Deobandi Books

نسبت مع اللہ کی شان و شوکت

ہم نوٹ :

18 - 26
کرتے تھے، ایل ایل بی تھے، ڈاکٹر عبد الحی صاحب کہنے لگے کہ بھئی! مجھے کسی نے بنایا ہے، تم بھی تھانہ بھون جاؤ۔تو انہوں نے کہا میں تو بہت شراب پیتا ہوں، کہنے لگے کہ جاؤتو، سب گناہ چھوٹ جائیں گے، گدھا اگر نمک کی کان میں گرجائے تو وہ بھی نمک بن جاتا ہے مگر ایک شرط ہے کہ مرجائے، اگر زندہ رہا یعنی اپنی چلائی، اپنی خود رائی، اپنی خود بینی، اپنی مرضی چلائی تو نمک نہیں بنے گا گدھے کا گدھا ہی رہے گا، اسی طرح اگر سالک شیخ کی مرضی پر فنا نہیں ہوا، اﷲ کے احکامات کے سامنے اپنے نفس کو نہیں مٹایا تو خانقاہوں سے بھی پورا کام نہیں بنے گا البتہ کچھ نہ کچھ مل جائے گا     ؎
مستی کے لیے  بوئے  مئے تند ہے  کافی
مے خانے کا محروم بھی محروم نہیں ہے
ان شاء اﷲ کچھ تو پاجائے گا لیکن میں ’’کچھ‘‘ نہیں چاہتا ہوں، میں چاہتا ہوں کہ پورا پورا پا جائے۔اس لیے عرض کردیاکہ نمک کی کان میں جو گدھا گرے اور مرجائے، اپنے کو مٹا دے،نفس کو ختم کردے تو وہ نمک بن جائے گا۔ اسی طرح شیخ کے سامنے جو اپنے نفس کو بالکل مٹا دے تو وہ ولی اﷲ بن جاتا ہے۔ بس ڈاکٹر صاحب رحمۃ ا ﷲ علیہ کی بات سن کر جناب حفیظ صاحب فوراً تھانہ بھون گئے، لیکن پہلے خانقاہ میں بیٹھ کر حجام کو بلایا اور داڑھی منڈا کر حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ میں آل انڈیا شاعر حفیظ جو ن پوری ہوں، حضرت نے پوچھا کیا چاہتے ہو؟ کہا بیعت ہونا چاہتا ہوں، فرمایا کہ اگر بیعت ہونا تھا تو  جون پورسے سہارنپور آتے ہوئے چہرے پہ جو نور نکل آیا تھا خانقاہ پہنچ کر اس کو کیوں منڈا دیا؟ انہوں نے کہا کہ حضرت آپ حکیم الامت ہیں میں مریض الامت ہوں، مریض کو چاہیے کہ حکیم پر اپنا پورا مر ض ظاہر کردے، اپنا سب کچا چٹھا دکھا دے کہ میں یہ ہوں،ان شاء اﷲ اب استرا نہیں لگےگالیکن ان کا یہ عمل صحیح نہیں تھا ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا، ورنہ تو سب لوگ یہی کرنے لگیں گے لیکن اخلاص تھا اس لیے حضرت نے ان کو بیعت فرما لیا۔کچھ سال بعد جب دوبارہ حضرت حکیم الامت جون پور تشریف لے گئے تو ان کو  حضرت پہچان نہ  سکے، میرے شیخ حضرت شاہ عبد الغنی صاحب پھولپوری رحمۃ اﷲ علیہ سے پوچھا یہ بڑے میاں کون ہیں؟ انہوں نے عرض کیا کہ یہ وہی عبد الحفیظ جون پوری ہیں جنہوں نے داڑھی منڈوا کر آپ کے سامنے بیعت کی درخواست کی تھی اب یہ بڑے میاں نظر آرہے ہیں  ؎
Flag Counter