Deobandi Books

غم حسرت کی عظمت

ہم نوٹ :

8 - 34
خواجہ صاحب فرماتے ہیں کہ یہ عاشق نہیں ہے، عاشق تھےمولانا اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ جو اپنے شیخ سید احمد شہید کی مجلس میں جہاں لوگ جوتے اتارتے تھے وہاں بیٹھتے تھے اور جب نیند آتی تھی تو اپنے شیخ سید احمد شہید کا جوتا اپنے سرکے نیچے رکھ کر سو جاتے تھے، شیخ کے جوتے کا تکیہ بناتے تھے۔ جو اپنے کو اتنا مٹاتا ہے وہی اللہ والا ہوتا ہے۔ خواجہ صاحب کا شعر ہے      ؎
ہم  خاک  نشینوں  کو  نہ  مسند  پہ  بِٹھاؤ
یہ  عشق  کی توہین ہے  اعزاز نہیں  ہے
حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھ پر روٹی رکھی اور روٹی کے اوپر آلو کی تر کاری رکھ دی، دسترخوان بھی نہیں بچھایا اور پلیٹ بھی نہیں دی۔آپ بتائیے کسی بھک منگے کو ایسے دیا جاتاہے، جو فقیر بھیک مانگنے والے ہوتے ہیں اکثر ان کے ساتھ ایسا ہوتاہے، جیسےکبھی ہم لوگ ریل کے ڈبے میں مسکینوں کو دے دیتے ہیں کہ بھائی! ہاتھ پھیلا، جلدی سے روٹی لے اور جا۔ تو قطب العالم مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حاجی صاحب مجھے کن انکھیوں سے دیکھ رہے تھے کہ آیا اس کو کچھ تکلیف ہورہی ہے یا نہیں یعنی یہ اپنی توہین سمجھ رہا ہے یا مست ہورہا ہے۔ حضرت گنگوہی پر وجد طاری ہوگیا کہ شکر ہے کہ آج میرے شیخ نے میرے ساتھ وہ معاملہ کیا جوعشق میں ہونا چاہیے۔
میں نے الٰہ آباد میں ایک مرتبہ حضرت مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضری دی، میں بیت المعارف مدرسے میں ٹھہرا ہوا تھا جو حضرت کے گھر سے تقریباً ایک میل کے فاصلے پر تھا۔ جب میں حضرت سے ایک گھنٹہ مل کر واپس آیا اور اپنے کمرے میں پنکھا چلا کر لیٹنے کا ارادہ کیا، تو تھوڑی دیر میں خبر ملی کہ مولانا شاہ محمد احمد صاحب رکشے سے خود تشریف لا رہے ہیں۔ جب حضرت تشریف لائے تو میں نے عرض کیا کہ ابھی ایک گھنٹہ آپ کے پاس بیٹھ کر آیا ہوں، اب ایسی کیا خاص بات ہوئی کہ اتنی گرمی میں آپ نے اتنی زحمت فرمائی؟ اتنے بڑے عالم و بزرگ ہوکر، میرے مرشد و شیخ ہوکر آپ نے اتنی تکلیف کی اور ہمیں اپنی زیارت سے نوازا۔ حضرت نے فرمایا  ؎
 میں  خود  آیا  نہیں  لایا  گیا   ہوں
محبت   دے  کے   تڑپایا   گیا   ہوں
Flag Counter