Deobandi Books

نسبت مع اللہ کی شان و شوکت

ہم نوٹ :

11 - 26
اور تعلق مع اﷲ کی دولت عطا فرماتا ہے تو پھر وہ ساری کائنات سے فروخت نہیں ہوسکتا، کائنات میں سورج اور چاند بھی ہیں، اس کا سورج اور چاند الگ ہوتا ہے، ہر صاحبِ نسبت ولی اﷲ کا چاند اور سورج الگ ہوتا ہے، اگر اﷲ سے ان کو غفلت ہوجائے، ایک بھی خطا یا گناہ ہوجائے جس کی وجہ سے دل میں اندھیرا آجائے تو پھر ان کو آفتاب اور چاند میں کوئی روشنی محسوس نہیں ہوتی،ساری کائنات ان کو اندھیری معلوم ہوتی ہے، اس لیے اپنے ایک شعر میں اختر نےاہل اﷲ کی اس حالت کو بیان کیا ہے کہ     ؎
تیرے  بن  کیوں  اندھیرا  اندھیرا  ہوا
میری   دنیا    کا    شمس   و   قمر   کیا   ہوا
’’تیرے بن‘‘یعنی اﷲ کے بغیر سورج اور چاند سے ان کو کیوں روشنی نہیں ملی؟اس لیے کہ اﷲ والوں کا چاند اور سورج اور ہے، اس چاند اور سورج سے تو کافر بھی روشنی حاصل کرتا ہے، روشنی لینے میں کافر بھی ہمارے ساتھ مشترک ہے، جو چیز ہم میں اور دشمنوں میں مشترک ہو وہ ہماری خاص چیز نہیں ہوسکتی۔ اس لیے مسلمانوں کو جو خاص دولت ملی ہے وہ نسبت مع اﷲ کا نور ہے جس کے سامنے آفتاب و ماہتاب کی کوئی حقیقت نہیں، سورج اور چاند اس کے سامنے شرمندہ ہیں، علیٰ معرض الخفاء ہیں،سورج اور چاند کی روشنی اس کے سامنے ماند ہے، اس لیے مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اے خدا! آپ کا نور جس کے دل میں داخل ہوجائے تو آپ کی وہ شان ہے کہ      ؎
گر  تو  ماہ  و  مہر  را   گوئی   خفا
گر تو   قدِ  سرو  را   گوئی  دوتا
 اگر چاند اور سورج کو آپ کہہ دیں کہ تم بے نور ہو، تم نہایت مخفی مخلوق ہو، تمہارے اندر کچھ روشنی نہیں ہے، تم دو کوڑی کے ہو اور اے اﷲ! اگر آپ سر و کے درخت کو ٹیڑھا کہہ دیں کہ تم ٹیڑھے ہو حالاں کہ سرو کا درخت سیدھا ہوتا ہے، شاعر لوگ اپنے معشوق کے قدوقامت کو سرو کے درخت سے تشبیہ دیتے ہیں،اور آگے چلیے ابھی سب مبتدا ہیں، خبر آگے آرہی ہے، جزا آگے آرہی ہے      ؎
گر  تو   کان   و   بحر   را   گوئی   فقیر
گر  تو  چرخ  و  عرش  را  گوئی  حقیر
Flag Counter