جناب ظفردارک قاسمی *
رسول کریم ﷺکے دعوتی مکاتیب کی معنویت عہد حاضر میں
محمد ا کی حیات طیبہ تمام عالم انسانیت کے لیے نمونۂ عمل ہے اللہ تعالیٰ انسانیت کی ہدایت اور تعمیر و ترقی کے لیے وقت اور حالات کی مناسبت سے ہردور میں اپنے منتخب وبرگزیدہ بندوں کو مختلف اقوام میں مبعوث کرتا رہا ہے جو انسانی تہذیب و تمدن کے سچے علمبردار رہے تاریخ شاہد ہے کہ جب نبوت کا بارگراں پڑنے سے آپ ا کو خوف زدگی کی کیفیت محسوس ہوئی اورپورا واقعہ حضرت خدیجہ ؓ کو سنا یا اور کہا مجھے اپنی جان کا خطرہ ہے اس وقت حضرت خدیجہ ؓنے آپ کو تسلی دیتے ہوئے جو کچھ کہا وہ احادیث کی کتابوں میں موجود ہے بخاری شریف میںہے ’’ہر گزنہیں۔ اللہ کی قسم اللہ آپ ا کو کبھی رسوا نہیں کریگا، بے شک آپ رشتہ داروںسے نیک سلوک کرتے ہیں بے سہارا لوگوں کا بار اٹھاتے ہیں۔ ناداروں کو کماکر دیتے۔ مہمان نوازی کرتے ہیں،نیک کاموں میںمدد کرتے ہی۔‘‘ بظاہر یہ پانچ صفات ہیں مگر اس میں خدمت خلق و فلاح عام کی قابل تقلید مثال موجود ہے جو کہ زمان و مکان سے بالاتر ہر انسان کے لیے نمونہ ہے۔ اور اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ آپ ا کی سرشت میں بھی انسان دوستی رکھ دی گئی تھی۔ وجہ ہے کہ آپ کی ساری زندگی امن و امان اور انسانیت کو بلند مقام بخشنے کی سچی داستان ہے۔ آپ نے بعثت سے قبل بھی امن ،قومی یکجہتی اور انسان دوستی کی بحالی کی بھر پور کوشش کی کیونکہ اس وقت دنیا میںنراج، بدامنی، خلفشار کا دور دورہ تھا۔ برائیوں کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا تھاماخذ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ حرب فجار خونریزی میں سب سے زیادہ مشہور ہوئی۔ یہ جنگ قبیلۂ قریش اور قبیس کے درمیان ہوئی تھی، اس طرح کی متواتر لڑائیوں سے سینکڑوں گھر برباد ہوگئے اور قتل و غارت گری ایک عادت بن گئی یہ دیکھ کر بعض طبقوں میںامن و سلامتی کی تحریک پیدا ہوئی اور خاندان کی سرکردہ شخصیات اور رسول ا کے چچا زبیر بن عبدالمطلب کی تجویز پر ۲۰؍ذی القعدہ عام الفیل میں ایک معاہدہ ہوا جس میںآپ ا بھی شریک تھے۔ قیام امن کے اس معاہدہ کو تاریخ میں حلف الفضول کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اس معاہدہ کے وقت آپ ا کی عمر بیس سال تھی یہ معاہدہ آپ کے نزدیک اتنا اہم تھا کہ آپ عہد نبوت میں فرمایاکرتے تھے ’’عبداللہ بن جدعان کے گھر معاہدے کے وقت میں موجود تھا۔ اس کے بدلے میں سرخ اونٹ بھی دیے جاتے تو لینا پسند نہ کرتا۔ اسلام میں اس
_____________________________
* ریسرچ اسکالر ، شعبہ دینیات ،اے ایم یو ،علی گڑھ