چناں چہ جب مکہ فتح ہوگیا تو صحابہ کو وسوسہ آنا شروع ہوا کہ اب حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اور مکہ شریف کے اصحاب و مہاجرین جب اپنے وطن جائیں گے تو پھر شاید واپس آنا مشکل ہے کیوں کہ وطن کی محبت ایک طبعی بات ہے۔ ممکن ہے کہ طبعی تقاضوں سے مدینہ کی طرف واپسی کا پھر ارادہ نہ ہو۔ جب مکہ فتح ہوگیا اور مکہ مکرمہ پر اسلام کا جھنڈا لگ گیا تو مدینہ کے صحابہ نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے ایک گزارش کی کہ ہمارے دل کو کچھ ایسے وساوس پریشان کررہے ہیں کہ ہمارا نبی صلی اللہ علیہ وسلم جن کے لیے ہم نے جان دی، مال دیا، اولاد کو یتیم کیا، بیویوں کو بیوہ کیا، ہم نے ایک ایک دن میں ستر ستر شہادتیں اُحد کے دامن میں قبول کیں تو ایسا نہ ہو کہ ہمارا پیارا نبی اور نبی کے مکے والے ساتھی کہیں اب مکہ شریف کی محبت کی وجہ سے، وطن کی محبت کی وجہ سے کہیں مدینہ شریف واپس نہ ہوں اور مکہ ہی میں قیام ہوجائے اور مدینہ والوں کو گاہے گاہے اللہ کا رسول ملے اور مکہ والوں کو ہر وقت ملے۔ یہ ہمارے دلوں میں ایک خیال آرہا ہے اور پھر جوش میں ایک جملہ بھی کہا کہ اے اللہ کے رسول(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم)! ہم سے ہماری جانیں لے لیجیے، ہماری اولاد آپ پر قربان ہوجائے، ہمارا مال و دولت سب آپ پر قربان، پوری کائنات ہم آپ پر فدا کرنے کے لیے تیار ہیں، مگر اے خدا کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم)! آپ سے بڑھ کر ہمارے قلب میں اور کوئی عزیز اور عظیم دولت نہیں، اس لیے ہم آپ پر انتہائی بخیل ہیں، ہم سے بڑھ کر آپ کی ذات پر کوئی بخیل بھی نہیں ملے گا، ہم آپ کو مکہ والوں کو نہیں دے سکتے۔ آپ ہمیں اتنے پیارے ہیں کہ آپ پر سخاوت کی ہمیں طاقت نہیں ہے۔ ہم آپ کی ذات کے معاملے میں نہایت کنجوس ہیں۔ لفظ کنجوس کا اس سے بہتر استعمال شاید ہی دنیا میں کہیں ہوا ہو۔ صحابہ کے علاوہ کون اتنے قبیح لفظ کو اتنے حسین معنوں میں استعمال کرسکتا تھا۔ آپ کے آنسو بہہ پڑے اور آپ نے ارشاد فرمایا کہ اے مدینہ والو! ایسا خیال مت کرو، میں نے حکمِ الٰہی سے ہجرت کی ہے، بغیر خدا کے حکم کے ہم دوبارہ مکہ نہیں آسکتے۔ میرا مرنا جینا تمہارے ہی ساتھ ہوگا۔
ہندوستان سے ہجرت کرنے والے بھی سن لیں۔ ہم نے ہجرت اللہ کے لیے کی ہے۔ اگر ہندوستان فتح ہوجائے تو آنا جانا تو رکھیں گے مگر ہم پاکستان کو نہیں چھوڑیں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ!