Deobandi Books

نسبت مع اللہ کی شان و شوکت

ہم نوٹ :

22 - 26
ایک صاحب نے حکیم الامت سے پوچھا کہ کسی کی صحبت میں رہنا کیا ضروری ہے، صرف خط وکتابت سے کام نہیں چلے گا؟ تو فرمایا کہ اگر کسی کامیاں لاہور ہو اور بیوی کراچی میں ہو اور خط وکتابت کرتارہے تو کیا اولاد ہوگی؟ تو تسلسل کے ساتھ روحانی صحبتوں کی ضرورت ہے۔
۲۔ شیخ جو ذکر بتائے اس میں کبھی ناغہ نہ کرے، اگر ناغہ کرے تو کھانا بھی نہ کھائے، جب جسم کو فاقہ نہیں دیتا خوب ٹھونستا ہے تو روح کو فاقہ کرانے کا اس کو کیا حق حاصل ہے؟ اگر روح کو فاقہ ہی کرانا ہے تو پہلے جسم کو فاقہ کراؤ، کھانا نہ کھاؤ، نفس سے کہہ دو آج ذکر میں سستی کی ہے چلو پھر کھانا بھی بند کرو پھر تمہیں چھٹی دیں گے، پھر دیکھو نفس کیسا تلملاتا ہے، کہے گا ہم بالکل ذکر کریں گے، ہمیں روٹی چاہیے تو جب نفس شرارت کرے تو کہہ دو کہ آج تمہیں کھانا بھی نہیں دیں گے کیوں کہ اگر جسم ہو اور روح نہ رہے تو ایک لقمہ نہیں کھاسکتے، جس کے صدقے میں روٹیاں بوٹیاں اُڑا رہے ہو پہلے اس کو غذا دو۔
ایک بزرگ فجر کے بعد اشراق تک مسجد میں رہے، ان کے مہمان کو جلد چائے پینے کی عادت تھی، اس نے کہاکہ آپ اتنی دیر تک کیا کررہے تھے؟ اس اﷲ والے نے کہا میں اپنی روح کو ناشتہ کرارہا تھا یعنی اشراق، تلاوت اور ذکر میں مشغول تھا تو ذکر کاناغہ نہ کرے کیوں کہ ذکر کی برکت سے گناہوں سے خود بخود مناسبت ختم ہوتی جاتی ہے، اندھیرے خود دور ہوتے جاتے ہیں، دل میں اُجالے پھیلتے چلے جاتے ہیں۔اﷲ کا نور معمولی بات نہیں، اﷲ کا نام بہت بڑا نام ہے، جتنا بڑا نام ہے اتنی بڑی مہربانیاں اس پر ہوتی ہیں اور ذکر کی برکت سے اس کے قلب میں آہستہ آہستہ گناہوں سے نفرت ہونے لگتی ہے۔اگر ذکر میں دل نہ بھی لگے تو بغیرحضوریٔ دل، تشویشِ قلب، ہزاروں فکروں کے ساتھ بھی ذکر کرتا ر ہے، اس پر بھی ا ﷲ تعالیٰ معیتِ خاصہ کا انکشاف کردے گا اور صاحبِ نسبت بنادے گا۔یہ سب الفاظ حکیم الامت کے پیش کررہا ہوں، حضرت حکیم الامت فرماتے ہیں کہ دل لگے یا نہ لگے، دل حاضر ہویا غیر حاضر یا تشویشِ قلب ہو، جو ذکر ا ﷲ کرتا رہے گا اﷲ تعالیٰ کی رحمت سے اس پر معیتِ حق یعنی ولایتِ خاصہ کا انکشاف ہوگا یعنی نسبت عطا ہوجائے گی اور نسبت جب عطا ہوتی ہے اچانک عطا ہوتی ہے، ذکر دروازہ کھٹکھٹانا ہے، اﷲ تعالیٰ کے در پر دستک دینا ہے، دستک تو دیر تک دی جاسکتی ہے لیکن دروازہ کھلنے میں دیر نہیں لگتی وہ تو اچانک کھلتا
Flag Counter