Deobandi Books

نسبت مع اللہ کی شان و شوکت

ہم نوٹ :

7 - 26
گھر تشریف لے گئے تو فرمایاکہ مولانا محمد احمد صاحب کانورمیں زمین سے آسمان تک دیکھ رہا ہوں۔ مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کے گھر کے سامنے ایک جنگل تھا جو نور سے بھرا ہوا محسوس ہوتا تھا، حضرت اس جنگل میں جوانی میں ستر ہزار دفعہ اﷲاﷲ کا ذکر کرتے تھے، یہ اسی ذکر کا نور تھا، حضرت نے اس جنگل کے بارے میں ارشاد فرمایا   ؎
گیا  میں  بھول  گلستاں  کے  سارے  افسانے
دیا   پیام    کچھ    ایسا    سکوتِ    صحرا    نے
یعنی صحرا کی خاموشی نے ایک ایسی ہوک دل میں پیدا کی اور ایسا نعرۂ مستانہ دیا جس کی لذت کے سامنے دنیا کی رنگینیاں ہیچ ہوگئیں، تو حضرت مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ اﷲ علیہ نے بھی بے زبانی پر ایک شعر فرمایا ہے کہ جب کوئی اﷲ والا صاحبِ نسبت خاموش رہے اور بول نہ سکے تو سمجھ لو کہ اس کا بال بال زبان بن جاتا ہے     ؎
قیامت   ہے   ترے   عاشق   کا    مجبورِ   بیاں   رہنا
زباں  رکھتے  ہوئے  بھی  اﷲ  اﷲ بے  زباں   رہنا
اور اسی بحر میں ایک اور شعر فرمایا   ؎
نہیں  رہتے   ہیں  ہم  کیوں  چاہیے  ہم   کو  جہاں  رہنا
کوئی  رہنے    میں   رہنا    ہے   یہاں  رہنا    وہاں   رہنا
کہیں بیٹھ کر اخبار پڑھ لیا، کہیں ہوٹل میں چائے پی لی،یہ زندگی کوئی زندگی ہے؟ آہ! زندگی تو وہ ہے جو خالقِ حیات پر فد اہو اور جو حیات خالقِ حیات پر فد انہ ہو وہ حیات حیات کہلانے کی مستحق بھی نہیں ہے۔ مجھے ایک اردو شعر یاد آیا جو میرا ہی ہے، شعر سے اپنی نسبت اس لیے ظاہر کردیتا ہوں کہ بعض لوگوں کو اس نسبت کی وجہ سے زیادہ مزہ آتا ہے تو اس شعر کا مضمون یہ ہے کہ ہماری جو سانس اﷲ تعالیٰ کی عبادت اور ان کی رضا اور خوشنودی میں گزر جائے وہی ہماری زندگی کا حاصل ہے      ؎
وہ  مرے  لمحات  جو  گزرے  خدا   کی   یاد   میں
بس  وہی  لمحات  میری  زیست  کا  حاصل   رہے
Flag Counter