Deobandi Books

ماہنامہ الابرار جولائی 2010

ہ رسالہ

5 - 14
لطائف و معارف سورہ فاتحہ
ایف جے،وائی(July 14, 2010)

(گذشتہ سے پیوستہ)

سوال یہ ہے کہ سب تعریفیں اﷲ ہی کے لیے ہیں لیکن ہم کو اﷲ کی پہچان کیسے ہوگی کیونکہ ا ﷲ کو ہم دیکھ نہیں سکتے تو آگے فرماتے ہیں کہ رب العلمین میں سارے عالم کا رب ہوں میری ربوبیت سے مجھے پہچانو۔ رب کے معنیٰ ہیں تربیت کرنے والا، پرورش کرنے والا:

اَلَّذِیْ یَجْعَلُ النَّاقِصَ کَامِلاً شَیْئاً فَشَیْئاً اَیْ عَلٰی سَبِیْلِ التَّدْرِیْجِ

جو ناقص کو آہستہ آہستہ کامل بنا دے، بچہ چھوٹا سا پیدا ہوتا ہے اﷲ تعالیٰ کی ربوبیت سے آہستہ آہستہ پندرہ سال کا جوان ہو جا تا ہے، زمین میں آپ درخت کا بیج ڈالتے ہیں جس سے چھوٹا سا پودا نکلتا ہے جو آہستہ آہستہ پورا درخت بن جاتا ہے اسی طرح سلوک میں ترقی آہستہ آہستہ ہوتی ہے، بعض لوگ چاہتے ہیں کہ آج ہی سلسلہ میں داخل ہوئے اور آج ہی جنید بغدادی بن جائیں اس لیے جلد بازی اور تعجیل مناسب نہیں۔ اﷲتعالیٰ رب الاجسام بھی ہیں اور رب الارواح بھی ہیں خالق الارزاق البدنیۃ بھی ہیں اور خالق الارزاق الروحانیہ بھی ہیں یعنی ہمارے جسم کو بھی غذا دیتے ہیں اور ہماری روح کو بھی غذا دیتے ہیں، جسمانی غذا ماں باپ کے ذریعہ دیتے ہیں اور روحانی غذا انبیاء اور اولیاء کے ذریعہ دیتے ہیں اور وہ ذکر و عبادت ہے جس سے رفتہ رفتہ تربیت ہوتی ہے، جس طرح جسم پندرہ سال میں بالغ ہوتا ہے تو روح کے بالغ ہونے میں بھی کچھ زمانہ لگے گا۔ یہی شانِ ربوبیت ہے اور یہی اﷲ کے اﷲ ہونے کی دلیل ہے۔ الحمد ﷲ کی دلیل رب العٰلمین ہے اگر کوئی بچہ پوچھے کہ کیا دلیل ہے کہ آپ ہمارے اماں ابا ہیں تو ماں باپ کہیں گے کہ ہم تمہیں پال رہے ہیں یہ پالنا ہی دلیل ہے کہ ہم تمہارے اماں ابا ہیں، اﷲ تعالیٰ کی پہچان رب العٰلمین ہے کہ میں تمہیں پال رہا ہوں، تمہارے پالنے کے لیے میںنے زمین وآسمان چاند سورج بادل اور ہوائیں سارا نظامِ کائنات پیدا کیا ہے اور ساری کائنات کو تمہاری خدمت میں لگا دیا ہے، ایک لقمہ جو تمہارے منہ تک پہنچتا ہے اس میں زمین وآسمان چاند اور سورج بارش اور ہوائیں غرض پوری کائنات خدمت میں لگی ہے تب ایک لقمہ تیار ہوا ہے لہٰذا میری ربوبیت دلیل ہے میری الوہیت کی، تمہیں پالنا دلیل ہے کہ میں تمہارا اﷲ ہوں تمہاری پرورش میں پوری کائنات کو میں نے تمہارا خادم بنا دیا تو سوچوکہ تم کس لیے ہو؟ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کاارشاد ہے: اِنَّ الدُّنْیَا خُلِقَتْ لَکُمْ وَاَنْتُمْ خُلِقْتُمْ لِلْآخِرَۃِ

(تخریج احادیث الاحیائ، رقم الحدیث:۳۱۸۷)

یعنی ساری دنیا تمہارے لیے پیدا کی گئی ہے اور تم آخرت کے لیے پیدا کیے گئے ہو۔ حضرت سعدی شیرازی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں ؎

ابر و باد و مہہ و خورشید و فلک در کارند

تا تو نانے بکف آری و بغفلت نخوری

ہمہ از بہرِ تو سرگشتہ و فرماں بردار

شرطِ انصاف نباشد کہ تو فرماں نہ بری

بادل اور ہوائیں اور چاند سورج تیری خدمت میں لگے ہوئے ہیں تاکہ جب تو روٹی ہاتھ میں لے تو غفلت سے نہ کھائے، سارا جہاں تیرا مطیع وفرماں بردار بنادیا گیا تو یہ سخت ظلم ہے کہ ایسے محسن مالک کی تو فرمانبرداری نہ کرے۔

اس کے بعد الرحمٰن الرحیم ہے، میں تمہارا رب تو ہوں لیکن رحمٰن و رحیم بھی ہوں، میری ربوبیت شانِ رحمت کے ساتھ ہے، دیکھو میں تمہیں کتنی رحمت سے پال رہا ہوں۔ ایک بڑھئی ذرا ساچاقو بناتا ہے تو پہلے لوہے کو آگ میں ڈالتا ہے پھر ہتھوڑے مارتا ہے۔ بتاؤ جب میں نے تم کو بنایا تو ماں کے پیٹ میں کتنے ہتھوڑے لگائے اور کس آگ میں جلایا؟ اس رحمت سے پیدا کرتا ہوں کہ تمہاری ماں کو بھی خبر نہیں ہوتی کہ کب کان فِٹ ہورہے ہیں، کب آنکھیں لگ رہی ہیں، کب زبان بن رہی ہے، کب دل لگا رہا ہوں۔ آہ! تمہارا میٹریل تو باپ کا نطفہ اور ماں کا حیض تھا جس پرتمہارے اعضاء کی تشکیل کی جس میں تمہیں کوئی تکلیف نہ پہنچنے دی۔

(جاری ہے۔)

ظظظظظ
Flag Counter