ذکر و فکر اور اُن کی یاد میں آہ و فغاں اہل اللہ سے سیکھو کیوں کہ گندم اور جَو سے تو خون اور فضلہ بنتا ہے مگر ذکر اللہ سے قلب انوار سے بھر جائے گا اور جب دل اپنے قبض و بسط یعنی پمپنگ سے جسم میں خون سپلائی کرے گا تو رَگ رَگ میں خون کے ساتھ اللہ کا نور بھی دورہ کرے گا۔ پھر آپ کی گفتگو میں اللہ کا نور ہوگا، آپ کے ہنسنے میں اللہ کا نور ہوگا، آپ کے رونے میں اللہ کا نور ہوگا ؎
میں کیا کہوں کہاں ہے محبت کہاں نہیں
رَگ رَگ میں دوڑی پھرتی ہے نَشتر لیے ہوئے
یہ وہ مشک ہے جس سے بندہ اللہ کے یہاں قیمتی ہوجاتا ہے۔ جب کسی ہرن کی ناف میں مشک پیدا ہوجاتا ہے جو لاکھوں روپے کا ہوتا ہے تو اُس کی علامت کیا ہوتی ہے؟ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ جو امیرالاولیاء ہیں، سارے اولیاءاللہ اُن کی ولایت کو تسلیم کرتے ہیں اور اپنی تقاریر میں اللہ کی محبت کے مضامین پر اُن کے اشعار سے تزئین پیش کرتے ہیں۔
کیا کہوں اللہ تعالیٰ کا احسان ہے۔ میری اُردو حق تعالیٰ کے کرم کی ممنون ہے، میں دہلی اور لکھنؤ کا صحبت یافتہ نہیں ہوں، ایک گاؤں میں پیدا ہوا ہوں جس کو دیہاتی حوش کہتے ہیں۔ہم بچپن میں شہری بچوں سے بولتے ہوئے ڈرتے تھے کہ ہماری اردو پر یہ ہنسیں گے لیکن اللہ تعالیٰ نے آج وہ دن دکھایا ہے کہ میرے اشعار سن کر دہلی اور لکھنؤ کے لوگ اپنی زبان چوستے ہیں اور اپنے کانوں میں میرے اشعار کی مٹھاس گھولتے ہیں جس کی مثال میں ایک شعر پیش کرتا ہوں کیوں کہ نمونہ بھی ہونا چاہیے، خالی اپنے منہ میاں مٹھو بننے سے کام نہیں چلتا؎
اس درجہ حلاوت ہے مرے طرزِ بیاں میں
خود میری زباں اپنی زباں چوس رہی ہے
دہلی کے ایک ادیب نے یہ شعر سن کر کہا کہ ہم دہلی والوں سے اس کی قدر پوچھو کہ جب منہ میں مٹھاس زیادہ ہوتی ہے اور شِدّتِ مٹھاس راہِ زبان کو مسدود کردیتی ہے تو آدمی اپنی زبان چوس کر راستہ صاف کرتا ہے، لائن کلیئر کرتا ہے کہ دوسری مٹھائی کھاسکوں۔