ہے۔ اتنے حاجیوں کو پانی ملتا ہے اور ہر وقت ملتا ہے مگر حج کے زمانے میں بھی ذرا سا بھی کم نہیں ہوتا، لیکن صحابہ نے اللہ کے حکم پر معجزات و تبرکات کی سرزمین چھوڑ دی، خوشی خوشی اللہ کا گھر چھوڑ دیا کیوں کہ صحابہ کو یہ حقیقت معلوم تھی کہ کعبہ سے تین سو ساٹھ بت اللہ کا رسول نکالے گا، خود کعبہ میں یہ صلاحیت نہیں کہ وہ بتوں کو نکال دے کیوں کہ کعبہ گھر ہے، بے جان ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح کعبہ سے تین سو ساٹھ بت نکالے وہ تمہارے دل کے بت بھی نکالیں گے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کے حکم پر صحابہ رضی اللہ عنہم نے ہجرت کی، وطن چھوڑا، اللہ کا گھر چھوڑا، زم زم چھوڑا، نبی کی جائے پیدایش چھوڑی اور نبی کا ساتھ پکڑلیا، کیوں کہ اللہ نے اُن کو سمجھ دی تھی کہ یہاں تم کو گھر تو مل جائے گا مگر اللہ نہیں ملے گا، اللہ میرے نبی سے ملے گا، میرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے گا لہٰذا جہاں میرا نبی جارہا ہے، وہاں چلے جاؤ، پوچھو بھی مت کہ وہاں جائیں کہ نہ جائیں۔
مدینہ منورہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت
اور مدینہ شریف سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کتنی محبت تھی کہ جب آپ جہاد کرکے واپس آتے تھے تو چادر مبارک اُتار کر اونٹنی پر رکھ دیتے تھے تاکہ مدینہ کی مٹی میرے بدن کو لگ جائے۔ اتنی محبت تھی آپ کو مدینہ شریف سے، اور کوئی روایت ایسی نہیں ہے کہ مکہ شریف جب آپ تشریف لائے ہوں تو بھی چادر ہٹادی ہو کہ مکہ شریف کی مٹی مجھ کو لگ جائے لہٰذا اللہ تعالیٰ کے رسول نے جس شہر سے محبت کی تو صحابہ بھی مدینہ شریف سے محبت رکھتے تھے۔ مدینہ میں آکر صحابہ کچھ بیمار ہوگئے تو کہا کہ ہم مدینہ کی آب وہوا کو موافق نہیں آئے۔ یہ نہیں کہا کہ مدینہ کی آب و ہوا ہم کو موافق نہیں آئی کیوں کہ ایسا کہنے میں مدینہ منورہ کی بے ادبی لازم آتی۔ یہ تھا صحابہ کا اَدب۔
اور سمجھ لو کہ اگر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت اصلاح کے باب میں ضروری نہ ہوتی تو صحابہ کو نبی کے ساتھ ہجرت کا حکم نہ ہوتا، لیکن سب کو حکم ہوا، کسی کو مستثنیٰ نہیں کیا گیا، سب کو حکم ہوا کہ مکہ شریف چھوڑ دو، مکہ شریف چھوڑ دو، میرے رسول کا ساتھ دو، رسول کا ساتھ دو، جہاں رسول جائے گا وہاں جاؤ۔