Deobandi Books

ماہنامہ الابرار جولائی 2010

ہ رسالہ

9 - 14
ملفوظات حضرت مولانا حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم
ایف جے،وائی(July 14, 2010)

مرتبہ: سید عشرت جمیل میر

علم کی حفاظت کے لیے نصیحت

۳۰؍ مئی ۱۹۶۹؁ء بروز جمعہ مدرسہ امداد العلوم کراچی واقع موسیٰ کالونی

بعد فجر مدرسہ میں حضرت والا مع چند متعلقین کے لیے تشریف لائے۔ چائے کی دعوت تھی۔ کچھ صاحبان بغیر پنسل کاغذ آگئے تھے فرمایا کہ کیا آپ لوگوں نے یہ سمجھا کہ بس چائے پی کر اور گپ شپ کرکے واپس آجائیں گے۔ مسلمان کی خلوت ہو یا جلوت اﷲ کے ذکر سے خالی نہیں ہوسکتی۔ ایسی مجلس جو اﷲ کے ذکر سے خالی ہو اس کو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے منحوس فرمایا ہے۔ یہ ہماری مجلسیں بھی اسی لیے ہوتی ہیں کہ اﷲ کی یاد میں ترقی ہو۔ کسی کام میں لگے ہوئے ہو دل اﷲ کے ساتھ رہے کوئی لمحہ اﷲ کی یاد سے غافل نہ گذرے جیسے صحابہ کی شان تھی کہ شام میں ہیں اونٹوں پر غلہ لاد رہے ہیں اور زبان پر اﷲ کا تذکرہ چھڑا ہوا ہے۔

جہاں جاتے ہیں ہم تیرا فسانہ چھیڑ دیتے ہیں

کوئی محفل ہو تیرا رنگ محفل دیکھ لیتے ہیں

ہماری کوئی تقریب محض ہنسی مذاق اور گپ شپ اور تفریح کے لیے نہیں ہوتی یہ تو کافروں کا شیوہ ہے کیونکہ انہیں اﷲ تعالیٰ سے کوئی واسطہ ہی نہیں۔ دوسرے اپنے مربی کی باتوں کی حفاظت کرنی چاہیے کیونکہ انہی باتوں میں تمہارے دل کی تربیت کا سامان موجود ہے۔ ممکن ہے کسی موقع پر ایسی بات منہ سے نکل جائے جو پچھلے پندرہ سال میں نہ نکلی ہو اور آئندہ بھی پھر کبھی منہ سے نہ نکلے کیونکہ اپنے اختیار میں نہیں ہے۔ میں تو اپنے شیخ کے ساتھ جب بھی ہوتا تھا چاہے سفر پہ ہوں یا گھر پر یا کہیں ہمیشہ اپنی جیب میں ایک کاغذ پنسل رکھتا تھا۔ ایک بار تانگہ میں تشریف لئے جارہے تھے بخاری شریف پڑھتے پڑھتے ایک دم کتاب بند کردی اور فرمایا حکیم اختر سن لو دعا مانگتے مانگتے اگر آنسو نکل پڑیں تو سمجھ لو قبول ہوگئی۔

اگر میرے پاس اس وقت کاغذ پنسل نہ ہوتی تو میں بھی ایسے ہی بیٹھا رہتا۔ علم کی بڑی قدر کرنی چاہیے جو شخص علم کی قدر نہیں کرتا اﷲ تعالیٰ اسے محروم رکھتے ہیں۔ آئندہ اگر کوئی خالی ہاتھ آیا تو اس کو سزا دی جائے گی۔ جیسے کوئی یوں کہے کہ گلاب جامن کھا نہیں تو ڈنڈے ماروں گا، گلاب جامن کے لیے ڈنڈا کھانا بے وقوفی ہے کہ نہیں۔ اﷲ کا ذکر تو دنیا کی تمام گلاب جامن سے کہیں زیادہ لذیذ ہے۔

اﷲ کی راہ میں مزاحمت ترقی کا ذریعہ ہے

ایک نے عرض کیا کہ گھر والے یہ سمجھتے ہیں کہ حضرت کے پاس آنے سے دنیا کے کام کا نہیں رہے گا اس لیے بعض اوقات کچھ مزاحمت ہوتی ہے فرمایا کہ اس راستہ میں جتنی مزاحمت ہے تو اتنی ہی ترقی ہوتی ہے اور جن کو کچھ مزاحمت نہیں اٹھانا پڑتی ان کی ترقی بھی کم ہوتی ہے جیسے کوئی شخص آگے بڑھنا چاہ رہا ہو اور کوئی اس کو پیچھے کو گھسیٹ رہا ہو تو اس کو آگے بڑھنے کے لیے قوت صرف کرنا پڑے گی اور کیونکہ آگے بڑھنے میں اس کو مشقت ہوگی تو جو کچھ حاصل کرے گا اس کی اس کے دل میں قدر ہوگی اور جدوجہد میں قوت پرواز بھی بڑھتی ہے بہ نسبت اس شخص کے جس کو کچھ مشقت اٹھانی نہیں پڑ رہی وہ ایک خاص رفتار سے آگے بڑھتا رہتا ہے اور جس کو مشقت کرنا پڑتی ہے وہ لامحالہ اپنی رفتار کو تیز کرتا رہتا ہے کہ کہیں گھسیٹنے والا غالب نہ آجائے۔ یہ راستہ ہی ایسا ہے کہ اس میں لوگوں کی لعن طعن بھی سننا پڑتی ہے۔ لیکن اس لعن طعن کے باوجود جو اپنی جگہ پر قائم رہے اس کا ایمان اور تازہ ہوجاتا ہے اس کے دل سے پھر مخلوق کا خوف نکل جاتا ہے بس استقامت کی ضرورت ہے۔ دنیا دار سمجھتے ہیں کہ اﷲ والے نکمے ہوتے ہیں۔ مولانا رومی فرماتے ہیں کہ اہل دنیا اپنی نادانی کی وجہ سے انہیں کاہل کہتے ہیں لیکن آخرت کے کاموں میں تو یہ چاند سے بھی آگے نکل گئے ہیں۔

کارِ دنیا را زکل کاہل ترند

در رہ عقبیٰ ز مہہ گومی برند

یہ دنیا کے کاموں سے کاہل نظر آتے ہیں تم آخرت کے کاموں سے کاہل ہو۔ ذرا ایک گھنٹہ مسجد میں بیٹھ کر اﷲ اﷲ کرکے دکھا دو تو پتہ چل جائے کہ کیسے جفا کش ہو۔ بات یہ ہے کہ دنیا کی محبت دل میں ہے جس کے بارے میں حدیث شریف ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کی حقیقت ایک مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں اور آخرت کی فکر نہیں جہاں ہمیشہ رہنا ہے۔ دنیا آخرت کے تابع ہے، آخرت حقیقت ہے دنیا سایہ۔ سائے کے پیچھے بھاگو گے حقیقت اور دور ہوتی جائے گی۔ آخرت کو پکڑلو سایہ خود قبضہ میں آجائے گا۔ اسی وجہ سے اﷲ والوں کو روزی بھی عزت سے ملتی ہے، وہ دنیا کو ٹھکراتے ہیں دنیا ان کے قدموں میں آتی ہے۔ بس اﷲ والے بن جائو یعنی جو مشقتیں اس راہ میں اٹھانی پڑیں انہیں جھیل لو۔ کیا جن کے لیے ہم قربان ہونے کو تیار ہیں انہیں اتنی قدرت نہیں کہ ہماری ضروریات کو پورا کردیں۔ جب آخرت عطا فرمادیں گے تو دنیا جیسی حقیر چیز کیوں نہ دیںگے۔ بہرحال اپنے کام میں لگا رہنا چاہیے اور والدین اگر اس راستہ میں حائل ہوتے ہیں انہیں نرمی سے سمجھادینا چاہیے۔ اگر کبھی کچھ سخت الفاظ نکل جائیں تو دوسرے وقت انہیں راضی کرلو۔ والدین کے سامنے کندھوں کو جھکائے رہو اور اف تک مت کہو۔ ہاں اگر کسی گناہ کے کام کا حکم کریں تو اطاعت مت کرو۔ والدین جو اﷲ کے راستہ میں حائل ہوتے ہیں یہ ان کی نادانی کی محبت ہے حالانکہ یہ ان کی خوش قسمتی ہے کہ ان کا بچہ اﷲ والا ہوجائے نیک اولاد صدقۂ جاریہ ہے۔ جو نیک کام یہ کرے گا اس کا ثواب ان کو پہنچتا رہے گا۔ ان کے مرنے کے بعد بھی جب تک نیک اولاد زندہ رہتی ہے والدین کو ثواب پہنچتا رہتا ہے۔ یہ کوٹ پتلون والے کچھ کام نہ آئیں گے، نہ ان کی کار کام آئے گی نہ بنگلہ کام آئے گا۔ ان والدین کو تو اپنی خوش نصیبی پر شکر ادا کرنا چاہیے بجائے اس کے فکر مند ہوتے ہیں۔ مجھے تو انتہائی خوشی ہو اگر مظہر میاں خالی دین کے کام میں لگے رہیں اور دنیا کی طرف بالکل متوجہ نہ ہوں تو مجھے تو کبھی یہ خیال نہ آئے کہ یہ اپنی زندگی تباہ کررہے ہیں۔ خوش قسمتی کو اگر آدمی تباہی سمجھ لے تو اس کی بدنصیبی ہے۔

اﷲ کی محبت کا نشہ

فرمایا کہ ؎

ساقیا برخیز دردہ جام را

خاک برسر کن غمِ ایام را

حافظ شیرازی فرماتے ہیں کہ اے ساقی اٹھ یعنی اے اﷲ کرم فرمائیے اپنی محبت کا جام پلادیجئے اور غم ایام کے سر پر خاک ڈال دیجئے۔ نشہ میں کوئی غم معلوم ہوتا ہے؟ بس ایک غم ہوتا ہے، محبوب کا غم جو مست کیے رہتا ہے ہرحال میں ان کی رضا مطلوب ہوتی ہے۔ کوئی حال ہو نظر اﷲ تعالیٰ پر رہتی ہے کہ اگر وہ خوش ہیں تو ہر غم لذیذ ہے ورنہ اگر وہ خوش نہیں تو تخت و تاج بے کار ہے۔ جنہیں وہ اپنی محبت کا جام پلا دیتے ہیں دنیا کے غموں سے بے نیاز کردیتے ہیں۔ ان کی محبت کا نشہ کسی حال میں نہیں اترتا، تلواروں کی دھار کے نیچے بھی نہیں اترتا۔ جہاد میں سیسے کی دیوار بنے کھڑے ہیں جسم کے پرخچے اڑ رہے ہیں، کیوں نہیں بھاگتے؟ جان پر سے یہ نشہ ہی تو نہیں اترتا۔ بخلاف اس کے دنیا کا غم کمر توڑ دیتا ہے کیونکہ بیہودہ ہے۔ اﷲ کا غم لذیذ ہے ایسا نشہ رکھتا ہے کہ غم ایام کے سر پر خاک ڈال دیتا ہے ؎

وہ تو کہئے کہ ترے غم نے بڑا کام کیا

ورنہ مشکل تھا غم زیست گوارا کرنا

اﷲ کی نافرمانیوں سے بچنے میں جو غم اٹھانا پڑتا ہے اﷲ کی محبت ہی اسے گوارا کرتی ہے۔ ان کا غم جس سینہ میں نہیں ہوتا وہ نافرمانیوں سے بچنے کے غم کو گوارا نہیں کرسکتا۔ مصیبت میں گرفتار ہوجانا معصیت میں گرفتار ہوجانے سے کہیں بہتر ہے کیونکہ مصیبت تو اﷲ کا اور مقرب کردیتی ہے اور معصیت اﷲ سے دور کردیتی ہے۔ ایک بزرگ کسی مصیبت میں مبتلا تھے کسی نے دیکھا تو بڑا اظہار افسوس کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ اﷲ کا شکر ہے کہ مصیبت میں گرفتار ہوں معصیت میں نہیں الحمدﷲ کہ بمصیبتے گرفتار ہستم نہ بمعصیتے۔ معصیت سے بچنے کے لیے مصیبت بھی مول لی جاتی ہے آخر کیا بات تھی کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے بیڑیاں پڑ رہی ہیں زنداں میں ڈالا جارہا ہے سب کچھ منظور ہے لیکن محبوب کی نافرمانی منظور نہیں۔

حسن جب مقتل کی جانب تیغ براں لے چلا

عشق اپنے مجرموں کو پابہ جولاں لے چلا

آں چنانش انس و مستی داد حق

کہ نہ زنداں یادش آمد نے غَسَق

زنداں میں انہیں ایسی عشق و مستی اﷲ تعالیٰ نے عطا فرمائی کہ نہ پھر انہیں زنداں یاد آیا نہ زنداں کی تاریکی۔

کشتگان خنجر تسلیم را

ہر زماں از غیب جانِ دیگراست

جن کے سینہ اﷲ کی محبت سے خالی ہیں وہ اس خنجر تسلیم کی لذت کو کیا جانیں۔ ان دنیادار بوالہوسوں کو کیا معلوم کہ اﷲ کے غم میں کیا لذت ہے وہ تو ہوس رانی میں لگے ہوئے ہیں اور اس غم سے محروم ہیں جو اﷲ کی محبت میں اپنی ہوس کو تشنہ رکھنے میں آتا ہے اور خواہشات کو شمع رضائے الٰہی میں جلانے سے میسر آتاہے۔ سوز غم تو پروانوں کو ہی ملتا ہے کبھی کسی مکھی کو شمع پر جلتے ہوئے دیکھا ہے؟ مکھی کیا جانے کہ شمع پر جل جانے میں کیا مزا ہے۔ سرمد بڑے مشہور صوفی گزرے ہیںدہلی میں مدفون ہیں فرماتے ہیں ؎

سر مدغم عشق بولہوس را نہ دہند

سوز غم پروانہ مگس را نہ دہند

اﷲ تعالیٰ اپنا عشق کا بوالہوس یعنی دنیا داروں کو نہیں دیتے اپنے عاشقوں کو عطا فرماتے ہیں۔ پر وانے کا سوزغم پروانے کو ہی دیتے ہیں مکھی کو نہیں دیتے۔ یہ دنیا دار تو مکھی ہیں جو دنیا کی لذتوں اور گناہوں کی غلاظت پر بھنبھنا رہی ہو، اپنی ہوس کے تقاضوں پر عمل کررہی ہیں انہیں پروانوں کا سوز غم یعنی اﷲ تعالیٰ کا عشق نصیب نہیں۔ کیا کسی مکھی کو شمع کے قریب جاتے ہوئے دیکھا ہے؟ جیسے مکھی شمع کے عشق سے محروم ہے ایسے ہی یہ دنیا دار اﷲ کے عشق سے محروم ہیں۔ درد عشق تو ان کو ہی عطا ہوتا ہے جو پروانوں کی طرح خود کو اپنے ارادوں کو گناہ کے تقاضوں کو رضائے الٰہی کی شمع پر جلا کر خاکستر کررہے ہیں اپنی خواہشات کو مرضیات الٰہیہ میں فنا کردیتے ہیں نافرمانیوں کے قریب بھی نہیں جاتے۔ کبھی کسی پروانے کو غلاظت کے قریب جاتے ہوئے دیکھا ہے؟

سرمد گلہ اختصار می باید کرد

یک کار ازیں دوکار می باید کرد

یاتن بہ رضائے دوست می باید داد

یا قطع نظر زیار می باید کرد

فرماتے ہیں کہ اے سرمد شکایت کو مختصر کرو اور ان دو کاموں میں سے ایک کام کرو یا تو اپنے جسم کو رضائے دوست کے حوالے کردو یعنی احکام جسم کو رضائے الٰہی کے تابع کردو یا پھر دوست سے ہی نظر اٹھا لو یعنی یا تو اپنی خواہشات نفسانیہ کو مرضیات الٰہیہ میں فنا کردو اگر ایسا نہیں کرسکتے تو سمجھ لو کہ اﷲ تعالیٰ بھی تمہیں نہ ملیں گے۔

درسِ تسلیم و رضا

بندہ کو ہر حال میں راضی برضا رہنا چاہیے۔ حالات موافق ہوں شکر ادا کرو کہ اے اﷲ میں اس قابل نہ تھا میری نا اہلیت کے باوجود آپ نے اپنا فضل فرمایا اور حالات مخالف ہوں تو اور یقین رکھو کہ اس میں ہی تمہاری کوئی مصلحت ہے البتہ اپنی حاجت کے لیے گریہ و زاری کرتے رہو مانگتے رہو۔ شکایت کا کوئی لفظ زبان پر نہ آئے نہ دل میں کوئی غلط خیال رہے مثلاً کسی کی شادی نہیں ہوتی تو یوں سوچنے لگے کہ اگر ہمارے پاس مال و دولت ہوتی تو ہماری بھی شادی ہوجاتی۔ خوب سمجھ لو کہ یہ شیطانی وسوسہ ہے۔ اﷲ تعالیٰ رب العالمین ہیں پوری کائنات اور کائنات کا ہر ذرہ اس کی زیرِ ربوبیت ہے۔ امیر ان کی ربوبیت سے خارج نہیں۔ اگر امیروں کو آرام میں دیکھتے ہو تو وہ بھی ان کی ربوبیت کی ایک شان ہے ان کا یہ آرام روپیہ پیسہ کی وجہ سے نہیں ہے۔ مال میں یہ اثر نہیں ہے کہ ان کی خواہشات کو پورا کردے۔ جس کو چاہتے ہیں جس حال میں رکھتے ہیں۔ کتنے امیر ایسے ہیں کہ مال دھرا رہ جاتا ہے اور ان کی آرزوئیں دل کی دل میں ہی رہ جاتی ہیں۔ یوں تو کفار بھی دنیا میں عیش اڑا رہے ہیں کیا کسی مسلمان کے دل میں نعوذباﷲ یہ تمنا ہوسکتی ہے کہ ہم بھی کافر ہوتے کہ خوب عیش اڑاتے۔ ایسی تمنا کرنا بھی کفر ہے۔ خوب سمجھ لو کہ روس اور امریکہ بہ رعایت مراحمِ خسروانہ زندگی کے ایام گذار رہے ہیں کبھی ان پر لالچ نہ کرنا۔ پھانسی کے مجرم ہیں حکومت نے اپنے خزانہ ہے روپیہ دے دیا ہے کہ پھانسی لگنے سے پہلے پہلے عیش کرلو کوئی آرزو دل میں نہ رہ جائے۔ کیا ایسے مجرم کو کھاتا پیتا دیکھ کر کوئی یہ تمنا کرے گا کہ کاش ہمیں بھی یہ عیش مل جاتا۔ ارے تمہارے پاس تو وہ دولت ہے کہ ساری کائنات اس کے سامنے بے قیمت ہے۔ اپنے پاس خزانہ چھپائے ہوئے ہو اور دربدر کوڑیوں کی بھیک مانگتے پھرتے ہو۔

یک سبد پرناں ترا برفرق سر

توہمی جوئی لب ناں دربدر

روٹی سے بھری ہوئی ایک ٹوکری تیرے سر پر رکھی ہے اور تو روٹی کے ٹکڑے کے لیے دربدر مانگتا پھرتا ہے۔ دولت ایمان کے سامنے دنیا و مافیہا کی تمام نعمتیں ہیچ ہیں۔ جیسے اہل دنیا چاندی کے سکوں کی حفاظت کرتے ہیں اس سے کہیں زیادہ ایمان کی حفاظت اور ترقی کی دھن لگی رہنی چاہیے۔

اذکار و وظائف کا مقصد

دین صرف تسبیح گھمانے کا نام نہیں۔ وظائف کا مقصد ہے کہ باریک باریک گناہ نظر آنے لگیں۔ وظائف اسی لیے بتائے جاتے ہیں کہ یہ استعداد پیدا ہوجائے۔ ورنہ اگر اﷲ اﷲ تو کررہے ہو لیکن گناہوں سے کوئی پرہیز نہیں تو ایسے وظیفے بالکل بے کار ہیں کیونکہ ان کا مقصدتو حاصل ہی نہیں ہوا۔ موٹے موٹے گناہ کا علم تو ہر شخص کو ہوتا ہے حتیٰ کہ خود گناہگار جانتا ہے کہ یہ گناہ ہے۔ کمال تو یہ ہے کہ باریک باریک گناہ نظر آنے لگیں اور ان سے بچنے کا اہتمام طبیعت میں پیدا ہوجائے۔ مولانا تھانوی علیہ الرحمہ ایک بار سفر کررہے تھے کہ رات کو ایک چھوٹے سے اسٹیشن پر ٹھہرنا ہوگیا وہاں کا اسٹیشن ماسٹر حضرت کا معتقد تھا لیکن تھا ہندو کیونکہ پلیٹ فارم پر اندھیرا تھا اس لیے وہ لالٹین لے آیا۔ حضرت کو خیال ہوا کہ یہ تو ریلوے کی ہوگی، فرمایا کہ بھائی یہ لالٹین ریلوے کی ملک ہے ریلوے کے کاموںہی میں استعمال ہوسکتی ہے ذاتی استعمال میں لانا ہمارے لیے جائز نہیں اسے واپس لے جائو۔ وہ ہندو رونے لگاکہا کہ یہ ہیں اﷲ والے۔ کافروں کے دلوں میں بھی اسلام کی حقانیت کا سکہ بیٹھ جاتا ہے ااﷲ والوں کو دیکھ کر۔ غرض جس جگہ بھی ہو جس کام پر بھی ہو یہ خیال رہے کہ کوئی ایسی بات تو سرزد نہیں ہورہی جو حق تعالیٰ کی مرضی کے خلاف ہو خصوصاً مدرسوں کے اہتمام اور چندہ کے لیے بڑے تقویٰ کی ضرورت ہے۔ مولانا تھانویؒ نے لکھا ہے کہ یہ کام اسی کو اپنے ہاتھ میں لینا چاہیے جو اعلیٰ درجہ کا متقی ہو، معمولی تقویٰ والے کو تو اس کام کے قریب بھی نہ جانا چاہیے ورنہ ثابت قدم رہنا سخت مشکل ہے۔ اگر کسی میں تقویٰ نہیں ہے تو بے احتیاطی میں مبتلا ہوجاتا ہے اور یہ بے احتیاطی اس راہ میں سم قاتل ہے۔ بہت سوں کے حالات خراب ہوگئے۔ ساری ترقی مسدود ہوگئی اور دنیا دار بن کر رہ گئے۔ میرے ایک پیر بھائی تھے ایک مدرسہ کا چندہ وصول کرنا ان کے ذمہ تھا لیکن کرتے کیا تھے کہ ادھر رسید کاٹی اور ادھر خربوزے منگوالئے چائے اڑارہے ہیں لسی پی رہے ہیں۔ نتیجہ کیا ہوا کہ دین تباہ ہوگیا اور بالکل دنیا دار ہوگئے۔ اور صحابہ کا طرز عمل کیا تھا کہ ایک بار بیت المال کا اونٹ کھوگیا۔ حضرت عمر خود تلاش کرنے چل دیئے لوگوں نے عرض کیا کہ آپ ایک اونٹ کی تلاش میں کیوں جارہے ہیں خدام چلے جائیں گے فرمایا کہ قیامت کے دن عمر سے سوال ہوگا، خادموں سے نہیں۔ اگر اﷲ نے سوال کرلیا کہ بیت المال کا اونٹ گم ہوگیا تھا تم نے تلاش کیوں نہیں کیا تو کیا جواب دوں گا۔

(جاری ہے۔)

ظظظظظ
Flag Counter