ہے۔ اہل مدینہ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)! اب ہم کو وسوسہ آتا ہے کہ آپ کہیں پھر اپنے وطن میں نہ رہ جائیں اور صحابہ رضی اللہ عنہم بھی رہ جائیں اور ہم لوگوں کو اکیلا چھوڑ دیں تو آپ ہماری جان لے لیجیے، ہماری اولاد لے لیجیے، ہمارا مال لے لیجیے، سب چیزوں پر ہم صبر کرسکتے ہیں لیکن ہم لوگ آپ پر صبر نہیں کرسکتے، آپ پر ہم انتہائی بخیل اور کنجوس ہیں۔ ہم ساری چیزیں آپ پر قربان کرسکتے ہیں، ہم شہید ہوجائیں، ہماری بیویاں بیوہ ہوجائیں، ہمارے بچے یتیم ہوجائیں لیکن اللہ کے لیے ہم سے جدا نہ ہوں، آپ پر صبر کرنا ہمارے لیے ناممکن ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے ہجرت اللہ کے حکم سے کی ہے اور میرا مرنا جینا تمہارے ساتھ ہوگا، مدینہ ہی میں رہوں گا، یہیں جیوں گا، یہیں مروں گا۔ مدینہ شریف ہماری جان ہے، اسلام کی جان ہے، ایمان کی جان ہے، کلمہ کی جان ہے۔ آہ! اگر آپ ہجرت نہ فرماتے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کوشش نہ کرتے تو ہمارا نام آج رام چندر اور سیتارام ہوتا۔ آج ان ہی کے خون کے صدقے میں ایمان ہم تک پہنچ گیا اور ہم عبدالرحمٰن اور عبداللہ ہوگئے۔ (مولانا نذیر لونت صاحب نے پرتگالی زبان میں ترجمہ کیا۔)
شیطان کا مکر
ارشاد فرمایا کہ جب مکہ شریف فتح ہوگیا تو اس کے بعد حج نصیب ہوا۔ حج میں کچھ نومسلموں کو تالیفِ قلب کے لیے آپ نے اونٹ اور بکریاں ذرا زیادہ دے دیں تو شیطان انسان کی شکل میں آیا اور وسوسہ ڈالنا شروع کیا کہ دیکھو! تمہارے نبی نے مکہ والوں کو کچھ زیادہ اونٹ اور بکریاں دے دیں اور تم لوگوں کو نہیں دیا۔ یہاں نعوذباللہ! وطنیت رنگ لائی۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر شیطان مردود نے اتہام لگایا۔ یہ خبر اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے سے اپنے رسول کو دے دی تو آپ نے اونٹنی پر بیٹھ کر خطاب فرمایا کہ اے صحابہ! میں نے جو کچھ کیا ہے، جو اونٹ اور بکریاں مکہ کے جوانوں کو دی ہیں یہ اللہ کے حکم سے کیا ہے۔ اللہ کا حکم ہے:وَ الۡمُؤَلَّفَۃِ قُلُوۡبُہُمۡ 6؎ کہ نومسلم کی دلجوئی کرنی چاہیے۔ میں نے اللہ کے حکم کی تعمیل کی ہے لیکن شیطان نے تم لوگوں میں تفریق پیدا کرنے کی اور تم کو
_____________________________________________
6؎ التوبۃ:60