Deobandi Books

ماہنامہ الحق جنوری فروری 2014ء

امعہ دا

49 - 89
میں کفایت نہیں ہے ؟ غور کیاجانا چاہئے کہ ہمارے ان طورطر یقوںمیں اظہارِ مسرّت تو ضرور ہے، مگر شُکرکا کوئی پہلو بھی ان میں ہے، جبکہ نعمت کا اصل تقاضہ شکر گذاری ہے؟ جلوس جلسے ،نعرے اور،جھنڈے، ،جھنڈیاں اور قمقمے ان میں سے کوئی چیز بھی تو شکر گذاری کے زُمرے میں نہیں آتی،ان میں تو بس ہماری مسرت اور محبت کی نمائش ہے۔تو ہم شکر گزاروں والا عمل چھوڑ کر ،جس پہ ہمارے خلوص کے بقدر تھوڑا یا بہت ثواب ملنا تھا، اس نمائشی عمل کو اختیار کرہے ہیں جس میںثواب پانے کا کوئی پہلونہیں۔ کہ ہمارے دین میں کہیں نہیں ملتا کہ یہ اعمال باعثِ ثواب ہوں۔ گویا یہ کچھ ویسا ہی معاملہ ہے جیسے معاملہ پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل سے کہا تھا:اَتسْتَبْدِلُونَ الَّذی ھُوَ ادْنیٰ بِالَّذی ھُوَ خَیرُ (ذرا سوچوکہ تم ایک بہتر چیز کی جگہ ایک کمتر چیز کے خواہاں ہو رہے ہو! سورہ بقرہ آیت ٦١)بنی اسرائیل فرعون کی غلامی سے آزادی پاکر صحرائے سیناء کی راہ سوئے فلسطین گرمِ سفر تھے۔ اور اس بیاباں میں کھانے کو منّ و سلویٰ اللہ کی مہربانی سے اُتر رہا تھا۔ مگر کچھ دن بعد وہ اس نعمتِ ربانی کی ناقدری پہ اُترے اور فرمائش کرنے لگے کہ موسیٰ ہمیں تو زمینی پیداوار ساگ سبزی ، گیہوں،مسور اور پیاز مہیّا کراؤ۔یہ بس منّ و سلویٰ ہی منُّ سلویٰ پہ ہم سے گذارا نہ ہوگا۔' ' نہیں،بلکہ ہمارا معاملہ تو اس بھی گیا ٹھہرتا ہے۔ وہاں غذا کا بدل تھی تو غذا ہی،بس بہتر کے مقابلے میں کمتر تھی ۔شکم سیری اور آسودگی اس سے بھی حاصل ہوناتھی۔جبکہ ہم نے جو چیز بدلے میں اختیار کر لی ہے اس سے تو کچھ ملنا ہی نہیں۔بس ایک جھوٹی تسلّی کا سامان ہمارے دل کے لئے ہے کہ ہم محبتِ رسول ا کا کچھ حق ادا کررہے ہیں۔
آنحضرت ا کی وفات سے چند ماہ پیشتر حجة الوداع میں تکمیل ِدین، اتمامِ نعمت اور ابدی رضا و رضوان والی آیت جانفزا ''اَلیَومَ اَکْمَلْتُ لَکُم دِینَکُم۔۔۔(ا ج دین میں نے تمھارے لئے مکمل کردیا ،اپنی نعمت تم پر تمام کردی اوربطور دین اسلام کو تمھارے لئے میں نے پسند فرمالیا۔ المائدہ۔٣)نازل ہوئی۔اللہ کے رسول ا اور آپ کے اصحابِ کرام نے اس سرمایۂ اعزاز و افتخار کو بس دلی شکر گزاری کے ساتھ سر آّنکھوں پہ رکھا اور دل میں بسا لیا، جلوس جلسہ کوئی نام کا بھی اس پر نہیں منعقد ہوا۔ جبکہ دوسروں کی نظر میں یہ ایسی آیت تھی کہ اس کے نزول کے دن کو ایک عید کادن ٹھیرایا جانا تھا ۔ چنانچہ ایک یہودی کے بارے میں آتا ہے کہ حضرت عمر  کے دورِ خلافت میں اس نے آپ سے اس مبارک آیت کے بارے میں سوال کیا اور کہا کہ ایسی آیت ہم پہ نازل ہوئی ہوتی تو ہم تو اسے ایک یومِ عید ٹھیرا تے۔ بالفاظِ دیگر آپ مسلمان لوگ بڑے نا شکرے نکلے۔ ایسی سرفرازی اور ایسے خاموشی سے ہضم کر گئے! مگر حضرت عمر  نے اسے اپنے جواب سے بتایا کہ ہمیں اپنے اوپر قیاس نہ کرو،فرمایا کہ وہ ہماری عید ہی کا دن تھا، جمعہ تھا، یومِ عرفہ تھااور یہ اللہ کی مقرر کردہ ہماری دونوں عیدیں اپنے اپنے وقت پر آتی ہی رہتی ہیں۔ کوئی جدا عید اس نعمتِ ربانی کے حوالہ سے ہم پنی طرف سے ایجادکریں، یہ ہمارا شیوہ نہیں ،کہ   خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی

Flag Counter