Deobandi Books

ماہنامہ الابرار جولائی 2010

ہ رسالہ

10 - 14
قرآن پاک کی نظر میں بےوقوف کون ہیں؟
ایف جے،وائی(July 14, 2010)

شیخ العرب العجم عارف باللہ حضرت اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم کا یہ بیان ۱۴؍ ذوقعدہ ۱۴۰۸؁ھ مطابق یکم جولائی ۱۹۸۸؁ء بروز جمعہ بوقت گیارہ بجے صبح مسجد اشرف گلشن اقبال کراچی میں ہوا (ادارہ)

اَلحَمدْ لِلہِ وَکَفٰی وَسَلاَ م عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِینَ اصطَفٰی اَمَّا بَعدْ

فَاَعْوذْ بِاللہِ مِنَ الشَّیطٰنِ الرَّجِیمِ

بِسمِ اللہ ِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ

وَ ذَرْوا ظَاھِرَ الاِثمِ وَ بَاطِنَہ وَ قَالَ تَعَالٰی اِن اَولِیَاء ْ ہ اِلَّا المْتَّقْونَ وَقَالَ رَسْولْ اللہِ صَلَّی اللہْ تَعَالٰی عَلَیہِ وَسَلَّمَ لَا بَاسَ بِالغِنَاء ِ لِمَنِ اتَّقَ اللہَ عَزَّوَجَلَّ وَقَالَ رَسْولُ اللہِ صَلَّی اللہْ تَعَالٰی عَلَیہِ وَسَلَّمَ

مَنِ اتَّقَ اللہَ صَارَ اٰمِنًا فِی بِلَادِہ

اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا فرمان اور سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات ابھی آپ کو سنائے جائیں گے لیکن اس سے پہلے ایک سنت کی تعلیم دیتا ہوں۔ جب چراغ بجھ جاتا تھا تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اِنَّا لِلہِ پڑھتے تھے، کانٹا چبھ جائے، جوتے کا تسمہ ٹوٹ جائے یا چراغ بجھ جائے ان سب مواقع پر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے اِنَّا لِلہِ پڑھنا ثابت ہے۔ علامہ آلوسی السید محمود بغدادی نے اپنی کتاب تفسیر روح المعانی میں اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّا اِلَیہِ رَاجِعْونَ کی تفسیر میں یہ حدیث بیان فرمائی ہے:

کْلّْ مَا یُؤذِی المْومِنَ فَھْوَ مْصِیبَۃٌ لَہ وَ اَجر

ہروہ چیز جس سے مومن کو تکلیف پہنچے مصیبت ہے اور اس پر مومن کے لیے اجر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ مومن کو جب کوئی مصیبت پہنچے تو وہ اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّا اِلَیہِ رَاجِعْونَ پڑھ لے۔ آج کل تو لوگ موت ہی پر اِنَّا لِلہِ پڑھتے ہیں، اگر کسی اور موقع پر کسی نے اِنَّا لِلہِ پڑھ لیا تو سب گھبرا جاتے ہیں کہ بھئی کس کا انتقال ہوگیا حالانکہ یہ بات نہیں ہے بلکہ جو بات مومن کو تکلیف دے وہ مصیبت ہے اور اس پر اِنَّا لِلہِ پڑھنا سنت ہے۔

سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم ان مواقع پر اِنَّا لِلہِ پڑھا کرتے تھے، عِندَ انطِفَاء ِ السِّرَاجِ، انطفاء بجھنے کو کہتے ہیں یعنی چراغ کے بجھنے پر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اِنَّا لِلہِ پڑھا کرتے تھے، وَ عِنْدَ لَسعِ البَعْوضَۃِ جب مچھر کاٹتا تھا تو اس وقت بھی اِنَّا لِلہِ پڑھتے تھے، عِندَ انقِطَاعِ الشَّسَعِ جوتے کا تسمہ ٹوٹنے پر اِنَّالِلہِ پڑھتے تھے، اسی طریقے سے عِندَ لَدغِ الشَّوکَۃِ کانٹا چبھ جانے پر بھی آپ اِنَّا لِلہِ پڑھتے تھے۔ غرض آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے چھوٹی چھوٹی تکلیف پر اِنَّا لِلہِ پڑھا ہے۔

چونکہ میں نے یہ حدیث سنی ہوئی تھی لہٰذا جب ہمارے یہاں بجلی فیل ہوتی ہے تو میں اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّا اِلَیہِ رَاجِعْونَ کی سنت ادا کرتا ہوں، بجلی فیل ہونے سے گھر میں جو اندھیرا ہوتا ہے اس اندھیرے میں یہ سنت ادا کرنے سے اس سنت کا نور ہمارے دل میں غالب ہوجاتا ہے اور دل میں ایک ٹھنڈک سی محسوس ہوتی ہے اور جو اس سنت پر عمل نہیں کرتے جیسا میں نے بعض لوگوں کو دیکھا کہ جب بجلی فیل ہوئی تو کے ای ایس سی والوں کو گندی گندی گالیاں دیتے ہیں۔ اب فرق دیکھئے! کچھ لوگ کے ای ایس سی والوں کو گالیاں دے رہے ہیں اور کوئی سنت ادا کررہا ہے۔ تو تربیت یافتہ اور غیر تربیت یافتہ انسان میں کتنا فرق ہوجاتا ہے۔ جس کو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے نوازتے ہیں اس کا غم بھی اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ بن جاتا ہے، بجلی فیل ہونے سے غم ہوتا ہے، تکلیف ہوتی ہے مگر سنت کی اتباع کی برکت سے وہ تکلیف بھی لذیذہوجاتی ہے

آلامِ روزگار کو آساں بنا دیا
جو غم ملا اْسے غمِ جاناں بنا دیا

آلام جمع ہے الم کی، اللہ تعالیٰ سے جب تعلق نصیب ہوتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اپنے بندے کے ہر غم کو لذیذ کردیتے ہیں۔ جیسے کڑوے خربوزے کو سکرین لگی چھری سے کاٹو تو سارا خربوزہ میٹھا ہوجاتا ہے، اور یہ سکرین کس نے پیدا کی؟ اللہ تعالیٰ نے۔ جب شکر میں یہ خاصیت ہے کہ وہ کڑوے خربوزے کو میٹھا کردیتی ہے تو اللہ تعالیٰ جو شکر کا خالق ہے ان کا نام لینے میںیہ خاصیت نہ ہوگی کہ ہمارے غم کو میٹھا کردے؟ افسوس کہ آج ہم اپنی مٹھاس کو اللہ کی نافرمانیوں میں تلاش کررہے ہیں، کم از کم یہ احساس تو ہو نا چاہیے کہ خدائے تعالیٰ کی نافرمانیوں میں سوائے عذاب کے، اللہ کے غضب اور بے چینی کے کچھ نہ ملے گا۔

اگر گناہوں کا مرض شدید ہو تو مجاہدہ کرو، جس کو کوڑھ ہوجاتا ہے تو کیا وہ خود کشی کرلیتا ہے؟ اگر مرض جلد اچھا نہیں ہوتا تو بھی صبر سے علاج کرتا ہے۔ اسی طرح اگر نظر بچانے میں شدید تکلیف ہو تو مجاہدہ کرو۔ مولانا اسعد اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ شیخ الحدیث مظاہر العلوم سہارنپور حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ اور میرے شیخ ابرار الحق صاحب دامت برکاتہم کے استاذ جو شاعر بھی تھے اور بڑے ہی اللہ والے تھے، وہ فرماتے ہیں کہ لوگ مجبوریوں کا بہانہ کردیتے ہیں کہ صاحب آج کل بہت مشغولی ہے اس لیے ذکر چھوٹا ہوا ہے، ان سے کہہ دو کہ آج مشغولی کی وجہ سے روٹی بھی چھوڑ دو، اس نے مشغولی میں ناشتہ کیوں نہیں چھوڑا؟ جسمانی غذا کو تو نہیں چھوڑا مگر جس روح کے صدقے میں آج چائے انڈا کھا رہے ہیں اس روح کو ناشتہ نہ کرانا، اس کو اللہ کے ذکر کی غذا نہ دینا روح کو مردہ کرنا ہے۔ اسی کو مولانا اسعد اللہ صاحب فرماتے ہیں

گوہزاروں شغل ہیں دن رات میں
لیکن اسعد آپ سے غافل نہیں

یہی تو اﷲ والوں کا کمال ہے کہ دنیا کے ہزاروں شغل میں بھی اﷲ کو یاد رکھتے ہیں۔ دیکھو! ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ ایک لاکھ حدیث کے حافظ، چودہ جلدوں میں بخاری شریف کی شرح فتح الباری لکھی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے اولیاء کا ذکر فرشتوں کے ذکر سے افضل ہے، یہ بخاری شریف کی شرح فتح الباری کی عبارت نقل کررہا ہوں۔ وہ پیری مریدی یا وہ تصوف جو قرآن و حدیث کی تفسیروں سے اور شرحوں سے ثابت نہ ہو، اللہ کے کلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں جو تصوف نہ ہو وہ تصوف مقبول نہیں ہے۔ تصوف تو نام ہے اللہ کی عبادت میں محبت کی چاشنی ملادینے کا۔

جو عبادت خشک ہو جس میں محبت کی چاشنی نہ ہو اس کی مثال ایسی ہے جیسے چاول بغیر سالن کے۔ میرے شیخ شاہ عبد الغنی پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ پورب کا ایک مجذوب اللہ تعالیٰ کے قرب اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کی لذت سے کچھ دن کے لیے محروم کردیا گیا، اس حالت کا نام حالتِ قبض ہے۔ تو وہ مجذوب روتا تھا اور اپنی پوربی زبان میں کہتا تھا کہ’’ دلیا بنا بھتوا اداس موری سجنی‘‘ یعنی دال کے بغیرمیرا چاول بے مزہ ہے۔

سالک پر دو حالتیںپیش آتی ہیں حالتِ قبض اور حالتِ بسط۔ حالتِ بسط میں عبادت میں مزہ آتا ہے جبکہ حالتِ قبض میں دل گھبرایا گھبرایا سا رہتا ہے، عبادت میں مزہ نہیں آتا مگر حالتِ قبض کا درجہ حالتِ بسط سے زیادہ ہے کیونکہ حالتِ قبض میں ناز ٹوٹ جاتا ہے، عجب و تکبر ٹوٹ جاتا ہے، آدمی کہتا ہے کہ ہائے ہم تو کچھ بھی نہیں، اپنی عبادت کو بالکل ہی حقیر نظروں سے دیکھتا ہے کہ ہائے یہ میں کیا کرتا ہوں۔ تو مزہ نہ آنے سے ناز و عجب ٹوٹ جاتا ہے لیکن پھر بھی وہ استقامت کے ساتھ رہتا ہے۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے امتحان ہوتا ہے کہ یہ بندہ عبد اللطف ہے یا عبداللطیف ہے یعنی مزے کا غلام ہے یا ہمارا غلام ہے، جب اس کو مزہ ملتا ہے تب ہمارا نام لیتا ہے جب مزہ نہیں ملتا تو ہماری غلامی کو چھوڑ دیتا ہے، یہ امتحان ہوتا ہے۔ اسی لیے علامہ ابوالقاسم قشیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جس شخص کی دعا فوراً قبول ہوگئی ابھی مانگا اور شام تک قبول ہوگئی، اب وہ مارے شکریہ کے خوب عبادت کررہا ہے لیکن لَقَد قَامَ بِحَظِّ نَفسٍ یہ اللہ کے سامنے اپنے نفس کی خوشی کی وجہ سے کھڑا ہے اور جس کی دعا قبول نہیں ہوئی، غمزدہ آدمی ہے، شکستہ دل ہے، ٹوٹا ہوا دل ہے وہ اگرچہ نامراد اور ناشگفتہ ہے مگر

وہ نامراد کلی گرچہ ناشگفتہ ہے

ولے وہ محرمِ رازِ دل شکستہ ہے

یہ میرا شعر ہے۔ اب آپ کو ٹوٹے ہوئے دل کی قیمت معلوم ہوئی۔ حدیثِ قدسی ہے:

اَ نَا عِندَ المْنکَسِرَۃِ قْلْوبُھُم

(مرقاۃْ المفاتیح، کتابْ الجنائز، باب عیادۃ المریض)

اس حدیث کی تطبیق اور سند کی تائید محدثِ عظیم ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب میں کی ہے اور لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں ٹوٹے ہوئے دل میں رہتا ہوں۔ یہ جو لوگ پوچھتے ہیں کہ اللہ میاں نے خواہشات کیوں پیدا کیں جب ان کو توڑنا تھا؟ اس کا جواب اسی حدیث میں موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے دل میں تقاضے اور خواہشات اس لیے پیدا کیں کہ ان میں جو تقاضے اور خواہشات اللہ کی مرضی کے خلاف ہیں بندہ ان کو توڑ دے یعنی اپنے دل کو توڑدے اور اس ٹوٹے ہوئے دل میں اللہ کو حاصل کرتا رہے۔ خواجہ عزیز الحسن مجذوب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں

نہ گھبرا کوئی دل میں گھر کر رہا ہے

مبارک کسی کی دل آزاریاں ہیں

اور فرمایا کہ اﷲ کی یاد کے صدقے میں غموں کا کیا حال ہوتا ہے؟ جو اللہ کو یاد کرتے ہیں ان کے غم بھی میٹھے کردئیے جاتے ہیں۔ فرماتے ہیں ؎

سوگ میں یہ کس کی شرکت ہوگئی

بزمِ ماتم بزمِ عشرت ہوگئی

اللہ کے نام کے صدقے میں اللہ کے راستے کے غم بھی لذیذ ہوجاتے ہیں لیکن اگر غم میں کسی اﷲ والے کے آنسو نکل آئیں تو یہ نہ سمجھو کہ یہ باباکے دعویٰ کے خلاف ہے کیونکہ یہ تو رو رہے ہیں۔ حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے مصیبت میں رونا بھی ثابت ہے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے حضرت ابراہیم کا انتقال ہوا تو سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم رو رہے تھے اور فرمارہے تھے اِنَّا بِفِرَاقِکَ یَااِبرَاھِیمُ لَمَحزْونْونَ اے ابراہیم! میں تمہاری جدائی سے غمزدہ ہوں اور آپ کے آنسو بہہ رہے تھے لیکن دل میں اللہ کی تسلیم سے چین ہوتا ہے، لطف ہوتا ہے، لذت ہوتی ہے۔

اس لیے میرے دوستو! تسلیم کی برکت سے جب اللہ کی مرضی پر بندہ راضی رہتا ہے تو جیسے کوئی مرچ والا کباب کھائے اور مرچوں کی وجہ سے سی سی کرے اور آنکھوں سے آنسو بھی جاری ہوں اور جو پاس بیٹھا ہو وہ یہ کہے کہ آپ تو مصیبت زدہ معلوم ہورہے ہیں، آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں، یہ کباب آپ کیوں نوش کررہے ہیں؟ اس بلا کو چھوڑ دیجئے۔ تو وہ کہے گا کہ بیوقوف یہ بلا نہیں ہے، یہ آنسو مزے کے ہیں، لذت کے ہیں، یہ مصیبت کے آنسو نہیں ہیں ،اللہ والے اگر کبھی رو بھی پڑیں تو ان کی آنکھیں روتی ہیں دل تسلیم ورضا کی لذت سے مست ہوتا ہے ؎

حسرت سے میری آنکھیں آنسو بہا رہی ہیں

دل ہے کہ ان کی خاطر تسلیمِ سر کیے ہوئے

آرزو کے شکست ہونے سے آنسو بہہ سکتے ہیں کہ مراد پوری نہیں ہوئی لیکن علامہ ابو القاسم قشیری رحمۃ اللہ علیہ جو بہت بڑے اولیاء اللہ میں سے ہیں اور حضرت علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ جو لاہورمیں مدفون ہیں ان کا اور علامہ ابو القاسم قشیری کا زمانہ ایک تھا۔ تو وہ فرماتے ہیں کہ جس کی دعا قبول نہیں ہوئی، آرزو کی تھی مگر اللہ نے بظاہر وہ آرزو پوری نہیں کی یعنی جو دعا مانگی تھی اس کا ظہور نہیں ہوا، لیکن پھر بھی اللہ کی عبادت کیے جارہا ہے یہ اللہ تعالیٰ کا بہت محبوب بندہ ہے، اللہ کے نزدیک اس کا بہت بڑا درجہ ہے۔

مومن کی کوئی دعا رد نہیں ہوتی، محدثین لکھتے ہیں کہ دعاکی قبولیت کی چار قسمیں ہیں، چاہے تو جو مانگا اﷲ وہی دے دیں، کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اس سے بہتر چیز عطا کر دیتے ہیں، کبھی دنیا میں نہیں دیتے آخرت میں اس کا بدل دے دیتے ہیں اور کبھی اس کے بدلے میں کوئی بلا و مصیبت ٹال دیتے ہیں۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی قبولیت کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ دعا فوراً قبول ہوجاتی ہے کیونکہ اﷲ تعالیٰ ارشاد فرما رہے ہیں اْدعْونِی اَستَجِب لَکْم ہم سے مانگو، ہم قبول کریںگے۔

لیکن قبولیت کی شکلیں مختلف ہوتی ہیں جو ابھی بیان ہوئیں جو زبانِ نبوت سے اس آیت کی تفسیر ہے اس کی وضاحت کے لیے ایک مثال بھی سن لیجیے کہ جیسے بچہ ابا سے اسکوٹر مانگتا ہے اور ابا کار خرید دیتا ہے تو کیا اس کی درخواست قبول نہیں ہوئی؟ بیٹے نے سو روپیہ مانگا ابا نے پانچ سو روپیہ دے دیا تو کیا اس کی یہ بات قبول نہیں ہوئی؟ تو کبھی اللہ تعالیٰ وہ چیز نہیں دیتے جو بندہ مانگتا ہے بلکہ اس سے بہتر چیز دے دیتے ہیں اور کبھی اللہ تعالیٰ دیر سے دیتے ہیں تاکہ بہت دن تک ہم سے دعائیں مانگتا رہے، ہماری چوکھٹ پر گڑگڑاتا رہے، روتا رہے ورنہ جہاں دعا قبول ہوئی فوراً یہ جا، وہ جا۔ اور کبھی اللہ تعالیٰ اس دعا کا بدلہ قیامت کے دن دیںگے اور اتنا دیں گے کہ حکومتِ سعودیہ بھی اتنا بدلہ نہیں دے سکتی۔ جب حرم کی توسیع ہوتی ہے (اس میں دونوں حرم شامل ہیں خواہ مدینے کا حرم ہویا مکہ شریف کا ہو) تو اس توسیع میں اگر کسی کا مکان آجاتا ہے تو حکومتِ سعودیہ ایک لاکھ ریال کے مکان کے بدلے پچاس لاکھ ریال دیتی ہے، اتنا دیتی ہے کہ لوگ تمنائیں کرتے ہیں کہ کاش میرا مکان حکومت کی توسیع میں آجائے۔

شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ پوچھیں گے کہ اے میرے بندے تیری کون کون سی دعائیں قبول نہیں ہوئیں جو تو نے دنیا میں مانگی تھیں پھر اللہ تعالیٰ اس کا اتنا بدلہ دیں گے کہ یہ شخص کہے گا کہ کاش دنیا میں میری کوئی دعا قبول ہی نہ ہوئی ہوتی۔ اس لیے اگر دعا کا ظہور نہیں ہورہا تو دل چھوٹا نہیں کرنا چاہیے، اﷲ سے مانگنا ہی کیا کم لطف ہے جو آپ دعا کے ظہور ہونے کا بھی انتظار کررہے ہیں۔ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎

از دعا نبود مرادِ عاشقاں

جز سخن گفتن بآں شیریں دہاں

دعا مانگنے سے بہت سے عاشقوں کی مراد سوائے اس کے کچھ نہیں ہوتی کہ اسی بہانے اس محبوبِ حقیقی سے لذت مناجات اور گفتگوکا موقع مل جاتا ہے، اللہ کے عاشق انتظار نہیں کرتے کہ دعا کب قبول ہوگی، وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دعا مانگنے ہی میں مست ہوتے ہیں، اﷲ کے ساتھ مناجات کی لذت میں ان کو اتنا مزہ آتا ہے کہ خواجہ صاحب فرماتے ہیں ؎

امید نہ بر آنا امید بر آنا ہے

ایک عرضِ مسلسل کا کیا خوب بہانہ ہے

اللہ تعالیٰ سے مسلسل دعاوں کے لیے ان کے حضور ہمارے ہاتھ اْٹھتے رہیں یہ کیا کم اعزاز ہے۔ ڈاکٹر عبدالحی صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ جب مومن دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتا ہے، تو یہ ہاتھ خدا کے سامنے ہوتے ہیں اور ساری کائنات ان کے نیچے ہوتی ہے، کیا بات فرمائی سبحان اللہ! دعا مانگنے والے کا یہ مقام میں نے حضرت ڈاکٹر صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے خود سنا فرمایا کہ جب بندہ دعا کے لیے اﷲ تعالیٰ کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہے تو ساری کائنات اس کے ہاتھوں کے نیچے ہوتی ہے اور وہ خداکے سامنے ہوتا ہے، کیا یہ کم نعمت ہے؟ ہاں! اللہ سے امید رکھے کہ شاید اب قبول ہوجائے، شاید اب قبول ہوجائے۔

تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اُدعْونِی اَستَجِب لَکْممجھ سے مانگو، میں قبول کروں گا۔ سرورِعالم صلی اللہ علیہ وسلم جن پر قرآن نازل ہوا، جن کی ذاتِ پاک اور ذاتِ گرامی پر یہ آیت نازل ہوئی اْن ہی نے اس کی تفسیر بیان فرمائی۔ اگر کوئی کہے کہ صاحب ہم نے تو بہت دعا مانگی لیکن ہماری دعا تو قبول نہیں ہوئی تو نعوذباللہ کیا قرآن غلط ہو جائے گالہٰذا یہ سب قبولیت کی قسمیں ہیں، ہوسکتا ہے جو مانگا ہے اﷲ تعالیٰ اس سے بہتر دے دیں۔ مثال کے طور پر کوئی شخص کہتا ہے کہ اللہ میاں ہماری شادی بہت حسین عورت سے ہوجائے

نازْکی اْس کے لب کی کیا کہیے

پنکھڑی ایک گلاب کی سی ہے

وہ اللہ میاں کو دیوانِ غالب پیش کررہا ہے،کہ مجھے ایسی بیوی چاہیے، چہرہ کتابی چاہیے جیسے اخباروں میں رشتے کے طالبین لکھتے ہیں کہ چہر ہ کتابی ہونا چاہیے لیکن اللہ نے اس معیار کی حسین بیوی نہیں دی بلکہ اس کے بدلے دیندار بیوی دے دی۔ اسی لیے حدیث میں ہے کہ دین کو زیادہ اہمیت دو حسن کو زیادہ اہمیت مت دو کیونکہ حسن عارضی ہے جبکہ سیرت سے ساری زندگی سابقہ پڑے گا۔ اگر بیوی سیر ت کی کٹکھنی ہے، تو تو کرنے والی ہے تو بھی صبر سے کام لو، صورت کب تک رہے گی، چند بچے ہوجانے کے بعد صورت میں تبدیلی ہوجاتی ہے پھر آخر میں سیرت ہی سے پالا پڑے گا لہٰذا جس میں دین زیادہ ہو اس کو تر جیح دو اور اگر دونوں چیزیں ہیں تو پھر سبحان اللہ۔

لیکن میرے دوستو! بعض نالائق اور بددین لوگ حسن کو اتنی اہمیت دیتے ہیں کہ چاہے فلم ایکٹر ہو، چاہے بے پردہ اور مخلوط تعلیم سے اس کے بالکل ہی اخلاق نہ ہوں مگر ایک نظر دیکھا اور پاگل ہوگئے، یہ شخص واقعی پاگل ہے جو صورت کو دیکھتا ہے اللہ کے تعلق کو نہیں دیکھتا۔ اس کو یہ دیکھنا چاہیے کہ بیوی کو اللہ تعالیٰ سے کتنا تعلق ہے، وہ تلاوت کرتی ہو، نماز پڑھتی ہو، دیندار ہو ورنہ اگر شوہر بیمار پڑ گیا تو بھاگ گئی، شوہر پر فالج گر گیا تو ایک دو تین ہوگئیں، جب دیکھا کہ شوہر بے کار ہوگیا ہے تو طلاق لے کر دوسرے سے شادی کرلی۔ اس لیے اگر وفاداری چاہیے تو دین دیکھو۔

امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں آپ کو معلوم ہے کہ کتنے حسین تھے۔ علامہ شامی ابن عابدین رحمۃ اللہ علیہ کتاب الحظر و الاباحۃ جلد نمبر پانچ میں لکھتے ہیں کہ امام محمد اتنے خوبصورت تھے کہ ان کی طالبِ علمی کے زمانے میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ان کو اپنے پیچھے بٹھاتے تھے تاکہ ان پر نظر نہ پڑے، نظر کی حفاظت کرتے تھے، اَنَّ اَبَاحَنِیفََۃَ رَحِمَہْ اللہُ تَعَالٰی کَانَ یُجلِسُ اِمَامَ مْحَمَّدٍ فِی دَرسِہ خَلفَ ظَہرِہ مَخَافۃ عَینِہ مَعَ کَمَالِ تَقوَاہ یعنی امام ابوحنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ کمالِ تقویٰ کے با وجود امام محمد رحمۃ اﷲ علیہ کو اپنے درس میں پیچھے بٹھاتے تھے، آ نکھوںکی چوریوں کے خوف سے کہ کہیں آنکھیں خیانت نہ کر جائیں۔ علامہ شامی امام ابو حنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ کے کمالِ تقویٰ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ جس نے چالیس برس عشاء کے وضوء سے فجر کی نماز پڑھی ہو اس کے بارے میں کیا سو چ سکتے ہو؟ لیکن دیکھ لیں کہ یہ ان حضرات کا تقویٰ تھا، یہ چاہتے تھے کہ آنکھوں سے کسی قسم کی خیانت کا شائبہ بھی نہ ہو، یہ اْمت کوسبق دے گئے۔

آج کل لوگ کہتے ہیں کہ ہم اتنی نظر بچائیں گے تو لوگ کہیں گے کہ کوئی بیمار طبیعت کاآدمی معلوم ہوتا ہے، اس میں قوتِ ضبط نہیں ہے حالانکہ یہ سب حماقت کی باتیں ہیں۔ بتائیے! آج اس تقویٰ کی بدولت امام صاحب کی تعریف ہورہی ہے یابدنامی ہورہی ہے؟ تعریف ہورہی ہے کہ نہیں۔ اس لیے سمجھ لو کہ جو اساتذہ اپنے شاگردوں سے احتیاط کرتے ہیں وہی شاگرد بڑے ہوکر استاد کی تعریف کرتے ہیںکہ ہمارے استاذ نے بچپن میں ہم کو آنکھ اْٹھا کر نہیں دیکھا، احتیاط کی۔

امام محمد رحمۃ اﷲ علیہ نے شادی کے بعد چھ کتابیں لکھیں سیر کبیر، سیر صغیر، جامع کبیر، جامع صغیر، مبسوط، زیادات۔ یہ چھ کتابیں حیدر آباد دکن کی لائبریری میں موجود ہیں، ممکن ہے یہاں بھی بڑے بڑے کتب خانوں میں ہوں۔ تو ایک دن امام محمد کے ایک شاگرد ان کا کھانا لینے ان کے گھر گئے تو کسی طرح ان کی نظر امام صاحب کی زوجہ پر پڑ گئی تو دیکھا کہ اپنے استاذکے چہرے کی بہ نسبت بیوی کا بالکل ہی عجیب حلیہ کا جغرافیہ ہے۔ بس روتا ہوا آیا اور کہا کہ استاذ اگر اجازت ہوتو ایک بات عرض کروں، آج استانی صاحبہ پر اچانک نظر پڑگئی، میں نے قصداً نہیں دیکھا، اچانک نظر پڑگئی لیکن اب میں رو رہا ہوں کہ آپ کی قسمت کیسی ہے ؟ آپ کیسے دن گذار رہے ہیں، کس طریقے سے آ پ کے دن کٹتے ہیں، آپ نے اس کا خیال کیوں نہیں کیا کہ جیسا اللہ نے آ پ کو حسن دیا ہے آپ نے ویسی شادی کیوں نہیں کی؟ تو امام صاحب ہنسے اور فرمایا کہ بھئی جوڑے تقدیر سے بنتے ہیں، قضاء اور قدر سے ہوتے ہیں لیکن یہ سوچوکہ میں جو یہ چھ کتابیں لکھ رہاہوں جن کا تم لوگ مجھ سے سبق پڑھ رہے ہو تو اگر میری بیوی بہت زیادہ حسین ہوتی تو اس وقت میں اپنی بیوی سے بات چیت کررہا ہوتا، تم دروازہ کھٹکھٹاتے تو میں کہتا کہ میں بہت بزی (busy)ہوں، بہت ضروری مشغلے میں مشغول ہوں اور جب اس کے سر میں درد ہوتا تب صبر نہ کرسکتا کیونکہ میں بھی مرنے لگتا۔ آج جو میں یہ بڑی بڑی کتابیں تصنیف کررہا ہوں تو ان کتابوں کو لکھنے کے لیے وقت اور فراغِ دل چاہیے۔ اس کے بعد امام صاحب نے ایک جملہ ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جس کو اپنے لیے قبول کرتے ہیں اس کو مٹی کے کھلونوں میں مشغول نہیں ہونے دیتے۔ یہ اس عظیم الشان فقیہ کے عظیم الشان الفاظ ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا دین اتنا قیمتی ہے کہ اس پر نبیوں کے سر کٹے ہیں، سید الانبیاء کا خون بہا ہے اور سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے دندانِ مبارک دامنِ اْحد میں شہید ہوئے ہیں۔

(جاری ہے۔)

ظظظظظ
Flag Counter