اللہ تعالیٰ کی دوستی حاصل کرنے کا آسان طریقہ
ارشاد فرمایا کہ اللہ کی دوستی کا کیا طریقہ ہے؟ کوئی کہے کہ ہم اللہ کے دوست نہیں بنتے، ہم ایسے ہی مرجائیں گے تو یاد رکھو! موت کے بعد حساب ہوگا، پوچھا جائے گا کہ تم نے یہ بے حیائی کیوں کی؟ اے بے غیرت کمینے شخص! تجھے شرم نہیں آئی۔ کیوں تو نے منہ کالا کیا تب پتا چلے گا۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی دوستی کا بہت آسان راستہ بتادیا کہ کُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ زیادہ بکھیڑوں میں، زیادہ جھنجھٹ، زیادہ مصیبت میں ہم تم کو مبتلا نہیں کرنا چاہتے، آسان نسخہ بتاتے ہیں کہ تم اللہ والوں کے ساتھ رہو۔ اور اللہ والوں کے ساتھ رہو تو دل کی محبت کے ساتھ رہو، منافقانہ طریقے سے مت رہو، کیوں کہ بہت سے منافقین حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھتے تھے مگر دل کافروں کے ساتھ رکھتے تھے۔ اسی لیے سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حدیثِ قدسی میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
وَجَبَتْ مَحَبَّتِیْ لِلْمُتَحَابِّیْنَ فِیَّ
ان لوگوں کو محبت دینا مجھ پر احساناً واجب ہوجاتا ہے جو ایک دوسرے سے میری وجہ سے محبت رکھتے ہیں۔ دیکھو! کتنا اطمینان دلایا کہ مجھ پر واجب ہوجاتا ہے کہ میں اس کو اپنی محبت عطا کردوں۔
وَجَبَتْ مَحَبَّتِیْ لِلْمُتَحَابِّیْنَ فِیَّ وَالْمُتَجَالِسِیْنَ فِیَّ
محبت کے ساتھ بیٹھوگے تو فائدہ ہوگا، اگر محبت نہیں ہوگی تو نفع نہیں ہوگا۔ مُتَحَابِّیْنَ پہلے بنو اور مُتَجَالِسِیْنَ بعد میں بنو۔ تحابب پہلے ہے، تجالس بعد میں ہے۔ پہلے محبت ہو کہ میرا خاص بندہ سمجھ کر تم میری وجہ سے اس سے محبت کرو۔ جب تحابب ہوگا تب تجالس مفید ہوگا۔ وَالْمُتَزَاوِرِیْنَ فِیَّ اور میری وجہ سے ایک دوسرے کی زیارت کرتے رہو۔ اور زیارت کے معنیٰ یہ نہیں کہ شیخ کے پاس ہی بیٹھے رہو اور بیوی بچوں کو بھول جاؤ۔ اس لیے زیارت کے معنیٰ یہ ہیں کہ آتے جاتے رہو۔ شیخ پر بوجھ مت بنو اور اس میں اخلاص بھی نہیں رہتا۔ سمجھتے ہیں کہ شیخ کے دسترخوان پر مفت میں کھائیں گے، اس لیے خالی زیارت ہی نہ کرتے رہو۔