معاہدہ کے لیے بلایا جائے تو میں ضرور شریک ہوں گا‘‘ یہ بھی فرمایا کہ ’’جاہلیت میں جو معاہدہ تھا، اسلام نے اسی کے استحکام ہی کو بڑھایا ہے ‘‘
اس معاہدے میں بنو ہاشم، بنو مطلب، بنو اسد اور بنو تمیم شامل تھے۔ معاہدہ کی اہم نکات یہ ہیں۔ (۱)ہم ملک سے بدامنی دور کریں گے (۲)ہم مسافروں کی حفاظت کیاکریں گے (۳)ہم غریبوں کی امداد کیاکریں گے۔ (۵)ہم مکہ یا غیر مکہ کے مظلوموں کی حمایت کریں گے۔ اس معاہدہ سے اندزہ ہوتا ہے کہ ا ٓپ قیام امن اور خدمت انسانیت کو کس درجہ اہمیت دیتے تھے سچی بات یہ ہے کہ روئے زمین پر کوئی ایسی قوم نظر نہیں آتی تھی جو انسانیت کو سنبھالا دے۔ ظلم و عداوت، قتل و قتال اور بدامنی اورحکم عدولی جیسے جرائم آخری حدوں کو پار کرچکے تھے۔ حق و صداقت نام کی کوئی چیز نہیں تھی ۔ حضرت سلمان فارسی جیسے ایمان و یقین کے متلاشی کو ایران سے لیکر شام کی آخری حدوں تک صرف چار اشخاص ایسے ملے تھے جو انبیا ء کے بتائے ہوئے راستے پر تھے۔ اس عالم گیر تاریکی، پستی کا نقشہ قرآن مجید اس طرح کھینچتا ہے۔ ’’خشکی اور تری میں فساد برپا ہوگیا ہے لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے‘‘ انسانیت کی پستی انتشار اور خدافراموشی کی ایک مؤ ثر تصویر حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے استفسار پر مہاجرین کی طرف سے حضرت جعفر طیار کی جانب سے کی جانے والی تقریر میں نظر آتی ہے۔’’اے بادشاہ ہم جاہلیت میں پڑی ہوئی قوم تھے۔ بتوں کو پوجتے تھے۔ مردار کھاتے تھے۔ فحش کام کرتے تھے۔ قطع رحمی کرتے تھے۔ پڑوسیوں کے ساتھ براسلوک کرتے تھے۔ عہد و پیمان کا پاس کرنے میں بُرا رویہ رکھتے تھے اور ہم میں طاقتور کمزوروں کو کھاجاتا تھا‘‘ انسانیت کی اس زبوں حالی میں اللہ رب العزت کی طرف رسول رحمت کا ورود سعودہوا بعثث کے بعد کفار مکہ نے آپ کو اور آپ کے جانثار صحابہؓ کو سخت ترین اذیتیں پہنچائیں۔ اسی اثناء حضور ﷺ نے مدینہ کو ہجرت فرمائی چنانچہ سن ۶ ہجری میں صلح حدیبیہ ہوئی جو بقائے باہم۔ امن و امان پر مبنی تھی۔ اسکے بعد آپ ا نے مختلف غیر مسلم امراء کو دعوتی خطوط روانہ فرمائے۔ جن کا مقصد تمام انسانیت کو امن و سلامتی کی آزادی، اخوت، مساوات اور حق شناسی سے آشنا کرانا تھا حضور ﷺنے ان دعوتی خطوط کے ذریعہ لوگوں کو سچی ہمدردی سکھائی اور فساد زدہ دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے کی کامیاب ترین سعی کی اس دنیا کو چین و سکون کی اس وقت بھی ضرورت تھی چنانچہ آج بھی اس دنیا کو عدل و انصاف امن وشانتی کی شدید ضرورت ہے۔ جو دعوتی مکتوب آپ ا نے بادشادہوں کو روانہ فرمائے تھے ان کی اہمیت افادیت کو بڑھانے کے لیے چند پہلو ابھر کر سامنے آتے ہیں جن کو سطور ذیل میں بیان کیا جائیگا۔ دراصل ان دعوتی خطوط کے ذریعہ نوع انسانیت کو خیر خواہی شانتی اور جذبہ خیر سگالی کادرس دینا مقصد تھا۔
ان خطوط کو دو بنیادی قسموں میں تقسیم کیاجاسکتا ہے۔