Deobandi Books

نسبت مع اللہ کی شان و شوکت

ہم نوٹ :

6 - 26
نسبت مع اﷲ کی شان وشوکت
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ النَّبِیِّ الْکَرِیْمِ
اس بات پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے کہ حضرت مولانا فقیر محمد صاحب   رحمۃ اﷲ علیہ کی وفات سے پاکستان میں حکیم الامت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ کا کوئی خلیفہ حیات نہیں رہا،جن کو حکیم الامت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ نے بَکَّاءٌ  کا لقب دیا تھا یعنی بہت رونے والا، تو مجھے یہ خیال آتا تھا کہ لکھنؤ اور دہلی کے لوگ جن کی نزاکت اور لطافت مشہور ہے اور جن کے قلب بھی نازک ہوتے ہیں اور جسم بھی نازک ہوتے ہیں وہاں بَکَّاءٌ  کے لقب سے کوئی نہ مشرف ہوا؟ تو بات یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنی ایک بہت بڑی قدرت کا ظہور فرمایا کہ پہاڑی علاقے سے ایک ایسا صاحبِ نسبت بزرگ پیدا فرمایا جس کی آنکھوں سے ہروقت آنسو رواں رہتے تھے۔آج سے کئی برس پہلے جب میں پشاور حاضر ہوا تو میرا ایک شعر موزوں ہوا جو مولانا کی اس حالت کا ترجمان تھا     ؎
ہے زباں خاموش اور آنکھوں سے ہے دریا رواں
اﷲ   اﷲ  عشق   کی   یہ  بے    زبانی   دیکھیے
اور دوسرا شعر بھی میں نے مولانا ہی کی شان میں کہا تھا      ؎
عشق  جب  بے  زبان  ہوتا  ہے
رشک   صدہا   بیان   ہوتا   ہے
مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ اﷲ علیہ جن کا ابھی حال ہی میں الٰہ آباد میں انتقال ہوا ہے جو ہمارے اکابر علماء کے بھی شیخ تھے اور اکابر مشایخ کے بھی شیخ تھے، اتنے بڑے شیخ تھے کہ حضرت ڈاکٹر عبد الحی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ، حضرت مولانا شاہ عبد الغنی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب دامت برکاتہم جیسے اکابر اولیاء اور علماء ان کی خدمت میں دعا کے لیے حاضر ہوتے تھے۔ میرے شیخ شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ جب مولانا کے 
Flag Counter