Deobandi Books

ماہنامہ الحق نومبر 2013ء

امعہ دا

46 - 65
حدیث شریف میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کسی حد کے نفاذکی برکات چالیس سال کی بارش سے بھی بڑ ھ کر ہے ۔ـ
سزائے موت کے قانون کے خاتمہ کی تحریک :
	یورپ اور مغرب کا لادین طبقہ مسلم معاشرے میں بالخصوص اور ویسے بالعموم جرائم کی قلع وقمع برداشت نہیں کرتے اسی بنا پر وہ اسلامی نظام کے ان بنیادی دفعات (حدود)پر ضرب کاری لگاکر اسلامی دنیا کے سکھ و چین کے درپے نظر آتے ہیں دشمن تو دشمن ہمارے اپنے حکمران (مغرب پروردہ )اور جدت پسندی کا ڈسا ہوا اشرافیہ طبقہ بھی ان کا ہمنواء و ہمقدم نظر آتا ہے ،گزشتہ ایک عرصے سے دنیا میں سزائے موت کے قانون کو ختم کرنے کی تحریک چل رہی ہے درحقیقت اس کے پس پردہ بھی اسلام اور حدود اللہ کی دشمنی کار فرما ہے قصاص کا قانون قرآن و سنت کے مسلمہ دلائل سے ثابت ہے  یا یہا الذِین آمنوا کتِب علیکم القِصاص(الایۃ) اور وکتبنا علیھم فیھا ان النفس  بالنفس (الایۃ) وغیرہما ایات اسی پر دلالت کرتیں ہیں قصاص کو قرآن پاک میں زندگی قرار دیا گیا ولکم فی القصاص حیاۃ یعنی قصاص ہی کے طفیل زندگی محفوظ ہو کر پھلتی پھولتی ہے قاتل کو سزا دینے کا قانون معطل یا منسوخ کرنا معاشرے میں لا قانونیت اور بد امنی کا دروازہ کھولنے کے مترادف ہے دنیا بھر میں جہاں جہاں یہ قانون رائج ہے وہاں اکا دکا واقعات کو چھوڑ کر امن و امان کا دور دورہ نظر آئے گا ،افغانستان کی مثال لے لیجئے جہاں لوٹ مار خون وکشتہ کا بازار گرم تھا طالبان دور حکومت میں چند حدود قائم کئی گئیں تو یکدم معاشرہ محفوظ ہوکرمثالی بن گیا‘سعودی عرب کی ترقی بھی اسی میں مضمر ہے۔اسلامی دنیا ہی میں نہیں بلکہ دیگر غیر مسلم ممالک میں بھی یہ قانون صدیو ں سے نافذ العمل چلا آ رہا ہے جملہ ادیان میں خون ناحق کی سزا موت قرار دی گئی اور فطرت کا تقاضا بھی یہ ہے کہ الجزاء من جنس العمل  جو کچھ کرے گا وہی بھگتے گااگر بدن کے کسی حصے میں مرض اس حد تک سرائت کر جائے کہ اس جگہ کو بالکل فاسد کر دے تو پھر ڈاکٹر بتقاضائے شفقت و رحمت مریض کے باقی جسم کو محفوظ بنانے کیلئے اسے کاٹ کر رکھ دیتا ہے یہی مثال حد کی بھی ہے حد جاری کرنا تو صاحب حق کے حق کا تحفظ ہے اس میں کسی کی حق تلفی نہیں ہے۔ انسانی حقوق کا ڈھنڈورا پیٹنے والے قاتل کے ساتھ انسانی حقوق کے دلفریب نعرہ کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہیںلیکن کیا وہ دوسری طرف مظلوم (مقتول) کے حق کو بالائے طاق رکھ کر ختم نہیں کرتے۔ اس عقل و فکر پر تو رونا ہی چاہیے اور کیا کہہ سکتے ہی۔ 
       قاتل کو سزا سے بچانے کا واحد راستہ شریعت نے یہ بیان کیا ہے کہ مقتول کے ورثاء محض اللہ کی رضا کے خاطر اسے معاف کر دیں یا قصاص کے بجائے خون بہا (دیت) لینے پر راضی ہو جائے ۔انسانی قانون میں نقص و زیادتی کا احتمال ہوتا ہے لیکن خالق کا قانون کمال و جامعیت پر مبنی ہوتا ہے اس پر انگلی اٹھانے کی گنجائش قطعاً نہیں ہوتی۔

Flag Counter