Deobandi Books

ماہنامہ الابرار جولائی 2010

ہ رسالہ

13 - 14
شرعی مسائل کے جوابات
ایف جے،وائی(July 14, 2010)

حضرت مفتی محمد نعیم صاحب مدظلہم
(دارالافتاءجامعہ اشرف المدارس کراچی) کی کتاب تفہیم الفقہ سے ماخوذ

ترجمہ: نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دیتے رہو اور اﷲتعالیٰ کو قرض دو اچھی طرح پر قرض دینا اور تم اپنے آگے جو نیکی بھیجوگے اس کو اﷲ تعالیٰ کے ہاں بہتر اور ثواب میں بہت زیادہ پائوگے۔ (رواہ البخاری ومسلم)

رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص کو اﷲ تعالیٰ نے مال دیا ہو مگر وہ اس کی زکوٰۃ ادا نہ کرے تو قیامت کے دن اسی مال کو ایسے سانپ کی شکل دی جائے گی جو (زہر کی شدت کے باعث) گنجا ہوگا، اس کے دو سیاہ نقطے ہونگے (جو سانپ کے انتہائی زہریلا ہونے کی علامت سمجھا جاتا ہے۔) وہ سانپ اس شخص کے دونوں جبڑوں کو لپٹ جائے گا اور کہے گا کہ میں تیرا خزانہ ہوں، تیرا مال ہوں۔ پھر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ آیت آخر تک تلاوت فرمائی: ولا تحسبن الذین یبخلون بما اتاہم اﷲ من فضلہٖ… الخ (رواہ البخاری و مسلم)

زکوٰۃ کے معنی: لغت عربی میں زکوٰۃ کے معنی ’’پاک کرنا’’اور ’’نشوونما ‘‘ کے ہیں اور شریعت مقدسہ کی اصطلاح میں زکوٰۃ کے معنی ہیں:

’’کسی مستحق شخص کو مخصوص شرائط کے پائے جانے کی صورت میں مال کے مخصوص حصے کا مالک بنادینا زکوٰۃ کہلاتا ہے۔‘‘

(مذکورہ تعریف کے ہر ہر جز مستحق شخص، مخصوص شرائط، مخصوص مال وغیرہ کی تفصیل اپنے اپنے موقع پر آرہی ہے۔)

زکوٰۃ کے اقسام پر اجمالی نظر: حکم کے اعتبار سے زکوٰۃ کی دو قسمیں ہیں:

(۱) فرض۔ جیسے مال کی زکوٰۃ۔

(۲) واجب۔ جیسے زکوٰۃ الرأس (یعنی افراد کی زکوٰۃ) جسے ’’صدقۃ الفطر‘‘ کہتے ہیں۔

پھر فرض زکوٰۃ بھی دو طرح کی ہے:

(۱) سونے، چاندی، اموال تجارت اور مویشیوں کی زکوٰۃ۔ اسے ہمارے معاشرے میں ’’زکوٰۃ‘‘ کہتے ہیں۔

(۲) زمین کی پیداوار، کھیتوں، سبزیوں اور پھلوں کی زکوٰۃ جسے ہمارے عرف میں ’’عشر‘‘ کہتے ہیں۔

زکوٰۃ کے فرض ہونے کی شرائط: (مراد اس سے زکوٰۃ المال کی پہلی قسم سونے، چاندی اور اموالِ تجارت کی زکوٰۃ ہے) کسی شخص پر زکوٰۃ فرض ہونے کے لیے درج ذیل تمام شرائط کا بیک وقت پایا جانا ضروری ہے ان میں سے کوئی ایک شرط بھی نہ پائی جائے توزکوٰۃ فرض نہیں ہوتی۔ ان میں بعض شرائط تو وہ ہیں جن کا تعلق خود اس شخص سے ہے جس پر زکوٰۃ فرض ہوتی ہے۔ اور بعض شرائط وہ ہیں جن کا اس مال میں پایا جانا ضروری ہے جس پر زکوٰۃ کا حکم لاگو ہوتا ہے۔ (بدائع ۲/۶۰۲)

وہ شرطیں جو شخص میں پائی جانی ضروری ہیں: خود اس شخص میں چار شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے:

(۱) اسلام: مسلمان ہونا۔ لہٰذا کافر پر زکوٰۃ فرض نہیں ہوتی۔

(۲) حریت:آزاد ہونا۔ لہٰذا غلام پر زکوٰۃ فرض نہیں ہوتی۔

(۳) بلوغ: بالغ ہونا۔ لہٰذا نابالغ پر زکوٰۃ فرض نہیں ہوتی خواہ وہ کتنا ہی مالدار کیوں نہ ہو۔

(۴) عقل: عقل مند ہونا۔ لہٰذا پاگل پر زکوٰۃ فرض نہیں ہوتی۔

وہ شرطیں جنکا مال میں پایا جانا ضروری ہے:

خود مال میں مندرجہ ذیل شرائط کا پایا جانا ضروری ہے:

(۱) ملک تام ہونا: زکوٰۃ فرض ہونے کے لیے شرط ہے کہ اس مال پر ’’ملک تام‘‘ حاصل ہو اور کسی چیز پر ملک تام (مکمل ملکیت) کے حاصل ہونے کے لیے دو باتیں ضروری ہیں:

(الف) کسی چیز کے مالک ہونے کے ساتھ ساتھ وہ چیز اس کے قبضے میں ہو کہ جب چاہے اس میں کوئی بھی تصرف کرسکے۔ اگر کوئی چیز ملکیت میں تو ہے مگر ابھی اس پر مکمل قبضہ نہیں ہے تو زکوٰۃ فرض نہیں ہوگی کیونکہ ملک تام نہیں ہے۔

مثال: جیسے عورت کا مہر پر قبضہ کرنے سے پہلے پہلے مالک ہونا۔ ملک تام نہیں ہے۔ لہٰذا مہر پر زکوٰۃ فرض نہیں ہوتی۔ البتہ اگر قبضہ کرلے تب ملک تام کی وجہ سے زکوٰۃ فرض ہوگی۔

(ب) کسی چیز کا مالک ہونا۔ لہٰذا اگر کوئی چیز صرف قبضے میں ہے لیکن اس کا مالک نہیں ہے تب بھی زکوٰۃ فرض نہیں ہوتی، کیونکہ ملک تام نہیں ہے۔

مثال: جیسے مسلمان کے پاس امانت کے طور پر رکھے ہوئے کسی کے پیسے۔ یہ رقم مسلمان کے قبضے میں تو ہے مگر چونکہ اس کی ملکیت نہیں ہے لہٰذا اس پر ملک تام نہیں ہے۔

(۲) مال کا نصاب کے بقدر ہونا:

وہ مال جس کا آدمی مالک ہو، نصاب زکوٰۃ کے بقدر ہو۔ اگر مملوکہ مال نصاب کی مقدار سے کم ہے تب بھی زکوٰۃ فرض نہیں ہے۔ (وہ مال جن کی زکوٰۃ نکالنا فرض ہوتا ہے ان میں ہر ایک کا نصاب مختلف ہوتا ہے، جس کی تفصیل نصاب کے بیان میں آرہی ہے۔)

(۳) حاجتِ اصلیہ سے زائد ہونا:

بقدر نصاب مال کا انسان کی ’’حاجت اصلیہ‘‘ (یعنی ضروریات زندگی) سے زائد ہونا۔ لہٰذا وہ مال جو انسان کی ’’حاجت اصلیہ‘‘ میں شامل ہو اس پر زکوٰۃ فرض نہیں ہوتی۔

(۴) حاجتِ اصلیہ کی تشریح:

حاجت اصلیہ سے مراد انسانی زندگی کی وہ ضرورت ہے جسے اگر پورا نہ کیا جائے تو اس کے ہلاکت میں پڑجانے کا اندیشہ ہو۔ ایسی ضرورت کے لیے کام آنے والی اشیاء درج ذیل ہیں:

(۱) رہائشی مکان (۲)نان ونفقہ (۳)سردی اور گرمی سے بچائو کے لیے بدن کے کپڑے (۴)حفاظت کی غرض سے خریدا ہوا اسلحہ، بندوق، رائفل وغیرہ۔

یہ چیزیں نہ ہوں تو واقعۃً انسان کے ہلاکت میں پڑجانے کا سخت اندیشہ ہوتا ہے۔

اور بعض ایسی چیزیں بھی ’’حاجت اصلیہ‘‘ میں شامل ہوتی ہیں۔ جن کا براہِ راست انسانی زندگی کو ہلاکت سے بچانے کے ساتھ تعلق تو نہیں ہے مگر ان کے نہ ہونے کی صورت میں ہلاکت کا کم از کم امکان ضرور رہتا ہے کسی نہ کسی درجہ میں ان سے محروم شخص بھی ہلاک ہی تصور کیا جاتا ہے۔

جیسے (۱) قرض کا ہونا۔ چنانچہ مقروض کے پاس اگرچہ نصاب کے بقدر مال و دولت ہو مگر اسے بھی حاجت اصلیہ میں مشغول تصور کیا جائے گا۔ کیونکہ مقروض کو کبھی قرض ادا نہ کرنے کی صورت میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا اور جیل کی ہوا کھانا پڑتی ہے جو ایک طرح سے ہلاکت ہے۔ اور یہ مال اسی ہلاکت سے دفاع کا سبب بن سکتا ہے لہٰذا یہ حاجت اصلیہ میں شامل ہے۔

(۲) آلات صنعت و حرفت جسے آدمی اپنے روزگار کے لیے استعمال کرتا ہے۔

(۳) گھر کا سامان جیسے برتن فرنیچر وغیرہ جو روز مرہ استعمال میں آتا ہے۔

(۴) سواری جس کے ذریعے انسان روزگار علاج معالجہ اور بہت سی ضروریات میں فائدہ حاصل کرتا ہے۔

(۵) دینی کتب۔ کیونکہ ان کے نہ ہونے کی صورت میں جہل باقی رہتا ہے جو علماء کے ہاں ایک طرح کی ہلاکت ہے، علم کے بغیر تو انسان محض چوپایہ ہے۔

(۵) مال کا ’’فارغ عن الدین‘‘ ہونا:

مال کا ’’دین‘‘ سے خالی ہونا۔ اگر کسی شخص کے پاس نصاب کی بقدر مال موجود ہو مگر اس پر ’’دین‘‘ بھی ہے تو اس پر زکوٰۃ فرض نہیں ہوتی۔ (دین کو ہمارے ہاں اردو میں قرض کہہ سکتے ہیں مگر یہ ایک فقہی اصطلاح ہے جس کے بارے میں تفصیل آئندہ سطور میں مستقل عنوان کے تحت آرہی ہے)

(۶) مال کا ’’نامی‘‘ ہونا:

نامی ’’تمو‘‘ سے اسم فاعل کا صیغہ ہے، مطلب یہ ہے کہ مال ایسا ہو جو بڑھنے والا ہو۔ خواہ وہ حقیقتاً بڑھتا ہوا نظر آئے جیسے جانور مویشی وغیرہ توالد و تناسل کے ذریعے بڑھتے رہتے ہیں، خواہ وہ تقدیراً بڑھتا ہو کہ اگر بڑھانا چاہیں تو اسے بڑھاسکیں۔ جیسے سونا، چاندی (خواہ کسی بھی شکل میں ہو) اور روپیے پیسے وغیرہ (خواہ کسی ملک کی رائج الوقت کرنسی ہو)۔

لہٰذا وہ چیزیں جو نامی نہیں ہیں جیسے ہیرے جواہرات، موتی، یاقوت، زبر جد وغیرہ اگر تجارت کے لیے نہ ہوں تو ان پر زکوٰۃ نہیں ہے، ان کا حکم عروض (سامان) کی طرح ہے۔ البتہ اگر تجارت کے لیے ہوں تو زکوٰۃ فرض ہوگی۔

(مندرجہ بالا تمام شرائط کی موجودگی میں زکوٰۃ فرض ہوجاتی ہے مگر زکوٰۃ کا ادا کرنا کب واجب ہوتا ہے) اس میں درج ذیل تفصیل ہے:

زکوٰۃ ادا کرنا کب فرض ہوتا ہے؟

مندرجہ بالا شرائط کے ساتھ اگر نصاب کی بقدر مال پر چاند کے حساب سے مکمل ایک سال گزر جائے تو زکوٰۃ کا ادا کرنا واجب ہوجاتا ہے۔ فقہی زبان میں اس شرط کو ’’حولان حول‘‘ (یعنی سال کا گزر جانا) کہتے ہیں۔

٭ یہ مسئلہ خوب دلنشین رہے کے زکوٰۃ کی ادائیگی کے واجب ہونے کے لیے سال کے شروع میں اور آخر میں نصاب کا کامل ہونا ضروری ہے، درمیان سال میں نصاب چاہے کم ہوجائے، بشرطیکہ درمیان سال میں نصاب بالکل ختم نہ ہوا ہو۔ ’’مثال سے توضیح‘‘

(۱) کسی شخص کے پاس یکم محرم ۱۴۲۳ھ کو مکمل نصاب موجود ہو، ربیع الاول ۱۴۲۳ھ کو اس کے پاس نصاب سے کم مال رہ گیا بالکل ختم نہیں ہوا، یکم محرم ۱۴۲۴ھ کو پھر مکمل نصاب تھا تو چونکہ سال کے آغاز اور اختتام میں مکمل نصاب کا مالک ہے لہٰذ اس پر زکوٰۃ ادا کرنا واجب ہے۔

(۲) کسی شخص کے پاس یکم ذی الحجہ ۱۴۲۳ھ میں مکمل نصاب تھا، ۱۰؍ ربیع الاول ۱۴۲۴ھ کو نصاب بالکل ختم ہوگیا، پھر یہ ۲۰؍ ربیع الثانی ۱۴۲۴ھ کو نصاب بقدر مال کا مالک بن گیا، یہاں تک کہ یکم ذی الحجہ ۱۴۲۴ھ کو مکمل نصاب کا مالک تھا تو اس شخص پر اس تاریخ کو زکوٰۃ فرض نہیں ہے کیونکہ ۱۰؍ ربیع الاول کے دن نصاب بالکل ختم ہوگیا تھا لہٰذا زکوٰۃ کا حکم ساقط ہوگیا۔ ۲۰؍ ربیع الاول ۱۴۲۴ھ کو دوبارہ نصاب مکمل ہوا تو سال کا آغاز ہوگیا پھر نصاب کا اعتبار ۲۰؍ ربیع الاول سے کیا جائے گا چنانچہ آئندہ سال ۲۰؍ ربیع اول ۱۴۲۵ھ تک نصاب رہا چاہے اس درمیان کم ہوگیا ہو تو آئندہ سال مذکورہ تاریخ کو زکوٰۃ فرض ہوگی ۔

مال مستفاد کا حکم:

اگر سال کے آغاز میں کسی شخص کے پاس نصاب کے بقدر مال ہو تو اس پر زکوٰۃ فرض ہوجاتی ہے۔ اب آئندہ سال نصاب پر مقررہ تاریخ (جس تاریخ سے نصاب شروع ہوا تھا) کو جب زکوٰۃ کا ادا کرنا فرض ہوجاتا ہے۔ اس تاریخ سے پہلے پہلے اسی مال کی جنس میں سے اس شخص کو جو مال حاصل ہوتا رہا ہے اس کو ’’مال مستفاد‘‘ کہتے ہیں۔ خواہ یہ مال کسی بھی طریقے سے اس کی ملکیت میں آیا ہو خواہ ہبہ (Gift) کے ذریعے، یا میراث کے ذریعے یا تجارت کے ذریعے یا ماہوار تنخواہ کے ذریعے۔

اس مال کا حکم یہ ہے کہ زکوٰۃ کی ادائیگی کی تاریخ سے پہلے پہلے جو مال بھی حاصل ہوا اسے اسی نصاب زکوٰۃ کے ساتھ شامل کرتے ہوئے مجموعی رقم پر زکوٰۃ فرض ہوگی۔

یاد رہے کہ سونا، چاندی رائج الوقت کرنسی اور مال تجارت شریعت کی نظر میں ایک ہی جنس ہے۔ البتہ جانور دوسری جنس ہے۔

مثال سے توضیح:

کسی شخص کو یکم محرم ۱۴۲۳ھ کو دس ہزار روپے کہیں سے ملے تو چونکہ یہ رقم نصاب کے بقدر ہے لہٰذا اس پر زکوٰۃ فرض ہوگئی۔ اب اس زکوٰۃ کی ادائیگی یکم محرم ۱۴۲۴ھ کو فرض ہوگی (بشرطیکہ اس نصاب پر اس طرح سال گزرجائے کہ سال کے دوران یہ روپے بالکل ختم نہ ہوں خواہ کسی موقع پر کم ہوگئے ہوں) یکم محرم کے بعد صفر کے آخر میں اس کو باپ کے ترکہ سے ایک لاکھ روپیہ ملا، ربیع الاول کی پندرہ تاریخ کو سعودی عرب سے اس کے بھائی نے بطور تحفہ اور ہدیہ کچھ ریال بھیجے جن کی مالیت ایک ہزار پاکستانی روپے ہے۔ جمادی الاول کے شروع میں کاروبار میں نفع ہوا دس ہزار روپے مزید مل گئے۔

یہ شخص سرکاری ملازم بھی ہے ماہور ۲۰؍ ہزار روپے تنخواہ ملتی ہے جو گھریلو ضروریات میں خرچ ہوجاتی ہے۔ اس سے کچھ نہیں بچتا تاہم ذی الحجہ ۱۴۲۳ھ کو جو ماہوار تنخواہ ملی اس میں سے پانچ ہزار روپے باقی تھے کہ یکم محرم ۱۴۲۴ھ کا چاند نظر آگیا۔

اس صورت میں زکوٰۃ کا حکم یہ ہے کہ یکم محرم ۱۴۲۳ھ کو نصاب پر سال کے شروع ہونے کے بعد اگلے سال یکم محرم ۱۴۲۴ھ تک جتنا مال اور رقم مختلف طریقوں سے حاصل ہوئی اس کو فقہ کی اصطلاح میں ’’مال مستفاد‘‘ کہتے ہیں۔ چنانچہ سال بھر میں جمع ہونے والے مال مستفاد کی کل رقم ایک لاکھ سولہ ہزار روپے کو اصل نصاب (جس پر سال شروع ہوا تھا) دس ہزار روپے کے ساتھ جمع کرکے کل ایک لاکھ چھبیس ہزار پر زکوٰۃ ادا کرنا فرض ہے۔

زکوٰۃ کی ادائیگی کے صحیح ہونے کی شرائط:

زکوٰۃ کی ادائیگی کے صحیح ہونے کے لیے دو شرطیں ہیں:

(۱) نیت (۲) تملیک

پہلی شرط: زکوٰۃ کی ادائیگی کے صحیح ہونے کے لیے نیت شرط ہے جس میں تفصیل یہ ہے:

(۱) جب زکوٰۃ کی رقم اپنے مال سے الگ کرکے رکھے تو نیت کرلے کہ ’’میں زکوٰۃ کی نیت سے رقم الگ کررہا ہوں‘‘ پھر جب مستحق زکوٰۃ شخص کو زکوٰۃ ادا کرے تو دوبارہ زکوٰۃ دینے کی نیت کرنا ضروری نہیں۔

(۲) جس وقت زکوٰۃ کی رقم اپنے مال سے الگ کرکے رکھی اس وقت تو زکوٰۃ کی نیت نہیں کی تو اب مستحق شخص کو زکوٰۃ دیتے وقت نیت کرلے۔

(۳) اگر کوئی شخص براہ راست کسی مستحق کو نہیں دینا چاہتا بلکہ کسی نمائندہ یا وکیل کے ذریعے مستحق کو زکوٰۃکی رقم دینا چاہتا ہے تو اگر اس شخص نے پہلے نیت نہیں کی تو وکیل کو رقم دیتے وقت نیت کرلے پھر وکیل مستحق زکوٰۃ کو زکوٰۃ دیتے وقت نیت کرے یا نہ کرے زکوٰۃ ادا ہوجائے گی۔

خلاصہ: مذکورہ بالا تین موقعوں میں سے کسی ایک موقع پر نیت کرنا شرط ہے، اگر کسی بھی موقع پر زکوٰۃ کی نیت کرلی تو شرط پورا ہونے کی وجہ سے زکوٰۃ ادا ہوجائے گی۔

اگر کسی بھی موقع پر نیت نہیں کی اور زکوٰۃ کی وہ رقم ابھی تک مستحق شخص کے پاس موجود ہے اس نے خرچ نہیں کی تو اب بھی موقع ہے نیت کرلینے سے زکوٰۃ ادا ہوجائے گی۔

اگر فقیر (مستحق) نے وہ رقم استعمال کرلی تو اب نیت کا کوئی موقع نہیں رہا لہٰذا شرط (نیت) نہ پائی جانے کی وجہ سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوئی۔

بینکوں سے زکوٰۃ کی کٹوتی کا حکم:

کچھ عرصے سے ہمارے ملک میں سرکاری سطح پر زکوٰۃ وصول کرنے کا نظام قائم ہے اس کی وجہ سے بہت سارے مالیاتی اداروں سے زکوٰۃ وصول کی جاتی ہے۔ کمپنیاں بھی زکوٰۃ کاٹ کر حکومت کو ادا کرتی ہیں۔

اس کے بارے میں حکم شرعی کی تفصیل یہ ہے کہ جہاں تک بینکوں اور مالیاتی اداروں سے زکوٰۃ کی کٹوتی کا تعلق ہے تو اس کٹوتی سے زکوٰۃ ادا ہوجاتی ہے، دوبارہ زکوٰۃ ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ البتہ احتیاطاً ایسا کرلیں کہ یکم رمضان آنے سے پہلے دل میں یہ نیت کرلیں کہ میری رقم سے جو زکوٰۃ کٹے گی وہ میں ادا کرتا ہوں۔ اس سے اس کی زکوٰۃ ادا ہوجاتی ہے۔ دوبارہ نکالنے کی ضرورت نہیں۔

ضروری وضاحت: یہ بات ذہن نشین رہے کہ زکوٰۃ کی ادائیگی میں خود صاحب مال یا اس کے وکیل کی (مندر جہ بالا تفصیل کے مطابق کسی بھی ایک موقع پر) نیت ہونا شرط ہے۔ مگر خود اس مستحق زکوٰۃ کو یہ معلوم ہونا ضروری نہیں ہے کہ یہ زکوٰۃ کی رقم ہے۔

چنانچہ اگر کسی مستحق کو زکوٰۃ دیتے وقت خود تو زکوٰۃ کی نیت کی مگر اسے یہ کہہ کر زکوٰۃ دی کہ یہ ہدیہ ہے یا میری طرف سے انعام ہے یا میری طرف سے آپ کے لیے قرض ہے۔ یا میری طرف سے عیدی ہے تو ان سب صورتوں میں زکوٰۃ ادا ہوجائے گی۔

وضاحت: زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ بعینہ وہی چیز یا رقم دے جس میں زکوٰۃ فرض ہوئی ہے بلکہ زکوٰۃ کی رقم سے مستحق شخص کے لیے کپڑے، جوتے، کھانے پینے کی اشیاء دوائی، سواری کھلونا، کتابیں یا کوئی بھی چیز خرید کر مالک و قابض بناکر دے دی تو زکوٰۃ ادا ہوجائے گی۔

دوسری شرط: زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے دوسری شرط (جیسا کہ زکوٰۃ کی تعریف سے ظاہر ہے) ’’تملیک‘‘ ہے۔

تملیک کا مطلب: تملیک کا مطلب یہ ہے کہ زکوٰۃ کی رقم مستحق زکوٰۃ کو مکمل مالک و قابض بناکر دینا۔

اس سے معلوم ہوا کہ جہاں تملیک کی یہ شرط نہ پائی جائے تو زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی۔

تملیک کے نہ پائے جانے کی مختلف صورتیں:

(۱) تملیک نہ پائے جانے کی ایک صورت یہ ہوسکتی ہے کہ وہ شخص جسے زکوٰۃ کی رقم دی ہے اس کو مالک ہی نہیں بنایا۔

مثال: جیسے کسی شخص نے زکوٰۃ کی رقم سے کھانا خرید کر دسترخوان لگادیا اور فقراء و مساکین سے کہہ دیا کہ جتنا چاہیں کھا سکتے ہیں مگر یہ کھانا آپ کہیں اور نہیں لے جاسکتے۔ اس طرح کرنے سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوئی کیونکہ تملیک نہ ہونے کی وجہ سے ادائیگی زکوٰۃ کی شرط نہیں پائی گئی۔

’’تملیک‘‘ نہ ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ انہیں کھانا کھانے کی اجازت تو دے دی گئی ہے، جسے اصطلاح میں ’’اباحت‘‘ کہتے ہیں۔ مگر تملیک نہیں پائی گئی کیونکہ انہیں کھانے کے بارے میں ہر قسم کے تصرف سے روک دیا گیا کہ وہ نہ کہیں لے جاسکتے ہیں اور نہ کسی اور کو دے سکتے ہیں۔

لیکن اگر کھانا خرید کر مستحق افراد کو اس طرح مالک بناکر دے دیا ہوکہ وہ جس طرح چاہیں اس میں تصرف کریں تو اب زکوٰۃ ادا ہوگئی کیونکہ کھانا اب ان کی ملکیت میں آگیا ہے خواہ خود کھائیں، کسی اور کو دے دیں، بیچ دیں یا کہیں گرادیں۔

(۲) تملیک کی شرط نہ پائی جانے کی دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ زکوٰۃ کی رقم ایسے مصرف میں استعمال کردی جائے جس میں مالک بننے کی سرے سے صلاحیت ہی نہیں ہے۔

جیسے زکوٰۃ کی رقم مسجد، مدرسے کی تعمیر، کتب کی خریداری، کنواں کھودنے، پانی کی سبیل لگانے میں خرچ کردی تو ان صورتوں میں سے کسی صورت میں بھی زکوٰۃ ادا نہیں ہوئی وجہ یہ ہے کہ یہ کام کارِ خیر ضرور ہیں مگر یہ ایسی اشیاء ہیں جو خود کسی چیز کی مالک نہیں ہوتیں۔

اسی طرح زکوٰۃ کی رقم سے مدرسے کے اساتذہ یا کسی جگہ کے ملازم کی تنخواہ بھی ادا نہیں کی جاسکتی۔ ایسا کرنے سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوتی۔

حیلۂ تملیک کا مطلب: بسا اوقات مدارس عربیہ میں اساتذہ و ملازمین کی تنخواہیں ادا کرنے کے لیے رقم عطیات کے فنڈ میں موجود نہیں ہوتی صرف زکوٰۃ فنڈ میں اتنی رقم ہوتی ہے کہ جس سے اساتذہ و ملازمین کی تنخواہیں یا مسجد و مدرسے کی تعمیری ضرورت پوری کی جاسکتی ہیں۔ جبکہ دوسری طرف شریعت مطہرہ ان ضروریات میں زکوٰۃ کی رقم لگانے سے منع کرتی ہے۔

چنانچہ ارباب مدارس اپنی ان ضروریات کو پورا کرنے کے لیے زکوٰۃ کی رقم میں ’’حیلۂ تملیک‘‘ کرتے ہیں، جس میں حیلے سے زکوٰۃ ادا ہوجاتی ہے، پھر وہ رقم اپنی دیگر ضروریات میں صرف کرتے ہیں۔

حیلۂ تملیک کے لیے عموماً یہ صورت اختیار کی جاتی ہے:

حیلۂ تملیک کی پہلی صورت:

کسی مستحق زکوٰۃ شخص کو زکوٰۃ کی بھاری رقم دے کر یہ ترغیب دی جاتی ہے کہ آپ کو یہ زکوٰۃ کی رقم دی جارہی ہے، آپ اگر چاہیں تو اس پر قبضہ کرنے کے بعد دوبارہ مدرسے میں جمع کراسکتے ہیں تاکہ پھر ارباب مدارس اپنی صوابدید سے یہ رقم کسی بھی مصرف (تعمیر یا اساتذہ وغیرہ کی تنخواہوں) میں استعمال کرلیں۔

چنانچہ مستحق زکوٰۃ شخص وہ رقم اپنے قبضے میں لے کر تھوڑی دیر بعد دوبارہ ارباب مدارس کو عطیہ کردیتا ہے۔

پہلے زمانے کے نامور فقہائے کرام نے حیلۂ تملیک کی یہ صورت لکھی ہے مگر چونکہ آج کل عموماً یہ صورت دکھلاوے کی ہوتی ہے زکوٰۃ دینے والا سمجھتا ہے کہ میں سچ مچ اسے مالک نہیں بنا رہا بلکہ واپس لینے کے لیے بس فرضی کارروائی کررہا ہوں اسی طرح زکوٰۃ لینے والا بھی سمجھتا ہے کہ مجھے یہ زکوٰۃ کی رقم دے کر ایسا مالک نہیں بنایا جارہا ہے کہ جہاں چاہوں یہ رقم استعمال کروں بلکہ زکوٰۃ کی تملیک کا کھیل کھیلا جارہا ہے۔

چونکہ اس صورت میں واقعۃً تملیک نہیں پائی جاتی بلکہ اس کی ظاہری صورت ہوتی ہے جس میں تملیک کی روح نہیں ہوتی۔لہٰذا اس دور کے فقہائے عظامؒ اس صورت سے منع کرتے ہیں۔

حیلہ تملیک کی بے غبار صورت:

البتہ حیلۂ تملیک کی وہ بے غبار صورت جس پر اہل فتویٰ، فتویٰ صادر فرماتے ہیں وہ یہ ہے کہ مستحق زکوٰۃ کو ترغیب دی جائے کہ وہ اتنی رقم کہیں سے قرض لے کے مدرسے میں دے دے (تاکہ اس کو مفت میں ثواب مل جائے) چنانچہ اگر وہ کہیں سے قرض لے کر مدرسے میں دے دے تو زکوٰۃ کی رقم اسے دے دی جائے تاکہ وہ اپنا قرض اتار سکے۔

حیلۂ تملیک کی یہ صورت حضراتِ فقہائے عظام کے نزدیک پسندیدہ ہے کیونکہ اس میں واقعۃً فقیر کو مالک بنانا ہی مقصود ہوتا ہے۔

نصاب زکوٰۃ کی تفصیل:

زکوٰۃ کے فرض ہونے سے متعلق ضروری مباحث سے فارغ ہونے کے بعد نصاب زکوٰۃ کی تفصیل ذکر کی جاتی ہے نصاب زکوٰۃ کے سلسلے میں درج ذیل عنوانات کے متعلق تفصیل ذکر کی جائے گی:

(۱) سونے ، چاندی کی زکوٰۃ۔

(۲) روپے پیسوں کی زکوٰۃ۔

(۳) مال تجارت کی زکوٰۃ۔

(۴) قرض کی زکوٰۃ۔

سونے کا نصاب:

اگر کسی شخص کی ملکیت میں صرف اتنا سونا ہو کہ وہ نصاب کی مقدار کو پہنچ جائے تو اس پر زکوٰۃ فرض ہوجاتی ہے۔ سونے کا نصاب ۲۰ مثقال سونا ہے، جو موجودہ حساب سے ساڑھے سات تولہ سونا (87.84 گرام) بنتا ہے۔

(۲) چاندی کا نصاب:

اگر کسی شخص کی ملکیت میں صرف اتنی چاندی ہو کہ وہ نصاب کی مقدار کو پہنچ جائے تو اس پر زکوٰۃ فرض ہوجاتی ہے۔ اور چاندی کا نصاب ۲۰۰ دراہم ہیں۔ لہٰذا اگر کسی کے پاس صرف چاندی ۲۰۰ دراہم سے کم ہو تو زکوٰۃ فرض نہیں ہوتی۔

موجودہ دور کے حساب سے اس کی مقدار ساڑھے باون تولہ (یعنی 612.35 گرام) چاندی ہے۔

٭ یاد رہے کہ زکوٰۃ ادا کرنے والے شخص کو اختیار ہے کہ سونے یا چاندی کی زکوٰۃ ادا کرتے وقت خواہ سونے، چاندی کے وزن کاچالیسواں حصہ سونے یا چاندی کی شکل میں دے دے یا اتنے وزن کے پیسے (روپوں کی شکل) میں دے دے۔ یا اتنے روپوں سے کوئی بھی چیز (کھانا، کپڑے، سامان) خرید کر مستحق زکوٰۃ شخص کو مالک و قابض بناکر دے دے۔

قیمت کا حساب لگانے کی صورت میں اس وقت کی رائج الوقت بازاری قیمت کا اعتبار کیا جائے گا۔

ضروری وضاحت:

سونے اور چاندی میں مطلقاً ہر حالت میں زکوٰۃ فرض ہوتی ہے خواہ وہ کسی بھی شکل میں ہوں، سونا، چاندی ڈلی کی شکل میں ہوں یا زیورات کی شکل میں سونے چاندی کے سکے ہوں یا برتن ، سونے چاندی سے پردے یا دوپٹہ وغیرہ پر کڑھائی ہو، خواہ عورت دوپٹہ پہنتی ہو یا نہ پہنتی ہو۔

کھوٹ ملے ہوئے سونے چاندی کا حکم:

اگر سونے یا چاندی میں کھوٹ شامل ہو سونا چاندی خالص نہ ہو مثلاً سونے میں تانبا یا پیتل ملا ہوا ہو اور چاندی میں ایلومینیم ملا ہوا ہو تو اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں:

(۱) سونا اور چاندی زیادہ ہے اور کھوٹ کم ہے۔

(۲) سونا، چاندی اور کھوٹ برابر برابر ہیں۔

(۳) سونا اور چاندی کم ہے اور کھوٹ زیادہ ہے۔

ان صورتوں میں زکوٰۃ کا حکم یہ ہے کہ پہلی دونوں صورتوں میں جبکہ سونا چاندی کھوٹ سے زیادہ ہوں یا کھوٹ کے برابر ہو تو یہ کھوٹ بھی سونا چاندی کے حکم میں ہوگی۔ اور زکوٰۃ کی فرضیت میں سونے چاندی کے نصاب کو دیکھا جائے گا۔

تیسری صورت میں جبکہ کھوٹ سونے چاندی پر غالب ہو تو وہ سونا چاندی بھی عروض یعنی سامان تجارت کے حکم میں ہوگا۔ سامان تجارت پر زکوٰۃ واجب ہونے کا جو نصاب ہے وہی نصاب اس صورت میں معتبر ہوگا۔

مال تجارت (عروض) میں زکوٰۃ:

سونے، چاندی اور مویشیوں کے علاوہ جو مال ہو وہ سامانِ تجارت میں شامل ہے۔

مال تجارت سے کیا مراد ہے:

مال تجارت (عروض) سے مراد ہر وہ مال ہے جو اس نیت سے خریدا ہوکہ اسے تجارت میں لگائیں گے یا آگے فروخت کریں گے۔ اور یہ نیت ابھی تک برقرار ہو۔

٭ لہٰذا وہ مال جو آگے بیچنے کے ارادے سے نہیں خریدا بلکہ گھریلو ضروریات کے لیے خریدا ہے، (جیسے پہننے کے لیے کپڑا، گھر میں پکانے کے لیے چاولوں کا ٹرک، یا رہائشی مکان تعمیر کرنے کے لیے پلاٹ خریدا) تو یہ مال ’’مال تجارت‘‘ نہیں کہلائے گا۔

٭ ایسا مال جو آگے بیچنے کی نیت سے نہیں خریدا بلکہ گھریلو ضروریات کے لیے خریدا تھا بعد میں اسے بیچنے کا ارادہ کرلیا تب بھی وہ مال مال تجارت نہیں بنے گا۔ اس لیے کہ جب اسے خریدا تھا اس وقت بیچنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔

لیکن یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ ایسا مال محض بیچنے کے ارادے سے تو مال تجارت نہیں بنتا لیکن اگر کوئی شخص (بالفعل) تجارت شروع کردے یعنی ارادے کے بعد کسی سے سودا وغیرہ طے کرلے اور اسے بیچ دے تو یہ مال ’’مال تجارت‘‘ (عروض) بن جائے گا۔ چنانچہ حاصل ہونے والی رقم پر زکوٰۃ واجب ہوگی۔

٭ اس کے برعکس جو مال تجارت کی نیت سے خریدا تھا اور اسی نیت کی وجہ سے مال تجارت (عروض) بن چکا تھا، لیکن اب اسے آگے بیچنے کا ارادہ ترک کردیا۔ مثلاً کوئی پلاٹ یا فلیٹ آگے بیچنے کی نیت سے خریدا تھا مگر اب اسے اپنی رہائش میں استعمال کرنے کا ارادہ کرلیا تو وہ مال بھی مال تجارت نہیں رہے گا۔ صرف ارادے سے ہی اس کی ’’مال تجارت‘‘ ہونے کی حیثیت ختم ہوجاتی ہے۔

مال تجارت میں نصاب زکوٰۃ:

مال تجارت (عروض) خواہ کسی قسم کا ہو (کپڑا ہو یا اناج، جنرل اسٹور کا سامان ہو یا اسٹیشنری کاسامان، مشینری ہو یا بجلی کا سامان) اگر سونے کے نصاب (ساڑھے سات تولہ) یا چاندی کے نصاب (ساڑھے باون تولہ) میں سے کسی ایک کی بازاری قیمت کے برابر ہو تو اس مال پر زکوٰۃ فرض ہوجاتی ہے۔

پھر حولان حول (سال گزرنے) کی شرط کے ساتھ اس کا ادا کرنا فرض ہوجاتا ہے۔

نیت اور تملیک پائی جائے تو ادائیگی صحیح ہوجاتی ہے۔

مال تجارت میں زکوٰۃ نکالنے کا طریقہ:

مال تجارت کے نصاب پر سال پورا ہوجائے تو اس کی زکوٰۃ نکالنے کا طریقہ یہ ہے کہ کل مال تجارت کی بازاری قیمت لگالی جائے اور اس کل قیمت کا ڈھائی فیصد (چالیسواں حصہ) رقم زکوٰۃ کے مستحق کو دے دی جائے یا کل رقم کے اڑھائی فیصد کے برابر وہی مال تجارت مستحق کو دیدیا جائے۔

ضروری وضاحت مال تجارت میں خود دکان کی قیمت اور اس میں موجود فرنیچر کی قیمت، اسی طرح کارخانے میں مشینری کی قیمت کو شمار نہیں کیا جائے گا۔

وجہ صاف ظاہر ہے کہ خود دکان اور اس میں فرنیچر اور فیکٹری کی مشین چونکہ آگے بیچنے کی نیت سے نہیں خریدی لہٰذا وہ مال تجارت میں شامل نہیں ہوگی۔

بلکہ اس نظر سے دیکھا جائے کہ یہ دکان فرنیچر اور مشینری وغیرہ روزگار کا آلہ اور ذریعہ ہیں تو یہ ’’حاجت اصلیہ‘‘ میں شامل ہونگے اور زکوٰۃ فرض ہونے کے لیے مال کا حاجت اصلیہ سے زائد ہونا ضروری ہے۔ لیکن اگر کسی نے فرنیچر کی دکان بنائی یا ایسی دکان جس میں کارخانے کی مشینری فروخت ہوتی ہو تو اب یہ چیزیں مالِ تجارت میں شامل ہونگی۔ کیونکہ ایسی دکانوں میں فرنیچر یا مشینری بیچنے کے ارادے سے خرید کر رکھی جاتی ہے۔

روپے پیسوں میں زکوٰۃ کا نصاب:

اگر کسی شخص کے پاس ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی میں سے کسی ایک کی بازاری قیمت کے برابر روپے موجود ہوں (خواہ کسی ملک کی کرنسی کی شکل میں ہوں جیسے ریال، ڈالر، یورو، دینار، پونڈ، رینٹ، لیرا وغیرہ) اور ان پر سال بھی گزر جائے تو ان روپوں کی زکوٰۃ ادا کرنا فرض ہے۔

(جاری ہے۔)

ظظظظظ
Flag Counter