کافی نہیں ہے،’’ قصدِ عدمِ نظر‘‘ ضروری ہے، ارادہ کرلے کہ جان چلی جائے مگر نہیں دیکھوں گا اور دیکھ کر احمقانہ پن نہیں کروں گا اور اس حماقت سے کچھ حاصل بھی نہیں ہے، پرایا مال دیکھ کر دل کو جلانا، تڑپانا بے وقوفی ہے یانہیں؟ اپنی چٹنی روٹی کھاؤ، چٹنی روٹی نہ ہو تو اﷲ ہی کافی ہے اَلَیۡسَ اللہُ بِکَافٍ عَبۡدَہٗ 3؎ اﷲ تعالیٰ اپنے بندے کے لیے کافی ہے۔
نمبر۳۔ جس طرح اذیت پہنچانے کا ارادہ تو نہیں ہے لیکن اس کا بھی ارادہ نہیں کرتے کہ میری ذات سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے، حکیم الامت رحمۃاﷲ علیہ فرماتے ہیں’’قصدِ عدمِ ایذا‘‘ ضروری ہے’’عدمِ قصدِ ایذا‘‘ کافی نہیں، قصدِ عدمِ ایذا ہونا چاہیے، ارادہ کرلو کہ ہماری ذات سے کسی کو تکلیف نہ ہو جو سلوک کا حاصل ہے، تصوف کی روح ہے۔
نسبت مع اﷲ کے حصول کے لیے تین اہم اعمال
اس کے بعد تین اعمال کر لیں تو و یسے ہی ولی اﷲ بنیں گے جیسے مولانا قاسم صاحب نانوتوی اور حکیم الامت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہم وغیرہ تھے کیوں کہ اولیائے صدیقین کا دروازہ آج بھی کھلا ہے بلکہ قیامت تک کھلا رہے گا صرف نبوت کا دروازہ بندہوا ہے، تو یہ تین کام کرلیں:
۱۔کسی اپنی مناسبت کے اﷲ والے کی صحبت میں تسلسل کے ساتھ رہیں۔ آپ کہیں گے اگر تسلسل کبھی کبھی چلا جائے تو؟ کبھی کبھار نہیں سدا بہار رہو جیسے مرغی کے پر میں انڈا اگر اکیس دن تک تسلسل سے نہیں رہے گا اس کو حیات نہیں ملے گی چاہے وہ مختلف مجلسوں میں اکیس دن پورے کرے، انڈے تین دن ایک دفعہ رہے پھر بھاگ گئے پھر دس دن ایک دفعہ رہ گئے اور پھر مرغی کے پروں سے نکل گئے اور آٹھ دن ایک دفعہ رہ گئے اس طرح اگرچہ اکیس دن ہوگئے لیکن اس طرح کچھ نہیں کام بنے گا، حکیم الامت کے الفاظ ہیں کہ ایک دفعہ زندگی میں چالیس دن کسی صاحبِ نسبت کی خانقاہ میں کسی اﷲ والے کے پاس، اپنے شیخ کے پاس تسلسل کے ساتھ رہ لو، پھر ساری زندگی خط وکتابت کرتے رہو اور کبھی کبھی ملاقات بھی کرلو۔ان شاء اﷲ تعالیٰ نسبت عطا ہو جائے گی۔
_____________________________________________
3؎ الزمر: 36