حضرت ابو ھریرہ ، حضرت فاطمہ بنت قیس ، حضرت رافع بن خدیج ، حضرت عبد اللہ بن خباب ، حضرت عبد اللہ بن عمرو، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہم ، اسلم مولیٰ عمربن الخطاب، صالح بن خوات بن جبیر ،عبد اللہ بن جعفر بن ابی طالب ،عبد اللہ بن زبیر ،عبد اللہ بن عمر ،اپنے چچا زاد بھائی عبد اللہ بن عبد الرحمن بن أبی بکر الصدیق ،عبد اللہ بن عمرو بن العاص ا ور عبد بن جاریہ کے دو بیٹوں سے حاصل کیا(رضی اللہ عنھم اجمعین)(تھذیب الکمال :23/427،تھذیب التھذیب :8/333،سیر اعلام النبلاء :5/ 54،تاریخ الاسلام :3/ 328)

ان کے علاوہ حضرت عبد اللہ بن مسعود اور حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہما سے مرسل روایت کرتے ہیں ۔(سیر اعلام النبلاء : 5/54،تھذیب الکمال : 23/ 427،428)اپنے والد محمد  اور دادا ابو بکرصدیق سے روایت منقطع ہے ۔( سیر اعلام النبلاء :5/54،حاشیة الکاشف:2/130)

ابو بکر بن محمدبن عمرو بن حزم اور ابو عثمان وغیرہ شامل ہیں ۔

ائمہ کے توثیقی کلمات اور جلا لتِ شان
حضرت قاسم بن محمد فقہائے مدینہ میں سے تھے ،امام ابو نعیم اصفہانی  نے” حلیة الاولیاء “میں آپ کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا ہے :قاسم بن محمد بن ابی بکر فقیہ،پرہیزگار ،شفیق، متواضع صدیق کے فرزند، عمدہ حسب والے،غامض احکام کے بتلانے میں فائق اور اچھے اخلاق کی طرف سبقت کرنے والے تھے ۔(حلیة الاولیاء :2/183)

ابنِ عیینہ  نے فرمایا : ”کا ن من افضل أھل زمانہ “․ یعنی اپنے زمانے میں سب سے افضل لوگوں میں سے تھے۔(التاریخ الکبیر: 7/157 ،الجرح والتعدیل :7/158)

ابو الزناد  نے فرمایا :”میں نے قاسم سے بڑھ کر کسی کو سنت کا عالم نہیں پایااور کسی کو اس وقت تک بڑا آدمی شمار نہیں کیا جاتاجب تک کہ اسے سنت کا علم نہ ہو “۔(حلیة الاولیاء :2/184،التاریخ الکبیر :7/157،تاریخ الاسلام :3/328،سیر أعلام النبلاء 5/ 56)

یحییٰ بن سعید  نے فرمایا کہ ہم نے اپنے زمانے میں مدینہ میں کسی کو نہیں پایا کہ ہم اسے قاسم پر فضیلت دیتے ۔(تاریخ الاسلام :3/ 328،حلیة الاولیاء :2/ 184 ،تھذیب الکمال :23/431)

امام بخاری نے علی بن مدینی سے نقل کیا ہے کہ قاسم بن محمد کی دوسو حدیثیں ہیں۔(تھذیب الکمال :32/ 430،سیر أعلام النبلاء:5/ 54)امام بخاری نے اپنی” صحیح“ میں حضرت قاسم  کے بیٹے عبد الرحمن سے بواسطہ سفیان حدیث نقل کرتے ہوئے فرمایا: ”حدثنا عبد الرحمن بن القاسم، وکان أفضل أھل زمانہ،أنہ سمع أباہ، وکان أفضل أھل زمانہ“․ ہم سے حدیث بیان کی عبد الرحمن بن قاسم نے اور وہ اپنے زمانے کے افضل ترین لوگوں سے تھے،انہوں نے اپنے والد قاسم سے سنا اور وہ اپنے زمانے کے افضل ترین لوگوں میں سے تھے ۔(کتاب الحج، باب الطیب بعد رمی الجمار والحلق قبل الإفاضة،رقم:1754)

ابوالزناد نے فرمایا کہ اہلِ مدینہ میں سات بڑے لوگ ہیں (یعنی فقہاء )۔ جب کسی مسئلہ میں اختلاف ہوتا ہے تو ان میں سے کسی ایک کے قول کو لیا جاتا ہے ،ان میں سے ایک قاسم ہیں۔(تاریخ الاسلام :3/ 328)یحییٰ بن سعید قطان نے فرمایا کہ فقہائے مدینہ دس ہیں، پھر ان میں سے قاسم کا نام لیا۔ (تاریخ الاسلام :3/328)عبد اللہ بن وھب کہتے ہیں کہ امام مالک نے قاسم بن محمد کا تذکرہ کیا اور فرمایا کہ وہ اس امت کے فقہاء میں سے تھے۔ (تھذیب الکمال : 23/ 433،تھذیب التھذیب :8/334)

امام مالک  نے فرمایا: ابنِ سیرین جب بیمار ہوئے اور حج پر نہ جا سکے توحج پر جانے والوں سے کہتے کہ وہ قاسم بن محمد کی سیرت،لباس وغیرہ کا جائزہ لے کہ آجائیں ،لوگ واپس آکران کوقاسم بن محمد  کے حالات ومعمولات کے بارے میں بتلاتے تو ابن سیرین قاسم کی ا قتدا کیا کرتے تھے۔ (سیر اعلام النبلاء:5/57 ،تھذیب الکمال :23/433)

احمد بن عبد اللہ عجلی  نے فرمایا :”کان من خیار التابعین وفقہائھم“․ ایک اور جگہ فرمایا :مدنی،تابعی،ثقة،نزہ،رجل صالح“ ․ (تھذیب التھذیب :8/ 335،سیراعلام النبلاء:5/57)

مصعب بن عبد اللہ زبیری نے فرمایا :”القاسم بن محمد من خیار التابعین․ “ (تھذیب الکمال :23/433،تھذیب التھذیب 8/335)

تواضع اور علمی معاملات میں حزم واحتیاط
یونس بن بکیر کہتے ہیں کہ ہم سے ابنِ اسحاق نے بیان کیاکہ ایک اعرابی قاسم بن محمد کے پاس آیا اور پوچھا کہ آپ زیادہ علم والے ہیں یا سالم؟قاسم بن محمد  نے جواب میں فرمایا :سبحان اللہ! ہم میں سے ہر ایک تمہیں اپنے علم کے مطابق جواب دے گا۔ یعنی تم جو بات معلوم کرنا چاہتے ہواس کے بارے میں سوال کرو ،اس نے پھر پوچھا کہ تمہارے میں اَعلم کون ہے؟آپ نے جواب میں کہا ؟سبحان اللہ !اس نے پھر سوال دہرایا، تو آپ نے جواب میں فرمایا :وہ سالم ہیں۔ جاوٴ!جو پوچھنا ہو ان سے پو چھو،یہ کہہ کر اپنی جگہ سے اٹھ گئے ۔ابنِ اسحاق کہتے ہیں کہ آپ نے اس بات کو نا پسند کیا کہ یہ کہیں کہ میں زیادہ جاننے والا ہوں، کیوں کہ یہ اپنی ہی تعریف وتزکیہ ہو تااور یہ بھی نا پسند کیا کہ سالم کو اَعلم کہیں ،کیوں یہ غلط بیانی تھی ،ابنِ اسحاق کہتے ہیں قاسم سالم سے زیادہ علم والے تھے ۔(سیر اعلام النبلاء:5/56،حلیة الاولیاء :2/184)

ایوب کہتے ہیں کہ میں نے یحییٰ کو قاسم سے کچھ پوچھتے ہوئے سنا، جواب میں قاسم کبھی لاأدری اور کبھی لاأعلم فرماتے ،یحییٰ نے جب اور پوچھنا شروع کیا تو فرمایا :اللہ کی قسم!جو کچھ تم ہم سے پوچھتے ہو ہم اس میں سے ہر بات کا علم نہیں رکھتے ہیں ۔(تاریخ الاسلام :3/329،حلیة الاولیاء:2/ 184)

حماد بن زید نے عبید اللہ سے نقل کیا ہے کہ حضرت قاسم بن محمد قرآن کی تفسیر نہیں کر تے تھے ۔(الطبقات الکبریٰ:5/187،تاریخ الاسلام :3/329)

ابو الزناد کہتے ہیں کہ حضرت قاسم صرف ظاہری چیزوں سے متعلق سوال کا جواب دیا کرتے تھے ۔(تاریخ الاسلام :3/329،الطبقات الکبریٰ: 5/187)ابنِ عون کہتے ہیں حضرت قاسم نے کسی سوال کے جواب میں کچھ کہا اور اس کے بعد فرمایا کہ یہ میری رائے ہے،میں یہ نہیں کہتا کہ یہی حق ہے۔(الطبقات الکبریٰ :5/187،تاریخ الاسلام :3/329)

عمران بن عبد اللہ کہتے ہیں کہ بعض لوگ تقدیر کے بارے میں بات کر رہے تھے ،حضرت قاسم نے ان سے فرمایاکہ جس کو اللہ نے بیان نہیں کیا تم اس کے بارے میں گفتگو مت کیا کرو ۔(الطبقات الکبریٰ:5/188) ابنِ عمار کہتے ہیں کہ میں نے قاسم اور سالم کو ”قدریہ “پر لعن کرتے ہوئے سنا۔ (تاریخ الاسلام :3/ 329،الطبقات الکبریٰ:5/188)

عبد اللہ بن العلاء کہتے ہیں کہ میں نے حضرت قاسم  سے گزارش کی کہ وہ مجھے کچھ احادیث کا املا ء کروائیں ،تو انہوں نے کہا کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ کے دور میں احادیث بہت زیادہ ہوگئی تھیں۔یعنی لوگ بغیر احتیاط کے ہر با ت کی نسبت حضورصلی الله علیہ وسلم کی طرف کرنے لگے تھے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کواللہ کا واسطہ دیا کہ وہ اپنی لکھی ہوئی احادیث ان کے پاس لے کر آئیں ،لوگ جب اپنی لکھی ہوئیں احادیث ان کی خدمت میں لائے تو آپ نے ان کے جلانے کا حکم دیا اور فرمایا کہ یہ اہل ِ کتاب کی کجی کی طرح کجی ہے ،عبد اللہ کہتے ہیں کہ قاسم نے اس دن کے بعد سے مجھے حدیث لکھنے سے منع کردیا ۔(تاریخ الاسلام :3/329،سیر اعلام النبلاء:5/59)

یحییٰ ابنِ سعید کہتے ہیں کہ حضرت قاسم اور ان کے ساتھی عشا کے بعد ایک دوسرے کو حدیث سناتے تھے ۔(الطبقات الکبریٰ5/188)

عبد الرحمن بن ابی الموال کہتے ہیں کہ قاسم بن محمد صبح گھر سے مسجد تشریف لاتے اور دو رکعت نفل پڑھ کر پھر لوگوں کے درمیان تشریف فرماہوتے تو لوگ آپ سے سوال کرتے تھے۔(الطبقات الکبریٰ :5/189، تاریخ الاسلام :3/329)

وصیت اور وفات
افلح بن حمید کہتے ہیں کہ قاسم نے اپنی وصیت لکھواتے ہوئے فرمایا کہ یہ قاسم بن محمد کی وصیت ہے کہ وہ اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ۔(الطبقات الکبریٰ:5/193)

سلیمان بن عبد الرحمن کہتے ہیں کہ قاسم بن محمد  نے (موت کے وقت کہا )مجھے میرے ان کپڑوں میں کفن دینا جن میں نماز پڑھتا کرتا ہوں، یعنی قمیص،ازاراور چادر،آپ کے بیٹے نے کہا ،ابا جان! آپ دو کپڑوں کو بھی پسند نہیں کرتے (یعنی نیا کفن لیا جائے )؟جواب میں فرمایا:بیٹے!حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا بھی اسی طرح تین کپڑوں کا کفن تھا، جب کہ میت سے زیادہ زندہ آدمی نئے کپڑوں کا محتاج ہوتا ہے ۔(سیراعلام النبلاء:5/60،الطبقات الکبریٰ:5/193)

خالد بن ابی بکر کہتے ہیں کہ قاسم بن محمد نے وصیت کی تھی کہ ان کی قبر پر کوئی تعمیر نہ کی جائے ۔(تاریخ الاسلام:3/33،سیر أعلام النبلاء:5/60) مزید کہتے ہیں کہ میں قاسم بن محمد  کے انتقال کے وقت موجود تھا، وہ قُدید میں فوت ہوئے اور مشلل میں دفن ہوئے ،ان دونوں جگہوں کے درمیان تین میل جتنا فاصلہ ہے، ان کے بیٹے نے چارپائی اپنے کندھے پر رکھی اور چلتے رہے، یہاں تک کہ مشلل پہنچے۔(الطبقات الکبریٰ:5/193، 194)

قاسم بن محمد کے سنِ وفات میں اختلاف ہے ،متعدد اقوال پائے جاتے ہیں ،چناں چہ ضمرہ نے رجاء بن جمیل ایلی سے نقل کیا ہے کہ عمربن عبد العزیز  کی وفات کے بعد عبد الملک کے دور میں 101 ہجری، یا 102 ہجری میں انتقال ہوا ۔(الثقات لابن حبان :5/302،التاریخ الکبیر:7/157،تھذیب الکمال: 23/434،435،تھذیب التھذیب :8/335)

عبد اللہ بن عمروعمری سے 105 ہجری منقول ہے ۔(التاریخ الکبیر: 7/157 ،سیر اعلام النبلاء :5/58،تھذیب الکمال :23/435، تھذیب التھذیب :8/335)خلیفہ بن خیاط کہتے ہیں کہ106ھ کے اواخر یا 107 ہجری کی ابتدا میں فوت ہوئے ۔(تاریخ الاسلام :3/330، تھذیب التھذیب :8/ 335،سیر اعلام النبلاء :5/58 ،تذکرة الحفاظ :1/97)

یحییٰ بن معین اورعلی بن مدینی سے بھی106 ھ منقول ہے ،حافظ ابنِ حجر نے ”تقریب التھذیب “106ھ کے قول کو صحیح قرار دیا ہے ۔ (2/23)

ھیثم بن عدی اور اور یحییٰ بن بکیر سے 107ھ مروی ہے۔ (سیر اعلام النبلاء :5/ 58 تھذیب الکمال : 23/ 435، تاریخ الاسلام :3/330) علامہ ذہبی  نے ”الکاشف “ میں اسی کو اختیار کیا ہے ۔ (2/130)

علامہ واقدی، یحییٰ بن معین ،علی بن مدینی ،ابو عبید اور فلاس سے 108ھ کا قول مروی ہے ،واقدی نے کہا کہ70 یا72سال کی عمر میں انتقال ہوا، اس وقت قاسم بن محمدکی بینائی بھی چلی گئی تھی ۔(تھذیب الکمال :23/ 435،سیر اعلام النبلاء :5/58،تاریخ الاسلام :3/330،الطبقات لابن سعد :5/194)

عمر الضریر نے کہا کہ109 ھ میں فوت ہوئے ۔(تھذیب الکمال :23/435)

ابنِ سعد سے 112ھ ھ منقول ہے ۔ (تھذیب الکمال: 23/435)سیراعلام النبلاء :5/58،تھذیب التھذیب:8/ 335) حسن بن بترا نے ابنِ مدینی سے ایک قول112ھ کا بھی نقل کیا ہے۔ (تھذیب الکمال:23/ 435،سیراعلام النبلاء :5/ 58)لیکن علامہ ذھبی  نے ابنِ سعد کے قول کو شاذ قرار دیا ہے ۔(سیراعلام النبلاء :5/ 58،تاریخ الاسلام :3/ 330)نوح بن حبیب سے 117ھ کا قول مروی ہے۔(تھذیب الکمال: 23/ 435) یہ بھی شاذ ہے۔

قاسم بن محمد  کے چند بیش بہا اقوال
٭... اللہ کے حق کو پہچاننے کے بعد جاہل بن کر زندگی گزارنا بہتر ہے اس سے کہ وہ ایسی بات کہے جس کا اسے علم نہ ہو۔(الطبقات لابن سعد: 5/188،تھذیب الکمال :23/ 433،تاریخ الاسلام :3/329،سیر أعلام النبلاء :5/57)
٭... صحابہ رضی اللہ عنھم اجمعین کا اختلاف امت کے لیے رحمت ہے ۔ (الطبقات : 5/ 189،سیر اعلام النبلاء :5/60،تاریخ الاسلام:3/ 329)
٭... آدمی کی اپنی عزت کرنا یہ ہے کہ وہ اپنے احاطہ علم سے باہر کوئی بات نہ کرے ۔(تھذیب الکمال :23/ 23/ 434،سیراعلام النبلاء :5/57)
٭...اپنے بیٹے کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:بیٹے! ان چیزوں کے بارے میں حلفیہ گفتگو نہ کرو جن کا تمہیں علم نہ ہو۔(الطبقات لابن سعد:5/189)
٭...نئے کپڑے کا میت سے زیادہ زندہ محتاج ہوتا ہے ۔(تاریخ الاسلام :2/ 330،الطبقات :5/ 193)

Flag Counter