تدبیر اختیار کی گئی۔ ہندوستان کے مسلمان فتح مندوں نے بعض کام دوسرے مذہب کی آزادی کے برخلاف کرنے کے بعد اس … اور آباد ملک کے مندروں کو چھوڑ دیا ہے۔‘‘۔
اپنے لوگوں کی شہادتیں توقبول کرتے ہی ہیں لیکن اگر یہی شہادت کوئی دوسرے مذہب کا ماننے والا دے تو وہ یقینا لائق داد وتحسین ہوا کرتی ہے۔ اس مقام کا اختتام ایک مشہور ومعروف یورپی مؤرخ ڈاکٹر گستاؤلی بان کے خیالات پیش کردئیے جائیں جو ایک عیسائی دانشور ہے اس نے جو کچھ اسلام کے سلسلے میں لکھا وہ عقیدت محبت کی بنیاد پر نہیں لکھتا بلکہ تحقیق وتنقید کو بنیاد بناتے ہوئے تمدن عرب میں لکھا ہے:
’’عمال اسلام اپنے عہد پر اس درجہ مستحکم رہے اور انھوں نے اس رعایا کے ساتھ جو ہر روز شہنشاہ قسطنطنیہ کے عاملوں کے ہاتھوں میں انواع واقسام کے مظالم سہا کرتی تھیں، اس طرح کا عمدہ برتاؤ کیا کہ سارے ملک نے بہ کشادہ پیشانی دینِ اسلام اور عربی زبان قبول کرلیا، میں بار بار کہتاہوں کہ یہ وہ نتیجہ ہے جو ہرگز بزور شمشیر نہیں حاصل ہوسکتا‘‘۔
اسلام جو سراپا امن وسلامتی کا دین ہے، جو ملک ومعاشرہ کو سکون واطمینان عطا کرتا ہے وہ سب وحی الٰہی کا فیض ہے۔ کیوں کہ یہ قانون کسی انسانی جماعت کا تخلیق کردہ نہیں ہے اور نہ ہی اس کی خود ساختہ کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ بلکہ رب العالمین کے رحم وکرم کا صدقہ اور اس کی عنایات ہیں یہ دین سارے عالم کے لیے رحمت ہی رحمت ہی۔ کسی ملک وقوم یا فرد وجماعت کے لیے زحمت نہیں ہے، اگر کوئی اس کے قانون کو اسلام کی تعلیمات کو اپنے خلاف سمجھے تو اس میں اس کی کج فہمی اور خام عقلی کاتصور ہے۔
حواشی:
۱؎ المائدہ: ۲؎ الکہف: ۳؎ النحل: ۱۲ ۴؎ حم سجدہ: ۳۴
۵؎ یونس: ۹۹ ۶؎ یونس: ۱۰۰ ۷؎ القصص: ۵۶ ۸؎ البقرہ:
۹؎ علامہ لارڈ ہیڈلے فاروق، تاجدارِ نبوت، ’’ایمان‘‘، پٹی ضلع لاہور، پاکستان
۱۰؎ تجلیات سیرت ، طارق رحمن فضلی، ص: ۱۵۰۔۱۵۱، ناشر وطابع، فضلی سینٹر، اردو بازار کراچی، اشاعت سوم ۲۰۰۲ء
۱۱؎ الجہاد فی الاسلام ، سید ابوالاعلیٰ، مودودی، مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی، ۱۹۸۸ء ص: ۱۰
۱۲؎ پیغمبر اسلام محمدا ، گاندھی جی، ص: ۳۱، ینگ انڈیا، ص:۳۱، ۱۹۹۲ء
۱۳؎ تجلیات سیرت، شان محمد،ادارہ ادب وثقافت لاہور، ۱۹۸۸ئ، ص: ۱۴۶
۱۴؎ Lichtenstadter Isle Islam and the Modern Age, p.94-95
۱۵؎ اسلامی احکام پر اعتراضات اور ان کی حقیقت، ثناء اللہ، دعوت سہ روزہ، اسلام اور غلط فہمیاں، ۲۸؍جولائی ۲۰۰۲ء
۱۶؎ الجہاد فی الاسلام، ص: ۱۷۵
۱۷؎ الخطبات الاحمدیہ، فی العرب والسیرۃ النبویہ، ص: ۲۳۰، ۲۳۱، سرسید احمد خاں، نفیس اکیڈمی، کراچی
۱۸؎ ڈاکٹر گستاؤلی بان، تمدن عرب، ص: ۱۳۲