Deobandi Books

ماہنامہ الابرار جولائی 2010

ہ رسالہ

8 - 14
ملفوظاتِ حضرت والا ہردوئیؒ
ایف جے،وائی(July 14, 2010)

(گذشتہ سے پیوستہ)

ارشاد فرمایا کہ نقل کی برکت اصل تک پہنچادیتی ہے۔ ڈرائیور کی نقل کرتے کرتے آدمی ڈرائیور ہوجاتا ہے جادوگروں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وضع قطع اور لباس کی نقل کی تھی نقل کی برکت سے سیرت بھی بدل دی گئی اور سب کو ایمان عطا کردیا گیا۔ اور سب کے سب کافر سے صحابی ہوگئے۔

اسی طرح شیطان کی نقل سے شیطان کی سیرت بھی آجاتی ہے مثلاً شیطان بائیں ہاتھ سے کھاتا پیتا ہے تو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے منع فرمادیا کہ ہرگز ہرگز کوئی بائیں ہاتھ سے نہ کھاوے اس قدر اہتمام سے منع فرمایا جو نہایت ہی بلیغ انداز ہوتا ہے اس حدیث سے یہ سبق ملتا ہے کہ فاسقین کی نقل سے سخت پرہیز کرنا چاہیے اور راز اس میں یہ ہے کہ جس کی نقل کی جاتی ہے اس کی یا محبت یا عظمت دل میں ہوتی ہے پھر اس کی عادتیں اندر آنے لگتی ہیں دل میں جس کی عظمت و محبت ہوتی ہے اعمال اس عظمت و محبت پر شہادت پیش کرتے ہیں چنانچہ انگریز کو دیکھئے بائیں ہاتھ سے کھاتے ہیں ان کے اندر شیطان کی خودبینی تکبر اور بڑوں پر اعتراض کا مادہ ہوتا ہے اور جو لوگ پائجامہ ٹخنے سے نیچے لٹکاتے ہیں چونکہ یہ متکبرین کی وضع ہے اس لیے اس کی نقل کرنے والوں میں تکبر اور اپنے بڑوں پر اعتراض، بدگمانی وغیرہ کی بیماری پیدا ہوجاتی ہے اس لیے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے ٹخنہ سے نیچے پائجامہ یا لنگی کو یا کرتا و قمیص و عبا کو لٹکانے سے منع فرمایا ۔(احقر جامع عرض کرتا ہے کہ بعض اہل علم بعض روایت کی تکبر کی قید سے اس کو قید احترازی سمجھ کر یہ سمجھ گئے کہ اگر تکبر سے نہ ہو تو درست ہے یہ ان کو سخت علمی دھوکہ شیطان نے دیا ہے۔ علمائے محققین فرماتے ہیں کہ تکبر یہاں قید واقعی ہے یعنی جو بھی ٹخنہ سے نیچے لٹکاتا ہے وہ تکبر ہی سے لٹکاتا ہے(البتہ وہ بیمار جن کا پیٹ آگے نکل آتا ہے) اس کی ایک نظیر قرآن پاک میں ارشاد ہے لا تقتلوا اولادکم من خشیۃ املاق تنگ دستی کے خوف سے اپنے بچوں کو مت قتل کرو تو کیا مالداروں کو قتل اولاد جائز ہوجائے گا۔ بلکہ یہاں وہی قید واقعی ہے کہ جو بھی قتل کرتا تھا بخوف تنگ دستی ہی کرتا تھا۔)

ارشاد فرمایا کہ جب توراۃ پر عمل نہ کرنے والوں کو قرآن پاک میں گدھا قرار دیا گیا تو قرآن پاک جو توراۃ سے افضل ہے اس کے علم رکھنے کے بعد بے عمل ہونے والا کیا مستحق وعید نہ ہوگا۔

ارشاد فرمایا کہ جو آدمی خام ہوتا ہے وہی اہل دولت کے ہاتھ فروخت ہوجاتا ہے یا خوف مخلوق سے یا طمع مال سے اپنا دینی رنگ اور مذاق اور اصول شریعت کو توڑ دیتا ہے اس کی ایک عجیب مثال اﷲ تعالیٰ نے عطا فرمائی ہے صراحی خام میں پانی ڈالئے وہ مٹھی گھل کر اپنا وجود بھی غائب پائے گی اور اگر آگ میں پکادی جاوے تو پختہ صراحی کا پانی صراحی کے وجود کو نہیں مٹاسکتا بلکہ صراحی اس کو اپنے فیض سے ٹھنڈا کرے گی۔ یہی حال اس عالم ربانی کا ہے جو بزرگوں کی صحبت میں پختہ ہوجاتے ہیں پھر مخلوق سے اختلاط اشاعت دین کے لیے ان کو مضر نہیں ہوتا نہ جاہ نہ مال نہ شہرت کوئی فتنہ ان کو خراب نہیں کرتا۔ استقامت کی نعمت ان کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور ہر وقت صاحب نسبت ہونے کے سبب حق تعالیٰ پر نظر ہوتی ہے کہ قبر میں صرف رضائے حق کام آوے گی نہ جاہ نہ شہرت نہ ہجوم خلق یعنی معتقدین کا مجمع وہاں کام نہ آوے گا ؎

ہمیں کیا جو تربت پہ میلے رہیں گے

تہہِ خاک ہم تو اکیلے رہیں گے

پس صراحی کی مثال سے خام سالک اور پختہ سالک کے حالات خوب سمجھ میں آسکتے ہیں خام سالک دوسروں سے متاثر ہوجاتا ہے اور پختہ سالک دوسروں کو متاثر کردیتا ہے۔

ارشاد فرمایا کہ اہل اﷲ سے بغض و عناد اور ان کو ایذاء دینا دنیا میں ہی اکثر ذلیل کرتا ہے ؎

بس تجربہ کردیم دریں دیر مکافات

بادُرد کشاں ہر کہ درافتاد برافتاد

ارشاد فرمایا کہ ایک جگہ حاضری ہوئی اذان کی غلطیاں سن کر سخت رنج ہوا۔ میں نے وعظ میں صرف یہ گذارش کردی کہ اذان صحیح نہیں ہے اذان کی اصلاح ہونی چاہیے۔ بعد میں کمیٹی کے کسی صاحب نے دریافت کیا کہ صاحب وہ کیا غلطیاں ہوئیں ہیں ذرا ہم کو بتادیجئے میں نے کہا بہت اچھا سنئے۔

(۱) اﷲ کو اتنا کھینچا جس کو کوئی قاعدہ نہیں شرح وقایہ میں دیکھئے تلحین و ناجائز لکھا ہے۔

(۲) لا الہ میں الہ کو ۲ مد کے برابر کھینچا۔

(۳) رسول میں وائو کو کھینچا جس سے مد پیدا ہوا۔

معلوم ہوا کہ موذن صاحب کی تنخواہ صرف ۶۰ روپے ہے بتائیے پھر اتنی معمولی تنخواہ میں بڑھیا موذن کیسے مل جاوے گا۔ افسوس کہ اس زمانے میں وکیل بڑھیا ہو، ڈاکٹر بڑھیا ہو، انگریزی پڑھانے کا استاد بڑھیا، مگر موذن اور قرآن پڑھانے والا استاد سستا ہو۔ دنیاوی تعلیم کا مدرس بڑھیا اور اس کی تنخواہ بھی زیادہ اور قرآن پاک جو احکم الحاکمین کا کلام ہے اس کے لیے استاد سستا والا۔ اصلی گھی تو زیادہ پیسے سے ملتا ہے اور سستا مال تو ڈالڈا ہی ہوگا۔

ایک جگہ حاضری ہوئی تو اذان اس قدر جلدجلد دی کہ درمیان میں اتنا موقع ہی نہ دیا کہ اذان کا جواب دیا جاسکے۔

آج کل مسجد کے جسم پر توجہ ہے اور روح پر نہیں۔ معلوم کیا کہ مسجد کتنے میں تعمیر ہوئی تو معلوم ہوا ۲ لاکھ کی تعمیر ہوئی۔

میں نے عرض کیا کہ مسجد تو ۲ لاکھ کی اور موذن ۶۰ روپیہ کا۔

ایک مسجد میں تکبیر موذن صاحب نے اس طرح کہا حی علی الصلوٰۃِ حی علی الصلوٰۃ حی علی الفلاحِ حی علیٰ الفلاحاور کسی کو فکر بھی نہیں، اذان اور تکبیر کو غور سے سننے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے۔

تکبیر کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ ایک سانس میں ۴؍ مرتبہ اﷲ اکبر کہے پھر ایک سانس میں اشہدان لا الہ الا اﷲ اشہد ان لا الہ الا اﷲ کہے، پھر ایک سانس میں اشہد ان محمداً رسول اﷲ اشہد ان محمداً رسول اﷲ کہے پھر ایک سانس میں حی علی الصلوٰۃ حی علی الصلوٰۃ کہے اور پھر ایک سانس میں حی علیٰ الفلاح، حی علیٰ الفلاح، کہے اور پھر ایک سانس میں اﷲ اکبر، اﷲ اکبر لا الا الہ اﷲ کہے۔

ایک غلطی قراء کرام یہ کرتے ہیں کہ یہاں بھی تجوید کا قاعدہ جاری کرتے ہیں مثلاً اشہد ان لا الہ الا اﷲ اشہد ان لا الہ الا اﷲ، اشہد ان محمداً رسول اﷲ، اشہد ان محمداً رسول اﷲ حی علی الصلوٰۃ حی علی الصلوٰۃ کہتے ہیں حی علی الفلاح حی علی الفلاح یعنی پہلے کلمہ کے آخری حرف کے اعراب کو ظاہر کرتے ہیں اور دوسرے کلمہ کے آخر حرف پر جزم پڑھتے ہیں حالانکہ یہاں قرأت کا قاعدہ جاری کرنا ممنوع ہے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں الا ذان جزمٌ والاقامۃ جزمٌ والتکبیر جزمٌ اور ایک روایت میں التکبیر جزم والتسمیع جزمٌ ہے۔ (شامی ،ج۱؍ صفحہ ۳۲۳)

ایک جگہ حاضری ہوئی مسجد بہت شاندار لیکن امام صاحب نے جب نماز پڑھائی تو بے حد صدمہ ہوا امام صاحب نے سورہ ناس اس طرح پڑھائی من الجنات والنس حروف کی صحت نہایت ضروری ہے اب تو بیعت کرتے وقت احقر عہد لیتا ہے کہ تلاوت مع الصحت کروں گا۔

حضرت حکیم الامت مولانا تھانویؒ نے جمال القرآن کے اندر لحن جلی کو حرام لکھا ہے یعنی اگر صاد کو سین پڑھ دیا یا ذال کو زا پڑھ دیا وغیرہ صرف ۲؍ مہینہ اور صرف دس منٹ انسان محنت کرت کسی قاری صاحب کے پاس تو انشاء اﷲ تعالیٰ بقدر ضرورت تلاوت صحیح کرسکے گا۔ تھانہ بھون میں بعض بڑے بڑے محدث اور مفسر کو بھی نورانی قاعدہ پڑھنا پڑا۔ آج ہمارے مشایخ کے یہاں بھی اس کا اہتمام ہونا چاہیے کہ خود بھی تلاوت مع الصحت کا اہتمام ہو اور طالبین کو بھی توجہ دلائیں مراقبہ اور استغراق اور وظائف اور حقائق و معارف کے ساتھ ایسے ضروری امور کا بھی اہتمام ضروری ہے۔ یہ حق تعالیٰ کی عظمت کا حق ہے کہ ان کے کلام کی عظمت ہو اور عظمت کلام کا حق ہے کہ صحت حروف کے ساتھ تلاوت ہو۔ اﷲ تعالیٰ کے کلام کو بے فکری اور کاہلی اور سستی سے صحیح نہ پڑھنا کس قدر گستاخی ہے اور اندیشہ مواخذہ کا ہے تصوف کا ایسا غلبہ کہ شریعت کے مسائل کا اہتمام نہ رہے یہ بہت خطرناک حالت ہے۔ اور اگر مغلوب الحال ہے تو مقتدا بنانا ایسے مغلوب کو جائز نہیں۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے ؎

خواجہ پندارد کہ دارد حاصلے

حاصلِ خواجہ بجز پندار نیست

ارشاد فرمایا کہ دعا نہ قبول ہونے کا سبب حدیث میں یہ بھی مذکور ہے کہ اگر امر بالمعروف و نہی عن المنکر بھلائی کا پھیلانا اور برائی سے روکنا امت میں جاری نہ رہا تو عذاب عام میں ابتلا ہوگا اور دعا بھی قبول نہ ہوگی۔

ارشاد فرمایا کہ ایک صاحب نے کہا کہ فلاں شادی میں شرکت سے بڑا صدمہ ہوا فوٹو کھینچے گئے اور ریکارڈنگ بھی ہوئی گانا بجانا اور تصویر کھنچانے کے گناہ میں ہم بھی مبتلا ہوگئے۔ وہاں سے اٹھنے میں خاندان کے لوگوں کا لحاظ اور دبائو معلوم ہوا میں نے کہا اچھا اگر شادی والے ایک خوبصورت پلیٹ میں چاندی کے ورق کے ساتھ مکھی کی چٹنی پیش کرتے تو آپ خاندان کے لحاظ اور دبائو سے کھالیتے یا نہیں یا اٹھ کر چلے آتے؟ کہنے لگے اٹھ کر چلا آتا فرمایا کہ پھر حسی منکر کے ساتھ جو معاملہ ہے کم از کم وہی معاملہ شرعی منکر سے بھی کیجئے۔ ایک صاحب نے کہا کہ مکھی کی چٹنی تو طبعی منکر بھی ہے طبعی کراہت معلوم ہوتی ہے اور گناہوں سے اس طرح کی طبعی کراہت نہیں معلوم ہوتی میں نے کہا اچھا سنکھیا اگر کھلایا جاوے کسی شادی میں تو آپ کھالیں گے کیا سنکھیا بھی طبعی منکر ہے طبعی کراہت تو اس سے نہیں ہوتی پس جس طرح یہ عقلی منکر آپ نہیں کھا سکتے اسی طرح گناہ کے ساتھ معاملہ کیجئے۔

(جاری ہے۔)

ظظظظظ
Flag Counter