Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الثانی 1435ھ

ہ رسالہ

15 - 15
تبصرہ کتب

ادارہ
	
گنبد خضریٰ کے سایہ میں
تالیف: مولانا سمیع الحق
صفحات:256 سائز:23x36=16
ناشر: القاسم اکیڈمی، جامعہ ابو ہریرہ خالق آباد، ضلع نوشہرہ، خیبر پختوانخواہ۔

زیر نظر کتاب میں ایک سفر حج کے حالات وواقعات ، تاثرات ومشاہدات، سنہری یاداشتوں اور دلچسپ روداد کو خطوط کے ذریعے ترتیب دیا گیا ہے او رایک علمی وتاریخی تحریر کی حیثیت سے اسے نہایت دلکش، جاذب اور حسین وخوب صورت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ اس کے مرتب مولانا سمیع الحق صاحب زیدمجدہ ہیں او رانہوں نے اس کے پس منظرکو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:

” الله تعالیٰ نے آج سے پینتالیس سال قبل 1963ء کے اواخر میں جون1964ء تک حرمین شریفین حاضری اور قیام کا موقع عطا فرمایا، اس سفر کی کچھ یادداشتیں نوٹ کرتا رہا مگر امتداد وقت کی وجہ سے وہ اس وقت نہیں مل پارہے، مگر اس سفر میں اپنے والد ماجد شیخ الحدیث مولانا عبدالحق قدس سرہ ،محبین گرامی ڈاکٹر مولانا شیر علی شاہ صاحب ، ناظم دارالعلوم مولانا سلطان محمود ، مولانا قاضی انوارالدین، برادرم مولانا انوارالحق کو خطوط لکھتا رہا جو خوش قسمتی سے محفوظ رہے ،ان خطوط کے ذریعہ اس وقت کے سفر حج کی مشکلات وسائل کی کمی، سہولتوں کے فقدان مگر برکات وانوار اور اثرات کی فراوانی پر روشنی پڑتی ہے، جی چاہتا ہے کہ زندگی کے اس زرین عہد کو ان خطوط کے ذریعہ محفوظ کرایا جائے ، آخر میں حضرت اقدس والد ماجد کے حرمین میں آئے ہوئے ایمان آفرین خطوط بھی دیے جارہے ہیں جواپنے ایک ناچیز بیٹے کی تربیت کے انداز ، عجز وانکسار اور عظیم اخلاقی اقدار کو بھی نمایاں کر رہے ہیں کہ ایک عظیم باپ اپنی اولاد کے ساتھ شفقت ومحبت کااظہار کس انداز میں کررہا ہے، بے تکلفی، سادگی، معاملات کی صفائی، حقوق کی ادائیگی کی غیر معمولی ترغیب اورانابت الی الله، عبدیت کاملہ، وارفتگی اور عشق رسول کی والہیت ان کے ہر ہر سطر میں جھلکتی نظر آتی ہے۔ “

یہ کتاب القاسم اکیڈمی نوشہرہ نے شائع کی ہے او راس پر پیش لفظ مولانا عبدالقیوم حقانی نے تحریرکیا ہے ۔ کتاب کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے لکھا ہے کہ :

”شیخ الحدیث حضرت مولانا سمیع الحق صاحب مدظلہ کا سفرنامہٴ حجاز”گنبدخضریٰ“ کے سایہ میں امت کے حضور پیش کیا رجارہا ہے جو آپ کی چند ممتاز تحریروں میں ایک امتیازی شان رکھتا ہے ، جس میں عشقِ رسول صلی الله علیہ وسلم کے ولولے اور حاضری کے آداب کا عاشقانہ اور والہانہ انداز بڑے ادب واحترام کے ساتھ برقرار رکھا گیا ہے۔ سفر حجاز بالخصوص مدینہ منورہ میں حاضری کی داستان ، وہاں کے مناظرِ فطرت اور جمالِ قدرت کی عکاسی، اہل مدینہ کی سادہ دلکش زندگی کے حکایات ومشاہدات بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں۔ تحریر کے ہر عنوان، ہر جملہ بلکہ لفظ لفظ سے سوز وساز،ذوق وشوق، عقل وعشق، عشاق کا جلال وجمال، محبوب کی عظمت ورفعت کا کمال اور قرب و وصل کی سعادتیں چھلکتی نظرآتی ہیں۔“

کتاب میں مفید حواشی کا اضافہ بھی کیا گیا ہے۔یہ کتاب حجاز کے سفرنامہ کے ساتھ ساتھ مفید معلومات کا خزینہ بھی ہے اور اس میں اس وقت کے اکابر امت اور اساطین علم وعمل کی ملاقاتوں، ملفوظات ونصائح اور ان کی مجالس اور دروس میں حاضری کا ذکر عقیدہ ومحبت اور ادب وعاجزی کے انداز میں کیا گیا ہے ، جن میں حضرت مولانا محمد یوسف بنوری  ، مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع  ، مولانا قاری محمد طیب قاسمی، مولانا مفتی محمود ، مولانا بدر عالم میرٹھی، مولانا شیر محمد سندھی، مولانا عبدالغفور عباسی مہاجر مدنی ، مولانا احتشام الحق تھانوی ، مولانا عاشق الہی، مفتی ولی حسن ٹونکی، مولانا حبیب الله گمانوی، مفتی اعظم شیخ محمد ابراہیم، علامہ ناصر الدین البانی ، شیخ محمد امین شنقیطی او ران کے علاوہ دیگر کئی حضرات کا سنہری تذکرہ آجاتا ہے جو اس سفر نامہ کو سفرنامہ حجاز کے ساتھ ساتھ ایک علمی ومعلوماتی سفرنامے میں تبدیل کر دیتا ہے۔

کتاب میں ایک جگہ مدینہ منورہ کے ایک فارم کے تذکرے میں عالم عرب کے مشہور شاعر شوقی مرحوم کے نعتیہ کلام کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ :

”اس نورانی فضا میں ہم نے ٹیپ ریکارڈ پر شاعر عرب شوقی مرحوم کا حضور اقدس کے بارے میں والہانہ کلام سنا، سوئمنگ پول یا باغ کے تالاب کے کنارے شاعر کا نعتیہ کلام …اور نعتیہ کلام سنانے والی عالم عرب کو اپنے ساحرانہ آواز سے مسحور کرنے والی مصر کی ام کلثوم تھیں۔ مدینہ منورہ کی فضاء شوقی مرحوم کی پر حقیقت منقبت سرائی اور ام کلثوم کا وجد آفرین جگر پاش انداز بیان۔ سبحان الله!“

عورت کی آواز راجح قول کے مطابق اگرچہسترنہیں لیکن پردہ ضرور ہے اور اسے بلا ضرورت سننا اور سنانا خصوصاً ترنم کے انداز میں بہرحال صحیح نہیں،پھر جس طرح والہانہ انداز اور وجد آفرین اسلوب میں یہاں اس کا ذکر کیا گیا ہے وہ بہرحال مناسب نہیں، مرتب یا کم از کم ناشر کو اس کی اصلاح کرنی چاہیے تھی۔

کتاب میں بعض جگہ کمپوزنگ اور تعبیر کی غلطیاں بھی پائی جاتی ہیں مثلاً صفحہ نمبر92 پر ”نام کسی قادیانی کی کتاب سے مستعار لیا ہے “ کو ” نام کسی قادیانی کی کتاب سے مستعار لی ہے“ ، صفحہ124 پر ”جعرانہ کی مسجد سے عمرے کا احرام باندھا“ کو ”جعرانہ کے مسجد سے عمرے کا احرام باندھا“، صفحہ نمبر171 پر ”شام قریب تھی “ کو ”شام قریب تھا“ لکھا گیا ہے جب کہ صفحہ232 پر قرآن کی آیت میں ” وکان فضل الله“ کو ”وکان فصل الله“ اور صفحہ236 پر قرآنی آیت میں ” علی شفاحفرة“ کو ”علی شفا حضرة“ تحریر کیا گیا ہے۔ آئندہ ایڈیشن میں اس طرح کی چیزوں کی اصلاح کر لینی چاہیے۔

حجاز کا یہ سفرنامہ نہایت دلچسپ وسبق آموز ہے اور پوری کتاب پر عقیدت ومحبت، سوز وگذار، عجز ونیاز اور ذوق وشوق کی فضاچھائی ہوئی ہے۔ الله تعالیٰ اسے قبول فرمائے او رامت مسلمہ کے لیے ہدایت وراہ نمائی کا ذریعہ بنائے۔

کتاب کے ٹائٹل پر گنبد خضریٰ کی خوب صورت تصویر ہے اور اسے متوسط طباعت کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔

الفقہ فی السند
تالیف: مولانا الله بخش ایاز ملکانوی
صفحات:318 سائز:23x36=16
ناشر: القاسم اکیڈمی، جامعہ ابوہریرہ، خالق آباد، ضلع نوشہرہ، صوبہ خیبر، پختونخواہ

زیر نظر کتاب میں فقہائے سندھ اور ان کی فقہی خدمات کو مرتب وجامع انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ سب سے پہلے خطہٴ سندھ کی تاریخ ، محل وقوع ، جغرافیائی معلومات، بعض معروف شہروں کا تعارف ، پھر علم فقہ کی تعریف ، بعض اہم معلومات، فقہ حنفی پر مختصر وجامع گفتگو اورفقہاء سندھ کی فقہی تالیفات کو حروف تہجی کے اعتبار سے مرتب کرکے ان کا مختصر تعارف پیش کیا گیا ہے ، اس طرح کتاب کا گویا ایک حصہ مکمل ہو جاتا ہے او رپھر دوسرے حصے میں سندھ پر حکومت کرنے والے حکمرانوں اور ان کے دور کے علما وفقہا کا جامعیت واختصار کے ساتھ تعارف کیا گیاہے، بعض شخصیات او رکتابوں کی اہمیت کے پیش نظر ان کے تعارف وتذکرے میں قدرے تفصیل ذکر کی گئی ہے۔ اس میں ان تمام نامور فقہاء کا تذکرہ آجاتا ہے جن کی علمی وفقہی کاوشوں کا مرکز سندھ کا خطہ رہا ہو چاہے وہ وہاں پیدا ہوئے ہوں یا وہ اصلاً کسی اور جگہ سے تعلق رکھتے ہوں لیکن انہوں نے دینی خدمات اس خطے میں سر انجام دی ہوں۔

مولانا عبدالقیوم حقانی نے اس کا پیش لفظ لکھا ہے، کتاب کا تعارف کراتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ :
” سندھ کے تاریخی پس منظر اور رجال سندھ پر ارباب فضل وکمال کے علماء سندھ کے تاریخ ساز کارناموں او رتحریری کاوشوں پر مشتمل مختلف موضوعات پر کئی ایک کتابیں سامنے آئی ہیں…ہمارے مخدوم مولانا الله بخش ایاز ملکانوی کی کتاب ”الفقہ فی السند“ (فقہائے سندھ او ران کی تصنیفی خدمات ) اسی سلسلة الذہب کی ایک کڑی ہے۔ یہ کتاب مولانا مدظلہ نے جامعہ اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی میں تخصص فی الحدیث کے دوران علامہ محمدیوسف بنوری کے زیر نگرانی وسرپرستی مقالہ کے طور پر لکھی تھی۔ جو علم وادب، تاریخ وتذکرہ، تعارف کتب اور فقہ و فقہاء کے حوالے سے ایک انسائیکلوپیڈیا، شاہکار اورتاریخی شہ پارہ ہے… اپنے مضامین او رعلوم ومعارف کے لحاظ سے مثالی وجامع او رمطالعاتی، درسی، تعلیمی، تحقیقی، ادبی اور تربیتی حلقوں کے لیے ایک نادر علمی تحفہ ہے۔“

کتاب کا ورق درمیانہ اور طباعت واشاعت معیاری ہے۔

Flag Counter