Deobandi Books

ماہنامہ الابرار جولائی 2010

ہ رسالہ

12 - 14
ختم بخاری کے مفاسد
ایف جے،وائی(July 14, 2010)

۱۷؍ رجب ۱۴۳۰ھ ، ۱۱؍ جولائی ۲۰۰۹ء ، ہفتہ کے روز جامع مسجد دارالعلوم کراچی میں ختم بخاری شریف کی تقریب سادگی کے ساتھ منعقد ہوئی، اس میں رئیس الجامعہ حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب دامت برکاتہم نے حاضرین کے سامنے بہت ہی مفید، چشم کشا اور بصیرت افروز خطاب فرمایا یہ خطاب طلبائے مدارس کے لیے عموماً اور دورۂ حدیث سے فارغ ہونے والے طلباء کے لیے خصوصاً اہم ہدیات پر مشتمل ہے۔ مفتی صاحب کے خطاب سے ضروری اقتباس پیش کیا جارہا ہے۔ (بہ شکریہ ماہنامہ البلاغ)

نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم اما بعد

ختم بخاری نصیحتوں اور دعائوں کی مجلس ہے

اﷲ رب العالمین کا شکر ادا نہیں کیا جاسکتا کہ اس نے ہمیں اس تعلیمی سال کے اختتام پر پہنچنے کی توفیق عطا فرمائی اور بہت ہی ناساز گار حالات کے باوجود تمام اسباق اور بخاری شریف جیسی عظیم الشان کتاب بھی مکمل کروادی۔

آپ نے درس حدیث سنا، عام طور سے ہمارے ہاں ختم بخاری کا بہت برا اجتماع ہوا کرتا ہے، لیکن اس مرتبہ ہم نے اس بات کا اہتمام کیا کہ ختم بخاری کی یہ مجلس کسی تقریب کی شکل اختیار نہ کرنے پائے، کیونکہ ہم نے اپنے بزرگوں کو ایسا ہی کرتے دیکھا ہے۔ ہمارے بزرگوں کا تجربہ یہ ہے کہ ختم بخاری کے موقع پر مانگی جانے والی دعائوں کو اﷲ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے قبول فرمالیتے ہیں، اس لیے ہمارے والد ماجدؒ بھی دارالعلوم میں ختم بخاری کے موقع پر دعا کا خاص اہتمام فرمایا کرتے تھے، البتہ اس کے لیے نہ تو کوئی اعلان ہوتا تھا اور نہ اس کے لیے کسی بڑی تقریب کا انداز اختیار کیا جاتا تھا۔ خاص خاص لوگ پوچھتے تھے کہ ختم بخاری کا دن کونسا ہے، ان کو بتلایا دیا جاتا تھا کہ فلاں دن ہے، جن کو شوق ہوتاتھا وہ شرکت کرلیا کرتے تھے۔

پھر رفتہ رفتہ ختم بخاری کی یہ مجلس ایک بہت بڑی تقریب کی صورت اختیار کرگئی، پھر بہت بڑی تقریب بنتے بنتے طرح طرح کی دعوتوں اور ضیافتوں کا دن بن گئی اور پھر اس کی کیفیت یہ ہوگئی کہ ڈر لگنے لگا کہ کہیں یہ کسی ’’میلے‘‘ کی صورت اختیار نہ کرلے اور یہ خوف ہونے لگا کہ اگر اس کو مزید جاری رکھا گیا تو یہ خدانخواستہ ایک مستقل بدعت کی شکل اختیار نہ کرجائے، کیونکہ جتنی بدعتیں ہوتی ہیں ابتداء میں وہ نیک کام ہوتے ہیں۔ تو ختم بخاری کے اندر بھی یہی ہونے لگا، حتی کہ اس کے ترک پر ملامتیں ہونے لگیں، اور رفتہ رفتہ اس کو ایسا عمل سمجھا جانے لگا گویا کہ یہ سنت سے ثابت ہے۔

پھر ختم بخاری کی تقریب میں یہ بھی ہونے لگا کہ وہ طالبعلم جو دورۂ حدیث سے فارغ ہورہا ہوتا اور اس کے پاس کچھ مالی وسعت ہوتی تو وہ اپنے مہمانوں کو ختم بخاری کی تقریب میں شرکت کی دعوت دیتا اور مہمان بھی ایک دو نہیں، دو سو، تین سو مہمان مختلف شہروں اور دیہاتوں سے سفر کرکے آتے اور ان کو ٹھہرانے کے لیے آس پاس کے علاقوں میں جگہیں تلاش کی جاتیں، ان کے کھانے کے لیے دعوتوں کا اہتمام کیا جاتا، دیگیں اتروائی جاتیں اور خوب عظیم الشان ضیافت کا اہتمام ہوتا۔

لیکن وہ طلباء جو مالی استطاعت نہیں رکھتے تھے اور ایسی دعوتوں کا انتظام ان کے بس سے باہر تھا ان کے دلوں میں احساسِ محرومی پیدا ہوتا تھا کہ دوسرے طلباء کی دستار بندی کو دیکھنے کے لیے اتنے مہمان آرہے ہیں، لیکن ہماری دستار بندی دیکھنے کے لیے کوئی بھی نہیں آرہا۔

پھر بعض جگہوں پر یہ بھی ہونے لگا کہ مسجد میں ختم بخاری ہورہا ہے اور باہر صحن یا اس سے ملحقہ جگہوں پر لوگ آپس میں ہنسی مذاق اور گپ شپ کررہے ہیں۔ تو ختم بخاری کا جو مقصد تھا کہ درس حدیث سنیں تاکہ نصیحت حاصل ہو اور اس بابرکت موقع پر دعائیں مانگیں، وہ فوت ہونے لگا اور پیسے کا ضیاع ہونے لگا، اس لیے پچھلے دو تین سالوں سے یہ کوشش کی گئی کہ جتنا اس کو کم کیا جاسکتا ہو اتنا کم کیا جائے۔

الحمدﷲ! ہم نہ تو اعلان کرتے ہیں اور نہ ہی دعوت نامے جاری کرتے ہیں، لیکن چونکہ تاریخ سے پہلے سے طے ہوجاتی ہے اس لیے لوگ ایک دوسرے کو سینہ بہ سینہ اور اب تو موبائل ٹو موبائل بتلادیتے ہیں اور خبر پورے شہر اور ملک میں پھیل جاتی ہے۔ اس دفعہ ہم نے ختم بخاری کی تاریخ کو صیغۂ راز میں رکھا اور آج صبح نو بجے تک اس کو ظاہر نہیں ہونے دیا۔

ۃۃۃۃۃ
Flag Counter