Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الثانی 1435ھ

ہ رسالہ

3 - 15
عربی تفاسیرکے ترجمے…تعارف و تجزیہ

مولانا اشتیاق احمد، دارالعلوم دیوبند
	
جمالین شرح اردو جلالین
شروع میں فہرستِ مضامین مفصل ہے ، یہ شرح جملہ شروحات میں نمایاں حیثیت کی حامل ہے، یہ طلبہ کو سامنے رکھ کر لکھی گئی ہے ؛ اس لیے مشکل مفردات کی لغوی وصرفی تحقیق کے ساتھ مشکل جملوں کی ترکیب بھی کی گئی ہے، علامی سیوطی کے تفسیری الفاظ، تعبیرات کے مقاصد اور فوائد قیود کو اچھی طرح واضح کیا گیا ہے، مثلاً یہ کہ کہاں محض لغوی ترجمہ بتانا مقصد ہے ؟ کہاں ابہام کی وضاحت ہے ؟ کہاں اجمال کی تفصیل ہے ؟ کہاں معنی مرادی کی تعیین کا ارادہ ہے؟ اور کہاں بیانِ مذہب ہے ؟ کہاں ترکیبِ نحوی ،قرأت اور تعلیل بتانا مقصد ہے ؟ غرض یہ کہ عبارت کے حل کرنے میں کوئی دقیقہ چھوڑا نہیں گیا ہے، جہاں فقہی مسائل ودلائل بیان کیے ہیں، ان مقامات پر شارح نے حنفی نقطہٴ نظر کو بھی دلائل سے واضح فرمایا ہے ، ”ارض القرآن“ کے نقشوں کو بھی افادہ کے لیے شاملِ اشاعت کیا گیا ہے ، اکابر علماء نے اس شرح کو خوب سراہا ہے، دارالعلوم دیوبند کے استاذ حدیث، زبان وقلم کے بے تاج بادشاہ نظم ونثر کے معروف قلم کار، حضرت الاستاذ، مولانا ریاست علی ظفر بجنوری دامت برکاتہم نے اس پر قیمتی تقریظ تحریر فرمائی ہے ، صفحہ نمبربارہ(12) تا اکیس(21) پر شارح نے تفصیلی مقدمہ تحریر فرمایا ہے ، اس میں کا م کاتعارف ، وحی کی ضرورت واہمیت، اقسام، مکی،مدنی سورتوں کی تعریف ، نزولِ قرآن اور حفاظتِ قرآن کی تاریخ بیان کی ہے ، قرآن پاک سے متعلق اعداد وشمار مثلاً سورہ، رکوع، آیات ، مکی، مدنی، بصری، شامی آیات اور کلماتِ قرآنی کی تعداد تحریر فرمائی ہے، ساتھ ہی تفسیر کی لغوی اور اصطلاحی تعریفات بھی لکھی ہیں ، یعنی تفسیر پڑھنے والے ابتدائی طالب علموں کو جتنی معلومات ضروری ہیں، ان کو تفصیل سے جمع فرما دیا ہے ، تفسیر وتشریح کا انداز بہتر ہے، ہر بات کو نئے عنوان کے تحت لکھا ہے، آیات اور ان کے ترجمے پر خط کھینچ دیا ہے؛ غرض یہ کہ جلالین کی شرح میں جتنی جمال آفرینی موصوف سے ممکن تھی سب بروئے کار لائی گئی ہے۔

تفسیر بیضاوی
درس نظامی میں جلالین کی طرح ”بیضاوی“ بھی ہمیشہ سے مقبول رہی ہے، مشکوٰة المصابیح کے ساتھ اس کا بتدائی حصہ اب بھی مدارس میں نصاب کا جز ہے اور دارالعلوم دیوبند میں دورہٴ حدیث شریف کے بعد ” تکمیل تفسیر“ میں بیضاوی کا ایک معتدبہ حصہ پڑھایا جاتا ہے ، امام فخر الدین رازی کی تفسیر کے بعد مشکل تفسیروں میں اس کا شمار ہوتا ہے ، اس میں نحو، صرف ، کلام اور قراء ت وغیرہ کے مباحث کو بھی بیان کرتے ہیں؛ اس لییبیضاوی کی اردو شرح کی ضرورت ایک مسلم بدیہی حقیقت ہو گئی۔

اس تفسیر کا مکمل ترجمہ اردو زبان میں ہوا ہو ، اس کا علم تو مجھے نہیں؛ البتہ اتنا ضرور ہے کہ جتناحصہ داخلِ نصاب رہا ہے؛ اس کی مختلف اوقات میں مختلف انداز کی شرحیں شائع ہوئی ہیں، میرے علم میں اس کی دو شرحیں ہیں:
(الف) التقریر الحاوی فی حل تفسیر البیضاوی․
(ب) تقریر شاہی ،یہ دونوں مستقل شرحیں نہیں ہیں؛ بلکہ درسی افادات ہیں۔

التقریر الحاوی
یہ حضرت مولانا سید فخر الحسن صاحب  صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند کے درسی افادات ہیں ، مکتبہ فخریہ دیوبند نے اسے شائع کیا ہے، اس کی تین جلدوں کے دیکھنے کا شرف حاصل ہو سکا ہے ، مرتب کی حیثیت سے پہلی اور دوسری جلد پر دو نام ہیں:
(الف) مولانا شکیل احمد صاحب، صدر مدرس مدرسہ محمودیہ سروٹ، مظفر نگر ( یوپی)۔
(ب) مولانا جمیل احمد سہارن پوری۔
اور تیسری جلد پر صرف پہلا نام ہے ، پہلی جلد کے ابتدائی دس صفحات میں ” مقدمہ“ ہے، اس کے بعد اصل شرح شروع ہوتی ہے ، پہلے عبارت، پھر ترجمہ، اس کے بعد تشریح ہے ، تیسری جلد ﴿ھُو الذی خلق لکم ما في الأرض جمیعاً …﴾ تک کے ترجمہ وتشریح پر مشتمل ہے، اس پر حضرت مولانا محمد عثمان کاشف الہاشمی  کا ” پیش لفظ“ بھی ہے ، اس میں شرح کی خوبیوں پر گفتگو کی گئی ہے ، زبان وبیان کے لحاظ سے بھی کوئی سقم نظر نہ آیا، اس میں انہیں افادات کو شائع کیا گیا ہے جو حضرت مولانا شکیل احمد صاحب سیتاپوری مدظلہ نے دورانِ درس ضبطِ تحریر میں لائے تھے۔ ( مقالات حبیب80/1)

تقریر شاہی
حضرت مولانا انظرشاہ صاحب کشمیری  کے درسی افادات کو اس میں جمع کیا گیا ہے ، یہ صرف سورہٴ فاتحہ کی تفسیر پر مشتمل ہے، اس کی زیارت 1993ء یا 1994ء میں مدرسہ ریاض العلوم گورینی ، جون پور ( یوپی) میں ہوئی تھی ، دیوبند میں اسے نہیں دیکھ سکا ، تجارتی کتب خانوں میں نایاب ہے۔

ترجمہ تفسیر مدارک
”مدارک التنزیل“ علامہ ابوالبرکات عبدالله بن احمد نسفی کی تفسیر ہے ، یہ تفسیر نہایت عمدہ ہے، جامعیت اور پیرایہٴ بیان کی دل کشی میں منفرد ہے ، اس میں گم راہ فرقوں کے عقائد باطلہ کی بھی بھرپور تردید کی گئی ہے ، حافظ ابن کثیر کی تفسیر کی طرح اسرائیلیات سے بالکل پاک ہے ، اہلِ علم نے ہمیشہ اسے پذیرائی بخشی ہے ، پہلے ہندوپاک کے مدارس میں داخلِ نصاب تھی، اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس میں فقہی مسائل ودلائل حنفی نقطہ ٴ نظر سے بیان ہوئے ہیں ، تفسیر اور علمِ تفسیر سے بے اعتنائی کے دور میں جس طرح دوسری تفسریں بے توجہی کا شکار ہوئی ہیں ، اسی طرح یہ تفسیر بھی ہوئی ، فإلی الله المشتکیٰ!

مذکورہ بالا خصوصیات کی وجہ سے حضرت مولانا اانظر شاہ کشمیری نے اس کا ترجمہ شروع فرمایا اور بڑے ہی آب وتاب سے دیوبند کے ” ادارہ فکر اسلامی“ کے ذریعہ اس کی اشاعت عمل میں آئی ،ترجمہ کا اسلوب نہایت عمدہ اور زبان شیریں ہے ، قاری کو ترجمہ پن کا باکل احساس نہیں ہوتا ، ”فٹ نوٹ“ میں بڑی مفید باتیں بیان کی گئی ہیں ، اس کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں امام جصاص او رابن العربی رحمہما الله کی ” احکام القرآن“ سے مترجم نے جزوی احکام ومسائل بیان فرمائے ہیں ، اس طرح ہر رکوع کے بعد ”قرآن کا پیغام“ کے عنوان کے تحت تفسیر کا خلاصہ تحریر فرمایا ہے ، آیات اور ترجمے میں خط کھینچ کر فصل پیدا کر دیا گیا ہے ، اہل علم کے نزدیک کتابتِ ترجمہ کا یہ طرز بہتر ہے ، ترجمہ میں حضرت تھانوی کے ترجمہ کو منتخب فرمایا ہے۔

مترجم مرحوم(1347ھ1429ھ) برصغیر کے عظیم ترین باپ کے عظیم سپوت تھے، عربی زبان وادب پر صدر جمہوریہ ایوارڈ یافتہ تھے، مسلم پرسنل لابورڈ کے رکن تاسیسی تھے، دو درجن علمی، ادبی او رمذہبی کتابیں تصنیف فرمائیں، اس کو عمدہ سے عمدہ بنانے کی ہر ممکن کوشش فرماتے تھے ، ابن کثیر، مدارک ، جلالین او رمظہری کے ترجمے کیے ؛ لیکن اتفاق سے اوّل الذکر کے علاوہ کوئی ترجمہ ممکمل نہ ہو سکا ، جلالین کا ترجمہ مکمل ہوا؛ مگر اس کے صرف تین پاروں کا ترجمہ اور اس کی شرح مرحوم ومغفور نے فرمائی تھی ( یعنی سولہ ، سترہ، اٹھارہ)، بقیہ کی توفیق حضرت مولانا محمد نعیم صاحب  استاذِ تفسیر دارالعلوم دیوبند کے نصیبے میں آئی۔ مرحوم عصری دانش گاہوں کے فیض یافتہ بھی تھے ، زبان وقلم دونوں کے بے نظیر شہسوار تھے، انہوں نے بڑے بڑے کارنامے انجام دیے ، الله تعالیٰ ان سب کو قبول فرما کر مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائیں!

جب تفسیر مدارک کا ترجمہ چھپا تو مہبطِ وحی مکہ مکرمہ سے نکلنے والے اخبار ”رابطہ العالم الاسلامی“ میں اس کی خوش خبری شائع ہوئی، یہ جماد ی الثانیہ1380ھ کی بات ہے۔ ( ترجمہ مدارک ص:96) ہندوستان میں بھی متعدد رسالوں نے اس پر تبصرے لکھے او رمترجم وناشر کو دادِ تحسین سے نوازا، مثلاً: حضرت مولانا محمد میاں صاحب  نے ” الجمعیة“ دہلی میں 8/ ستمبر1963ء کو عمدہ تبصرہ لکھا او رمولانا سید محمد ازہر شاہ قیصر نے رسالہ دارالعلوم دیوبند کے نومبر1963ء کے شمارے میں اس اقدام کو نہایت بہتر بتایا۔

میں نے اس کے دو حصے دارالعلوم دیوبند کے کتب خانے میں دیکھے ، دونوں حصے چھیانوے ، چھیانوے صفحات کے ہیں ، جب تک یہ تفسیر نصاب میں شامل تھی، اس کے ترجمے بھی مارکیٹ میں ملتے تھے، اب دیوبند کے تجارتی کتب خانوں میں یہ ترجمہ بھی نایاب ہے۔

ترجمہ تفسیر خازن
حضرت الاستاذ مولانا حبیب الرحمن اعظمی زید مجدہ استاذِ حدیث ومدیر رسالہ دارالعلوم دیوبند نے اپنے ” مقالاتِ حبیب “ (761) میں تفسیر خازن کے ترجمے کا ذکر فرمایا ہے کہ دارالعلوم دیوبند کے مفتیِ اعظیم حضرت مفتی عزیز الرحمن صاحب عثمانی  نے اس کا ترجمہ کیا ہے ؛ مگر کوشش کے باوجود وہ ترجمہ نظر نواز نہ ہو سکا ؛ اس لیے اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔ والله اعلم

ترجمہ تفسیر طنطاوی
علامہ طنطاوی کی تفسیر بھی اہل علم کے نزدیک نظر اعتبار سے دیکھی جاتی ہے ، حضرت مولانا انظر شاہ کشمیری کے فرزند ارجمند جناب سید احمد خضر شاہ صاحب زید مجدہ نے راقم الحروف کو بتایا کہ والد صاحب نے تفسیر طنطاوی کا ترجمہ بھی شروع فرمایا تھا ؛ لیکن وہ مکمل نہ ہو سکا ، تجارتی کتب خانوں میں تو نایاب ہے ہی ، خود ان کے پاس بھی نہیں ہے ؛ البتہ حضرت مولانا احمد رضا صاحب بجنوری دامت برکاتہم کے کتب خانہ میں اس کے دو یا تین اجزا کو انہوں نے دیکھا ہے ، والله اعلم بالصواب۔

تفسیر مظہری
حضرت علامہ قاضی محمد ثناء الله صاحب پانی پتی  کی یہ تفسیر، اسلامی کتب خانہ کی بڑی قیمتی متاع ہے ، محدثِ کبیر علامہ انور شاہ کشمیری  فرماتے تھے کہ :” شاید ایسی تفسیر بسیطِ ارض میں نہ ہو “۔ (روایت : حضرت مولانا انظر شاہ صاحب کشمیری) حضرت قاضی صاحب  نے اپنے پیرومرشد کی طرف نسبت کرکے اس کا نام ” تفسیر مظہری“ رکھا، حضرت مرزا مظہر جانِ جاناں فرماتے تھے کہ : اگر الله تعالیٰ نے کسی تحفے کا مطالبہ فرمایا تو میں ” ثناء الله“ کو پیش کر دوں گا ؛ حضرت مرزا صاحب اپنے مریدوں میں سب سے زیادہ آپ سے محبت کرتے تھے ، آپ کو ” عَلَم الہدیٰ“ کے لقب سے یاد فرماتے تھے ، حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب  موصوف کو ” بیہقی وقت“ کہتے تھے، آپ نے حضرت شاہ ولی الله صاحب  سے باقاعدہ علم حاصل کیا ہے ، آپ کا سلسلہٴ نسب حضرت عثمان غنی رضی الله عنہ تک پہنچتا ہے ۔

حضرت قاضی صاحب  کی تصانیف تیس سے زائد ہیں ، ان میں سے دو کو بڑی مقبولیت حاصل ہوئی ، ایک تو یہی تفسیر ہے اور دوسری ”مالا بدمنہ“ (فارسی) اس تفسیر کے بارے میں حضرت مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ تحریر فرماتے ہیں:
” تفسیر مظہری بہت سادہ اور واضح ہے او راختصار کے ساتھ آیاتِ قرآنی کی تشریح معلوم کرنے کے لیے نہایت مفید ، انہوں نے الفاظ کی تشریح کے ساتھ متعلقہ روایات کو بھی کافی تفصیل سے ذکر کیا ہے اور دوسری تفسیروں کے مقابلے میں زیادہ چھان پھٹک کر روایات لینے کی کوشش کی ہے۔ “ (معارف القرآن :58/1)

اردو ترجمے
راقم الحروف کے محدود علم واطلاع میں عربی زبان کی تفسیروں میں سب سے زیادہ اسی تفسیر کے ترجمے ہوئے ہیں ، میری رسائی چار ترجموں تک ہو سکی ہے :
(الف) ترجمہ جناب محمد یعقوب بیگ ، مدیر رسالہ:” کاشف العلوم“
(ب) ایک نامعلوم مترجم کا ترجمہ۔
(ج) ترجمہ حضرت مولاناانظر شاہ صاحب کشمیری، شیخ الحدیث، دارالعلوم وقف دیوبند۔
(د) ترجمہ مولانا سید عبدالدائم صاحب الجلالی ۔

ترجمہ مظہری، از جناب محمد یعقوب بیگ
یہ ترجمہ تین جلدوں پر مشتمل ہے ، تینوں جلدوں کے صفحات کی تعداد پانچ سو نو (509) ہے ، تیسری جلد دوسرے پارے تک کے ترجمہ کو شامل ہے ، اس کی اشاعت ” مطبع انوری دہلی“ کے ذریعہ عمل میں آئی ہے ، تاریخِ طباعت1326ھ درج ہے، اس ترجمہ کی زبان بھی مناسب ہے ؛ البتہ ایک صدی سے زائد عرصہ گذر جانے کی وجہ سے قدامت آگئی ہے، پھر بھی قابلِ قدر ہے۔

ایک اور ترجمہ
دارالعلوم دیوبند کے کتب خانہ میں ایک ترجمہ ہے، جس پر مترجم کا نام لکھا ہوا نہیں ہے ؛ لیکن تقابلی نظر ڈالنے سے یہ اندازہ ہوا کہ یہ ترجمہ بھی جناب محمدیعقوب بیگ مدیر سالہ : ”کاشف العلوم “ کے ترجمہ سے ملتا جلتا ہے ، بعض جگہ تعبیرات کا فرق ہے ؛ لیکن بہت زیادہ نہیں ، راقم الحروف کے خیال میں دونوں ترجموں کے مترجم ایک ہی شخصیت ہیں اور شاید الگ ایڈیشن تیار کرنے میں کچھ حذف واضافہ کیا گیا ہے ، اس ترجمہ کے شروع یا اخیر میں لوح یا فہرست وغیرہ نہیں ہے کہ حتمی طور پر کچھ کہا جاسکے؛ البتہ اخیر میں ”ترقیمہ“ ہے ، جس میں ماہ ذی الحجہ1325ھ درج ہے ، اس سے اوّل الذکر ترجمہ سے پہلے کی طباعت کا فیصلہ کیا جاسکتا ہے ۔ والله اعلم۔

نامعلوم مترجم کا ترجمہ مظہری
یہ ترجمہ بھی دارالعلوم دیوبند کے کتب خانہ میں ہے ، بڑی تقطیع پر مطبوع ہے ، طباعت ”لیتھو“ کی ہے ، صفحات کی تعداد ایک سو پندرہ (115) ہے ، یہ ترجمہ جناب سید محمد عبدالمجید اور سید محمد یامین کے زیر اہتمام”مطبع شمس الانور“ میرٹھ سے شائع ہوا ہے، مسودہ کی کتابت جناب نصرت علی میرٹھی نے کی ہے او رٹائٹل کی کتابت اثر میرٹھی کی ہے، یہ جلد ایک پارہ کے ترجمے کو شامل ہے ، ویسے فہرست میں چوتھے پارہ تک ترجمہ کی طباعت کی صراحت ہے اور ساتھ ہی سب کی قیمت بھی درج ہے او رپانچویں، چھٹے اور ساتویں پارہ کے زیر طبع ہونے کا اعلان ہے۔

ترجمہ قابلِ اعتماد او رمعیاری معلوم ہوتا ہے ، ترجمہ کی زبان او ررسم الخط، نیز کاغذ وطباعت سے ایک صدی سے زیادہ قدامت نظر آتی ہے، مترجم کی طرف سے کچھ بھی اضافہ نہیں کیا گیا ہے، بس اصل عربی میں قاضی صاحب  نے جتنا کچھ لکھا ہے، اس کو ہی اردو کا جامہ پہنا دیا گیا ہے، اس ترجمہ میں آیات کوکافی جلی، ترجمہ کو اس سے خفی اور مفسر کے حاشیہ کے ترجمہ کو اس سے باریک خط میں لکھا گیا ہے۔

”ترجمہ مظہری“ از: مولانا انظرشاہ صاحب کشمیری
حضرت مولانا انظر شاہ صاحب  نے کئی تفسیروں کے ترجمے اور ان کی طباعت واشاعت کا پروگرام بنایا تھا؛ لیکن نہ جانے کیوں ”ابن کثیر“ کے علاوہ کسی تفسیر کا ترجمہ پایہٴ تکمیل کو نہ پہنچ سکا؟ مرحوم نے تفسیر مظہری کا ترجمہ بھی بڑے ہی آب وتاب سے شروع فرمایا تھا، اس کا پہلا حصہ چھیانوے صفحات پر مشتمل ہے، اس کی اشاعت ” مکتبہ ندائے قرآن، دیوبند“ کے ذریعہ عمل میں آئی ، اس میں بھی ترجمہ آیات کے لیے حضرت تھانوی  کا ترجمہ منتخب کیا گیا ہے ، مولانا مرحوم کے ترجمہ کی زبان بہت عمدہ ہے ، حقیقت یہ ہے کہ وہ زبان وبیان کے بادشاہ تھے، تعبیر کی جدت ،استعارہ کی کثرت اور افسانوی طرزِ ادا کے وہ بے مثال ادیب تھے، اس ترجمہ پر حواشی بھی نہایت عمدہ اور مفید تحریر فرمائے ہیں ، طباعت کی تاریخ جون 1960ء درج ہے اور ”ترقیمہ“ میں تحریر فرماتے ہیں : ”الحمدلله! کہ آج 5/رجب المرجب1379ھ بروز سہ شنبہ بوقت12/ بجے دن میں ”تفسیر مظہری“ کا پہلا جز ترجمہ ہو کر ختم ہوا، وذلک من فضل الله․“ درمیان میں اپنے اور والدین کے لیے مغفرت ورحمت کی دعا ہے ،پھر” انظر شاہ الکشمیری، خادم التدریس بدارالعلوم دیوبند“ رقم ہے۔

”ترجمہٴ مظہری“ از مولانا سید عبدالدائم الجلالی 
”تفسیر مظہری“ کا یہی ترجمہ اپنی مکمل شکل میں راقم الحروف کی نگاہ سے گذرا اور یہ ہندوپاک کے تجارتی کتب خانوں میں موجود بھی ہے ، دیوبند کے ”زکریا بک ڈپو“ نے لاہور پاکستان کے ”دارالاشاعت“ والے مطبوعہ نسخے کا فوٹو لے کر شائع کیا ہے۔

شروع کے دو صفحات میں تفسیر اور مفسر کا تعارف ہے ، پھر فہرست مضامین ہے ، اس میں سارے مضامین کا احاطہ کیا گیا ہے ، ترجمہ کی زبان نہایت عمدہ اور رواں دواں ہے ، مترجم کا مکمل تعارف حاصل نہ ہو سکا، ایک جگہ صرف ”رفیق ندوة المصنّفین دہلی“ لکھا ہوا دیکھا ، ترجمہ پڑھنے سے شخصیت وقیع معلوم ہوتی ہے، مترجم کی طرف سے مفید حواشی کا اضافہ بھی ہے ، قارئین کے لیے متاعِ گراں مایہ ہے ؛ غرض یہ کہ یہ ترجمہ راقم الحروف کے نزدیک سب سے عمدہ او رمکمل ہے ، کتابت کمپیوٹر کی او رطباعت آفسیٹ کی ہے ، آیاتِ قرآنی کو ہندوپاک کے مروجہ رسم الخط میں اور ترجمہ کو قوسین کے درمیان لکھا گیا ہے۔

Flag Counter