تعمیر کعبہ اور تعمیر قلب کا ربط |
ہم نوٹ : |
|
درمیان جنگ ہوگی لہٰذا اﷲ تعالیٰ اگر اپنی قدرتِ کاملہ استعمال نہ کریں گے تو پھر تو کافر لوگ نبی کو بہت ستائیں گے۔ چوں کہ سیدنا ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام خود طرح طرح کی مصیبتوں کا سامنا کرچکے تھے، آگ تک میں داخل کیے جاچکے تھے اس لیے سیدنا ابراہیم علیہ السلام یہ دعا مانگ گئے کہ اے اﷲ! جو لوگ دین کی خدمت کریں قیامت تک سید الانبیاء کے وارثین ونائبین کے لیے اپنی قوتِ عزیزیہ کو استعمال فرمائیں اور جو چراغِ نبوت کو بجھانے کی کوشش کرے اس کو آپ بجھادیں اور اپنی قدرت کو استعمال کرکے اس نبی کی مدد کریں۔ اب یہاں پر عزیزکے معنیٰ بھی سمجھ لیجیے، عزیز کے دومعنیٰ ہیں: اَلْقَادِرُ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ جو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہو وَلَا یُعْجِزُہٗ شَیْءٌفِی اسْتِعْمَالِ قُدْرَتِہٖ 21؎ اور کوئی چیز اس کو اپنی قدرت کے استعمال میں عاجزنہ کرسکے، رکاوٹ نہ ڈال سکے۔ خوب سمجھ لو کہ جو ہر شئے پر قادر ہو اور ساری کائنات اس کو اپنی قدرت کو استعمال کرنے میں کوئی رکاوٹ نہ ڈال سکے۔ اﷲ تعالیٰ نے دعائے ابراہیم میں مرقوم اس قدرت کا قرآن میں اعلان بھی کردیا کہ: یُرِیۡدُوۡنَ لِیُطۡفِـُٔوۡا نُوۡرَ اللہِ بِاَفۡوَاہِہِمۡ ؕوَ اللہُ مُتِمُّ نُوۡرِہٖ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡکٰفِرُوۡنَ 22؎یہ کافر ارادہ کرتے ہیں کہ چراغِ نبوت کو بجھادیں اور اﷲ تو اس نور کو کامل کر کے رہے گا، سارے عالم میں یہ اُجالا پھیلے گا اگرچہ ان کافروں کو یہ ناگوار ہی گزرے۔ اب معلوم ہوگیا کہ یہاں عَزِیْزٌ کیوں ذکر کیا۔ دوستو! قرآن کا ہر لفظ اپنے اندر اسم ومعانی کے ہزارہا سمندر رکھتا ہے، یہ تھوڑی کہ بلا حکمت جو چاہے ذکر کر دیا۔ دیکھیے! قرآنِ پاک میں ہے وَھُوَ الْغَفُوْرُ الْوَدُوْدُ شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے تھے کہ غفور کے معنیٰ ہیں بہت زیادہ بخشنے والا لیکن اﷲ تعالیٰ نے غفورکے بعد وَدُوْدْ کیوں نازل فرمایا؟یہاں کوئی اور نام کیوں نہیں استعمال فرمایا؟ وَدُوْدْ کے معنیٰ ہیں بہت محبت کرنے والا تو حضرت پوربی زبان میں فرماتے تھے کہ اﷲ میاں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اے میرے بندو! میں تمہیں جلد بخش دیتا ہوں، جلد معاف کردیتا ہوں جانتے ہو کیوں؟ مارے میا کے۔ بستی اعظم پور کی پوربی زبان میں _____________________________________________ 21؎الصحیح لمسلم:343/2،باب فضل الذکروالدعاءوالتقرب الی اللہ،ایج ایم سعید 22؎الصف:8