ذرا اس میں اُردو کی بلاغت بھی دیکھئے۔ اگرچہ میں دیہات کا رہنے والا ہوں لیکن یہ میرے بزرگوں کی کرامت ہے ؎
کبھی جو سبزہ آغاز جواں تھا
تو سالارِ گروہ دلبراں تھا
بڑھاپے میں اسے دیکھا گیا جب
کسی کا جیسے وہ نانا میاں تھا
اور ایک تازہ شعر سنئے، اسی ہفتہ عشرہ کا ہے۔ تازہ جلیبی گرم گرم اچھی معلوم ہوتی ہے، اسی طرح تازہ شعر بھی، لہٰذا میرا تازہ شعر سنئے۔ یہ اُن کا علاج ہے جن کو اَمردوں کی طرف میلان ہوتا ہے، اور میلان ہونا کوئی گناہ نہیں ہے، تقاضائے گناہ گناہ نہیں ہے، تقاضے پر عمل کرنے سے گناہ ہوتا ہے، جیسے روزہ میں سو دفعہ دل چاہے کہ ٹھنڈا پانی پی لوں لیکن جو شخص مجاہدہ کرتا ہے اور پانی نہیں پیتا تو اس کا اجر زیادہ ہے، لہٰذا اگر تقاضائے گناہ کو برداشت کرتا ہے، گناہ نہیں کرتا تو یہ شخص بہت بڑا ولی اللہ ہوگا ان شاء اللہ تعالیٰ، کیونکہ اس کا مجاہدہ شدید ہے تو اس کا مشاہدہ بھی شدید ہوگا، جتنا زیادہ مجاہدہ ہوگا اتنا ہی زیادہ مشاہدہ ہوگا۔ اب سنئے میرا شعر۔ بزرگوں کے ارشادات کو میں نے اُردو میں نظم کردیا ہے کہ ایک دن آئے گا جب بالکل جغرافیہ بدل جائے گا، ہر دس سال پر چہرے کا جغرافیہ بدل جاتا ہے، بیس سال میں کچھ ہے، تیس سال میں کچھ اور ہوگیا، پھر چالیس سال میں کچھ اور بدل گیا، پچاس میں حسن کا نقشہ ایسا بدلتا ہے کہ بڑے بڑے عاشقین وہاں سے بھاگتے ہیں؎
اِدھر جغرافیہ بدلا اُدھر تاریخ بھی بدلی
نہ ان کی ہسٹری باقی نہ میری مسٹری باقی
اب میرا وہ تازہ شعر سنئے جو میں نے چند دن پہلے کہا ہے، جب اَمرد کے بڑی بڑی مونچھ نکل آتی ہے اور داڑھی ناف تک آجاتی ہے، جو گال فارغ البال تھے وہ گال اب نظر بھی نہیں آرہے کہ کہاں گئے۔ اس پر میرا شعر ہے؎