الحاد اور لادینیت کا سیل رواں
مولانا محمد حذیفہ وستانوی
انیسو یں صدی میں ز و ر وشو ر سے بر پا ہو نے و الی تحر یک ، جدیدیت ہے ۔ جدید یت کے آ غا ز میں یہ جذبہ کار فر ما تھا کہ مسیحی عقا ئد کو سائنس اور عقل سے ہم آ ہنگ کیا جائے: یعنی ابھی مذہب سے محبت کی چنگا ری خاکستر میں دبی ہوئی تھی ؛ لیکن بعد میں سا ئنس کی اجا رہ داری قا ئم ہو گئی اور یہ نظریہ تسلیم کر لیا گیا کہ حقا ئق کی دریافت کے لیے کسی اور سر چشمہ کی نہ کوئی ضرورت ہے اور نہ کہیں اس کا وجو د ہے ۔ صر ف وہی حقا ئق قا بلِ اعتبار ہیں؛ جو عقل ، تجربے اورمشاہدے کی کسوٹی پر پو ر ے اتر یں ۔ جد یدیت کے حامی فلسفیو ں نے ما بعد الطبیعیا ت اورمذ ہبی مز عو ما ت کو اسی لیے رد کر دیا کہ وہ ان کسو ٹیو ں پر پور ے نہیں اتر تے ۔
جدید یت کی تحریک نے قو م پرستی ، افا دیت پر ستی ، نسا ئیت ، انسا ن کی کا مل آ زا دی ، مذہب کا ر د وغیر ہ کے نظریا ت کو عا م کیا ۔
چنا ں چہ بیسویں صدی کے نصف ِآ خر میں مغر ب نے آ زا دی ، جمہوریت ، مسا و ا تِ مر دو ز ن ، سا ئنسی طرزِ فکر اور سیکو لراز م وغیرہ جیسی قدرو ں کو دنیا میں عا م کر نے کے لیے بے دریغ وسا ئل استعمال کیے ۔(ما بعد جدیدیت اور اسلا م ص 74)
الحا د کو سیکو لر تعلیم کے ذریعہ عا م کیا گیا : سیکو لر تعلیم کے ذریعہ الحا د کو خوب فر و غ دیا گیا ؛لہٰذا ہم سب سے پہلے سیکو لرازم کی حقیقت سے واقفیت حاصل کر تے ہیں ۔
سیکو لراز م کا لفظ ڈکشنر ی میں
سیکو لرا ز م ایک لحا ظ سے ایک جد ید لفظ ہے اور صحیح طور پر لفظ RELIGION (مذہب ) کی ضد (ANTONYM) ہے ،ایک ڈکشنری میں سیکو لر از م کا مطلب عو ا م کے ذہن سے مذہب کی گر فت کو کم کرنا ہے ؛ گویا ایسے طور طریقے اختیار کر نا جس سے عو ا م النا س کے دلو ں سے مذہب کی اہمیت اور گرفت ختم ہو تی چلی جا ئے ۔
سیکو لر از م انگر یز ی زبا ن کا لفظ ہے ؛جو دو الفا ظ کا مر کب ہے، ایک SECULAR (سیکو لر ) اور دوسر ا ISM (ازم ) آ کسفو رڈ ڈکشنر ی میں SECULAR کے معنی ہیں "WORLDLY NOT SPIRITUAL" (دنیا وی یعنی رو حا نی نہ ہو نا )"NOT RELATED TO RELIGION" (مذہب سے متعلق نہ ہو نا )اس کے بر عکس SECULARISM کی تعریف آکسفو رڈ ڈکشنری 1995 کے ایڈیشن میں کچھ یوں ہے : " BELIEF THAT LAW & EDUCATION SHOULD BE BASED ON FACTS & SCIENCE ETC, RATHER THAN RELIGION" ” یہ ما ننا کہ قو ا نین اور تعلیم کی بنیاد مذہب کے بجائے حقائق اور سائنس پر ہونی چا ہیے “ ۔یہی وجہ ہے کہ مغرب نے 1960ء کی دہائی سے بالارادہ کوشش کی اپنے نظا مِ تعلیم سے فا ر غ ہونے والے طلباء کے ذہنوں میں کوئی اخلاقی قدریں (MORAL VALUES) یاضمیر (CONSCIENCE) نا م کی کوئی چیز نہ ہو؛ بلکہ وہ بے ضمیر ہو ں اور ا ن کے اندر کا انسا ن مر چکا ہو ؛ ایسے ہی انسا نو ں کو قرآ ن ”حیو ا نِ محض“ کہتاہے اور مغر بی نظا م ہا ئے تعلیم سے دو نسلیں تیا ر ہو کر عملی زندگی میں اپنے عہدے سنبھا ل چکی ہیں اور اب تیسری نسل بھی عملی زندگی میں قد م رکھ رہی ہے ۔
یہ ہے صیہونیت …جس کا ما ٹو (MOTTO) اورCATCH WORD اخلا قی، معاشرتی اورعقلی بندھنو ں سے آ ز اد ذہن کے حا مل افر ا د کا مجمو عہ، ایک معا شرہ جس میں مذہب ، اخلا ق ، وحی ، روح ، آخر ت ، نبو ت ورسالت وغیرہ جیسے الفا ظ کا کو ئی گزرنہ ہو ؛بلکہ انسا ن ایسے الفا ظ اور اصطلاحات سے وحشت زدہ ہو؛ یقینا جوشخص آزا د خیا ل یعنی روشن خیال یا ابلیس کاشاگر د ہے،اسے ہر اس شخص سے نفر ت ہوگی؛ جو اللہ ، رسو ل ، قرآن ، وحی، اخلاق کی با ت کرتا ہے اوراگر کوئی شخص اللہ اور اس کے رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم کے نظا م کے غلبے کی بات کر تا ہے ؛تو یقینا سیکو لر از م کے نز دیک وہ شخص دہشت گرد (TERRORIST) ہی ہے اور صیہو نیت کے پرستا روں کی اس سے جنگ ہے ۔ یہ جنگ ہر ایسے فر د ، ادار ے ، فکر ، نظا م اور افر اد کے مجمو عے کے خلا ف ہے جو سیکو لر از م کے مخا لف ذہن رکھتا ہے۔ اعا ذنا اللہ من ذالک
غیر پختہ (IMMATURE) ذہنو ں کو فکر ی آ زا د ی دے دینے کے ہی یہ خوفناک نتا ئج ہیں ،جس کے خلاف آج مغربی معاشر ے آ وا ز بلند کر رہے ہیں اورتبا ہی کا رو نارو رہے ہیں ۔سچ کہا علامہ اقبال نے #
ہو فکر اگر خام تو آزادئ افکار
انسان کو حیوان بنانے کا طریقہ
آج کے مغر ب کا انسا ن واقعی حیو ا ن بن چکا ہے ۔
(حکمت با لغہ ،جو لا ئی 2011 ص 22 تا24)
سیکو لرز ام کی اس حقیقت کو جا ننے کے بعد اب سیکو لر تعلیم کو فر و غ دیے جا نے کی تاریخ پر ایک سر سر ی نظر ڈالتے ہیں ۔ حضرت مو لا نا مفتی محمد تقی عثما نی صاحب کے سفر نا مے ؛جہاں سفر نا مہ ہیں وہیں ان کی سب سے بڑی خصو صیت یہ ہے کہ آپ جس ملک میں گئے وہا ں کی تاریخ کو مختصر اور اسلا می رنگ میں قلم بند کر دیا ۔ ہمارے صدیق محتر م حکیم فخرالاسلا م صا حب نے ”جہان دیدہ “اور ”دنیا مر ے آ گے“ سے سیکو لر تعلیم کی تاریخ پر بڑی عمدہ معلومات یک جا کر دی ہیں ۔
کالج کے لادینی ماحول میں نئی نسل پلتی اور ڈھلتی ہے
سیکولر تعلیم کا الحادی رنگ مسلمانوں کے اندر دیکھنے کے لیے کسی خردبین کی ضرورت نہیں؛ہر کالج، ہر سیمینار، ہر کانفرنس، بلکہ تمام پروگراموں اور کنونشنوں میں دیکھا جا سکتا ہے ؛اس کا مشاہدہ مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کی آنکھوں سے کرلیجیے، فرماتے ہیں: امریکہ میں مسلمانوں کی ایک تنظیم ” فیڈریشن آف اسلامک ایسوسی ایشنز“ ( ایف، آئی، اے) نے اپنا سالانہ کنو نشن امریکی ریا ست ویسٹ ور جینیاکے مرکز ی شہر چار لسٹن میں منعقد کیا۔ اس کنونشن کے دور ان پکنک، کشتی رانی اور ڈِنر کے جوپر و گرام ترتیب دیے گیے، ان میں خردبین لگاکر بھی اسلام کی نہ صرف کوئی جھلک نظر نہ آسکی؛ بل کہ بعض ایسی چیزیں بھی ان پروگراموں کے دوران سامنے آئیں؛ جنہیں دیکھ کر پیشانی عرق عرق ہوگئی…۔( مفتی محمد تقی عثمانی۔جہان دیدہ: ص483)
یہ چیزکا لج کے لا دینی ماحول ہی کے متعدی اثر کے نتیجہ میں سیمیناروں اور پروگراموں میں داخل ہوئی کہ ” جس میں ہماری نئی نسل پلتی اور ڈھلتی ہے“۔( حکیم فخرالاسلام)
مسلما نوں میں تعلیمی سیکولرائزیشن
مسلما نوں میں سیکولرا ئز یشن کا آغاز تعلیم کے باب میں1699ء کے بعد ہوا۔ پہلے خلا فت ِعثما نیہ میں، پھر مصر میں اور اس کے بعد ہند وستان میں۔
کمال اتا ترک کا خیال تھا کہ تر کی اپنے ماضی سے کلی طور پر کٹ کر اپنا رشتہ مغر بی تہذیب سے جو ڑ لے؛ تو ترکی، معا شی اور سیا سی ترقی کی منزلیں تیز ی سے طے کر سکے گا۔ (مفتی محمد تقی عثمانی بحوالہ شاہِ را ہ علم، محر م الحرا م 1428ھ ص 98)
غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اسّی سا ل میں بھی ایسا نہ ہو سکا ، آخرکار تر کی ایک بار پھراسلا م کی طر ف لو ٹ رہا ہے اور آج ایک اسلا م پسند پار ٹی وہاں حکومت کی دا غ بیل ڈال رہی ہے۔
مصر میں یہودی جو کام 1797 ء میں نپو لین سے نہ کرو اسکے وہ محمدعلی سے زیادہ بڑے پیمانے پر کروالیا۔ 1814ء میں اس (محمد علی) سے یہودیوں نے وہی کام لیا جو1793ء میں انگر یزوں سے ہندوستان میں دوامی بندوبست کرو اکر اور 1740ء۔1727ء میں اسٹالن سے روس میں Collectivizationکروا کر لیاگیا … ملک کوعلمی اور فکری اعتبار سے سیکو لرائز کرنے کی کو شش 1825ء سے شروع ہو چکی تھی… اور سعید پاشا (1876ء تا 1882ء) کے دور سے سیکولرائزیشن کے عمل کو سرکاری ہی نہیں، بلکہ عوام کی نچلی سطحوں تک لاکر راسخ کرنے کی کوشش پوری ہوئی اور اس کے بعد تو یہ بھی ہوا کہ1994ء میں قاہرہ نے عورتوں کی عالمی کانفرنس کا انعقاد کیا۔ (عالم اسلام کی اخلاقی صورت حال ص/253 تا255)
مسلمانوں کے اندر پیدا شدہ یہ سیکولر طبقہ مغرب پرستوں اور مستشرقین کے لیے نہایت درجہ کارآمد ؛کیوں کہ ”مغربی افکار کے استیلا“ کے بعد اسی ملک کے بعض ”دانشوروں“ (سیکولر دماغوں۔ حکیم فخر الاسلام) نے مغربیت کی نشر و اشا عت میں بھی بھر پو ر حصہ لیا، ” مفتی محمد عبدہ“، ”سید رشید رضا“ان کے بعد ”طٰہ حسین“ اور” احمد امین“ جیسے متجددین اسی ملک میں پیدا ہوئے؛ جن کے افکا ر اور تحریروں نے پو رے عا لمِ اسلا م کے تجد د پسند حلقے کو (علمی۔ حکیم فخر الاسلام)اسلحے فراہم کیے۔ (جہا ں دیدہ۔ از مفتی محمد تقی عثمانی: ص162)
جمال عبد النا صر کے عہد میں دین کو عملًا جا ری کر نے کی فکر کا گلا گھونٹ دیا گیا اور ملک میں عربی قو م پرستی، بے دینی، عر یا نی اور فحا شی کا ایک سیلاب امڈ آیا… ذرا ئع ابلا غ کسی اد نیٰ رو رعا یت کے بغیر علی الا علا ن عریا نی و فحا شی کی تبلیغ کرنے لگے۔ (ایضا:ص163)
الجزائر پر فرانس کا استعمار (جس کی ابتدا 1830ء سے ہوئی۔ حکیم فخر الاسلام) عالم اسلام کا بدترین استعمار ثابت ہوا، جس پر مسلمانوں کے لیے شخصی زندگی میں بھی دین پر عمل کرنا دوبھر بنا دیا گیا… اسلامی علوم تو کجا،عربی زبان پر بھی پابندی لگائی گئی… اس کے ساتھ ساتھ یورپ کی تمام اخلاقی بیماریاں در آمد کر کے یہاں پھیلائی گئیں۔ یہاں تک کہ بڑے شہروں میں مسلمان خواتین کے غیر مسلموں کے ساتھ نکاح کے بھی بہت سے واقعات ہوئے۔ جب زبردست جانی ومالی قربانیوں کے بعدملک فرانسیسی سام راج کے تسلط سے آزاد ہوا تو عالمِ اسلام کے دوسرے حصوں کی طرح یہاں بھی استعمار کے طویل زمانے میں فرانسیسی سام راج ملک میں ایسے لوگوں کی پوری ایک نسل تیار کر چکا تھا جو سیاسی طور پر سام راج کے خواہ کتنے خلاف ہوں؛ لیکن نظری اور عملی لحاظ سے پوری طرح یورپ کے رنگ میں رنگے ہوئے تھے، اور اسی کے ذہن سے سوچنے کے عادی تھے۔ (جہان دیدہ: ص /118)
حسین بے، شاکر اور احمد بے کی کوششوں کے پسِ پردہ الجزائر کو بھی اسی راہ پر لے جایا گیا، جس پر مصر میں محمد علی، عباس، سعید، اسمعیل اور توفیق پاشاگئے تھے۔ محمد بے (1855ء تا 1859ء) محمد الصادق (1859ء تا 1882ء) اور خیرالدین پاشا کی سرپرستی میں سیکو لر ائزیشن کا عمل سختی کے ساتھ شروع کیا گیا… تعلیم کی راہ سے سیکولرائزیشن کو آگے بڑھانے کی متعدد اور مختلف النوع کو ششیں ہوئیں۔ (اخلاقی صورت حال: ص/257 )
انڈو نیشیا کی تقریباً نوے فی صد آبادی مسلمان ہے اور باقی دس فی صد آبادی میں عیسائی، ہندو، بدھ،جین وغیرہ ہیں “…حکومت کے زیرِ انتظام چلنے والی دو اسلامی یونی ورسٹیو ں میں”یہ دیکھ کر حیرت کے ساتھ افسوس ہوا کہ دونوں جگہ نظام تعلیم مخلوط ہے۔ اس صورتِ حال سے خو د یونی ورسٹی کے بعض اساتذہ بھی ناخوش معلوم ہوتے تھے؛ لیکن اپنی اس رنجیدگی کا علاج فی الحال ان کے بس میں نہیں “…” جب احقر نے ایک یو نی و رسٹی کے ذمہ دار ترین فرد سے پوچھا کہ ” اسلامی یونی ورسٹی “ میں مخلوط تعلیم کا کیا جواز ہے ؟ تو انہوں نے ایک تلخ مسکراہٹ کے ساتھ حیرت بھر ے لہجے میں کہا کہ ” یہ انڈونیشی اسلام ہے۔ “ البتہ یہاں طالبات کا لباس کا فی ستر پوش ہے جب کہ عام تعلیمی اداروں میں طالبات کا عام لباس اسکرٹ ہے۔ (جہانِ دیدہ:ص/380 تا، 381بحوالہ شاہِ را ہ علم، محر م الحرا م 1428ھ ص 100،102)
لیکن اس کا کیا کیجیے کہ مسلمانوں کا ایک طبقہ سیکو لر تعلیم اور سیکو لرا زم کے شوق میں اسلا می علوم کو ہی بے فائدہ سمجھتا ہے ۔
چندمسلم ممالک کا جائزہ پیش کرتے ہوئے یمن کے سفر کے حالات میں حضرت مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ تحریر فرما تے ہیں :
برصغیر کے دینی مدارس کی طرح کے پرائیوٹ تعلیمی اداروں کا تصور اب عرب ملکو ں میں مفقودساہوچکا ہے۔ سرکا ری یو نی ور سٹیوں اور تعلیمی ادارو ں سے ہٹ کر دینی تعلیم کا کوئی قابل ذکر ادارہ ان ملکوں میں نہیں پایا جاتا؛ لیکن جامعةالایمان، میری معلومات کی حدتک عرب ممالک میں یونیورسٹی کی سطح کاواحدتعلیمی ادارہ ہے ؛جوسرکا ری یونی ورسٹی نہ ہونے کے باوجود اتنے بڑ ے پیمانے پر دینی تعلیم کے لیے قائم ہے…شیخ یوسف القرضاوی نے جامعة الایمان کے پہلے تقسیم اسناد (اجا زت ) کے موقعہ پر تقریر کرتے ہوے ان لوگوں کی پر زور تردید کی جو سیکولرازم کے شوق میں اسلامی علوم کی تعلیم کوبے فائدہ سمجھتے ہیں اورایسے اداروں کو بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔(دنیا مرے آگے:ص252)
یمن میں جب سے جمہوری حکومت قائم ہوئی ہے،اس کا میلان مغرب کی طرف رہتا ہے، عالمِ اسلام کے دوسروں ملکوں کی طرح یہاں بھی عوام اور حکام کے درمیان مفاہمت کے بجائے بُعد کی ایک خلیج حائل ہے، جس کا تمام تر فائدہ دشمنان ِاسلام کو پہنچ رہاہے اور ملک کے بہترین وسائل امت کی فلاح و بہبود کی بجائے دوسرے مقاصد پورے کرنے کے لیے کام آرہے ہیں۔اللہ تعالی ہماری شامتِ اعمال کو اپنے فضل وکرم سے دور فرماکر اس مہلک صورت ِحال سے ہمیں نجات عطا فرمائیں تو عالم اسلام آج دنیا بھر کی قیادت کے مقام پر ہو۔ (دنیا میرے آگے: ص 269بحوالہ شاہ ِرا ہ علم محر م الحرا م 1428ھ ص104، 105)
ہم مسلما ن ہیں لہٰذا ہما رے لیے سیکو لر تعلیم کا شر عی حکم جا ننا بھی ضروری ہے ؛ حکیم الا مت، مجددِ ملت حضرت تھانو ی فر ما تے ہیں :
انگریزی اور سیکولر تعلیم کا حکم
عقائد اگر خلاف شریعت ہوگئے تو کفر والحاد۔ (کفر و الحاد : یعنی اگر کسی مسلما ن کے عقا ئد خلاف شریعت ہو ں؛” تو وہ کافر اور ملحد“ ہے) بددینوں کی صحبت کے اثر سے اعمال خراب ہو جائیں؛ توفسق ِظاہری۔(فسق ظاہری : بد دینو ں کی صحبت سے اگر اعما ل خراب ہو جا ئیں تو” وہ آ دمی فا سق ظاہر ی ہے“ ) اور اگر دل میں یہ ارادہ اور عزم جما ہوا ہے کہ ذریعہٴ معاش ،خواہ حلال ملے یا حرام، اسے اختیار کریں گے؛ توفسق باطنی۔(فسق با طنی : حلا ل وحر ا م کی تمیز کے بغیر اس علم سے کمانے کا ار ادہ ہو ”تو فاسق با طنی “ ہے ) اور اگر کوئی ان عوارض سے مبرا ہو، اور عزم بھی یہ کرے کہ اس سے وہی معاش حاصل کریں گے جو شرعاً جائز ہوگی تو اس کے لیے انگریزی تعلیم مباح اور درست ہوگی۔ (مبا ح : اور مذکو رہ خر ابیو ں سے پا ک ہو کر تعلیم حاصل کر ے تو مباح ہے )اور اگر اس سے بڑھ کر یہ قصد ہو کہ اس کو ذریعہٴ خد متِ دین بناویں گے تو اس کے لیے عبادت ہوگی۔ (فتوی حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی ملخصاً)، (شاہ ِرا ہ علم محر م الحرا م 1428ھ ص 77)
اس شر عی حکم کے بعد حضرت تھانوی قد س سر ہ نے سیکو لر تعلیم سے پیدا ہو نے والے الحادی اثر ا ت سے بچنے کے لیے چند تجا ویز پیش کی ہیں :
بچوں کے دین کی فکر اورعلم دین سے وابستگی کا خیال اگر نہ رکھا گیا تو حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ارشاد فرماتے ہیں کہ ”بیس سال بعد تمہاری اولاد کچھ یہودی ہوگی اور کچھ نصرانی ہوگی ۔“ (انفاسِ عیسی، حصہ دوم)
لہٰذا تعلیم جدید اگر حاصل کرنا ہو تو وہ اس کی شرائط ذکر کرتے ہیں:
تعلیم جدید کی تحصیل کی شرائط
1...اپنے مذہب کی تعلیم حاصل کرے۔
2...کسی عالم کے مشورے سے کورس مقرر کرکے مطالعہ کرے ۔
3...علما حقانی کی کتابیں مطالعہ میں رکھے۔
4...علما حقانی کی صحبت میں آمدو رفت رکھے ۔
5...غیر جنس کتابوں ( مختلف رسالے، اخبارات، ناول، ملحدوں، بددینوں کے مضامین، ٹیلی ویژن، کمپیوٹر، انٹرنیٹ اورموبائل کے ذریعہ فحش خیالات اورمخرب اخلاق پروگرام۔ حکیم فخر الاسلام) سے اعراض رکھے ۔ اس کے بعد تعلیم جدید حاصل کرنے کا مضائقہ نہیں۔(شاہ ِرا ہ علم محر م الحرا م 1428ھ ص 81)
یہ حضرت رحمة اللہ علیہ کی وہ تجا ویز تھیں جو انفر ا دی طور پر ہر شخص اپنی اولاد کے لیے ضر و ر اختیار کر ے؛ جو عصر ی اداروں میں تعلیم حاصل کر تے ہیں۔ مگر اب تقریبا ً ستر اسّی سا ل کے بعد حا لا ت مزید ابتر ی کی صورت اختیار کر گئے ہیں۔ جیسا کہ مذکو رہ رپور ٹ سے ظاہر ہے کہ دنیا میں عیسا ئیت اور اسلام کے بعد سب سے زیا دہ دہر یہ اور ملحدین ہیں ؛ تو اب اجتماعی طور پر بھی اس جا نب قدم اٹھا نے کی ضرورت ہے تا کہ الحاد کے بڑھتے ہوئے رجحان کو روکا جاسکے۔ اور دنیا کو جہنم ہو نے سے بچا یا جا ئے ؛کیو ں کہ ملحدہی دنیا کے ذہنی وجسما نی امن کو غا رت کر نے میں اہم رول اد ا کر تا ہے؛ کیو ں کہ وہ کسی بھی طرح کی غیرانسا نی حر کت کر نے سے کترا تا نہیں۔قتل و غار ت گری ہو، چاہے بداخلا قی ہو،چا ہے بے حیا ئی ؛ اس کے لیے سب برابر ہے ۔ اگر آپ کو یقین نہ آر ہا ہو تو تار یخ اٹھاکر دیکھ لیں ، اس وقت دنیا میں جو قتل و غا رت گری،بے حیا ئی اور بد اخلاقی ، حرا م خو ر ی اور خیا نت جیسی گھنا ؤ نی کیفیا ت ہیں؛ تاریخ میں کبھی اس حد تک بر ائی نہیں ہوئی ؛کیو ں کہ تا ریخ میں کبھی اس حد تک الحاد بھی نہیں پایا گیا اور جب جب دنیا میں الحا د جس جس خطہ میں پا یا گیا؛ صور ت حا ل ایسی ہی رہی ؛ آپ قد یم یو نا ن اور رو م کی تاریخ اٹھا کر دیکھنا چا ہیں تو دیکھ لیں !لہٰذا پور ی سنجید گی کے ساتھ ہمیں اس مسئلہ کو اٹھا نا چاہیے ۔ سیاسی، تعلیمی ، تر بیتی ، میڈیا ئی ہر سطح پر اس کے لیے کوشش کر نی چاہیے #
اجنبی سارے جہاں میں بن گیا تیرے لیے
اے خدا تیرے لیے بس اے خدا تیرے لیے
آ ج بھی عالمی سطح پر الحا د کو فر و غ دینے کی سا زش جاری ہے؛ جس کا اندا ز ہ مند رجہ ذیل ایک انکشاف سے کیا جا سکتا ہے ۔ امریکی مجلہ ”سائنٹیفک امریکن “ میں ایک مضمو ن امریکہ کے سائنس داں اورمذہب کے عنوان سے شائع ہو ا ہے ۔ سا ئنس سے متعلق افر اد کی ما رکیٹنگ کا سلسلہ 200سا ل سے جاری ہے ، سا ئنس دا ں کہلا نے کے لیے ہمیں اپنا منہ بند رکھنا ہو گا، اورمذہب کی جکڑ بند یو ں سے خو د کو آ زا د رکھنا ہو گا ،ریسر چ یو نی ورسیٹیوں میں مذہبی لو گ اپنے منہ بند رکھتے ہیں؛ اور غیر مذہبی (دہریے اور ملحد )الگ تھلگ رہتے ہیں؛ انہیں خصو صی سلو ک کا مستحق گردا نا جا تا ہے اور انہیں اعلیٰ مناصب پر پہنچنے کے مواقع دیے جا تے ہیں۔ (SCIENTIFIC AMERICAN, SEP 1999 P.81 ) بلکہ ایک تحقیق کے مطابق سائنس دا ں کو اپنے شعبے میں تر قی پانے یا PhD کی ڈگری کے لیے یا عالمی سائنسی مجلہ میں اپنے مضمون کی اشا عت کے لیے چند شر ا ئط پوری کر نی پڑتی ہیں؛ ان میں سے اہم شرط نظریہ ارتقا کو غیر مشر وط طور پر تسلیم کر لینا ہے جب کہ یہی شر ط الحا د کی جڑ ہے ۔ اللہ ہماری حفا ظت فر مائے ۔
آئیے !اب الحا د کے زور کو مقا می ،بلکہ عالمی سطح پر توڑ نے کے لیے چند موٴثر طر یقے اختیار کر تے ہیں ۔
مقا می سطح پر
1... علما ء کو چا ہیے کہ وہ مسلما ن اسکو ل کے اسا تذہ کو کہیں کہ وہ طلبہ کو جب ڈارون کے نظر یہ کا سبق پڑھائیں تو انہیں مطلع کردیں کہ یہ غیراسلا می نظریہ ہے ، صحیح یہ ہے کہ اللہ نے ہم کو پیدا کیا ۔
2... علماء اورطلبہ جا معا ت اسلا میہ ، تعطیلات میں اسکو ل کے ذمہ داروں سے ملا قا ت کرکے انہیں نصاب میں شا مل غیر شرعی امور سے واقف کریں۔
3...مکتب پڑھا نے والے استا ذ کے لیے ضرور ی ہے کہ وہ اسکولی نصاب کی کتا بو ں کا جا ئزہ لے اور غیرشرعی اور تاریخی غلط بیا نی سے طلبہ کو آگاہ کرے۔
4... مکتب کے نظا م کو مستحکم کریں، اگر نہ ہو تو فوراً شروع کریں، اس لیے کہ ہمارے دوربین اسلاف نے اسی الحاد اور جاہلیت کو رو کنے کے لیے مدارس و مکا تب کا سلسلہ شروع کیا ہے ۔
5...والدین ضروراپنے بچو ں کو ان مکاتب میں بھیجنے کا اہتمام کریں اور گھر میں ان کی تربیت کرتے رہیں ،گھر کے ما حول کو اسلا می بنائیں۔
6...جو لو گ بڑی عمر کے ہوں اوردینی تعلیم سے نا واقف ہوں، انہیں بھی اپنی دینی تعلیم کے لیے فکر کرنی چاہیے ۔
7... مکتب کے استا ذ کے لیے ضروری ہے کہ وہ پور ی ذمہ داری سے پڑھائے اورخاص طور پر عقائد کو خوب اچھی طر ح ذہن نشیں کروائے؛ تاکہ بچپن سے ہی بچے کا ذہن اسلا م کے ساتھ مضبو طی سے جڑارہے ۔
8...مسلما نوں کو چاہیے کہ ان کے بچے جب شا دی کی عمر کو پہنچیں؛ تو دین د ار رشتہ کو ترجیح دیں ، صرف ما ل و دولت اور حسن و جمال ،اسی طرح صرف دنیو ی تعلیمی ڈگریوں پر نظر نہ رکھیں اوربلکہ ایسے نو جو ان لڑکے لڑکیوں سے بیا ہ نہ کر یں؛ جو دین سے بالکل نا بلدہو ں؛بلکہ الحادی فکر کے حامل ہوں یا کسی شرعی اعتبار سے نا جائز پیشہ سے منسلک ہوں، مثلاً انشورنس ، بینک، جو ا، شراب، وغیرہ کے کاروبار سے منسلک کسی ادارہ میں کا م کر تے ہوں؛ ورنہ آپ کی نسل ایمان سے محرو م رہے گی؛ جو انسا ن کے لیے سب سے بڑا خسارہ ہے ۔
ریاستی اور ملکی سطح پر الحاد کو روکنے کے لیے تجاویز
1... کسی بھی مذہب کے مذہبی پیشوا اورخا ص طورپر علما ء کے لیے ضرور ی ہے کہ وہ تعلیمی محکمہ کو متنبہ کریں کہ وہ نصابی کتا بو ں سے ڈارون کی تھیوری (اور اس جیسے دوسرے مفروضات) کو نکال دیں ؛کیوں کہ مذہبی اعتبار سے تو وہ غلط ہے ہی ، سا ئنس نے بھی اسے غلط قر ار دیا ہے ؛پھر ہمار ے بچوں کو کیوں پڑھائی جارہی ہے ؟ اس لیے کہ اسی سے ما دّی ذہن بنتا ہے اور بچہ جو عنقریب جو ا ن ہوگا ؛وہ مذہب سے بے زار ہو جا تا ہے، جس کی وجہ سے بے حیائی اور بد اخلاقی کا شکار ہو تا ہے اور پھر کسی بھی طرح کی غیر انسا نی حرکت کر نے سے کتر ا تا نہیں، جیسا کہ آ ج کل ہو رہا ہے ۔
2...وزیراعظم، وزیر تعلیم ، ریا ستی و ملکی سطح پر بھی اس با ت کی حتی المقدو ر کوشش کی جا ئے کہ ” نصابی کتابوں“ سے غیر مذہبی ،غیرمحقق تاریخی نظریات وواقعا ت کو نکالا جائے ” دین سے وابستگی “ اخلاقیا ت پر مبنی مو ا د نصاب میں شا مل کیا جائے ؛ نصا ب کی تیار ی کے لیے مذہب سے وابستہ محققین سے مدد حاصل کی جائے؛ خاص طور پر علماء سے ۔
3...اسکو ل ، کالجز اورتعلیمی ادارہ کے ذمہ دار اپنے تد ریسی اسٹا ف کو ورک شاپ کے ذریعہ اس بات پر تنبیہ کر یں؛ بلکہ ا س کی ز ور دار تر دید ان کے سا منے موٴ ثراندا ز میں پیش کر یں ۔اس سلسلہ میں مولا نا علی میاں ندو ی کی کتابوں سے مدد مل سکتی ہے ، ہمارے احمد غریب یو نا نی کالج کے پر وفیسر حکیم فخر الاسلا م سے بھی رابطہ کیا جاسکتا ہے ، ماشا ء اللہ اس موضو ع پر ان کی اچھی پکڑ ہے۔
4...اخبار ا ت، رسائل ،جرائد وغیرہ میں بھی تحقیقی انداز میں الحادی نظر یا ت کی تر دید ضروری ہے ، خاص طور پر راسخ العقیدہ، صائب الفکراور سائنسی نظریات سے واقفیت رکھنے والے علماء اپنے قلم اٹھائیں ۔
عالمی سطح پر الحا د کو رو کنے کی کوشش کے لیے تجا ویز
1... جیسا کہ اوپر U.N.O کے بارے میں بتلا یا جا چکا کہ وہ محض دنیا پر مغر بی اجا رہ داری کے لیے قائم کیا گیا ہے ؛لہٰذا یا تو اس سے نا طہ توڑ دیا جا ئے یا اسے اس با ت پر آ ما دہ کیا جا ئے کہ وہ ”انسا نی حقو ق کے عالم گیر اعلامیہ “ (Universal Declarution of Human Rights) سے ایسی دفعات کو ختم کرے ؛ جو الحا د کے فر و غ میں معا و ن ہوں یا کم از کم ا س میں ایسی تبدیلی کرے جو مذہبی عقائد کا لحا ظ رکھے ؛ مثلاً آزا دی کی حدو دو قیو د متعین کی جائیں اور وہ بھی مذہبی اور خا ص طور پر علما ء کو شا مل کرکے ۔
2...اقوا م متحدہ کے انسا نی حقو ق کاچا رٹر اور جینو ا کنونشن کے فیصلے اور قر ا ردا د یں ،در اصل مغر بی فلسفہٴ حیات اور ویسٹرن سو لا ئز یشن کا ترجما ن ہیں، جس کے پیچھے یہ سو چ کا ر فر ما ہے کہ مذہب کا تعلق صر ف عقائد، عبا دا ت اور اخلاقیات سے ہے ۔اور اس میں بھی ہر انسا ن آ زا د ہو ؛ا س لیے کہ مذہب اس کا ذاتی مسئلہ ہے ،جس میں ریا ست کو کوئی اتھا رٹی نہیں ؛البتہ انسا نی زندگی کے اجتما عی معاملات، مثلاً :سیا ست ، قا نو ن ، ، تجارت ، زراعت اورمعیشت کے ساتھ مذہب کا قانونی واسطہ نہیں؛ لہٰذا اجتماعی معاملا ت مذہب کی قید وبند سے آزا د رہیں گے ۔
مسلما نو ں کو خاص طورپر اور عا م طور پرتمام مذاہب کے پیرو کا ر وں کو U.N.O کے اس طریقہٴ فکر سے اختلاف کر نا چا ہیے؛ اور اس کے لیے عالمی سطح پر حتی المقد و ر کوشش کرنی چاہیے ،کہ زندگی کا یہ اجتما عی وانفر ا دی معاملہ مذہب کے تابع ہو ،کوئی اور مذہب کے متبعین کریں یا نہ کریں، مسلما نو ں کو تو ضرور U.N.O کواس پریا تو مجبو ر کر نا چا ہیے یا U.N.O سے علیحد گی اختیار کر لینی چا ہیے ۔
3... تعلیم کے با ب میں U.N.O کو اس با ت پر آ ما دہ کر نا چاہیے کہ وہ ایسا قا نو ن بنا ئے، جس میں تعلیمی نصا ب سے الحا دی افکا ر ونظریات کو نکال دیا جا ئے۔ اور اخلا قِ حسنہ کو شا مل کیا جائے، اسی طر ح اخلاق سوز کلچر پرو گرا م کو بھی اور اسپور ٹس کو بھی تعلیمی سر گر میوں سے دور کر دیا جائے ۔
یہ تھیں الحا د کے بڑھتے ہوئے رجحا ن کو رو کنے کی چندتجا ویز ۔امید ہے کہ مذہب کے متبعین اور خاص طور پر مسلما ن اس جا نب پیش رفت کریں گے ۔
اللہ ہماری ہر طر ح کی گم را ہی سے حفا ظت فر ما ئے اورایما ن پر خاتمہ فر ما ئے اور ہمیں خیر کے لیے جدو جہد و محنت کی توفیق عطا فر مائے اور قد م قدم پر ہماری مدد فر مائے ۔ آمین
نوٹ… مغرب کے سروے کے طریقہ کارسے اگرچہ ہمیں اتفاق نہیں مگر اس بات سے بھی انکارکی گنجائش نہیں کہ الحادی نظریات کے حاملین کی معاشرے میں کمی نہیں، اس بات کے امکانات ہیں کہ وہ بڑھا چڑھا کر بیان کررہے ہوں اورمسلمان کا تناسب گھٹا کر بیان کررہے ہوں اوراگرہم ان کے 16فی صد کو10 /فی صد تسلیم کرلیں تب بھی 80 کڑور ہوتے ہیں تو کیایہ بھی کم ہے؟