Deobandi Books

ماہنامہ الحق نومبر 2013ء

امعہ دا

22 - 65
ترجمہ:حضرت ابو ذر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہا نے فرمایا جو شخص کسی کو کافر کہہ کر پکارے یا کسی کو خدا کا دشمن کہے اور درحقیقت وہ ایسا نہ ہو تو اس کا کہا ہوا خود ( اسے کہنے والے پر ) لوٹ جاتا ہے یعنی کہنے والا خود کافر یا خدا کا دشمن بن جاتا ہے دوسرے جگہ ارشاد نبوی ا ہے: ’’ وعن ابن عمر قال قال رسول اللہ ا ایما رجل قال لاخیہ کافر فقد ہاء بھا احد ھما ‘‘ حضرت ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ آنحضرت ا نے فرمایا ’’ جس شخص نے اپنے مسلمان بھائی کو کافر کہا تو ان دونوں میں سے ایک پر کفر لوٹ گیا یا تو کہنے والا خود کافر ہو گیا یا وہ شخص کہ جس کو اس نے کافر کہا ہے (بخاری و مسلم)
محترم دوستو!   احادیث ہمیں کیا کیا زجرو تو بیخ کا بیان فرما کر امت کو کسی کوکافر کہنے میں احتیاط کی ضرورت پر زوردیتے رہیں آج کل اسکی پروہ ہی نہیں جس کے دل میں جس سے نفر ت یا معمولی اظہار خفگی پیدا ہو فوراً اس اندوھناک یعنی لفظ کفر کا اطلاق بغیر تحقیق کے چسپاں کر دیتے ہیں یہ بھی نہیں سوچتے کہ اس لفظ کے استعمال سے جسکے لئے ذکر کیا وہ کہا ں پہونچا اور فتو یٰ لگانے والے کا کیا انجام ہو گا۔
عیب لگانا فسق ہے:
محترم ساتھیو!  اگر ہم اس آیت کریمہ کا گہرائی سے مطالعہ کریں تو معلوم ہو گا کہ دوسرے کو بُرے نام سے پکارنا خود کو ایسی نام سے موسوم کرنا ہے کیونکہ آیت طیبہ میں ’’ولا تلمزو انفسکم ‘‘ مخاطب کا صیغہ استعمال ہوا ہے یعنی اپنے آپ کو برا مت کہو ۔ مفسرین حضرات اس کے یہ معنی بیان کرتے ہیں کہ مسلمان چونکہ دوسرے مسلمان کا بھائی ہے بلکہ تمام مسلمان باہمی طور پر کجسدٍ واحد ہیں اسی طرح دوسرے آیت مبارکہ میں مذکور ہے ’’ ولا تقتلوا انفسکم ‘‘ دوسرا فرمان الہٰی ہے ’’ سَلِمو اعلی انفسکم ‘‘ یعنی ایک دوسرے کو قتل مت کرنا کیونکہ مسلمان ایک جان کی مانند ہیں تو دوسرے مسلمان کا قتل گویا ایسا ہے جیسے اپنے آپ کو قتل کرنا ہے اور دوسرے مسلمان کو سلام کہنا اپنے آپ کو سلام کہنا ہے مطلب ظاہر ہے کہ ایک عقلمند کا دوسرے پر عیب لگانا اپنے آپ پر عیب لگانا ہے اسی کو مفسرین نے فسق سے تعبیر فرمایا ہے ارشاد باری ہے ۔’’ بئس الاسم الفسوق بعد الایمان  ‘‘
	آپ ا جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو اہل مدینہ کے ہر شخص کے دو یا تین نام ہو ا کرتے تھے جب کوئی شخص ان ناموں میں کسی نام پر ناراض ہو جاتا تو لوگ کہتے یا رسول ا یہ شخص اس نام سے ناراض ہو جاتا ہے تو اس پر یہ مذکورہ آیت مبارک نازل ہوئی کہ ایمان لانے کے بعد گناہ کا نام رکھنا بُرا ہے ومن لم یتب فاؤ لٰئک ھم الظلمون  اور جو ان حرکتوں سے باز نہیں آئیں گے تو بلا شبہ ظلم کرنے والے ہیں ۔ 
لقب بطورِ صفت مستحسن ہے:
محترم سامعین !   مذکورہ آیت شریف اور احا دیث مبارکہ سے بات واضح ہو گئی کہ کسی مسلمان کو ایسے لقب یا نام سے نہ پکارا جائے جس کو سن کر وہ مسلمان ناراض ہو جائے یا کسی مسلمان کی دل آزاری ہو جائے ۔ ہاں اگر لقب یا نام ایسا 
Flag Counter