Deobandi Books

نسبت مع اللہ کی شان و شوکت

ہم نوٹ :

14 - 26
اور  میرے  تن  میں  بجائے  آب   و  گِل
دردِ  دل   ہو   دردِ   دل    ہو     دردِ    دل
غیر   سے   بالکل   ہی    اُٹھ    جائے    نظر
تو   ہی   تو    آئے    نظر    دیکھوں  جدھر
یہ شعر بہت عاشقانہ انداز میں پڑھتے تھے۔ محبت اور درد بھرے دل سے ایک مرتبہ اﷲ کہنا اُس مقام پر پہنچاتا ہے جہاں عام لوگوں کا لاکھوں مرتبہ اﷲ اﷲ کہنا نہیں پہنچاسکتا اسی لیے بزرگوں نے فرمایا کہ کمیت کی فکر مت کرو، مقدار اور تعداد کی فکر مت کرو، اہل اﷲ سے درد بھرا دل حاصل کرو تو درد بھرے دل سے ایک مرتبہ اﷲ کہنا بھی آپ کے لیے زمین سے آسمان تک شربت روح افزا سے بھر دے گا یعنی نور ہی نور پیدا ہوجائے گا۔ میں مثال دیتا ہوں کہ ہوائی جہاز میں ریل گاڑی کی بہ نسبت کم لوہا ہوتا ہے لیکن کیفیت کس کی زیادہ ہوتی ہے؟ ہوائی جہاز کی کیوں کہ جہاز میں اسٹیم زیادہ ہوتی ہے، چار گھنٹے میں جدہ پہنچا دیتا ہے اور ریل گاڑی لوہا اور جسم کے اعتبار سے تو بھاری بھرکم ہے، جسم کے لحاظ سے جہاز پر برتری کا دعویٰ کر سکتی ہے لیکن اپنی اڑان اور پرواز کے لحاظ سے جہاز اس کا دعویٰ باطل کردیتا ہے لہٰذا اگرکوئی صاحبِ نسبت ایک دفعہ اﷲ کہے تو غیر صاحبِ نسبت کا لاکھوں مرتبہ اﷲ کہنا اس کے برابر نہیں ہوسکتا، یہی وجہ ہے کہ جن کو اﷲ تعالیٰ نے عقلِ سلیم عطا فرمائی ہے وہ اپنی تنہائی کی عبادتوں سے زیادہ صحبتِ اہل اﷲ اختیار کرتے ہیں۔ حاجی امداد اﷲ صاحب مہاجر مکی رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا کہ جن کو اﷲ نے اپنی معرفت عطا فرمائی ان کی دو  رکعات یعنی عارف کی دو  رکعت غیر عارف کی ایک لاکھ رکعات سے افضل ہے۔
صحبتِ اہل اﷲ نسبت مع اﷲ کے حصول کا ذریعہ ہے 
 ایک مرتبہ حاجی امداداﷲ مہاجر مکی رحمۃ اﷲ علیہ مثنوی پڑھا رہے تھے،  کسی نے پوچھا کہ مولانا رومی شمس الدین تبریزی پر کیوں فدا ہوگئے؟ حاجی صاحب نے فرمایا کہ بات یہ ہے کہ مولانا رومی اپنے پیر شمس الدین تبریزی پر اس لیے عاشق ہوئے کہ سو برس کے تہجد
Flag Counter