ابو المعزّعرفان الحق حقانی *
’’سزائے موت ‘‘کے قانون کا تعطل
اورحکومت کے غیرت ایمانی کا امتحان
(یورپین ممالک کی اسلام اور انسان دشمنی کا شاخسانہ)
؎ لیکن مجھے ڈر ہے کہ یہ آوازہ تجدید مشرق میں ہے تقلید فرنگی کا بہانہ
شریعت میں بعض سنگین جرایٔم کے ارتکاب پر سخت سزاوں کا تعین ہوا ہے جن کو حدو د کہتے ہیں حدود،اللہ کی مقرر کردہ ایسی سزائیں ہیں جن کے معافی کا حق حضورﷺ کو بھی نہیں دیا گیاحدود پانچ ہیں (۱)حد قتل نفس (قصاص) (۲)حد زنا (۳)حد قذف (بہتان)(۴)حد شرب خمر(شراب نوشی )(۵)حد سرقہ (چوری)
بنی مخزوم قبیلہ کی ایک عورت فاطمہ پر حد سرقہ لازم ہونے پر حضور ﷺ سے چوٹ دلانے کیلئے اسکی قوم نے حضر ت اسامہ بن زیدؓ کو سفارشی بنا کر بھیجا تو حضور اقدس ﷺ نے غصہ ہوکر اس کو کیا خوب جواب دیا اللہ کی قسم اگر فاطمہ بنت محمد بھی یہ عمل کرتی تو اس کی سزا بھی یہی (ہاتھ کٹنا) ہوتی (کما فی حدیث عائشہ ؓ فی البخاری والمسلم )یعنی آپ ﷺ حد کے سلسلے میں کسی قسم کے فرق اور رتبے کے لحاظ رکھنے کا روادار نہ تھے ۔ مغربی اقوام اور اسلام دشمن عناصر نے ہمیشہ حدود پر شور وواویلا مچانے کا وطیرہ اپنایٔے رکھا ہے یہ سزائیں شریعت کے دلائل وبراھین کے ساتھ ساتھ عقلی اور فطرتی تقاضوں سے بھی ھم آہنگ ہیں ان ہی کے اجرا سے ایک معاشرہ امن و امان کا گہوارہ بنتا ہے اسی کی بدولت ایک شخص کی جان و مال اور عزت وابرو محفوظ ہوتی ہے مثالی اور کا میاب اسلامی حکومتوں کا راز ان حدود کی تنفیذ میں مضمر ہے جو مغرب کو ہضم بنی ہوتی ۔
حد کا نفاذ سزائِ مجرم بھی اور دیگر لوگوں کیلئے نشان عبرت بھی :
حد (سزا) کے نفاذ سے ایک طرف مجرم کو اس کے بد عملی کی سزا مل جاتی ہے تو دوسری طرف پورے
معاشرے کے لئے وہ درس عبرت بن جاتا ہے حدود ہی کی برکت سے معاشرے میں جرائم کی بیخ کنی ہوتی ہے
__________________________
*مدرس جامعہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک