Deobandi Books

نسبت مع اللہ کی شان و شوکت

ہم نوٹ :

19 - 26
جوش میں  آئے  جو دریا رحم کا
گبر صد  سالہ   ہو   فخر   اولیاء
جب اﷲ تعالیٰ کے دریائے رحمت میں جوش آتا ہے تو سو برس کے کافر کو نہ صرف یہ کہ ولی اﷲ بناتا ہے بلکہ اولیاء اﷲ کا سردار بنا دیتا ہے، اس کی رحمت، اس کے فضل و کرم کو ہم کیا سمجھ سکتے ہیں، وہ نااہلوں پر فضل کرتا ہے، کریم کی شان یہی ہے کہ جو نااہلوں پر فضل کردے، ہماری تمناؤں سے زیادہ دے دے اور دینے میں اپنے خزانے کے ختم ہونے کاخوف نہ کرے۔کریم کی یہ تین تعریفیں محدثین نے لکھی ہیں اَلْکَرِیْمُ ہُوَالَّذِیْ یُعْطِیْ بِدُوْنِ الْاِسْتِحْقَاقِ حق نہ بنتا ہو، بلا اہلیت دے دے،اَلْکَرِیْمُ ہُوَ الَّذِیْ یُعْطِیْنَا فَوْقَ مَانَتَمَنّٰی بِہٖ ہماری امیدوں سے زیادہ دے دے اَلْکَرِیْمُ ہُوَ الَّذِیْ یُعْطِیْنَا وَلَا یَخَافُ نَفَادَ مَاعِنْدَہٗ2؎جس کو اپنے خزانے کے ختم ہونے کا خوف نہ ہو لہٰذا اگر ساری دنیا کو وہ ابدال واقطاب اور ولی اﷲ بنادے تو اﷲ تعالیٰ کے رحم و کرم کے سمندر سے ایک قطرہ کم نہیں ہوگا۔
حضرت شاہ عبد الغنی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے تھے کہ اخیر عمر میں ان پر کیفیت طاری ہوگئی تھی، مرض الموت میں اپنے کمرے میں شمال و جنوب کی دیواروں تک لوٹتے تھے اور چیخ مارکر روتے تھے کہ یا اﷲ! مجھے معاف کر دے، روتے روتے جان دے دی، خدا کا خوف طاری ہوگیا۔دیکھیے! اﷲ تعالیٰ نے کیسی مبارک موت عطا فرمائی، انہوں نے اخیر میں اپنے دیوان میں تین شعر بڑھا دیے تھے، وہ شعر بھی غضب کے ہیں، دردِ دل سے نکلے ہوئے ہیں، جلا بھنا دل جب شعر کہتا ہے تو کچھ مت پوچھو کہ پھر کیسا شعر کہتا ہے، فرماتے ہیں  ؎
مری   کھل   کر    سیہ   کاری   تو    دیکھو
اور   ان   کی   شانِ   ستاّری   تو      دیکھو
گڑا   جاتا   ہوں    جیتے   جی   زمیں  میں
گناہوں   کی   گراں    باری    تو     دیکھو
_____________________________________________
2؎  مرقاۃ المفاتیح: 212/3،باب التطوع،  المکتبۃ الامدادیۃ، ملتان
Flag Counter