Deobandi Books

دستک آہ و فغاں

ہم نوٹ :

17 - 34
ہے۔ کافروں کی شان میں یہ آیت نازل ہوئی وَ رَضُوۡا بِالۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَاطۡمَاَنُّوۡا بِہَا3؎     یہ کافر دنیا کی نعمتوں سے مطمئن ہوجاتے ہیں۔ لیکن مومن کی شان کیا ہونی چاہیے؟ اسے دنیا کی نعمتوں سے مطمئن نہیں ہونا چاہیے۔مومن کو اطمینان کس چیز سے ملتا ہے؟اَلَا بِذِکۡرِ اللہِ تَطۡمَئِنُّ الۡقُلُوۡبُ4؎ ان کو اﷲ کی یاد سے چین ملتا ہے۔اور جب کبھی ذکر کی توفیق کم ہوجائے، اﷲ کی یاد کی توفیق نہ ہو تو دل بے چین ہوجاتا ہے۔
جیسے اگر کوئی پہلی مرتبہ تمباکو کھاتا ہے تو اسے قے آجاتی ہے، چکر آجاتے ہیں، لیکن جب وہ تمباکو تھوڑا تھوڑا بڑھاتا جاتا ہے تو ایک زمانہ ایسا آتاہے کہ وہ پان تمباکو کا اتنا عادی ہوجاتا ہے کہ اگر ریل کے ڈبے میں اس کا پان اور تمباکو ختم ہوجائے تو وہ سید صاحب یا زمیندار صاحب ڈبے میں جھاڑو لگانے والے جمعدار اور بھنگی سے کہتے ہیں کہ معاف کیجیے گا ،میرا تمباکو ختم ہوگیا ہے، مجھے تھوڑا سا تمباکو اور پان دے دینا، اگلے اسٹیشن پر تم کو خرید کر دے دوں گا، بلکہ لو                  چند  روپے بھی لے لو مجھ سے۔ تو کیا وجہ ہے کہ پان تمباکو کی تو عادت پڑجائے، لیکن اﷲ کے ذکر کی عادت نہیں پڑے گی؟ جب بُری چیز کی عادت پڑسکتی ہے تو کیا اچھی چیز کی عادت نہیں پڑسکتی؟
ایک صاحب حیدرآباد سندھ کے بڑے رئیس تھے،لیکن ان کو اﷲ کی یاد سے کوئی تعلق نہ تھا۔ میرے شیخ حضرت شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃاﷲ علیہ سے بیعت ہوگئے، حضرت نے ایک ہزار دفعہ اﷲ اﷲ کا ذکر بتایا، چھ مہینے انہوں نے اﷲ اﷲ کیا، کہتے تھے کہ شروع شروع میں جی بہت گھبراتا تھا، مگر جمے رہے۔ چھ مہینے کے بعد مجھ سے کہا کہ اب ذکر میں ایسا جی لگ گیا ہے کہ اب اگر میں ایک ہزار مرتبہ اﷲ کا نام نہیں لیتا اور وظیفہ نہیں پورا کرتا تو نیند نہیں آتی ؎
دلِ  مضطرب  کا   یہ  پیغام  ہے
ترے بِن سکوں ہے  نہ آرام  ہے
تڑپنے  سے  مجھ  کو  فقط  کام  ہے
یہی   بس   محبت   کا   انعام   ہے
_____________________________________________
3؎    یونس:7الرّعد:28
Flag Counter