تعمیر کعبہ اور تعمیر قلب کا ربط |
ہم نوٹ : |
|
وَ اِذۡ یَرۡفَعُ اِبۡرٰہٖمُ الۡقَوَاعِدَ مِنَ الۡبَیۡتِ وَ اِسۡمٰعِیۡلُ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کعبہ کی بنیادیں اُٹھا رہے تھے اور اسماعیل علیہ السلام بھی۔ اسماعیل علیہ السلام تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ ساتھ کام کررہے تھے لیکن اﷲ تعالیٰ نے ان کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ بیان نہیں فرمایا ورنہ یہ آیت یوں بھی ہوسکتی تھی وَ اِذۡ یَرۡفَعُ اِبۡرٰہٖمُ وَ اِسۡمٰعِیۡلُ الۡقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ لیکن اﷲ تعالیٰ نے ان دونوں کو ساتھ ساتھ نہیں بیان فرمایا، پھر یہ فاصلہ کیوں کیا؟ اس لیے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بڑے تھے، حضرت اسماعیل علیہ السلام کے والد تھے لہٰذا اﷲ تعالیٰ نے ان دونوں کو ساتھ ذکر کرنے کے بجائے ان کے درمیان فاصلہ کردیا تاکہ دونوں کے درمیان مساوات نہ ہو اور ایسا کرکے اﷲ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ادب سکھادیا۔اور مفسرین حضرات یہ بھی لکھتے ہیں کہ تعمیرِ کعبہ کے معمارِ حقیقی تو اگرچہ اﷲ تعالیٰ ہیں، کعبہ پر اصلی تجلیات و انوارات تو اﷲ تعالیٰ کے ہیں لیکن چوں کہ اس کی تعمیر میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا بھی ہاتھ ہے اس لیے کعبہ پر ان کے اخلاص کا بھی اثر ہے۔ اسی کو مولانا رومی رحمۃاﷲ علیہ فرماتے ہیں ؎ کعبہ را ہر دم تجلی می فزود کیں ز اخلاصاتِ ابراہیم بود کعبہ شریف پر ہر وقت اﷲ تعالیٰ کی تجلی میں اضافہ ہوتا رہتا ہے کیوں کہ کُلَّ یَوۡمٍ ہُوَ فِیۡ شَاۡنٍ 2؎ اﷲ تعالیٰ کی تو ہر وقت نئی شان ہے اور ان کی نئی شان کعبۃ اﷲ پر بھی ہوتی ہے اور ان کے دوستوں پر بھی ہوتی ہے۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ کُلَّ یَوْمٍ میں یہاں یوم کے معنیٰ دن کے نہیں ہے بلکہ وقت کے ہیں یعنی فِیْ کُلِّ وَقْتٍ مِّنَ الْاَوْقَاتِ وَ فِیْ کُلِّ لَحْظَۃٍ مِّنَ اللَّحَظَاتِ وَ فِیْ کُلِّ لَمْحَۃٍ مِّنَ اللَّمْحَاتِ 3؎ہر لمحہ، ہر سانس، ہر وقت وہ ایک نئی شان میں ہوتے ہیں برعکس اس کے کہ مخلوق کی ہر شان ہر وقت پرانی ہوتی رہتی ہے، آج کے پندرہ بیس سال کے کالے بال والے کی شان پچاس سال کے بعد سفید بالوں سے تبدیل ہوگئی اور منہ کے _____________________________________________ 2؎الرحمٰن:29 3؎روح المعانی:110/27،الرحمٰن(29)،مکتبۃ دارإحیاء التراث،بیروت