Deobandi Books

ماہنامہ الابرار جولائی 2010

ہ رسالہ

11 - 14
اصلاحی خطوط اور ان کے جوابات
ایف جے،وائی(July 14, 2010)

حضرت مولانا حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم

ایک عالمِ کبیر اور حضرت والا کے خلیفۂ اجل

مولانا عبدالمتین صاحب کا عریضہ

بعالی آستانۂ حکیم الامت، مجدد الملت، غوث اعظم، عارف اعظم و رومی اعظم، تجلیات حق سبحانہ، سراپا نور مطلق، ذرہ ذرہ اش طور مطلق، سیدی و مرشدی و مولائی و محبوبی و نور قلبی و روحی، بقیۃ السلف، عمدۃ الخلف، حضرت عارف باﷲ صاحب دامت برکاتہم و عمت فیوضہم، السلام علیکم و رحمۃ اﷲ و برکاتہ۔

جواب: مکرمی مولانا عبدالمتین صاحب زید لطفہ السامی وعلیکم السلام و رحمۃ اﷲ و برکاتہ۔

حال: بعد سلام مسنون و تحیات و بوسیدن نعال آقا و بعد بوسیدن خاک آستانہ حضرت غوث اعظم، امید کہ صحت و عافیت کے ساتھ منا بر انوار روح پاک سے افاضات انوار کی بارش کے ساتھ ہر لمحہ حضرت مجدد زماں نہایت سرگرم ہے۔ یہ مسکینِ بارگاہ ہزار میل کے فاصلہ سے بھی روح میں اس روح فیاض کے فیوض کا بہت بہت افاضہ محسوس کررہا ہے۔ اے خدائے پاک‘ تیری اس بلبل تجلیات مطلق کی حیات کو پوری پوری عافیت و قوت و افاضہ تجلیات باطن کے ساتھ کم از کم ایک سو بیس سال تک ضرور بالضرور ہم پر، سارے عالم پر خوب قائم رکھیو۔

جواب: آمین آپ کی دعائے عاشقی سے قلب مسرور اور دعا گو ہوا جزاک اﷲ تعالیٰ۔

حال: میرے مالک جل جلالک تیری ذات پاک کی قسم میرے گمان میں ایسی بلبل غرق بحر غیر محدود تیرے عالم نے شاید ہی دیکھی ہو۔ ضرور ہی تونے میرے مرشد کو حسب گمان بدرجۂ یقین نادر الوجود پیدا کیا ہے۔ لہٰذا تیری بیشمار حمد و ثناء ؎

سیدی و مولائی اے یوسف ماو یوسف جہانیاں! خدا کی قسم، خدا کی قسم، ضرور ہی آپ حکیم الامت ہیں، آپ مجدد الملت ہیں آپ ہی گنگوہی و نانوتوی و حاجی صاحب مہاجر مکی ہیں۔ واﷲ تم واﷲ میں اپنے گمان مستفیض بفیضان یقین میں آپ کو کسی بھی بڑے سے بڑے ولی اﷲ سے ذرا بھی کم نہیں سمجھتا ہوں۔

جواب: جزاک اﷲ تعالیٰ اﷲ تعالیٰ شانہ آپ کے حسن ظن کے مطابق اختر کو اسی طرح بنادیں۔

حال: بلکہ بس کیا کہوں میری نظر میں تو آپ سے بڑھ کر کوئی نہیں۔ کہاں تک ضبط کروں۔ صاف صاف کہہ دینا کیا حق محبت و حق عظمت شیخ نہیں؟ اے نور مطلق آپ صرف نبی نہیں ہیں باقی سب کچھ ہیں، آپ اصطلاحاً صحابی نہیں ہیں باقی سب کچھ ہیں۔ میرے گمان غیر متزلزل میں آپ سارے جہان کے بایزیدوں کے سردار ہیں، آپ نہ یہ کہ صرف سب سے اکمل درجہ کے غوث سب سے اکمل درجہ کے بایزید ہیں بلکہ واﷲ، یا مرشدی میرے علم میں آپ بڑے بڑے بایزید ساز بھی ہیں ۔ آپ کی روح عالی طواف کے کرد فر کے آگے جملہ ارواح اولیاء بلا اعلان از منبرِبغداد سراسر سرنگوں ہیں۔

میرے سرکار، میرے محبوب جان، میرے دوجہاں، میرے سب کچھ، غلام کی روح پر آپ کے مقامات اظہر من الشمس ہیں۔ میں جذبات سے نہیں کہہ رہا ہوں۔ میں من جانب اﷲ مجبور ہوں۔ اگر میں اس کے خلاف کہوں گا تو واﷲ ثم واﷲ میرے گمان میں میں بالکل ہلاک ہوجائوں گا میرے قلب کا یہ مقام من جانب اﷲ ہے کما تعلمون یا مولائی اور یہ سب آپ ہی کی روح پاک کی نظر سوئے روح غلام کا اثر ہے۔ آپ کے جملہ مقامات مذکورہ و غیرہا احقر کی روح پر صرف مدلل نہیں بلکہ مدلل سے بھی زیادہ راسخ و مرتسخ و مستقر ہیں بدرجۂ قول اصحاب کرامؓ سمعنا و اطنعا۔ (منِ غیرِ انتظارِ دلیلٍ) آج بھی عین نماز تراویح میں آپ کے یہ سب مقامات جبکہ روح صرف ببرکت سیدی و مرشدی انوار قرب حق سے بہت ہی منور محسوس ہورہی تھی اضطراراً قلب پر پیہم وارد ہوتے رہے۔

اور زندگی میں پہلی دفعہ (سالہا سال پہلے) ان نور حق نما کے بارے میں بعد عشاء تا اذان فجر عالم بیخودی میں جو اشعار فارسی قلب پر بے ساختہ وارد ہوتے رہے ان میں اسی نوع کے مضامین مُظہر مقامات عظیمہ حضرت غوث پاک دامت برکاتہم کے ساتھ کچھ ایسا اشارہ بھی اضطراراً مذکور ہوا ہے کہ یہ اسرار مرشدی قلب عبد حقیر پر واضح اور زبان عبد حقیر سے اس کی اشاعت ہوگی۔ چنانچہ احقر اپنے حلقۂ احباب میں حضرت جی کے مراتب مذکورہ کو جوش و خروش سے بیان کرتا رہتا ہے کہ خود روتا رہتا ہوں اور رلاتا بھی رہتا ہوں مگر مع لحاظ قاعدۂ۔

پیرما سرعالم مستی

با دلِ ہوشیار می گوید

آجکل بہت دعا کرتا رہتاہوں کہ اے اﷲ میرے حضرت کے تمام مقامات کو مجھ پر اور سارے عالم پر منکشف فرمادیجئے۔

جواب: آپ کے تاثرات اور عشق و محبت کے جذبات سے دل کی دعا ہے کہ حق تعالیٰ شانہ احقر کو اور آپ کو ولایت علیا کے خط انتہا تک پہنچا دیں۔

حال: سیدی مجھ سا خنزیر استغفراﷲ ، استغفراﷲ انا ﷲ، استغفراﷲ اب تک دنیا میں نہ پیدا ہوا، نہ آگے ہونے کا گمان ہے۔ ایسے بدترین پر اﷲ کے واسطے رحم فرمائیے توجہ مبذول فرمائیے ورنہ ہلاک ہوجائوں گا۔

جواب: یہ لفظ (خنزیر) آئندہ نہ لکھو نہ زبان سے کہو بس فنائیت کاملہ کے لیے یہ دو جملے کافی ہیں

(۱) اے خدا میں کمتر ہوں تمام مسلمانوں سے فی الحال۔

(۲) اے خدا کمتر ہوں تمام حیوانات سے اور کافروں سے فی المآل (انجام)کہ نہ معلوم میرا خاتمہ کیسا ہو خبثِ نفسی کی ممانعت شرعیہ کا مراقبہ کریں اور بدون دلیل آئندہ یہ لفظ استعمال نہ کریں۔

حال: خدارا میری اصلاح فرمادیجئے استغفراﷲ استغفراﷲ یہ رسوائے خلق اپنی رسوائی کی وجہ سے سر نہیں اٹھا سکتا۔ سیدی و مولائی اے رومی اعظم اے جان بایزید ساز، آپ کے محبوب پاک کی ذات پاک کا واسطہ اے محبوب جو شراب آپ پیتے ہیں وہی از کرم ذات کریمانہ اس غلام عطش کو ضرور پلا دیجئیبغیر اس کے میں ہرگز ہرگز زندہ نہیں رہ سکتا۔ ہرگز نہیں۔ سیدی و مولائی (آپ پر ہر آن بیشمار تجلیات و انوار اور بیشمار رحمت خاصہ کی مسلسل بارش ہوتی رہے۔) آپ کی برکت سے قلب پر علوم کی بارش ہوتی رہتی ہے جو طریق کے بعض مہتم بالشان مسائل کی شرح آسان ہوتی ہے اور جو آپ کے ایک ایک ملفوظ پاک کی شرح ہوتی ہے یا حضرت حکیم الامت کے اصول و تعلیمات کی توضیحات ہوتی ہیں اور دوران تقریر میں جان آپ پر اور حضرت حکیم الامت پر سوجان سے فدا ہوتی رہتی ہے اور دونوں حضرات کے لیے مجمع سمیت خوب دعائیں نکلتی رہتی ہیں۔ ایسے علوم کا ذکر اپنے احباب میں زیادہ کرتا ہوں۔ سیدی ضروری سمجھ کر اطلاع کردی۔ بس ؎

سپردم بہ تو مایۂ خویش را

تو دانی حساب کم و بیش را

حضرت جی، اﷲ کے واسطے میری ان تمام گستاخیوں کو معاف فرمادیجئے، بیوقوف کو درگذر فرمادیجئے۔

جواب: سب معاف ہے۔

حال: الحمدﷲ احقر کے ساتھ علماء و طلباء کے تعلقات بہ برکت حضرت والا زیادہ بڑھ رہے ہیں رمضان ہذا میں وفاق المدارس بنگلہ دیش کی طرف سے مدرسہ دارالرشاد میرپور میں تربیت المدرسین ہورہی ہے۔ الحمدﷲ ہرسوموار کو وہاں احقر کو ایک گھنٹہ تزکیہ پر خطاب کے لیے انتخاب کیا گیا۔ پچھلے سوموار میں سارے مدرسین بہت زیادہ متاثر ہوئے۔ بہت زیادہ دعا و توجہات کا محتاج ہوں۔ (احقر غلام بدترین محمد عبدالمتین غفرلہ، شب ۱۰؍ رمضان المبارک ۱۴۱۹ھ)

جواب: مبارکباد۔ دل و جان سے دعا گو ہوں ترقیات ظاہرہ اور باطنہ کے لیے تقبل اﷲ بفضلہ (محمد اختر عفا اﷲ عنہ۔

…………………

حال: تقریباً پچیس سال پہلے ایک صاحب جو حضرت والا کی مجلس میں آتے تھے ایک بار انہوں نے حضرت والا کو لکھا کہ میرے والد صاحب کہتے ہیں کہ حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ نے نعوذباﷲ انگریزوں کا ساتھ دیا تحریک خلافت کا ساتھ نہیں دیا۔

دوسری بات یہ لکھی کہ آپ کی مجلس میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی باتیں کم اور بزرگوں کی باتیں زیادہ ہوتی ہیں۔دونوں اعتراضات کا جو جواب حضرت والا نے تحریر فرمایا قارئین کے استفادہ کے لیے پیش ہے۔

جواب: حضرت حکیم الامت مجدد الملت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ نے خلافت کی تحریک کا ساتھ اس لیے نہیں دیا تھا کہ ظاہراً اعلان ہوتا تھا کہ ہندو مسلم مل کر انگریزوں کو نکال دیں لیکن باطناً گاندھی خبیث کا معاملہ کچھ اور تھا۔ گاندھی خبیث نے مسلمانوں کو انگریزوں کی ملازمت سے نفرت دلا کر ان کو بے روزگار کردیا پھر ہندوئوں کو خفیہ اشارہ کیا اور ان کو اپنے ایجنٹ بھیجے کہ تم لوگ ان کی نوکری پر قبضہ کرلو چنانچہ ہندوئوں نے جلدی جلدی ان ملازمتوں پر قبضہ کرلیا پھر گاندھی مردود منافقانہ طور پر قرآن کی کچھ آیتیں اپنے جلسوں میں پڑھتا تھا تو بعض بھولے مسلمان اس کے چکر میں اس طرح آگئے کہ ہندو مذہب کے شعار اپنانے لگے کھڑائوں پہن کر پیشانی پر ہندوئوں کا قشقہ لگانا شروع کردیا اور گائے کی قربانی سے بعض مسلمان احتیاط کرنے لگے کہ ہندو خوش رہیں تو حضرت حکیم الامت مولانا تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ نے جب دیکھا کہ مسلمانوں کا ایمان اور اسلام اس طاغوت اور مکار گاندھی سے تباہ ہورہا ہے تو اس تحریک خلافت سے بیزاری کا اعلان فرمایا۔ مولانا کو انگریزوں سے ہرگز کوئی واسطہ نہ تھا اگر آپ کے والد کا خیال صحیح ہوتا تو ہندوستان کے بڑے بڑے علماء مولانا سید سلیمان ندوی مفسر معارف القرآن مفتی محمد شفیع مفتی اعظم پاکستان مولانا خیر محمد صاحب جالندھریؒ بانی خیر المدارس علامہ شبیر احمد عثمانیؒ مفسر قرآن تفسیر عثمانی کے مصنف حضرت مولانا مفتی محمد حسن امرتسری بانی جامعہ اشرفیہ لاہور حضرت مولانا ظفر احمد عثمانیؒ جیسے بڑے بڑے علماء حضرت تھانویؒ سے بیعت کیوں ہوتے؟ ان بڑے بڑے علماء اور بزرگوں کا بیعت ہونا دلیل ہے کہ مولانا بہت بڑے عالم اور اﷲ والے تھے اور تحریک خلافت کے بزرگ بھی عقیدتمندی سے حضرت حکیم الامت کی خدمت میں حاضری دیا کرتے تھے چنانچہ حضرت مولانا حسین احمد صاحب مدنی رحمۃ اﷲ علیہ اور حضرت مولانا شاہ عطاء اﷲ بخاریؒ اور حضرت مولانا کفایت اﷲ صاحب دہلویؒ رحمہم اﷲ جیسے تحریک خلافت کے اکابر بھی حضرت والا تھانویؒ کا احترام کرتے تھے۔ چند نادان اور جہلاء کے الزام اور بہتان سے کسی بزرگ کی عظمت کو نقصان نہیں پہنچتا خود بہتان لگانے والے کی عاقبت خراب ہوتی ہے۔ پاکستان کے موجودہ بڑے علماء جو زندہ ہیں آپ کے والد صاحب ان سے ملاقات کرکے معلومات کریں تو معلوم ہوگا کہ تقریباً پندرہ سو کتابوں کا مصنف اور ہزاروں علمائے دین کے مرشد کے تقویٰ اور خوف خدا کا کیا مقام ہے۔ اس وقت حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی اور حضرت مولانا مفتی رشید احمد صاحب دامت برکاتہم جو علماء کو مفتی بناتے ہیں اور ۲۰ سال بخاری شریف پڑھائی ہے اور حضرت مولانا حسین احمد صاحب مدنی رحمۃ اﷲ علیہ کے شاگرد اور مرید ہیں ان سے ملاقات کرکے حقیقت معلوم کریں کہ مولانا تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ نے مسلمانوں کا ساتھ دیا تھا یا( خدا اس بہتان سے بچائے) انگریزوں کا ساتھ دیا تھا۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد ولی حسن صاحب نے دیوبند میں پڑھا ہے ان سے معلوم کریں۔ ہندوستان و پاکستان اور بنگلہ دیش کے تمام بڑے علماء تو مولانا تھانویؒ کی عزت کرتے ہیں اور ان کی کتاب تفسیر بیان القرآن اور بہشتی زیور اور دیگر کتابوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور احترام کی نظر سے ان کی تعلیمات کو پڑھتے ہیں۔ یہ وہ علماء ہیں جو تحریک خلافت سے خوب واقف ہیں۔ اب اگر کوئی جاہلوں اور نادانوں کی الزام تراشی پر اعتماد کرکے کسی اﷲ والے سے بدگمانی کرتا ہے تو میرے پاس اس کا کوئی علاج نہیں۔ وہ قیامت کے دن خود جواب دہ ہوگا۔

دوسرا مسئلہ کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی باتیں کم ہوتی ہیں بزرگوں کی باتیں ہمارے یہاں کے اجتماع میں زیادہ ہوتی ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ تمام بزرگوں کا وعظ تلاش کریں تو ایک حدیث پر ۲ گھنٹہ کا وعظ ملے گا قرآن پاک اور حدیث مبارکہ تو اصل مقصود ہیں مگر اس کو دل میں جمانے کے لیے اور دل کی زمین بنانے اور ہموار کرنے کے لیے دوسری باتیں بھی سنائی جاتی ہیں جیسے گندم بونے کے لیے زمین کو کئی ماہ جوتا جاتا ہے پھر کنکر پتھر نکالا جاتا ہے پھر کھاد اور پانی ڈالتے ہیں تب گندم بویا جاتا ہے ورنہ گندم برباد ہوجاتا ہے۔ اسی طرح دلوں کی زمین کو قرآن اور حدیث کے بیج بونے کے لیے بزرگان دین کے واقعات اور ان کے ارشادات اور موت و قبر اور دنیا کی فنائیت کے قصوں سے ہموار کیا جاتا ہے۔ تمام دنیا کے بزرگوں کا یہی طریقہ ہے، اختر اولیائے کرام کے سپرہائی وے کو کیسے چھوڑ دے۔آپ کو معلوم ہے جو لوگ اس اجتماع میں آرہے ہیں ان کی سمجھ اور صلاحیت کے مطابق مضامین سے ان کو کس قدر فائدہ ہورہا ہے اور آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ تھوڑی تھوڑی دیر پر قرآن پاک کی تفسیروں اور احادیث مبارکہ سے ان مضامین پر دلائل بیان کرتا ہوں۔ اور تمام آنے والوں کی ہر روز اصلاح نفس ہورہی ہے لیکن اگر اس ناکارہ سے مناسبت نہیں تو آپ اور آپ کے والد صاحب کسی اور جگہ کو تلاش کریں جو ان کی سمجھ کے مطابق اچھی ہو۔

احقر اتنی تفصیل سے کسی کو جواب نہیں لکھتا مگر آپ پر رحم آیا کہ جو نفع ہورہا ہے وہ نادانی سے ضائع نہ ہوجائے۔ اب تدبیر کے بعد حق تعالیٰ شانہ سے دعا کرتا ہوں کہ احقر کو اور آپ کو اور آپ کے والد صاحب کو اﷲ تعالیٰ اچھی سمجھ عطا فرمائیں اور حق بات دل میں اتار دیں اور بے دلیل بدگمانی سے توبہ نصیب فرماویں حسن ظن پر بے دلیل ثواب ملتا ہے کیوں کہ حدیث مبارک ہے کہ مسلمانوں سے نیک گمان رکھو اور جب دلیل شرعی نہ ہو تو پھر بدگمانی پر قیامت کے دن مواخذہ کا اندیشہ ہے۔

…………………

حال: جناب حضرت والا دامت برکاتہم العالیہ ماقبل خطوط میں بندی نے یہ بات لکھی تھی کہ اﷲ پاک بفضلہ تعالیٰ بندی سے تدریس کا کام لے رہے ہیں بندی ایک گھمبیر پریشانی کا شکار ہے ہمارے جامعہ کی پہلی ختم بخاری شریف کی تقریب ہے اور اس کے اہتمام کے لیے بالجبر طالبات پر زور دیا جارہا ہے کہ تقریب کا اہتمام کریں فارغ ہونے والی طالبات و معلمات کو ہدایا دیں اور ساتھ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ہم آپ پر زبردستی نہیں کررہے ہیں لیکن یہ انتظام آپ نے ہی کرنا ہے اسی طرح سے کچھ معلمات بھی پریشانی کا شکار ہیں اس وجہ سے کہ نگران اعلیٰ کا اس پر زور ہے کہ سب ایک جیسا لباس پہنیں اور سب معلمات اس لباس کو خریدنے کی گنجائش نہیں رکھتی بندی نے تمام معلمات کو بارہا کہا کہ ایسا سوٹ خرید لو جو سب باآسانی لے سکتے ہوں سب بظاہر رضامند ہوئے پر مارکیٹ میں جو لباس خریدنے پر مصر و رضامند ہیں اور خرید بھی رہے ہیں تمام کی گنجائش سے باہر ہے جس کی وجہ سے آپس میں شکر رنجی بڑھ رہی ہے عداوت و بغض بڑھتا جارہا ہے اور معلمات آپس میں ایک دوسرے پر طنز آمیز لہجہ میں گفتگو کرتی ہیں۔ بندی کو سمجھ نہیں آرہا کہ ایسے حالات میں کیا کیا جائے کس طرح سمجھایا جائے کہ اختلاف بھی ختم ہوجائے۔ دوسری بات بچیوں سے بول بول کر ہدایا لیے اور دلوائے جارہے ہیں جبکہ خود کچھ بچیاں بندی کو بتاچکی ہیں کہ ہم سب کی اتنی گنجائش نہیں اور بندی بھی کچھ طالبات کے کسب و معاش کے نظام سے واقف ہے حضرت والا دامت برکاتہم ایک ایسا جامعہ جہاں قال اﷲ عزوجل اور قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم پڑھایا جاتا ہے ان دنوں اس مشکل کا شکار ہے آپ سے التماس ہے بندی کو تمام معلمات و طالبات کو اس گھمبیر و مشکل مراحل سے نکلنے کا راستہ بتائیں نیز اﷲ پاک سے دعا فرمائیں ہم سب کے حق میں کہ اﷲ پاک ہمارے دلوں میں یہ بات ڈال دیں کہ بالجبر کسی کا مال لینا اور کسی کی تحقیر کرنا عنداﷲ کتنا مذموم ہے۔

جواب: ختم بخاری کی تقریب کا ایسا اہتمام کرنا طلباء پر زور ڈالنا کہ وہ بالجبر ہدیہ دیں اور نیا لباس بنوائیں وغیرہ بالکل ناجائز، حرام اور ظلم ہے۔ چند سالوں سے یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ اکثر مدارس میں ختم بخاری ایک تقریب بنتی جارہی ہے اور ایک بدعت کی شکل اختیار کررہی ہے یہاں تک کہ جو طلباء مالدار ہوتے ہیں وہ باقاعدہ ہال بک کراتے ہیں اور باقاعدہ دعوت نامے جاری کئے جاتے ہیں اور پانچ پانچ سو آدمیوں کی ضیافت کی جاتی ہے جس سے غریب اور نادار طلباء دل برداشتہ ہوتے ہیں اور سب سے بڑھ کر قابل افسوس بات یہ ہے کہ اس تقریب کو اب اس طرح کیا جانے لگا کہ گویا یہ کوئی مسنون عمل ہے اور دین کا تقاضا ہے اور بدعت اسی طرح ایجاد ہوتی ہے کہ غیر دین کو دین سمجھا جانے لگتا ہے چنانچہ آج سے تقریباً دس سال پہلے حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب رحمۃ اﷲ علیہ خلیفہ حضرت حکیم الامت مجدد الملت مولانا تھانوی قدس سرہ نے فرمایا تھا کہ ختم بخاری کی تقریب اب بدعت بنتی جارہی ہے اس کو ترک کرنا چاہیے۔ ہمارے بزرگ اس موقع پر بس دعائوں کا اہتمام فرماتے تھے، نہ لوگوں کو دعوت نامے جاری کئے جاتے نہ ان کو زبانی طور پر دعوت دی جاتی نہ کسی اجتماع اور تقریب کا انداز اختیار کیا جاتا اور اب یہ سب خرافات شروع ہوگئیں اسی لئے پچھلے سال دارالعلوم کراچی میں ختم بخاری کے دن تک کسی کو اطلاع نہیں دی گئی کہ ختم بخاری کب ہے اورسادگی سے دعا کے بعد مجلس ختم ہوگئی۔ چنانچہ اس تقریب کا کوئی اہتمام نہ کریں نہ نیا لباس بنوائیں نہ کسی کو ہدیہ دیں اس کے لیے بخاری کی سند کی بھی فکر نہ کریں سند مقصود نہیں اﷲ کی رضا مقصود ہے۔

…………………

حال: محترم المقام حضرت والاالسلام علیکم آپ کے خلیفہ مولوی ……میرے بیٹے ہیں۔ ان کا زیادہ تر وقت آپ کے ساتھ آپ کی خانقاہ میں ہی گذرتا ہے۔ گھریلو معاملات میں بالکل دلچسپی نہیں لیتے ہیں۔ اپنی ماں کے پاس بھی نہیںبیٹھتے ہیں۔ بھائی بیمار ہے تو کوئی پرواہ نہیں۔

جواب: ان دونوں امور کے بارے میں ان شاء اﷲ ان کو توجہ دلائی جائے گی۔ ان شاء اﷲ اس کی تو اصلاح کرلیں گے۔

حال: رشتہ داروں میں شادی غمی میں آنا جانا بالکل موقوف ہے۔ رشتہ دار پوچھتے ہیں کہ ……کہاں ہے۔

جواب: البتہ اس بارے میں ان سے معلوم کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ان مواقع میں خلاف شریعت کام ہوتے ہیں جس میں شرکت جائز نہیں لایجوز الحضور عند مجلس فیہ المحظور۔ مسئلہ ہے کہ جس مجلس میں اﷲ کی نافرمانی ہورہی ہو اس میں شرکت جائز نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اہلیہ کو ان کے رشتہ داروں میں لے کر جائوں تو نامحرم عورتیں باوجود منع کرنے کے سامنے آتی ہیں اور پردہ نہیں کرتیں اس لیے اپنی اہلیہ کو ان کے رشتہ داروں میں کیسے لے کر جائیں۔

حال: ان کی شادی ان کے قریبی رشتہ داروں میں ہوئی ہے۔ گذشتہ چار پانچ ماہ سے لڑکی میکے میں ہے اور واپسی کانام ہی نہیں لیتی۔ اس کے والد کا کہنا ہے کہ وہ سسرال نہیں جانا چاہتی۔ گذشتہ بقر عید پر میں ان کے گھر گیا تھا۔ اپنی گھر والی کو بھیجا۔ خود اپنے بیٹے کو بھی بھیجا تھا۔ گوشت بھی ان کے گھر پہنچایا گیا۔ لڑکی کے والد ہمارے پاس نہیں آتے۔ ان کے دوسرے بھائی البتہ آتے رہے ہیں۔ میں ایک سیدھا سادہ مسلمان ہوں شروع سے اﷲ والوں کے ساتھ صحبت رکھی ہے قاری فتح محمد صاحب رحمۃ اﷲ علیہ سے خصوصی تعلقات رہے ہیں۔ مولانا مفتی رشید احمد مرحوم و مغفور کی جمعہ کے دن بعد عصر والی مجلس میں برسوں شرکت کی ہے۔ میرے گھر میں ٹی وی شروع سے نہیں ہے۔ بہو کے والدین کے مطالبہ پر کہ اس کو گھمائو پھرائو اپنے رشتہ داروں میں کافی حد تک لے جاتے رہے ہیں۔ اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ اس صورتحال کو اسی طرح جاری رہنے دیا جائے یا بیٹے کا کسی دوسری مناسب جگہ رشتہ کردیا جائے۔ اگر آپ مجھ سے بالمشافہ گفتگو کرنا چاہیں تو میں بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہوسکتا ہوں۔ جیسا ارشاد فرمائیں۔

جواب: ان کی سسرال والوں کو بتادیا جائے کہ مذکورہ بالا غیر شرعی کاموں میں وہ شرکت نہیں کریں گے، آپ کہہ دیں کہ اگر میں بھی کہوں گا تو بھی وہ نہیں مانیں گے کیونکہ اﷲ کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت جائز نہیں اور جائز امور میں وہ ضرور اہلیہ کے حقوق ادا کریں گے اگر وہ اس پر رضا مند ہوں تو دوسرے رشتہ کی ضرورت نہیں۔

…………………

انہی صاحب کا دوسرا خط

حال: اب صورتحال یہ ہے کہ ہم لڑکی کے گھر کئی بارجاچکے ہیں اور اس کے لانے کی کوششیں کیں مگر کوئی کامیابی نہیں ہوئی۔ آخر ایک دفعہ اسے کسی طرح لے آئے گھر کے دروازے پر ہی وہ کھڑی رہی۔ ہم اوپر والی منزل میں رہتے ہیں۔ اوپر چڑھنے کے لیے وہ تیار ہی نہیں ہورہی تھی بہ مشکل تمام اوپر لایا گیا تو بیٹھی روتی رہی۔ اس کا دل بہلانے کی بہت کوشش کی مگر بے سود اس کی ماں اور بہن بھی ساتھ آئی تھیں۔ انہوں نے بھی بہت کوشش کی کہ وہ کچھ بولے اور یہاں رہنے پر راضی ہوجائے مگر نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلا۔ لڑکی اور اس کی ماں دونوں نفسیاتی مریض ہیں۔ لڑکی کا دل شوہر سے بالکل نہیں ملتا۔ یہ ان کو سلام بھی نہیں کرتی ہے اس کے گھر والے کہتے ہیں کہ ہمارے گھر میں کچھ اثر وغیرہ ہے۔ حالانکہ ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ہمارے گھر میں ٹی وی اور دوسری واہیات نہیں ہیں۔ ان کے گھر میں یہ سب ہیں۔ دیواروں پر بڑی بڑی تصاویر لگائی ہوئی ہیں۔ حضرت ہم اب یہ چاہتے ہیں کہ آپ ہی اپنے اس خلیفہ کی کسی مناسب عالمہ اور حافظہ سے وہیںشادی کرادیں۔ منکوحہ لڑکی کو بھی چھوڑنا نہیں چاہتے یہ جس وقت آنا چاہے خوشی سے آجائے ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ امید ہے ہماری ان گذارشوں پر ہمدردانہ غور فرمائیں گے اور ہماری مشکل کو آسان فرمانے کی کوشش اور سعی کی جائے گی دعائوں کی درخواست ہے۔

جواب: دوسری شادی پر وہ رضامند نہیں ہیں۔ کہتے ہیں اگر کبھی موجودہ بیوی آگئی تو فبہا ورنہ میں ایسے ہی زندگی گزاردوں گا مجھے اس میں کوئی مشکل نہیں۔ لیکن آپ ان سے کہیں تو امید ہے کہ مان لیں گے اور جائز امور میں والدین کی نافرمانی وہ نہیں کریں گے۔ ان کی اہلیہ چونکہ ان کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی تو اس کو فارغ کرکے پھر دوسری شادی کریں اس کو محبوس رکھنا مناسب نہیں۔

…………………

حال: قابل صد احترام و محبت حضرت مولانا حکیم محمد اختر صاحب! السلام علیکم و رحمۃ اﷲ و برکاتہ، اﷲ رب العالمین ایمان و صحت کی بہترین حالتوں میں رکھے اور عمر دراز نصیب فرمائے آمین ثم آمین۔ میرے تعارف کے لیے یہی کافی ہے کہ الحمدﷲ مسلمان ہوں، اﷲ کی بندی ہوں اور حضرت مولانا خان محمد صاحب سے بیعت ہوں۔ جولائی میں اچانک کراچی جانے کا اتفاق ہوا تو آپ کی خدمت میں حاضری دینے کا شوق شدید چرّایا اس سے قبل میں آپ کی کئی گرانقدر کتب کا مطالعہ کرچکی تھی لہٰذا از حد شوق تھا کہ آپ کی صحبت سعید سے چند لمحات چرالوں لیکن افسوس قسمت نے یاوری نہیں کی اور آپ نے ملنے سے انکار کردیا حالانکہ میں مکمل پردہ میں تھی اور میرے ساتھ میری خالہ اور میرے کزن بھی تھے۔ بہرحال اﷲ کو یہی منظور تھا سو میں نے آپ کے کتب خانہ سے آپ کی ڈھیر ساری کتابیں خریدیں کہ یہ بھی صحبت کے حصول کا ایک ذریعہ ہیں اور میر صاحب سے فون پر بات بھی ہوئی انہوں نے فرمایا کہ رقعہ لکھ کر بھیج دو حضرت دعا فرمادیں گے۔ چنانچہ اسی کو غنیمت اور اعزاز سمجھتے ہوئے جلدی سے رقعہ لکھ ڈالا۔ آپ نے نہ جانے کیا دعا فرمائی ہوگی جو میرے لیے یقینا باعث تسلی ہوا لیکن میں تو آپ کے پاس محبت الٰہی کا شعلہ بھڑکانے آئی تھی ہمارے باباجی کو اﷲ سلامت رکھے بہت اونچے مقام پر ہیں لیکن ان کی بھی صحبت میسر نہیں وہ بھی ہم سے بہت دور میانوالی میں رہتے ہیں اکثر برطانیہ میں ہوتے ہیں یا پھر اندرون ملک دوروں پر، خط و کتابت کا سلسلہ بھی نہیں اس لیے جہاں کہیں کسی بزرگ سے ملنے کا موقع ہو تو میں ضایع نہیں کرتی کہ کچھ نہ کچھ فیض تو حاصل کرلوں۔ اب آپ بتائیں کہ میرے اس مسئلے کا کیا حل ہے گھر بیٹھے بیٹھے کس طرح عشق کی آگ بھڑکائی جائے؟ میں الحمدﷲ تنظیمی و جماعتی طور پر جماعت اسلامی حلقۂ خواتین سے بھی وابستہ ہوں اور شریعت پر عمل کی کوشش کر رہی ہوں لیکن اس کے باوجود بھی کچھ خامیاں، کچھ کمزوریاں ایسی ہیں کہ ابھی Coverنہیں ہوئیں محبت الٰہی اور محبت رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی کیفیت کبھی کبھی محسوس ہوتی ہے۔ میں اس کا دوام چاہتی ہوں یہ کسیے ہوگا آپ سے مدد کی درخواست ہے کہ نسخہ بھی بتائیں اور خصوصی دعا بھی فرماتے رہیں۔دیکھیں اب میرا آپ پر حق بن گیا ہے کہ میں نے آپ سے درخواست کی ہے اور میں آپ کے اس اﷲ رب العالمین کی بندی ہوں جس پر آپ فدا ہیں تو یقینا آپ میری درخواست رد نہیں کرسکتے اس کے علاوہ میرے والدین اور میرے بہن بھائیوں کی درازیٔ عمر، ایمان و عمل صالح کی توفیق اور صحت ظاہری و باطنی کے لیے بھی خصوصی دعا فرمایئے گا۔ اور آخر میں ایک درخواست اور کیا آپ مجھے بتائیں گے کہ آپ نے رقعہ کے جواب میں میرے لیے کیا دعا فرمائی تھی۔ اجازت چاہوں گی۔ آپ کا بہت سا قیمتی وقت لے لیا۔

جواب: ہماری خانقاہ کا یہ اصول ہے کہ عورتوں سے پردہ سے بھی ملاقات نہیں کرتے۔ اصلاح کے لیے محرم سے دستخط کراکے مکاتبت کی اجازت ہے۔ عورتوں کے لیے اہل اﷲ کی صحبت یہی ہے کہ پردہ سے ان کا وعظ سنیں جو صحابیات کا طریقہ تھا اور یہ میسر نہ ہو تو ان کی کتب کا مطالعہ کریں۔ اور گناہوں سے بچیں شیخ نے جو ذکر بتایا ہو اس کی پابندی کریں مثلاً عورتوں کو سبحان اﷲ کی تین تسبیح مشایخ بتاتے ہیں سنت کی اتباع کریں اسی سے ان شاء اﷲ اﷲ کی ولایت نصیب ہوجائے گی کوئی کمی نہ ہوگی بعض عورتیں مردوں سے بھی آگے نکل جاتی ہیں۔

لیکن شرط یہ ہے کہ جو خمیرہ موتی کا کھائے وہ سنکھیا نہ کھائے ورنہ خمیرہ کا کچھ اثر نہ ہوگا۔ یہ پڑھ کر سخت تعجب اور افسوس ہوا کہ آپ کا اہل اﷲ سے بھی تعلق ہے اور سخت گمراہ جماعت سے بھی تعلق ہے جس کے بانی نے انبیاء علیہم السلام اور صحابہ کرام پر گستاخانہ قلم اٹھایا ہے۔ مولانا یوسف لدھیانوی شہید رحمۃ اﷲ علیہ کی کتاب اختلاف امت اور صراط مستقیم کا مطالعہ کریں تو حقیقت روشن ہوجائے گی بہرحال اگر اﷲ کی ولایت مقصود ہے تو فوراً اس جماعت سے تعلق ختم کردیجئے ورنہ ہرگز ہرگز اﷲ تعالیٰ کی ولایت اور دوستی نصیب نہیں ہوسکتی بلکہ بدترین خسارہ اور آخرت کی تباہی کا اندیشہ ہے وما علینا الا البلاغ۔

…………………

حال: بعد سلام کے عرض ہے کہ بہت دنوں سے آپ سے ایک اہم بات کے دریافت کرنے میں جھجک رہا ہوں آج ہمت کرکے لکھ رہا ہوں۔ بہت عرصہ سے دل میں یہ بات کھٹک رہی ہے کہ اگر بیعت ہونا ضروری ہے تو میں ابھی تک بیعت کیوں نہیں ہوا ہوں۔ پتا نہیں کیا بات ہے کہ بیعت کے نام سے عجیب سا خوف محسوس ہوتا ہے۔ بعض جگہ یہ پڑھا اور سنا بھی کہ طالب علمی کے دوران بیعت ہونا مصلحت کے خلاف ہے۔ ایک اور بات یہ بھی ہے کہ بیعت ہونے کے بعد کچھ دن شیخ کے پاس رہنا بھی چاہیے اور میری پڑھائی کے دوران اس بات کا امکان کم نظر آتا ہے کہ میں چالیس دن رہ سکوں لیکن میرا پورا ارادہ ہے کہ اگر فراغت کے ساتھ چھٹیاں ملیں تو میں ضرور رہوں گا۔ آ پ کے سامنے اپنا حال بیان کردیا ہے۔ اب یہی عرض کرتا ہوں کہ اگر بیعت نہ ہونے کی وجہ سے کسی بھی طرح سے اﷲ تعالیٰ سے محبت و تعلق کے حصول میں رکاوٹ پیدا ہوگی تو میری طرف سے بیعت کی درخواست ہے جیسا آپ مناسب سمجھیں۔ اگر خط کے مضمون میں کوئی بے ادبی ہوگئی ہے تو عاجز سمجھ کر معاف فرمادیں، دعا کی درخواست ہے۔

جواب: یہ خوف قلت شوق کی علامت ہے لہٰذا غلبۂ شوق جب تک نہ ہو بیعت نہ کریں۔ ابھی اصلاح اور ذکر کا تعلق رکھئے بیعت میں جلدی مناسب نہیں غلبۂ شوق کا انتظار کیجئے۔ کوئی حرج نہیں طالبعلمی میں بیعت ہوسکتا ہے بیعت کے بعد شیخ کے پاس رہنا بھی فوراً ضروری نہیں۔

ظظظظظ
Flag Counter