Deobandi Books

ماہنامہ الابرار جولائی 2010

ہ رسالہ

7 - 14
ملفوظات حضرت تھانویؒ
ایف جے،وائی(July 14, 2010)

{گذشتہ سے پیوستہ}

حضرت تھانویؒ کی غرباء کے ساتھ محبت و خلوص

فرمایا کہ ایک غریب آدمی نے تجارت میں سے کچھ میرے لیے مقرر کررکھا تھا ایک دفعہ صرف ایک پیسہ نکلتا تھا۔ مجھے انہوں نے اکنی دے کر یہ کہا کہ لو ایک پیسہ تم رکھ لو اور تین پیسے مجھے واپس کردومیں نے نہایت بشاشت سے قبول کرلیا اور تین پیسے واپس دے دیئے (اس سے حضرت کی قناعت و انکساری اور غرباء کے ساتھ محبت و خلوص اور ان کی دلجوئی کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ جامع)

صحت عجیب نعمت ہے

فرمایا کہ صحت عجیب نعمت ہے۔ لکھنو میں ایک نواب تھے۔ ان کو ضعفِ معدہ کی شکایت تھی بس دوتولہ گوشت کا قیمہ پوٹلی میں باندھ کر چوستے تھے۔ ایک دفعہ گومتی کے کنارے اپنے مصاحبین کے پاس بیٹھے تھے وہاں دیکھا کہ ایک لکڑ ہارا لکڑیوں کا گٹھا سر پر رکھے لارہا ہے اس نے وہ گٹھا ایک درخت کے نیچے لاکر پٹکا اور گومتی میں ہاتھ منہ دھویا اور درخت کے نیچے بیٹھ کر اپنا روٹ نکالا اور پیاز کے ساتھ کھانا شروع کیا کھا کر اور پانی پی کر سوگیا اور خراٹے لینے شروع کئے۔ نواب صاحب نے اس کی یہ حالت دیکھ کر اپنے مصاحبین سے کہا کہ میں اس تبادلہ پر راضی ہوں کہ میرا تمول اور بیماری اسے مل جائے اور اس کا افلاس اور تندرستی مجھے مل جائے۔

حُب جاہ و مال بری چیز ہے

فرمایا کہ حُب جاہ و مال ایسی بری چیز ہے کہ یہ انسان کو کسی حال چین سے نہیں رہنے دیتی ایک ڈپٹی صاحب تھے وہ بیچارے رات بھر تسبیح لیے کوٹھے پر ٹہلتے تھے اور مال کی فکر میں سوتے نہ تھے۔ بس ساری خرابی بڑائی کی ہے۔ اس کے لیے مال ڈھونڈتا ہے اگر آدمی چھوٹا بن کر رہے اور تھوڑے پر قناعت کرے پھر کچھ بھی فکر نہیں۔ شیخ سعدی فرماتے ہیں ؎

نہ بہ اشتر بر سوارم نہ چواشتر زیر بارم

نہ خداوند رعیت نہ غلام شہریارم

مولانا فرماتے ہیں ؎

چشمہائو رشکہائو خشمہا

برسرت ریزد چو آب از مشکہا

خویش رار بخور سازو زار دار

تاترابیروں کنند از اشتہار

اشتہارِ خلق بند محکم است

بند ایں ازبند آہن کے کم است

ذلت عرض احتیاج کو کہتے ہیں

فرمایا کہ ذلت کہتے ہیں عرض احتیاج کو اگر آدمی کچھ سوال نہ کرے تو کچھ ذلت نہیں۔ چاہے لنگوٹہ باندھے پھرے۔ ہم نے کسی کو نہیں دیکھاکہ بدون عرض احتیاج کے کوئی شخص دین کی خدمت کرے اور پھر مارا مارا پھرے۔ انگریز بڑے بڑے امراء کی عزت نہیں کرتے اور ادنیٰ ادنیٰ مولویوں کی عزت کرتے ہیں۔

اخبار کا معیارِ اسلامی

مجلس کی طرف مخاطب ہوکر فرمایا کہ مولوی محمد شفیع صاحب دیوبندی اخبار جاری کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے کہا ہے کہ اگر اخبار جاری کرو تو ایسا کرو کہ وہ بالکل شریعت کے موافق ہو تاکہ اسے دیکھ کر لوگوں کو یہ کہنا ممکن ہو کہ اسلامی اخبار ایسا ہوتا ہے اور اس کا معیار یہ ہے کہ جو لکھو یہ غور کرو کہ اس کا تکلم شریعت میں جائز ہے یا نہیں۔ اگر تکلم جائز ہے تو لکھنا بھی جائز ہے اور اگر تکلم ناجائز ہے تو لکھنا بھی ناجائز ہے۔ انہوں نے ضرورت اخبار کے متعلق مجھ سے مضمون چاہا میں نے کہا بے تکلف سمجھ میں نہیں آتا۔ اور تکلف کو جی نہیں چاہتا اتفاق سے مولوی عیسیٰ صاحب الہ آبادی کا خط آیاہوا تھا اس میں لکھا تھا کہ فلاں شخص کا حال دریافت کرکے لکھئے تاکہ اطمینان ہو اور لکھا تھا کان رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم یتفقد اصحابہ اس سے اخبار کی ضرورت بھی مفہوم ہوسکتی ہے کہ مسلمانوں کی بگڑی حالت پر اصلاح اور ضرورت کی اطلاع پر امداد کرسکیں۔

قبول ہدیہ کا معیار

فرمایا کہ ایک شخص نے کچھ ہدیہ بھیجا اور رقعہ میں یہ تحریر کیا کہ حسب معمول قدیم روانہ کرتا ہوں اس پر حضرت والا نے واپس فرمادیا۔ اور یہ فرمایا کہ یہ لزوم کیسا۔ پھر وہ بہت دنوں کے بعد معافی کو آئے۔ اور بیوی کی بیماری کا عذر بیان کیا۔ فرمایا کہ اگر مقدمہ کی تاریخ ہوتی تب بھی یہی عذر کرتے۔ رنج تو اسی سے ہوتا ہے کہ زبان سے تو محبت کا دعویٰ کریں اور برتائو کریں اجنبیوں جیسا۔ البتہ اگر دعویٰ محبت کا نہ ہو پھر کوئی شکایت نہیں فلاں شخص تمام عمر مجھے برا بھلا کہتا رہا۔ مگر کبھی خیال بھی نہ ہوا۔ منصور کو جب مقتل میں لے گئے ہیں تو لوگ ان پر اینٹ پتھر برسا رہے تھے اور وہ التفات بھی نہ کرتے تھے۔ حضرت شبلی رحمۃ اﷲ علیہ بھی کسی جگہ موجود تھے انہوں نے بھی ایک پھول اٹھا کر پھینک دیا۔ اس پر منصور نے ایک آہ کی۔ لوگوں نے اس کی وجہ پوچھی تو کہا کہ اور لوگ تو جاننے والے نہیں اور یہ جاننے والے ہیں ان کے مارنے سے تکلیف ہوئی۔ اسی سلسلہ میں یہ بھی فرمایا کہ بھائی اکبر علی نے چاہا تھا کہ کچھ مقدار معین سے میری خدمت کیا کریں۔ میں نے انکار کردیا اس لیے کہ خواہ مخواہ یہ فکر رہے گی کہ کب پہلی تاریخ ہوگی۔ کب منی آرڈر آئے گا۔ دیر ہوگی تو کہونگا کہ شاید کوئی وجہ ہوگئی ہوگی ایسے ہدیے سے راحت نہیں ہوتی بلکہ اذیت انتظار ہوتی ہے۔ اﷲ ایسی ایسی جگہ سے دیتا ہے جہاں گمان بھی نہیں ہوتا اس میں ہے پوری راحت۔ بھائی نے کہا کہ آخر اوروں سے بھی تولیتے ہو۔ میں نے کہا کہ وہ لوگ مقرر تھوڑا ہی کرتے ہیں۔ پھر انہوں نے کبھی بیس بیس کبھی پچیس پچیس روپے دیئے میں نے لے لیے اس انتظار کی کلفت پر متفرع کرکے میں کہتا ہوں کہ جب پیروں کے یہاں جائو تو ہدیہ میں لزوم کا معاملہ کرکے نہ جائو اس سے ان کی نیت بگڑتی ہے۔ وہ تو تم کو سنواریں اور تم ان کو بگاڑو۔ اس نیت پر ایک خواب یاد آیا۔ مشہور ہے کہ ایک مرید نے اپنے پیر سے کہا کہ حضرت میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میری انگلیوں میں پاخانہ لگا ہے اور آپ کی انگلیوں میں شہد۔ پیر نے کہا ظاہر ہے کہ ہم دیندار ہیں اور تم دنیا دار۔ مرید نے کہا کہ ابھی خواب ختم نہیں ہوا یہ بھی دیکھا ہے کہ میری انگلیوں کو آپ چاٹ رہے ہیں اور آپ کی انگلیوں کو میں چاٹ رہا ہوں۔ پھر تو پیر صاحب بہت بگڑے ۔ہمارے حضرت نے فرمایا تعبیر اس کی ظاہر ہے کہ پیر تو اس سے دنیا کا نفع اٹھاتا تھا اور مرید دین کا ایسوں کو دیکھ کر لوگوں نے ملائوں کو ایک طرف سے ذلیل سمجھ رکھا ہے کہ بس ہمارے غلام ہیں یا یہ کہ بے حس ہیں۔ ہمارے مولانا خلیل احمد صاحبؒ فرماتے تھے کہ ہم حاجتمند تو ہیں مگر دین فروش نہیں۔ میرا مذہب تو ہدیہ میں یہ ہے کہ اگر جوش اٹھے تو دے دو ورنہ نہیں۔ معمول کرنے میں یہ خرابی ہے کہ اگر جی نہ چاہے تب بھی دینا پڑتا۔ صاحب ہدیہ نے کچھ عذر کرکے کہا کہ حضرت میں نے جو کچھ کہا ہے سب صحیح ہے۔ فرمایا میں اس کی تکذیب تو نہیں کرتا۔ معاملہ میں تو میرا یہاں تک معمول ہے کہ اگر ایک طرف چمار ہو اور ایک طرف مولوی صاحب ہوں تو میں یہ نہ کہوں گا کہ کیا مولوی صاحب جھوٹ بولتے ہیں۔ حضرت شریح حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے مقرر کردہ حضرت علیؓ کی خلافت میں بھی قاضی تھے۔ جب حضرت علیؓ کی زرہ چوری ہوگئی۔ ایک یہودی کے پاس پہچانی۔ تو حضرت شریح کے یہاں دعویٰ دائر کیا۔ حضرت شریح نے گواہ طلب کئے آپ نے اپنے صاحبزادے اور ایک آزاد کردہ غلام کو پیش کیا حضرت شریح نے کہا کہ صاحبزادہ کی گواہی معتبر نہیں(چونکہ شریح کے مذہب میں لڑکے کی گواہی باپ کے حق میں مقبول نہیں تھی اور حضرت علی کے نزدیک بیٹے کی گواہی باپ کے حق میں معتبر تھی۔) لہٰذا تکمیل شہادت نہیں ہوئی۔ حضرت علیؓ سے کہا کہ اور گواہ پیش کیجئے۔ آپ نے عذر کردیا۔ اس پر حضرت شریح نے مقدمہ کو خارج کردیا۔ آپ خوشی خوشی عدالت سے باہر تشریف لے آئے۔ یہودی نے اس حالت کو دیکھ کر فوراً کلمہ پڑھ لیا اور زرہ پیش کی کہ آپ کی زرہ ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ہم نے تم کو ہی ہبہ کی۔ وہ یہودی مدۃ العمر آپ کے ساتھ رہا اور جنگ صفین میں شہید ہوگیا۔ اگر آج کل کا مذاق ہوتا تو کہتے کیا حضرت جھوٹے تھے طرہ یہ کہ ان کی خلافت کا زمانہ اور ان کو ذرا رنج نہیں (ہمارے حضرت نے مجلس کی طرف مخاطب ہوکے فرمایا) میں تو جان کر شریعت کو نہ چھوڑوںگا۔ یہاں قبول ہدیہ سے مانع شرعی ہے کیسے لیلوں البتہ اگر مجھ کو اپنی غلطی ثابت ہوجائے رجوع کرلونگا اور بدون مانع شرعی کے میں کیوں واپس کرتا جبکہ میری کوئی آمدنی بھی نہیں ہے۔ اسی سے سمجھ لو کہ رنجیدہ ہوکر ہی واپس کرتا ہوں۔ کاشتکار کو اناج کی ضرورت ہے۔ لیکن اگر کوئی پیشاب میں بھگوکر لائے تو کیا وہ اس کو لے لے گا؟جتنا تجربہ مجھے اب ہوا ہے اگر والد صاحب کی وفات پر ہوتا تو میں اپنے اس حصہ کے ترکہ کو تتر بتر نہ کرتا۔ پھر دیکھتا کون ذلیل سمجھ کر دیتا ہے۔ خیر اﷲ کی حکمت ہے شاید اس حالت سے میرے اندر تکبر پیدا ہوجاتا۔

پھر وہ صاحب نہایت لجاجت سے معافی کے خواستگار ہوئے حضرت نے فرمایا کہ معاف ہے۔ مگر ہدیہ بھیجنے کی بالکل اجازت نہیں انہوں نے اس کو منظور کرلیا۔

(جاری ہے۔)

ژژژژژ
Flag Counter