اگر آپ سونے او رچاندی کی کانوں کو جہاں لاکھوں ٹن سونا ہوتا ہے اور سمندر جس میں کروڑوں کے موتی چھپے ہوتے ہیں، اے اﷲ! اگر آپ سونے چاندی کی کان کو اور سمندر کے موتی بھرے دامن کو تہی دست اور قلاش قرار دے دیں کہ تم فقیر ہو، نہایت قلاش اورتنگ دست ہو، مسکین ہو، محتاج ہو، گداہوا، اور اے اﷲ! اگر آپ عرشِ اعظم اور ساتوں آسمانوں سے فرمادیں کہ تم سب کے سب حقیر مخلوق ہو ؎
ایں بہ نسبت با کمالِ تو روا است
ملک و اقبال و غناہا مر تو روا ا ست
تو آپ کے کمالات کے لیے آپ کو زیبا ہے کہ آپ یہ سب کہہ دیں کیوں کہ آپ ان کو بھیک دینے والے ہیں، چاند اور سورج کو روشنی کی، سمندر کو موتیوں کی اور کانوں کو سونے کی بھیک دینے والے ہیں۔ ایک اﷲ والے جارہے تھے اُن سے کسی نے پوچھا کہ بڑے میاں! تمہارے پاس کتنا سونا ہے؟ جب دیکھو لوگ تمہیں شاہ صاحب شاہ صاحب کہہ رہے ہیں، ارے شاہوں کے پاس تو خزانہ ہوتا ہے، تیرے پاس کتنا سونا ہے؟ اس اﷲ والے نے وہ شعر پیش کیاکہ معترض اپنا سا منہ لے کے رہ گیا۔ اس اﷲ والے نے کہا ؎
بخانہ زر نمی دارم فقیرم
ولے دارم خدائے زر امیرم
میرے گھر میں سونا تو نہیں ہے میں فقیر ہوں لیکن میں اپنے دل میں خدائے زر کو رکھتا ہوں جو سونے کا پیدا کرنے والا ہے، میرے دل میں اﷲ کا نور اور تعلقِ خاص ہے۔
نسبت مع اﷲ کی ایک خاص علامت
اب خواجہ صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کا شعر سن لیجیے جو میرے مضمون کا ترجمان ہے کہ جس کو اﷲ تعالیٰ اپنا تعلقِ خاص، نسبت مع اﷲ، تعلق مع اﷲ کی دولت سے نوازتا ہے، نسبت علیٰ سطح الولایت عطا کرتا ہے، ولایتِ خاصہ نصیب فرماتا ہے وہ عام مومنین سے بالا تر ہوجاتا ہے، اس کا مقام یہ ہوتاہے کہ ساری کائنات اس کو نہیں خرید سکتی، سارے عالم میں وہ جہاں